ہرصبح سوشل میڈیا اورسینکڑو ں ای میل اورخطوط ایسے بھی ملتے ہیں جس میں قارئین اکثرخاصے غصے میں جھنجلائے پاکستان کی سلا متی کے بارے میں بڑے پریشان کن سوال کرتے ہیں …..ٹیلیفون پربہت دیر تک اس بات کی تکراررہتی ہے کہ تم ہروقت اس زخم خوردہ کاماتم کرتے رہتے ہو۔ اس کے لٹ جانے کامنظرپیش کرکے خودتوپتہ نہیں روتے ہوکہ نہیں مگرہمیں رلاتے رہتے ہو۔کیابات ہے کہ چند حروف تسلی کے یاچندامیدبھری باتیں کیوں نہیں کرتے؟یہ محبت بھری شکایات جب ان کو میری طرح مایوسی کے اس لق دق صحرامیں پریشان کرتی ہیں تویہ جی بھرکرمجھ سے لڑتے جھگرتے ہیں کہ چلوٹھیک سہی مگراس کاجوحل تم تجویزکررہے ہواس پرعملدرآمدکب ہوگااوراس پرکوئی کان بھی دھرے گاکہ نہیں؟میں ان کے یہ تمام مطالبے سن کرحیرت میں گم ہوجاتاہوں کہ مدتوں جس شان وشوکت اورعظمت رفتہ کے لٹ جانے کامیں ماتم کررہاہوں،جن اقدارکی تباہی کاہرروزنوحہ لکھتاہوں اس کے اسباب کی نشاندہی بھی توکرتاہوں،اس کااپنی عقل کے مطابق علاج بھی تجویزکرتاہوں کہ اپنی انہی گم گشتہ اقدارکی طرف لوٹ جانے میں ہی ہماری عافیت ہے۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ واپسی کاسفرکیسے ہو؟
ہم توشایدبہت دورنکل آئے ہیں،زمانہ بھی بدل گیاہے۔اس دورکے تقاضے کچھ اورتھے اوراس دورکے مطالبے کچھ اورہیں۔اب سفرکیلئے گھوڑوں اونٹوں کی بجائے سپرسانک جہازاورتلوار کی بجائے خطرناک قسم کے ایٹمی ہتھیارمیدان میں آگئے ہیں،بغیر پائلٹ کے میزائل برسانے والے ڈرون جہازآگئے ہیں۔یہ ان لوگوں کے جواب ہیں جوان اقدارکی طرف جانے سے گریز کرتے ہیں لیکن میں اس وقت حیران ہوجاتاہوں کہ عدل وانصاف قائم کرنے کیلئے ایسے کون سے ایٹمی ہتھیاروں،میزائلوں کی ضرورت ہے ؟عدل توایک درخت کے نیچے ننگی زمین پربیٹھ کربھی کیاجاسکتاہے۔ انصاف کے وعدوں کوپوراکرنے کیلئے کسی جدیدکمپیوٹر یاکسی ایسے آلے کی بھی ضرورت نہیں۔عہد،قول اوروعدہ توصدیوں سے قوموں کی دیانت اورغیرت کی پہچان رہاہے اورسچ بولنے کیلئے کسی ایسے سائنسی جدیدآلات اورٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہوتی،یہ توانسانوں کے بیدارضمیرکالازمی جزوہوتا ہے۔وہ چاہے کسی مقام یاکسی بھی عہدے پرفائزہوں،ان کودھوکے،جھوٹ،دغابازی اورمکاری سے نفرت ہوتی ہے۔وہ توسچ کے نشے میں اس قدرمست ہوتے ہیں کہ دھوکے،جھوٹ،دغابازی اورمکاری کی ترشی بھی ان کے قریب تک نہیں پھٹکتی۔وہ توسچ کے سحرمیں اس قدرگرفتار ہوتے ہیں کہ اس کیلئے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں۔بڑے سے بڑانقصان اورہزیمت کوبھی خاطر میں نہیں لاتے۔یہ سب کچھ غربت،تنگدستی اورکسمپرسی کی حالت میں بھی ہوسکتاہے۔کسی ایم آئی ایف یاعالمی بینک کی مدد درکارنہیں ہوتی۔
