قرآن کی سائنسی تفسیر ات کے ضمن میں ایک عام گمراہی الفاظ قرآنی کی دورازکارتاویلات کرکے فی زمانہ مروج سائنس کے ہر مشہور نظرئیےکوقرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرنابھی شامل ہے۔اس سعی کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرماہےکہ قرآن مجید سے کسی سائنسی نظرئیے کاثابت نہ ہوسکناگویا قرآن کیلئےایک قسم کاعیب ہے۔لہذاڈارون کے حیات انسانی کے نظریہ ارتقاء، کائنات کی ابتداءکی بگ بینگ تھیوری،نیززمین کی حرکت وسورج کی مرکزیت سے لیکر ایٹم بم تک کے نظریات قرآن سے نکالے جارہے ہیں اورایساکرنے میں ہی اسلام کابھلا سمجھاجارہاہے۔اس قسم کے تفسیری شاہکار خصوصاً مصرکےعلامہ طنطاوی کی تفسیرالجواہرمیں دیکھے جاسکتے ہیں جس کے بارے میں علماءکی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں سوائے قرآن کی تفسیرکے اور سب کچھ ہے۔
اس طرزتفسیرکے مضمرات ونقصانات کااندازہ اس تاریخی حقیقت سےلگایاجاسکتاہےکہ جس وقت دنیامیں یہ نظریہ عام تھاکہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گردگھومتاہےتوچرچ نے اس عقیدے کوعیسائی ایمانیات کالازمی حصہ بناکراسے بائبل کے ساتھ منسوب کردیا۔اس عقیدے کواپنانے کی وجہ یہ نہ تھی کہ بائبل میں اس کے بارے میں کوئی واضح تعلیم دی گئی تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عقیدہ چرچ کے اس تصورکے ساتھ مناسبت رکھتاتھاکہ چونکہ خداکابیٹااس زمین پرتشریف لایالہذازمین ہی کائنات کامرکزبھی ہونی چاہئےالبتہ جب سائنس کی دنیامیں کوپرنیکس کے اس نظرئیے کومقبولیت حاصل ہوئی کہ کائنات کامرکززمین نہیں بلکہ سورج ہے اورزمین اس کے گردچکرلگاتی ہے توعیسائی دنیاکاایمان بائبل سے جاتارہا ۔ اس ناقابل تلافی نقصان کی اصل ذمہ داربائبل نہیں بلکہ چرچ کاناعاقبت اندیشانہ رویہ تھاجس نے ایک ایسی بات کوبائبل کی طرف منسوب کیاجس کی اس میں کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی اوراس رویے کانقصان سائنس کونہیں بلکہ عیسائیت کوہوا۔جلتی پرتیل ڈالنے کاکام چرچ کے ان مظالم نےکیا جوبعض ملحدقسم کے سائنس دانواں پرتوڑے گئے۔اس ردِّعمل کی بجائے اگرچرچ اپنی علمی غلطی کااعتراف کرکے یہ اعلان کر دیتاکہ بائبل کے ساتھ مرکزیت زمین کے نظرئیے کومنسوب کرناغلط ہےتوشایدناعیسائی مذہب کوناقابل تلافی نقصان پہنچتااورنہ چرچ اورپوپ کے کردارکوتاریخ میں محض ایک برائی کےطور پر رقم کرکے مسخ کیاجاتا۔
تاہم قرآن کی سائنسی تفسیرکے پیچھے بھی یہ غلط مفروضہ کارفرماہے کہ کسی سائنسی نظرئیےکاقرآن سے ثابت نہ ہونا قرآن کیلئےایک عیب ہے۔درحقیقت یہ مفروضہ قرآن کے اصل موضوع کونہ سمجھنے کی وجہ سے پیداہواہے۔قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں کہ جس میں فزکس،کیمسٹری،حیاتیات وغیرہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں بلکہ قرآن کااصل موضوع نوع انسانیت کی اس راستے کی طرف ہدایت کرناہے جس پرعمل پیراہوکروہ اپنے رب کے حضور سرخروہوسکے۔چنانچہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن میں ناہوناکوئی عیب نہیں کیونکہ یہ قرآن کاموضوع ہی نہیں۔