فضائی سفر،سمندرمیں تفریحی سفر،مخلوط رہائش،مل بیٹھنے کے مقامات،سنیماہال،اوپن ایئرتھیٹر،مارکیٹس،کھیل کے میدان، تماشائیوں کے بیٹھنے کا اہتمام … کیایہ سب کچھ خواب وخیال ہوجائے گا؟جب سے کورونا نے دہشت پھیلائی ہے،کروڑوں بلکہ اربوں ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات سر اٹھارہے ہیں۔خدشات ہیں کہ محض پیدانہیں ہورہے بلکہ خطرناک رفتارسے پنپ بھی رہے ہیں.کورونا کے اثرات غیرمعمولی حدتک دوررس ہیں۔یہ اثرات نادیدہ ہیں جوتیزی سے زورپکڑرہے ہیں۔یہ انتہائی مضبوط ہے،تیزی سے متحرک ہوتاہے،علامات کے بغیرمتاثر کرتاہے اورپھرجب تک تدارک کا سوچیے اورکچھ کیجیے تب تک یہ جڑپکڑچکاہوتاہے۔
یہ کسی کوبھی لاحق ہوسکتاہے،اس لیے مشکوک یامشتبہ مریضوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔اب تک اس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اچھی خاصی ہیں۔یہ پوری دنیاکومستقل نوعیت کے دردِ سرسے دوچارکرسکتاہے۔اس کے نتیجے میں پیداہونے والی بدحواسی بہت زیادہ ہے۔ایک دنیاہے کہ پریشانی کے دائرے سے نکل نہیں پارہی۔ایسالگتاہے کہ بدترین فلو کے مقابلے میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں بیس سے تیس گناہوں گی۔ایک زمانے سے ہم مصنوعی ذہانت کاشورسنتے آئے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ اس معاملے میں شورزیادہ تھااورکام کی بات بہت کم۔ کورونا کہاں سے ابھرے گا،کہاں پروان چڑھے گااورکس طور پھیلے گا،اس حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنے میں مصنوعی ذہانت مکمل طورپرناکام رہی ہے۔
دنیابھرمیں لوگ اب بایوٹیک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اس شعبے نے اب تک توایساکچھ خاص نہیں کیا،جس پرغیرمعمولی حدتک فخرکیاجاسکے۔اب بڑا موقع موجودہے۔بایوٹیک کے ماہرین کوکورونا اورایسی ہی دیگربیماریوں اوروباؤں کی روک تھام کے حوالے سے کچھ کرکے دکھاناہے۔ان کے کاندھوں پربھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔اس چیلنج سے بطریقِ احسن نمٹ پانے کی صورت میں معاملات اس کے حق میں ہوسکیں گے۔بایوٹیک کے شعبے کوسب سے پہلے توکورونا کی موثر،قابل اعتماد ویکسین تیارکرنی ہے۔اس مرحلے سے گزرنے کی صورت ہی میں اُس کے مزیدپنپنے کی راہ ہموارہوگی۔
ابھی کچھ کہانہیں جاسکتاکہ کورونا کانقطۂ عروج کیاہوگا۔بہت سے معاملات اب تک سمجھ میں نہیں آسکے ہیں۔ایسالگتا ہے کہ عمومیت تبدیل ہونے والی ہے یعنی نیا’’نارمل‘‘سامنے آنے والاہے۔دنیاکواب کورونا سے پہلے اوربعدکی کہاجائے گا۔ مستقبل میں ایسابہت کچھ ہوگا،جوپہلے کبھی نہیں تھااورجوکچھ اس وقت موجودہے اس کابڑاحصہ جاتارہے گا۔زیادہ پُر امیدہونے کی ضرورت نہیں۔ہمیں کچھ مدت کے بعدپھرنئے سوالوں کاسامناہوسکتاہے۔پوری دنیا میں یہ سوال اربوں ذہنوں میں کلبلارہاہے کہ’’نیا نارمل‘‘کیاہوگااورہمیں اس کی کیاقیمت اداکرناپڑے گی اورسب سے بڑھ کریہ کہ جوکچھ ہمارے لیے نیانارمل ہوگا،اُس کی شکل کیا ہوگی۔
سیاحت دنیابھرمیں بڑے معاشی شعبوں میں سے ہے۔کورونا کی وبانے سیاحت کے شعبے کوخطرناک حدتک متاثرکیاہے۔ ایسا لگتاہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعدسمندری جہازپردنیاکی سیراب ماضی کی یادبن کررہ جائے گی۔ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایئر لائنزکاکیاہوگا۔اکیسویں صدی میں عالمگیریت کی سب سے بڑی لائف لائن ایئرلائنزہیں۔فضائی سفرہی نے کرۂ ارض کوگاؤں کی سی شکل دے دی ہے،فاصلے یوں مٹادیے ہیں کہ بہت سی ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔فضائی سفرمیں لوگ کئی گھنٹوں تک ایک دوسرے سے جڑکربلکہ ایک دوسرے میں ٹھنس کرسفرکرتے ہیں۔