جب سے یہ اقدارہمارے ہاں متروک ہوئی ہیں اس وقت سے ذلت اوررسوائی ہمارامقدربن چکی ہے۔یہ تووہ اقدارتھیں جن کی وجہ سے اس امت پررحمتوں اوربرکتوں کاسایہ اوردوسری قوموں کے دلوں پرہیبت،رعب اوردبدبہ چھایاہواتھا۔غیرمسلم دانشوربھی یہ بات لکھنے پرمجبورہو گئے کہ اسلام میں اگرایک اورعمرہوتاتوساری دنیاپراسلام کانظام عدل قائم ہوجاتا۔مغربی دنیا کایہ دانشورایک مشہورعیسائی خانوادے سے تعلق کے باوجود اپنی کتاب’سو بڑے آدمی’میں پہلامقام سیدنامحمدﷺ ،دوسرامقام سیدنا حضرت عمراورتیسرامقام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کودینے پرمجبورہو گیا۔
روم کاسفیرمدینے کی گلیوں میں اس نظام عدل کوقائم کرنے والے بادشاہ کے بارے میں استفسارکررہاتھاتواس کوبتایاگیاکہ ہمارے ہاں توکوئی بادشاہ نہیں مگرایک آدمی کوہم نےاپنامنتظم مقررکررکھاہے۔اگراس سے ملنے کی خواہش ہے تووہ سامنے درخت کے نیچے ایک پتھرپرسررکھے سورہاہے ۔ ہرقسم کے خطرات سے بے پرواہ چندگھڑیوں کیلئے آرام کرنے والے کے چہرے کی طرف دیکھ کربے اختیارپکاراٹھاکہ یقیناًاس عادلانہ نظام کی بدولت دنیاکی قیادت وسیادت ان کاحق ہے۔حالانکہ یہ تو وہی عرب تھے جن کے بارے میں ایران کے بادشاہ نے بڑے تمسخرکے ساتھ کہاتھاکہ”اے عرب کے جاہل اورگنواربدوؤں!کیاتم وہی نہیں ہو کہ جب تم کبھی کوئی شوروغوغاکرتے تھے توہم صرف اپنے چند سرحدی محافظوں کوکہتے کہ تمہارادماغ درست کردیں توتم فوری دبک کراپنے صحرائی خیموں میں چھپ جاتے۔شاعرفردوسی نے اس منظر کو اپنے شاہنامہ میں اس طرح محفوظ کیاہے:
شیرشترخوردن سوسمار
عرب رابجائے رسیداست وکار
کہ تخت کیہاںراکنندآرزو
تفوبرتواے چرخ گرداں تفو
اونٹنی کاددھ پینے اورجنگلی گوہ کاگوشت کھانے والوعربو!تم کوکیاسوجھی کہ تم ایران کے تخت کی آرزوکرنے لگ گئے ہو۔کیا منظرہے یہ اے آسماں،تم پرتفوہے۔
لیکن کیاکبھی کسی نے یہ سوچاہےکہ ان جاہل،گنواراورصحرانشیں بدوؤں کی حالت کس سائنسی ترقی اورٹیکنالوجی نے بدلی تھی۔ترقی اورٹیکنالوجی تو اس وقت بھی اپنے زمانے کے مطابق اپنے عروج پرتھی۔وہ جواہرام مصرکی پیمائشوں اورتقویمی گرہوں کوکھولتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان اس وقت بھی الجبرااورسائنس کی معراج پرتھا۔روم اپنی بلندیوں کوچھورہاتھا۔ایران کے دربارکی شان وشوکت اورتزک واحتشام دیکھنے کے لائق تھا۔ بابل اورنینواکے معلق باغات اورمحلات کے پرشکوہ تذکرے اب تا ریخ کاحصہ بن چکے ہیں۔پھرایساکیاتھاکہ میرے رب نے اس دنیاکی قیادت و سیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دی جن کے گال بھوک کی وجہ سے پچک اورپیٹ کمرکے ساتھ لگ گئے تھے،جن کوتلواروں کے نیام تک میسرنہیں تھی اورپرانے چیتھڑوں سے ان تلواروں کوڈھانک کررکھتے تھے۔وہ کیاصفات تھیں کہ ان کے ہاتھوں میں صرف سیاسی نہیں بلکہ دنیاکی علمی اورسائنسی قیاد ت بھی آگئی ۔