اگرکوئی شخص قانون کی کسی کتاب میں کسی سائنسی ایجادکی وجہ سے پیداہونے والی قانونی پیچیدگیوں کی تفصیلات دیکھ کریہ طے کرلےکہ وہ سائنس کاہر نظریہ اس کتاب سے نکالے گاتو ایسے شخص کی عقل پرہرشخص ماتم کرے گااوراس سے یہی کہے گاکہ یہ قانون کی کتاب ہےناکہ سائنس کی نیزاس میں اگر کوئی سائنسی بات زیربحث لائی بھی گئی ہےتواسے قانون ہی کے موضوع کےتحت سمجھنا چاہئے۔جس طرح قانون کی کتاب میں طب،فزکس،کیمسٹری کی تفصیلات کانہ ہوناکوئی عیب نہیں ایسے ہی قرآن میں سائنسی بیانات کانہ ہوناکوئی عیب نہیں۔نیزجس طرح کسی قانون کی کتا ب میں کسی سائنسی ایجادیاتاریخی واقعے کے درج ہونے سے وہ سائنس یا تاریخ کی کتاب نہیں بن جاتی،بالکل اسی طرح قرآن میں کسی سائنسی حقیقت کی طرف ضمناً اشارہ آجانے سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں بن جاتی بلکہ اس بیان کی صحیح تفہیم کیلئےضروری ہے کہ اسے قرآن کے عمومی موضوع کے تحت ہی سمجھاجائے۔یہ بالکل ایساہی ہے کہ جیسے قرآن میں ماضی کی کئی امتوں کے حالات پرتفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے،اب اگرکوئی شخص قرآن کوتاریخ کی کتاب سمجھ لے اوراس میں ساری انسانیت کے تاریخی واقعات تلاش کرناشروع کردے تووہ سخت غلطی کامرتکب ہوگاکیونکہ قرآن جب کسی ماضی کے واقعے کی طرف اشارہ کرتاہےتوبطور تاریخی حوالےکےنہیں بلکہ بطورہدایت[نصیحت،عبرت،ہمت وصبرپیداکرناوغیرہم]کرتاہے اوراسی پس منظرمیں رہ کرہی ان واقعات کی درست تفہیم ممکن ہے۔مثلاًحضرت یوسف علیہ السلام کاطویل قصہ بیان کرنے کے بعدسورہ یوسف کی آخری آیت میں قرآن کہتا ہے : (اگلے لوگوں کے ان واقعات میں ہوش مندوں کیلئےعبرت ہے)
ایسے ہی کسی سائنسی بیان کےبعدقرآن کہتاہے کہ اس میں عقل اورایمان والوں کیلئےاللہ کی نشانیاں ہیں یااس میں عقل والوں کیلئےعبرت کاسامان ہے وغیرہ۔دوسرے لفظوں میں قرآن کاکسی سائنسی حقیقت کوبیان کرنے کامقصدہرگزکسی سائنسی نظرئیے کی داغ بیل ڈالنا،لوگوں کوسائنس سکھانایا انسانوں کوتسخیرکائنات پرابھارنانہیں ہوتابلکہ ہدایت انسانی کی خاطراسے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرناہوتاہےجس پرغورکرکے وہ اصل حقیقت تک پہنچ کرخودکواپنے رب کےحضورجھکادے۔
یہ چندباتیں اختصارکے ساتھ اہل علم کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں۔کوئی ہرگزاس احساس کمتری میں مبتلانہ ہوکہ سائنس کو قرآن سےعلیحدہ کرنے سے خدانخواستہ معجزنماقرآن کی شان کم ہوجائےگی بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علم کی حقیقت سے ناواقفیت کی بناپرہمارے مفکرین نے سائنس کواسلامیانےکی خاطرجودعوے تراش رکھے ہیں وہ مغربی سائنس کی تاریخ سے تومیل کھاتے ہیں مگرتاریخ انبیاءاورقرآن کی بنیادی تعلیمات سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔نیز سائنسی علم کوقرآنی علوم میں جگہ دیناگویاایساہی ہے جیسے کوئی شخص کسی پاک،صاف اورشفاف پانی کی نہرمیں کہیں دوردرازسے ایک گدلے پانی کاپرنالہ گرانا شروع کردے۔ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے مفکرین کی ایسی تمام سعی اورکوششیں خلوص نیت پرہی مبنی ہیں لیکن صرف خلوص نیت کسی بات کے صحیح ہونے کامعیارنہیں بن سکتاجیسے کسی ماں کاکتنے ہی خلوص اورمحبت کے ساتھ اپنے بچے کوزہرپلادینابچے کیلئےتریاق نہیں بن سکتا۔آئیے دیکھیں کہ سائنسی علمیت کوقرآن پرمنطبق کرنےکے کیانتائج نکلے ہیں:
سائنس کاتصورحقیقت قبول کرلینے کادوسرالازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ علم کااصل منبع وحی نہیں بلکہ عقل انسانی ہے، نیزیہ کہ وحی تب ہی معتبر ہوگی کہ جب وہ سائنس کے اصولوں کے مطابق ہو۔دوسرے لفظوں میں وحی عقل پرنہیں بلکہ عقل وحی پرحاکم ہے۔یہ دعویٰ کہ سائنس کےذریعے حق تک پہنچناممکن ہے اس بات کااقرارہے کہ عقل کے ذریعےخیراورشر،حق اورباطل کاادراک کرلیناممکن ہے۔اوراگرعقل کے ذریعے ایساکرناممکن ہے توپھروحی،نبوت اورشریعت بے کارباتیں ہیں جن کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔یہی وہ رجحانات ہیں جوقرون اسلام میں معتزلہ فرقے کے ہاں پائے جاتےتھے جب انہوں نے عقل کووحی سے بالاترگرداناتوخودکوشریعت،نبوت اوروحی سے بےنیازسمجھنےلگے۔
یہ کوئی قصہ پارینہ ہی نہیں بلکہ اگرکوئی شخص اس رجحان کاعملی نظارہ کرناچاہتا ہے تووہ مغربی فلاسفہ اوران کے الحادی خیالات پربننے والے معاشروں کو دیکھ لے کہ جہاں عقل اورسائنس کی غیرمنطقی بالا دستی کے نتیجے میں فکرآخرت، خوف خدا، للہیت،عشق رسول،تقویٰ،عفت،حیا،زہد،فقر،قناعت وغیرہ جیسے مذہبی حقائق اوراعلی صفات کس طرح مہمل اوربے معنی ہوکررہ گئی ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان معاشروں میں بھی جدیدسائنسی علوم کی اعلی سطح پربالادستی کی وجہ سے اخروی نجات کے بجائے دنیاوی عیش وآرام،اصلاح وتسخیرقلب نیزعلم باطن کے حصول کی بجائے سائنسی ایجادات اورتسخیر کائنات کرنے کی فکراوررجحانات عام ہوتے جارہے ہیں جوایک نہایت خطرناک امرہے۔
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سائنسی علمیت کواسلام پر منطبق کرنے کے نتائج کیانکلتے ہیں۔اس کوشش کاایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اسلام کی تمام تعلیمات،بشمول اس کے عقائد،احکامات،اخلاقیات،وغیرہم،اصولی طورپرقابل ردہیں۔یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ فی زمانہ مروج سائنسی معیار علم کے مطابق صرف وہی باتیں اورمفروضات علم کہلانے کے مستحق ہیں جنہیں تجربےومشاہدے میں لاکرردکرناممکن ہو۔جومفروضات تجربے کی روشنی میں ناقابل ردہوں وہ قطعاً سائنسی علم نہیں ہو سکتے۔چنانچہ سائنس اورغیرسائنس میں تمیزکرنے والی شے یہ’امکان تردید‘ہی ہے ۔
اب دیکھئے کہ اس بات کی زدکہاں کہاں پڑتی ہے۔قرآن مجید سورہ بقرہ کے بالکل ابتدائی کلمات میں اپناتعارف ہی ان الفاظ سے کراتا ہے کہ”ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَارَيْبَ”یعنی اس میں بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے یاان میں شک کرنے کاکوئی امکان ہے ہی نہیں ۔ایک شخص کاایمان اس وقت تک معتبرہی نہیں ہوتاجب تک وہ اس بات پرکامل ایمان نہ رکھتاہوکہ اسلام کے بیان کردہ حقائق نا قابل رد ہیں۔اب علماءخود پڑتال کرسکتے ہیں کہ کیاایسے شخص کاایمان کوئی حیثیت رکھتاہے جواس بات کے امکان کوبھی مانتا ہوکہ قرآن وسنت میں بیان کردہ حقائق تجربے وغیرہ کی روشنی میں غلط ثابت کیے جاسکتے ہیں؟لہذایہ کہناکہ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے‘ایک مومن کے ایمان پرنقب لگانے کے مترادف ہے۔
دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ کرنالازم ہے وہ یہ کہ کسی علم کے سائنس کہلانے کیلئےیہ بھی ضروری ہے کہ وہ کبھی حتمی اورقطعی نہ ہو۔سائنسی علم وہی ہوتا ہے کہ جس میں ارتقاء کاعمل اورامکان ہمیشہ جاری رہے۔سائنس میں کوئی بھی حقیقت حتمی نہیں ہوتی۔اس کے تمام ترحقائق عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی جسے تجربے کی روشنی میں آج حقیقت سمجھ کرمان لیا گیاہے،ہوسکتاہے کل کوئی نیاتجربہ اس کی تردیدکردے اوروہ بات جسے اب تک حقیقت سمجھاجاتا تھابدل کرماضی کی حکایت اور آج کی گمراہی بن جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں دریافت شدہ حقائق اس وقت تک کی میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی روشنی میں ہوتے ہیں اورچونکہ مشاہدات ومدرکات میں تنوع اوروسعت کاامکان ہرلمحہ موجودرہتاہےاس لیے سائنس کے ہراصول و قاعدے میں تبدیلی وتغیرکاامکان ہروقت موجود رہتاہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کی دریافت کردہ کسی بھی حقیقت کو حتمی اورقطعی قرارنہیں دیاجاتا چنانچہ وہ علم جواس بات کادعویٰ کرے کہ اس میں جوبات کہہ دی گئی ہے وہ حتمی ،قطعی اور زمان ومکان کی قیودسے آزادہے ہرگزسائنس نہیں ہوسکتا۔
لہٰذایہ کہناکہ’’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے‘‘اس بات کے اعتراف کے مترادف ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام حقائق آفاقی اورابدی نہیں بلکہ عارضی ہیں۔نیزوقت اورحالات کے تبدیل ہونے سے ان کی حقانیت بدل سکتی ہے۔اب علماءکرام اس بات سے خوب واقف ہیں کہ جوشخص ایساایمان رکھتاہو اس کے ایمان کی حیثیت کیاہے۔اس قسم کےعقیدے کے بعدان دعووں میں آخرکیامعنویت رہ جاتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اورمحمد ﷺ ساری نوع انسانی کے ہرہرفرد،وقت اورمقام کیلئے راہ ہدایت متعین کرنے والے آخری رسول بناکربھیجے گئے ہیں؟
اسلام کوسائنسی علم کی کسوٹی کوپرپرکھنے کامنطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہرسودوسوسال کے بعدبنیادی عقائداوراحکامات میں تبدیلی لائی جائے اورہرصدی کے بعد احکام وقوانین ازسرنومرتب کیے جائیں۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے متجددین حضرات آئے دن اجتہادکے نام پردین اسلام کی نئی تعبیروتشریحات پیش کرتے رہتے ہیں اورانہیں علماءکرام سے بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ انھوں نے اجتہادکادروازہ بندکیوں کردیاہے۔ان متجددین کودراصل یہی غم کھائے جاتاہے کہ کسی طرح اسلام کوسائنسی علوم [چاہے وہ نیچرل ہوں یاسوشل سائنسز]کے عین مطابق ثابت کردکھائیں لیکن شایدوہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اسلام کوجس معیارعلم پر منطبق کرناچاہتے ہیں اس علم میں بذات خودکسی بات کے حق اورباطل پرہونے کی جانچ کرنے کاکوئی قطعی معیار موجودنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سواسوسال کے عرصے میں بلامبالغہ اسلام کی درجنوں تعبیرات پیش کی جاچکی ہیں اورہرنئی تعبیرپیش کرنے والے مفکرکایہی دعوی ہے کہ’’اصل اسلام‘‘توبس یہی ہے۔پس سائنس کی اتنی حقیقت جان لیناہی ایک ہوش مندشخص کی آنکھیں کھول دینے کیلئےکافی ہے مگرچونکہ ذہن سائنس کے سحراورکفرسے مغلوب ہوچکے ہیں تواس غلبے کورفع کرنے کی خاطران دلائل کاجائزہ لینابھی ضروری ہوجاتاہے جس کے سہارے جدید سائنس کواسلام کے مساوی یامتبادل حقیقت کے طورپر پیش کیاجاتاہے۔