کروزشپ میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ بڑی تعدادمیں لوگ ایک دوسرے سے دوررہتے ہوئے سفرکریں۔مشکل یہ ہے کہ کورونا کی علامات ہرمریض میں پہلے مرحلے میں ظاہرنہیں ہوتیں۔کوئی ایک مسافربھی بہت سوں کواس کے دام میں لانے کاباعث بن سکتاہے ۔فروری کے آخرمیں آسٹریااوراٹلی کے تفریحی مقامات پرایساہی ہواتھا۔اسکیئنگ سیزن شروع ہونے پربڑی تعدادمیں سیاح آئے اورکورونا کے تباہ کن پھیلاؤکاسبب بن گئے۔”2003ءمیں چین سے’’سارس‘‘ ابھراتھا۔ تب ایک ارب65کروڑ افرادنےفضائی سفرکیاتھا۔2018ءمیں فضائی سفرکرنے والوں کی تعداد4 ارب20کروڑتک تھی۔اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کورونایاکوئی دوسرا فضائی سفرکرنے والوں کے ذریعے کتنی تیزی سے اورکتنے بڑے پیمانے پرپھیل سکتاہے۔
1۔کیابڑے اجتماعات اوراجتماعات والے کاروبارختم ہونے کوہیں؟شراب خانے،ریسٹورنٹ،کیفے،ڈسکوز،سنیماگھرماضی کاقصہ ہوکررہ جائیں گے؟
2۔کیاگھربیٹھےعلم حاصل کرنے کارجحان اِتنی تیزی سے پروان چڑھے گاکہ اسکول،کالج اوریونیورسٹیوں کے ڈھانچے تبدیل ہوجائیں گے؟کیااینٹ اورسیمنٹ سے بنے کیمپس خواب وخیال ہوکررہ جائیں گے؟
3۔خوراک اورپھل کس طورمحفوظ بنائے جاسکیں گے؟کھانے پینے کی اشیااورپھل یاپھلوں کے جُوس سے بھی توکوئی بھی تیزی سے پھیل سکتاہے۔اس وقت بھی اشیائے خوردونوش اورپھل کس حدتک محفوظ ہیں؟
4۔کیااب غیرقانونی تارکین وطن کاسلسلہ رک جائے گا؟
5۔اس وقت دنیاہنگامی کیفیت سے دوچارہے۔کورونا نے حقیقی عالمگیروباکی صورت اختیارکی ہے اوراس کےنتیجے میں شدید بدحواسی کی کیفیت پیداہوئی ہے۔ایسے میں دہشتگردی کاخطرہ بڑھ گیاہے؟اوراگردہشتگردی ہوئی توریسپانس کس حد تک جاندارہوگا؟
6۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران دہشتگردی کی صورت میں ہلاکتیں کم ہوں گی کیونکہ بھیڑبھاڑ والے مقامات ناپید سے ہیں مگراسپتال؟وہاں توبھیڑہی بھیڑہے۔
کورونا کی کامیاب اوردیرپااثرات کی حامل ویکسین کاانتظارہےتاہم ایسی کوئی بھی ویکسین رواں سال کے آخرتک تو سامنے آتی دکھائی نہیں دے رہی اوراگر ویکسین بنابھی لی جائے تواربوں خوراکیں تیارکرناپڑیں گی۔سوال یہ ہے کہ فارماانڈسٹری کتنوں کاعلاج کرسکے گی؟کورونا کے مریضوں میں سے5تا10 فیصدکووینٹی لیٹرزکی ضرورت پڑے گی۔اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں وینٹی لیٹرزکی فراہمی کس حدتک ممکن بنائی جاسکے گی۔
اس وقت یورپ عجیب کیفیت سے دوچارہے۔کورونا کے بطن سے پیداہونے والابحران شدت اختیارکرتاجارہاہے اورساتھ ہی ساتھ کامیابی کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔منصوبہ بندی کے ساتھ زندگی بسرکرنے والوں میں جرمن بہت نمایاں ہیں۔یورپ کی حدتک سوچیے توجنگ کادوراب رہانہیں۔ اس کااسلحہ خانہ کمزورپڑتاجارہاہے۔یورپ کے بیشترممالک کے ٹینک،ہیلی کاپٹراور آبدوزیں مطلوب معیار کے مطابق نہیں۔آزمائش کی کسوٹی پران میں بہت سی اشیابہت حدتک ناکام رہی ہیں۔
جرمنی میں بائیں بازواوروسط کی لڑائی جاری ہے۔معاملات میں بگاڑبڑھتاہی جارہاہے۔اٹلی میں فیس ماسک کی قلت سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں مگر جرمنی میں یہ قلت کیوں ہے؟معمرافراد کی بڑھتی ہوئی تعدادوالے معاشروں میں نرسوں اور لیب ٹیکنیشنز کی کمی توسمجھ میں آتی ہے مگرفیس ماسک کی قلت؟
کورونا کے نمودارہونے سے پہلے کیفیت یہ تھی کہ پلاسٹک سے ہماراجی بھرگیاتھا۔اس سے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی جارہی تھی۔کورونا کی وبامیں پلاسٹک اہم ڈھال بن کرسامنے آیاہے۔دنیاایک بارپھرپلاسٹک پرمتوجہ ہے اور پلاسٹک کی عظیم واپسی کی دعائیں مانگی جارہی ہیں!