وہ جن کے شہراورشہری سہولیات ساری دنیاکیلئے ایک نمونہ بن گئیں۔دنیاکواس وقت معلوم ہوا کہ گلیاں اور سڑکیں پکی اینٹوں اورپتھروں سے کس طرح بنائی جاتی ہیں۔حمام میں گرم پانی بھی ہوتاہے،گلیوں میں رات گئے چراغ بھی روشن کئے جاتے ہیں تاکہ راہگیروں کورات چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔وہ جوفلکی سیاروں کی چالوں کیلئے رصد گاہوں کے امین بنے،جو الجبرا، فزکس،کیمسٹری اورطب کے امام ٹھہرے اورآج کی تمام سائنسی ترقی میں ان کے ایجاد کئے فارمولے ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اورپھرکئی صدیوں تک ان کاراج بھی رہا،کیایہ سب دنیاکے کسی بھی مروجہ سا ئنسی اور تہذیبی اصولوں کے تحت ممکن ہواتھا۔
ایسے ہی ایک قوم منگولیاکے ریگستانوں سے اٹھی تھی،چنگیزخان نے اس قوم کے چند قبیلوں کومتحدکیاتھااورپھریہ قوم طوفان کی طرح اس پورے علاقے کوروندتی ہوئی گزر گئی لیکن آج اس قوم کاتاریخ میں ظلم،بربریت کی داستانوں کے علاوہ کوئی ذکر نہیں ملتااورساری دنیامیں ایک نفرت کی علامت کےعلاوہ کچھ بھی ان کے حصے میں نہیں ہےمگرعرب کے ان جاہل، گنوار اور ان پڑھ بدوؤں نے ایساکیاکمال کردیاتھاکہ دنیاکاکوئی بھی مؤرخ عصبیت کے باوجودآج بھی ان کوفن تعمیر،فلسفہ،طب،خطاطی اوردوسرے بیسیوں علوم کاماخذ،محقق اوراستادمانتاہے۔یہ سب کمال اورہنران کےدروازوں پرکیوں دستک دینے چلے آئے۔اس لئے کہ ان میں میرے پیارے ختمی الرسل محمدﷺکے تزکئے نے وہ خصوصیات پیداکردی تھیں جن کی بنیاد پرخالقِ کائنات مہربان ہوتاہے۔
وہ اپنے مربی سے جن کووہاں کابچہ بچہ امین وصادق کے ناموں سے جانتاتھا،اپنے رب کایہ فرمان سن کرکانپ اٹھے تھے کہ خبردار!تمہیں کسی قبیلے کی محبت اس بات پرمجبورنہ کردے کہ تم انصاف کادامن اپنے ہاتھ سے چھوڑدو۔انہیں اس بات کاقوی یقین تھاکہ اگرہم نے اس زمین پراللہ کابتایاہوا نظام عدل قائم کردیاتووہ ہم پراپنی رحمتوں اوربرکتوں کے خزانوں کی بارش کردے گا۔یہی وجہ ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمرکے زمانے میں جب فتوحات کا دروازہ کھلاتوایک معرکہ میں مال غنیمت کے اس قدر ڈھیرلگ گئے کہ اطراف میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کودیکھ نہیں سکتے تھے ۔ان نعمتوں کودیکھ کرخلیفہ ثانی حضرت عمراوران کے ساتھیوں نے روناشروع کردیاکہ کہیں آخرت کی نعمتوں کی بارش دنیامیں تونہیں شروع ہوگئی۔
انہوں نے اپنے آقاومربٓی ختمی الرسل محمدﷺسے سن رکھاتھاکہ مومن بدکارہوسکتاہے،چورہوسکتاہے کہ گناہ اس سے سرزدہو جائیں لیکن مومن جھوٹانہیں ہوسکتا۔انہوں نے اپنے آقاو مربی ختمی الرسل محمدﷺسے یہ بھی سن رکھاتھاکہ جب ایک شخص جھوٹ بولتاہے تواس کے جسم سے ایک ایسی بدبونکلتی ہے کہ رحمت کے فرشتے اس سے کئی فرسنگ دوربھاگ جاتے ہیں۔ یہی سچ بولنے کی صفت نے اس دورکی تاریخ میں لوگوں میں اعتراف جرم کی یہ جرأت پیداکی انہوں نے خودزناکے جرم کا اقرارکیااورسزاکیلئے اپنے آپ کوپیش کیا۔انہیں اپنے وعدوں کاپاس تھاکہ ان کا رب ان سے یہ کہتاہے کہ تم سے تمہارے وعدوں کے بارے میں دریافت کیاجائے گا۔یہ وہ کمال تھاجومیرے پیارے ختمی الرسل محمدﷺنے ان کی زندگیوں میں پیداکیاتھا۔
