موجودہ عہدکوٹیکنالوجی کادورقراردیاجارہاہے۔دنیااس بات پرخوش ہے کہ ٹیکنالوجی نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے مگراس ٹیکنالوجی کامثبت کی بجائے منفی استعمال زیادہ ہورہاہے جس نے موجودہ دورمیں انسانوں کی زندگیوں کوتلخ اوردوبھرکردیاہے۔ان میں سے ایک قسم ڈیپ فیک بھی ہے جوکسی بھی شخص کی زندگی برباد کرسکتی ہے۔آج کل ڈیپ فیک کا نام بہت مشہور ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی ہے کیااورکس طرح کام کرتی ہے،اس کے بارے میں شایدکم لوگ جانتے ہیں۔ڈیپ فیک کالفظ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ڈیپ لرنگ پروگرام سے لیا گیاہے جس سے مرادیہی لی جاسکتی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی جوپوری طرح سے نقلی ہولیکن اتنی ڈیپ کہ پہچانی نہ جاسکے۔
یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی کاچہرہ لیکرکسی کے جسم پر لگادیاجاتاہے پھراس کی چہرے کے تاثرات کومشین لرننگ کے ذریعے کنٹرول کرکے تبدیل بھی کیاجاسکتاہے۔اس ٹیکنالوجی کااستعمال کرکے آج بہت سی فیک اورفحش ویڈیوزبھی بنائی جارہی ہے ۔سوشل میڈیامیں ایسی بہت سے ویڈیوز اپلوڈکی جارہی ہے جس میں چہرہ اورآوازکسی اورکی ہوتی ہے اورجسم کسی اورکا۔جن کاپتا لگایاجاسکتاہے لیکن ایک عام آدمی کیلئے یہ بالکل ناممکن بات ہے ۔ اس میں جوچیزیاٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے اسے جنریٹواڈور سیریل نیٹ ورک کہاجاتاہے،اس کا استعمال کرکے آپ کسی انسان کے چہرے کے تاثرات تک کی نقل تیارکرسکتے ہیں جس پراصل کاگمان ہوگا۔ڈیپ فیک تصاویریاویڈیوزایسے ہوتے ہیں جن میں نظرآنے لوگ وہ کہہ یاکررہے ہوتے ہیں جو انہوں نے کبھی کیااورکہاہی نہیں ہوتا۔
اس ٹیکنالوجی کی مددسے جعلی تصاویریاویڈیوتیارکی جاتی ہے۔پہلے جعلی تصاویرتیارکرنے کیلئے فوٹوشاپ سے کام لیاجاتاتھاجن کی جعل سازی کوپکڑناکافی آسان ہوتاتھا۔اس کے برعکس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیارکی گئی تصاویراورویڈیوزکسی انسان کے ہاتھ کی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کمپیوٹرپر تیارکی جاتی ہیں۔ڈیپ فیک تیارکرنے والے سافٹ ویئرکوجتنی زیادہ معلومات دی جائیں گی،مطلوبہ تصویراتنی ہی زیادہ حقیقی لگے گی۔کئی کمپنیاں اس ٹیکنالوجی کاتجارتی پیمانے پربھی استعمال کررہی ہیں،مثلاًخبریں پڑھنے میں،اپنے ملازمین کومختلف زبانوں میں ٹریننگزدلوانے کیلئے،اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی میں فیک یعنی جعلی کا لفظ استعمال نہیں کیاجاناچاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کابہت غلط استعمال بھی ہورہاہے۔جیسے اب مشہور شخصیات کوڈیپ فیک کے ذریعے پورن فلموں میں اداکاربنادیاجاتاہے یاپھرسیاستدانوں سے اشتعال انگیزاورگمراہ کن بیانات پھیلا دیے جاتے ہیں ۔جتنی دیرمیں کوئی ان کے جعلی ہونے کا پتالگاتاہے،تب تک خاصانقصان ہوچکاہوتاہے۔تشویشناک امریہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا ابھی تک کوئی توڑ تلاش نہیں کیاجاسکا۔