کوروناکی وبانے جوچندباتیں سکھائی اورسُجھائی ہیں اُن میں دوبہت اہم ہیں:
1۔غیرضروری اشیاسے جان چھڑانے کازمانہ آگیاہے۔معاشیات میں پڑھائی جانے والی چیزوں میں قانونِ تقلیلِ افادۂ مختتم بہت اہم ہے۔یعنی کسی بھی چیزکی اُتنی ہی قیمت اداکی جائے،جس قدراُس سے تسکین مل سکتی ہو۔کورونا کے ہاتھوں عالمگیر کساد بازاری بالکل یقینی ہے۔یہ شدیدتربھی ہوسکتی ہے۔عالمی معیشت معاملات کوبحال توکرہی لے گی مگرکس حدتک؟ اس کامدارہم پر ہے۔
2۔کورونا کی مہربانی سے لوگوں کوگھروں میں رہنے کاموقع ملاہے۔ہوسکتاہے کہ معیشتوں کاڈھانچاتبدیل ہوجائے اورانسان کوکم محنت کے ساتھ زندگی بسرکرنے کاموقع ملے۔اب زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔زیادہ محنت اس لیے کی جاتی ہے بعدمیں فراغت میسرہو۔اگرفراغت میسررہے توزیادہ کام کرنے کی کیاضرورت ہے؟
حرفِ آخریہ ہے کہ کورونا کی وباپناہ گزینوں سے نہیں،سیاحوں سے پھیلی ہے۔دنیاکے تقریباًتمام مہاجرکیمپ کروناوباسے محفوظ ہیں لیکن اس وقت یورپی یونین کیلئے کروناسب سے بڑاامتحان بن گیاہے۔پچھلے پانچ ہفتوں کے بحران نے یورپی یونین کے سیاسی ،معاشی اورمعاشرتی تانے بانےکوادھیڑکررکھ دیا ہے۔یورپی یونین ابھی تک2015ء کے تارکین وطن کے سیلاب کے بعدعوامی مقبولیت اورقوم پرستی کی لہروں سے نمٹنے کامقابلہ کررہاتھاکہ کرونانے اسے دہراجھٹکادے ڈالاہے ۔ برطانیہ کایوروپی یونین سے دستبرداری،اورچانسلرانجیلا مرکل کی کمزوری کے پیچھے جرمنی کاسیاسی ٹکراؤکی دراڑیں مزید گہری ہوگئی ہیں۔یورپی یونین نے شام کے مہاجرین کویورپ میں داخلے سے روکنے کیلئے ترکی کو6بلین یوروکاپیکج دینے کالالچ بھی دیاتھاجسے ترکی نے مسترد کردیاتھا۔ ترکی نے پولیس،کوسٹ گارڈاورسرحدی سیکیورٹی کے عہدیداروں کویہ حکم دیاکہ وہ پناہ گزینوں کویورپی یونین میں جانے میں رکاوٹ نہ بنے جس کے جواب میں بلغاریہ نے ترکی کی سرحدپرایک ہزاراضافی فوج بھیج کران کوروکنے کی کوشش کی اور یونانی نے توتارکین وطن پرایک کراسنگ پردھواں داردستی بموں سے حملہ کرکے ان کوواپس ترکی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی۔
ادھرٹرمپ نے توباقاعدہ چین کوکروناوباپھیلانے کاذمہ دارقراردینے کی کوشش بھی کی ہے جس کے جواب میں چین نے اسے باہم سفارتکاری کونقصان پہنچانے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ وقت تناؤبڑھانے کانہیں بلکہ مل کرساری دنیاکواس بحران سے نجات دلانے کاہے۔چونکہ دنیا اس وقت کروناجیسی مہلک وبائی بیماری سے ہونے والی انسانی اور معاشی تباہی سے دوچار ہے لیکن چین اورامریکاکے درمیان سردجنگ میں پیداہونے والا تناؤبھی وبائی امراض سے لڑنے کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔اس کے چندگھنٹے کے بعد ٹیلیویژن انٹرویوکے دوران،امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہاکہ” اس کے بہت سارے ثبوت موجودہیں کہ نئی کورونا وائرس کاآغازووہان لیبارٹری سے ہواہے لیکن اس نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ سائنس دانوں،صحت کے عہدیداروں اورامریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے پہلے کہاہے کہ کروناوائرس انسان ساختہ یا جینیاتی طور پرتبدیل شدہ نہیں تھابلکہ ”فطری طورپرقدرتی تھا”۔