انہیں یہ بھی واضح طورپربتادیاگیاتھاکہ منافق کی تین نشانیاں ہیں کہ جب بات کرے توجھوٹ بولے،جب وعدہ کرے توپورانہ کرے اورجب اس کے باس امانت رکھی جائے تواس میں خیانت کرے۔اس امت پرہی نہیں بلکہ اس پوری دنیاکی ترقی کی بنیادہی ان تین ستونوں پررکھی ہوئی ہے۔ اب آپ خودہی فیصلہ کرلیں کہ کیامیراماتم اورمیرے نالے درست نہیں کہ اپنی انہی گم گشتہ اقدارکی طرف لوٹ جانے میں ہی ہماری عافیت ہے؟
ہم گلیوں،بازاروں،حلف اٹھاکرعدالتوں،اسمبلیوں اوراقتدارکے ایوانوں میں بیٹھ کرکس دھڑلے سے ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اورجھوٹی گواہیاں دیکرامانت میں خیانت کرتے ہیں۔کیاساری دنیاکے سامنے ہم زبانی اورتحریری وعدے کرکے پوری مکاری کے ساتھ برملایہ نہیں کہتے رہے کہ یہ کون سے قران وحدیث ہیں؟کیاہمارے ذمہ جوامانت سپردکی گئی ہے کہ جب تم حکمران بنوتوعدل وانصاف کانظام قائم کرو،اس میں کھلم کھلا خیانت نہیں کررہے؟ملک کی سب سے اعلیٰ عدالتوں کے منصفین کے احکام کی روگردانی کرکے عدل وانصاف کی بری طرح تضحیک کے مرتکب نہیں ہوئے؟اس پرمستزادکہ اعلیٰ عدلیہ کو دھوکہ دیتے ہوئے سوئس عدالتوں کوملک وقوم کی لوٹی ہوئی دولت کی بابت خودہی تمام مقدمات بندکرنے کاخط لکھ دیاگیا۔قوم کوتویہ عجب تماشہ بھی یاد ہے کہ جب یہاں کی مفلوک الحال قوم سیلاب کی تباہ کاریوں میں مبتلا تھی توقوم کاسربراہ صدر زرداری اپنے بچوں کولیکرتفریح کیلئے پیرس کے انتہائی خوشگواراورشاندارموسم میں عالمی شہرت یافتہ شاہراہ”شانزے لیزے”میں گھوم رہاتھا،فرانس کے عجائب گھر،کھنڈرات سے لطف اندوزہورہاتھااورفرانسیسی حکومت کی میزبانی کے مزے لوٹ رہا تھااوربالآخربرطانیہ کے بے مقصد دورے میں اپنے ہی ایک جیالے کے ہاتھوں ذلیل ورسواہوگیالیکن قوم ایسے سسٹم میں گرفتارہے کہ آج ایک مرتبہ پھر آزمودہ صدرپھرسے اسی عہدے پربراجمان ہیں۔
دوقومی نظریہ کی بنیادپرحاصل کردہ معجزاتی ریاست کاازلی دشمن بھارت کااعلیٰ افسرجب اپنی عدالت عالیہ میں اپنی ہی ریاست کے بارے میں حلفیہ اقرارکررہاہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں میں خودبھارتی حکومت ملوث تھی اورہمارے اسی میڈیاپر بیٹھے کچھ ننگ دیں اوروطن فروش اینکر میڈیاپرنہ صرف بھارت کی وکالت کررہاتھا بلکہ اب بھی وہ انتہائی بے شرمی کے ساتھ پاکستانی اداروں پرالزام تراشی کرکے اب بھی خودکومحب وطن کاعلم تھامے قوم کوبھاشن دیتے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ کرنے کے باوجودآپ اپنے لئے کس منہ سے عزت وکامرانی کاحق مانگتے ہیں؟جب تک آپ یہ سب کچھ نہیں بدلتے،اس نام نہاد میڈیاگروپ کابائیکاٹ نہیں کرتے اوراس نظریاتی ریاست کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ سے توبہ نہیں کرتے تو میرے رب کی رحمت کے فرشتے اس جھوٹ سے توکئی فرسنگ دوربھاگ گئے ہیں ۔