فیس بک اورمائیکروسافٹ مل کرکوئی ایساسسٹم بنانے کی کوشش کررہے ہیں جواس چیزکاپتالگاسکے کہ ویڈیواصلی ہے یانقلی تاکہ اپلوڈنگ سے پہلے خارج یا بلاک کردیاجائے۔ کہنے کا مقصدیہ ہے کہ وطن عزیزمیں ان دنوں سیاسی صورتحال کافی خراب ہے۔ملک دشمن عناصرفیک اورفحش نیوزکے ذریعے سے سیاسی لیڈروں کوبلیک میل کرکے ان کی کردارکشی کررہے ہیں۔ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمارافرض ہے کہ ایسی فیک اورفحش ویڈیوزکوآگے شئیر کرنے کی بجائے ڈیلیٹ کردیاجائے۔ہمیں اس بات کاعلم نہیں کہ ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس گناہ کبیرہ میں شامل ہورہے ہیں۔
اب بات کریں اس کے استعمال کی توکوئی عام بندہ یہ کام بالکل بھی نہیں کرسکتابلکہ ویڈیومیں موجودانسان کونیاچہرہ ایک ایساانسان ہی دے سکتاہے جو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے استعمال کے بارے میں جانتاہو۔کچھ عرصہ پہلے”فیس ایپ”نامی ایک ایپ اس چیزکاایک سادہ سانمونہ تھی لیکن یہ ٹیکنالوجی اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مشینزسمجھ چکی ہیں کہ انسان کیسے برتاؤکرتاہے۔بہرحال ہر ٹیکنالوجی کی طرف اس کے منفی استعمال کے طریقے بھی موجود ہیں۔اس کے ذریعے مشہورشخصیات کوفحش فلموں کے اداکاربنا کرپیش کردیاجاتا ہے یاپھرسیاست دانوں کی ویڈیوزبنا کراشتعال انگیزاورگمراہ کن بیانات پھیلادیئے جاتے ہیں اورجب تک کوئی ان کے جعلی ہونے کاپتالگاتاہے،تب تک بہت کچھ نقصان ہوچکا ہوتاہے۔ایسی جعلی ویڈیوز،آڈیوزیاتصاویربنانے کیلئے مخصوص سافٹ وئیرزاستعمال ہوتے ہیں جوڈیپ لرننگ اورمصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں۔ڈیپ فیک ویڈیوبنانے کیلئے اس سافٹ ویئرکوٹارگٹ کے متعلق بہت سے معلومات فراہم کرنی ہوتی ہیں،مثلاًوہ دیکھنے میں کیساہے،بولتاکیسے ہے،بولتے وقت اس کی حرکات وسکنات کیسی ہوتی ہیں،وہ کس طرح کی صورت ِحال میں کیاردِعمل دیتاہے،وغیرہ وغیرہ۔
ٹارگٹ کے متعلق تمام معلومات مہیاکرنے کے بعدیہ سافٹ ویئرآپ کی مرضی کی ویڈیو،آڈیویاتصویربنانے کاکام شروع کردیتاہے اور نتیجے کے طورپر جو مواد بنتاہے وہ حقیقت کے قریب تر ہوتاہے،جس کے جعلی ہونے کافوری طورپرپتاچلانابہت مشکل ہوتاہے۔ماہرین اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیاکو متنبہ کرتے آرہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ ہم اس مقام پرپہنچ گئے ہیں جہاں ڈیپ فیک اورحقیقی ویڈیوز میں فرق کرنامشکل ترہوتاجارہاہے اوروہ وقت دور نہیں کہ یہ ان میں موجودمعمولی فرق بھی ختم ہوجائے گا۔یقین کریں کہ وہ پرفتن دورایساہوگاکہ ایک دوسرے پراعتباراوراعتمادختم ہوجائے گااور سوسائٹی میں ایسی انارکی پیداہوجائے گی جس سے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیداکرکے رہاسہا خاندانی نظام بھی تباہ وبربادکرنے کی مشقیں شروع ہوجائیں گی اورپتہ نہیں کہ یہ تباہی کہاں تک انسانی معاشرے کوبربادکرے گی۔