ادھر30اپریل2020 کوامریکی انٹیلی جنس نے فوری طورپرایک مختصرپریس ریلیزجاری کی ہے کہ”پوری انٹیلی جنس کمیونٹی امریکی پالیسی سازوں اورکروناوائرس کاجواب دینے والے افرادکومستقل طورپرچین میں پیدا ہونے والی تنقیدی مدد فراہم کرتی رہی ہے۔انٹیلی جنس کمیونٹی بھی وسیع سائنسی اتفاق سے اتفاق کرتی ہے کہ کرونا وائرس کوانسان ساختہ یا جینیاتی طورپر تبدیل نہیں کیاگیاتھا۔جیساکہ ہم اس وقت شدیدبحرانوں کی زدمیں ہیں،اس کمیونٹی کے ماہرین امریکاکی قومی سلامتی کیلئے ضروری امورپروسائل میں اضافے اورتنقیدی ذہانت پیداکرکے جواب دیتے ہیں۔آئی سی ابھرتی ہوئی معلومات اورانٹیلی جنس کی سختی سے جانچ پڑتال کرے گا تاکہ یہ معلوم کیاجاسکے کہ یہ وبامتاثرہ جانوروں کے ساتھ رابطے کے ذریعے شروع ہوئی ہے یااگر وہ ووہان کی لیبارٹری میں ہونے والے کسی حادثے کا نتیجہ میں پھیلی ہے”۔
ڈبلیو ایچ اوکی ترجمان فدیلہ چائب نے کہاکہ”تمام دستیاب شواہدسے پتہ چلتاہے کہ وائرس جانوروں میں پایاجاتاہے لیکن اسے لیب میں یاکسی اورجگہ جوڑ توڑ یاتعمیرنہیں کیاگیاہے ۔ ایک امریکی محقق جس نے ووہان وائرولوجی لیب کے ساتھ کام کیا وہ 4 وجوہات بتاتا ہے کہ کوروناوائرس لیک ہونے کا انتہائی امکان نہیں ہے۔
(1)ایک منجمد تھیوری سے پتہ چلتاہے کہ کوروناوائرس چین کے ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی کی ایک لیب سے لیک ہوسکتا تھا ، لیکن اس کاکوئی ثبوت نہیں ہے۔
(2)ایک امریکی محقق جس نے ووہان لیب میں سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، نے بزنس انسائیڈر کو سمجھایا کہ حادثاتی لیب کا رساؤ کاکیوں انتہائی امکان نہیں ہے۔
(3)اعلیٰ سیکیورٹی لیب کاکہنا ہے کہ ناول کروناوائرس کے جینوم کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا ہے اورلیب میں تمام سخت عالمی حفاظتی اقدامات کی پیروی کی جاتی ہے۔
(4)اس سے کہیں زیادہ امکان ہے کہ یہ وائرس قدرتی طورپرچمگادڑوں سے پھیلاہو،جہاں کسی دوسرے جانورنے اسے کھالیاہو اوراس سے کورونا وائرس بن گیاہواوراس وائرس نے کسی انسان پرحملہ کردیاہو۔
نیویارک ٹائمزکے مطابق ٹرمپ کے قومی سلامتی کے نائب مشیرمیتھیو پوٹنجر نے جنوری میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا کہ وہ کروناوائرس کے ووہان لیب سے لیک ہونے کے خیال پرغورکریں لیکن سی آئی اے افسران کواب تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔گویاٹرمپ انتظامیہ کے پاس چین کوموردالزام ٹھہرانے کاکوئی واضح ثبوت نہیں اورامریکااوراس کے تمام اتحادی اس بات سے باخبرہیں کہ یہ معاملہ کسی تیسری دنیاکے پسماندہ ملک یاکسی مسلمان ملک کے ساتھ نہیں جیساکہ عراق اور افغانستان کے ساتھ کیاگیا بلکہ چین کے ساتھ ہے جو نہ صرف ایک ایٹمی قوت کے علاوہ ایک مضبوط معاشی ملک ہے اور امریکا1.7ٹریلین ڈالرکاصرف چین کامقروض ہے۔یہ 6.7ٹریلین ڈالرکا16فیصد ٹریژری بل،نوٹ اوربیرونی ممالک کے بانڈز کی شکل میں خود امریکی حکومت کے پاس ہے۔