یادرکھیں ہماری ذلت ورسوائی اس وقت ختم نہیں ہوسکتی جب تک ہم واپسی کاسفرشروع نہیں کرتے۔اس کاتووعدہ ہے کہ تم نے اگرایفائے عہدنہ کیاتودنیا کی رذیل قوموں سے رسوا ہو جاؤگے۔آج اگرہم اپنے اس وطن کی مٹی سے وفاداری کاحق بھول گئے ہیں توگویاپھرہم اپنے آقاکی پہچان بھی بھول چکے ہیں جس نے ہمیں ماہِ رمضان کی مبارک شب قدرکویہ پاک وطن عطافرمایاتھا۔آج ہم دنیامیں جوذلیل ورسواہورہے ہیں،کیااس کی یہ وجہ تونہیں کہ ہماراآقاجوساری دنیاکاخالق ورازق ہے،جودنیاوآخرت کے تما م خزائن کامالک ہے،اس سے مانگنے کی بجائے ہم آئی ایم ایف اورعالمی اداروں کی تمام شرائط کوبلاچون وچرامان کربھیک کا کشکول اٹھائے دربدرہورہے ہیں اوراپنی حکومت کوسہارادینے کیلئے امریکااوربھارت کی غلامی کیلئے تن من دھن داؤپرلگائے بیٹھے ہیں اوردوسری طرف ایک سیاسی جماعت اپنے لیڈرکوجیل سے رہائی دلوانے کیلئے اسی ملک کے درپرسوالی بن کرپہنچ جاتے ہیں جن پرپورامنہ کھول کراپنی حکومت کوگرانے کاالزام لگاتے رہے،کبھی ملک کے خلاف عالمی مالیاتی اداروں کو خطوط لکھے گئے اوراب باقاعدہ ملک میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت میں برملاقوم کوگمراہ کررہے ہیں۔اب اسی امریکانےآپریشن کوروکنے کیلئے کھلم کھلادباؤ ڈالنے کیلئے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے خلاف قراردادمنظورکرکے اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیاہے اوروہ جماعت جس کے لیڈرکی رہائی کامطالبہ کیاجارہاہے،جوامریکاکوللکارکرکہتاتھاکہ ہم کسی کے غلام نہیں توآج اس مکافاتِ عمل کے بعدکہاں کھڑے ہیں۔
پھرایسے سیاستدان کوکیاکہیں گے جوخودکوعالمِ دین،مفتی اورایک دینی جماعت کے سربراہ بھی ہیں،جوبرسوں سے عمران خان کویہودیوں کاایجنٹ کہہ کرمخاطب کرتے رہے اور عمران خان بھی مولاناکی تذلیل کیلئے مختلف عنوانات سے اپنے جلسوں میں للکارتے رہے اورآج ان دنوں ایک دوسرے کو گلے لگانے کیلئے بیتاب ہیں۔کیایہ اس وقت جھوٹ بول رہے تھے یااب جھوٹ کاسہارالیکرشیروشکرہورہے ہیں۔یہ بھی مکافاتِ عمل ہے کہ قدرت نے ان سب کے چہروں کے تمام نقابوں کوتارتارکردیاہے لیکن میں یہ سوچ رہاہوں کہ روزِجزاکے دن جب کوئی بھی فردایک قدم تک نہیں ہلاسکے گاجب تک وہ اپنے منہ سے نکلے ہرلفظ کاحساب نہیں دے گاتواس وقت یہ کیاجواب دیں گے۔
کچھ توسمٹوکہ نظرہم بھی اٹھاکردیکھیں
ہم کواے جلوۂ بے باک حیاآتی ہے