اب ایک نئی تحقیق کے مطابق اس ٹیکنالوجی کوخواتین کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔نیدرلینڈسے تعلق رکھنے والی ڈیپ ٹریس نامی سائبرسیکیورٹی کمپنی کی اس تحقیق میں بتایاگیاکہ ایک سال کے دوران آن لائن ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیارہونے والی ویڈیوزکا 96 فیصدحصہ پورن ویڈیوزپرمشتمل تھااوران سب میں خواتین کے چہروں کوبدلاگیاجبکہ ان کو 15 کروڑسے زائدبار دیکھا گیا۔ہوسٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسرڈینیئل سائٹرون نے محققین کوبتایاکہ ڈیپ فیک کو خواتین کے خلاف ہتھیارکے طورپراستعمال کیا جارہاہے۔اس ٹیکنالوجی کوخواتین کے خلاف ہتھیارکے طورپراستعمال کرتے ہوئے ان کے چہروں کوپورن ویڈیوزمیں لگایاجارہا ہے ،ان کاکہناہے کہ”ڈیپ فیک ٹیکنالوجی” دہشت زدہ کرنے والا،شرمناک،گھناؤنااورزبان بندی کابدترین فعل ہے جس سے خواتین کیلئے آن لائن رہنا،ملازمت کاحصول یااسے برقراررکھنااورخودکومحفوظ رکھنامشکل ترین بنایاجارہاہے۔دسمبر2018سے اب تک ڈیپ فیک ٹیکنالوجی والی ساڑھے 16ہزارویڈیوزآن لائن ہیں جوکہ اس گزشتہ سال کے مقابلے میں سوفیصدزیادہ ہیں اوران میں سے 96فیصد پورن ویڈیوزہیں۔ تحقیق کے مطابق گزشتہ سال فروری میں ایسی متعدد سائٹس کام کرنے لگی ہیں جوڈیپ فیک پورن کوجگہ دے رہی ہیں اوران میں سیٹ اپ 4سائٹس میں 20کروڑ40لاکھ سے زائد ویوزریکارڈہوئے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کوآگے بڑھنے میں”گٹ حب”میں چہرے بدلنے والے مقبول الگورتھمزکی مقبولیت کااہم کردارہے۔2برس قبل جون میں ایک ڈیپ نیوڈ نامی موبائل ایپ اورآرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی(اے آئی ٹیکنالوجی)پرمبنی اپلیکشن سامنے آئی تھی جوکسی بھی خاتون کی بے لباس تصویر منٹوں میں تیارکردیتی تھی۔اس ایپ کے سامنے آنے کے بعدمختلف مضامین میں اس پرشدید تنقید ہوئی تھی اوراس کے غلط استعمال کے سنگین نتائج کا انتباہ بھی دیاگیاتھا،جس پراسے فوری بندکردیاگیاتھااوراب اس ایپ کے پیچھے موجود ٹیم نے بھی تسلیم کیاہے کہ اس نے پراجیکٹ کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی کوغلط سمجھااورلوگوں کی جانب سے اس کے غلط استعمال کے امکانات بہت زیادہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ اسے بندکردیاگیاہے۔اس ٹیم نے ایک ٹوئیٹ میں اس بات کااعلان کیاکہ اپلیکیشن اب فروخت نہیں کی جائے گی اورنہ ہی اس کے مزیدورژن ریلیز کیے جائیں گے تاہم اب بھی آن لائن مارکیٹ پلیس اور سروسزموجودہیں جومنٹوں میں ڈیپ فیک ویڈیوزتیارکرنے میں مدددیتی ہیں،اگرکوئی ٹیکنالوجی میں ماہرنہ بھی ہوتووہ چندروپے دے کرایک فیک ویڈیو حاصل کرسکتاہے۔
اس ایپ کے مفت ورژن میں بنائی جانے والی تصویرپربہت بڑاواٹرمارک ہوتاتھاجس میں لکھاہوتاتھاکہ یہ جعلی تصویرہے مگرپیڈ ورژن میں یہ واٹرمارک کونے میں کافی چھوٹاہوتا تھا جسے آسانی سے ہٹایاجاسکتاتھا۔یہ ایپ کئی ماہ سے دستیاب تھی اوراس کی ٹیم کا کہناتھاکہ یہ اتنی زبردست بھی نہیں تھی،مگر ماہرین نے اس کے استعمال پربہت زیادہ تحفظات ظاہر کیے تھے۔اب بھی لوگ تصاویر کو ڈیجیٹل طریقے سے بدل لیتے ہیں مگراس ایپ کے ذریعے یہ کام کوئی بھی2یاتین کلک پرکرسکتاتھااوراسے کسی قسم کی محنت کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ ان تصاویرکو خواتین کوہراساں کرنے کیلئے استعمال کیاجاسکتاتھا اور متاثرہ افرادکیلئے صورتحال سے نمٹنابھی آسان نہیں ہوتا۔
اس ایپ کوتیارکرنے والے کانام البرٹوبتایاجاتاہے جس نے ٹیکنالوجی سائٹ”دی ورج”میں تسلیم کیاکہ اگروہ یہ کام نہ کرتاتوکوئی اور جلدکرلیتاکیونکہ ٹیکنالوجی تیارہے(بلکہ ہر ایک کی رسائی میں ہے)۔اس ٹیم نے ٹوئیٹ میں لکھا”دنیاابھی اس طرح کی ٹیکنالوجی کیلئے تیارنہیں اورابھی مزیدوقت چاہیے ۔ ”گویااس شیطانی ایپ کوتیارکرنے والاندامت کی بجائے دنیاکوالزام دے رہا ہے اوراس وقت کا انتطار کررہاہے جب دنیامزید اخلاقی پستی کی گہری کھائی میں گرجائے گی جہاں اس ایپ کو واقعی ٹیکنالوجی کامعراج سمجھ کرلطف اندوز ہواجائے گا۔
ارضِ وطن میں ہرروزہماری سیاسی اشرافیہ نے جواودھم مچارکھاہے،جواخلاق باختہ زبان استعمال کی جارہی ہے،اب یہ بعیدنہیں کہ سیاسی فوائدحاصل کرنے کیلئے ایسی بیہودہ ویڈیوزاپنے سیاسی مخالفین کی کردارکشی کیلئے مارکیٹ میں لائی جائیں کیونکہ اس سے پہلے ہمارے ملک میں ایساگھناؤنافعل کیاجاچکاہے جبکہ اس وقت توسیاسی پارہ اس قدرگرم بھی نہیں تھالیکن اقتدارکی طمع تمام اخلاقی اقدار کوپامال کرنے میں لمحہ بھرنہیں سوچتی کہ اس کے مستقبل کی سیاست اورنوجوان نسل کی بربادی کاکس قدرخطرناک سامان مہیاکر جاتی ہے۔موجودہ سیاسی ابتری کی بنا پرملک کی معاشی صورتحال انتہائی خوفناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ملکی محفوظ ذخائرتیزی سے زوال پذیراورمہنگائی عروج پرہے۔ملک میں عوام کوکھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آسمان کوچھوتی ہوئی پٹرول کی قیمتوں کے باوجودپرتعیش گاڑیوں کی درآمد جاری وساری ہے،اب بھی اربوں روپے کا”بیوٹی پارلرزمیں میک اپ ” کی درآمدی پراڈکٹس زیراستعمال ہیں جوچندگھنٹوں کے استعمال کیلئے ہوتی ہیں اوربعدازاں منہ ہاتھ دھوکران سے نجات حاصل کرلی جاتی ہے۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے بجلی گیس اوردیگر ضروریات زندگی کی اشیاپرٹیکس بڑھانے کیلئے تیسری دنیاکے ممالک کی کلائی مروڑنے میں اپنی مہارت استعمال کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی ان پرتعیش سامان پرپابندی لگانے کی ضرورت پرزورنہیں دیابلکہ وہ وہ ایساکیوں کہیں گے جبکہ یہ تمام اشیا کی درآمدانہیں کے کاروبار کووسعت دینے میں معاون ہوتی ہیں۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فوری طورپرمعاشی ایمرجنسی پرتمام سیاسی جماعتیں بلاتفریق ایک ایسامعاہدہ کریں جس کے نفاذکے لئے ہمیں سب اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے اس ملک کی سلامتی کیلئے اہم اقدامات اٹھاناہوں گے۔جس ملک کے اقتدارکیلئے آپ دن رات کوشاں ہیں اورایک دوسرے پرجھوٹ ،مکاری،بددیانتی اوربداخلاقی کے ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں،اس کی سلامتی ازحدضروری ہے وگرنہ عالمی مالیاتی ادارے سودخورمہاجن اپنے اپنے پھندے لئے دانت تیزکرکے ہماری طرف بڑی تیزی کے ساتھ لپک رہے ہیں۔اب آئی ایم ایف کے 9ماہ کے سٹینڈ بائی قرضہ میں شامل مزید پابندیوں کے مطالبے سے عوام کی زندگی اجیرن بنانے کے منصوبے بھی جلدسامنے آرہے ہیں ۔ہمیں ان حالات کاادراک کرتے ہوئے اپنی سمت کوفوری تبدیل کرناہوگا۔
کہتے ہیں فرانس سے آزادی کے بعدکانگومیں فرانس نے اپناسفیرتعینات کیا۔ایک دن فرانسیسی سفیرشکارکی تلاش میں کانگو کے جنگلات میں نکل گیا۔جنگل میں چلتے چلتے فرانسیسی سفیرکو دورکچھ لوگ نظرآئے وہ سمجھاشاید میرے استقبال کیلئے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچاتومعلوم ہواکہ یہ ایک آدم خورقبیلہ ہے چنانچہ فرانسیسی سفیرکوپکڑکرانہوں نے ذبح کیااس کی کڑاہی بنائی،شوربانکالا اور جنگل میں منگل منایا۔فرانس اس واقعے پرسخت برہم ہوااورکانگوسے مطالبہ کیاکہ ورثاسفیرکوکئی ملین ڈالرخون بہا ادا کرے۔ کانگوکی حکومت سرپکڑکربیٹھ گئی،خزانہ خالی تھا،ملک میں غربت وقحط سالی تھی،بہرحال کانگوکی حکومت نے فرانس کوایک خط لکھاکہ کانگوکی حکومت محترم سفیرکے ساتھ پیش آئے واقعے پرسخت نادم ہے،چونکہ ہمارا ملک خون بہااداکرنے کی استطاعت نہیں رکھتا لہذاغوروفکرکے بعدہم آپ کے سامنے یہ تجویزرکھتے ہیں کہ ہماراجوسفیرآپ کے پاس ہے آپ بدلے میں اسے کھالیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے ہاں مگرمیں سوچ رہاہوں کہ ہماری حکومت آئی ایم ایف کوایک خط لکھے کہ پچھلے76سالوں میں ہماری اشرافیہ بشمول سول ونان سول نے جوقرضے لئے ہیں وہ آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں، لہذاتجویز ہے کہ بدلے میں ہماری اشرافیہ کے بنک بیلنس، اثاثے اپنے قرض کے عوض ضبط کر لیں،اگرپھربھی قرض ادا نہیں ہوتا تواشرافیہ کے ان افرادکوآپ کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