Quetta Conference and the Renewal of Enlightenment

کوئٹہ کانفرنس اورروشن فکرکی تجدید

:Share

تاریخ کے لمحے جب کروٹ لیتے ہیں تواُن کی آہٹ صرف ایوانِ سلطنتوں میں نہیں سنائی دیتی،وہ قوموں کی روح میں اترکراُن کے مقدرکونئے افق عطاکرتی ہے۔آج کی دنیاجس انتشار، اضطراب اورتہذیبی بےسمتی میں گھری ہوئی ہے،وہاں طاقت کے دودیوتا —عقاب اوراژدہا—زمین کے نقشے رنگ رہے ہیں ، مگرانسانیت کاضمیراب بھی ایک ایسی صداکامنتظرہے جواسے اس مادی طوفان کے شورسے نکال کراپنے باطن کی طرف لے جائے۔

دنیاکی سیاسی بساط پرجونقشے بنتے اورمٹتے رہتے ہیں،وہ صرف طاقت کے معرکوں کی کہانی نہیں،یہ تہذیبوں کے خواب،قوموں کی روحوں میں اترتی صدیاں ،اورتاریخ کے وہ لمحے ہیں جوپوری انسانیت کے مقدرکادھارابدل دیتے ہیں۔آج جب زمین کی سیاست عقاب واژدہے کی کشمکش میں سلگ رہی ہے،جب طاقت کے عالمی ستون لرزرہے ہیں اورتہذیبوں کی جڑیں نئے سوالات کے سامنے ڈگمگارہی ہیں،ایسے میں امتِ مسلمہ ایک بارپھرتاریخ کے موڑپرکھڑی ہے؛بالکل ویسے ہی جیسے بدرکی ریت میں،قسطنطنیہ کے دروازوں پر،یاغرناطہ کی خاموش گلیوں میں۔

اسی ہنگامِ دوراں میں کوئٹہ کاشہر—جو تہذیبوں کے سنگم پرایستادہ اورصدیوں کی تہذیبی گواہیوں کاامین ہے—اچانک ایک نئے نور سے روشن اورایک ایسی فکری روشنی کامرکزبناہے جہاں علامہ اقبالؒ کاجہانِ فکرنئے سرے سے جگمگااٹھاہے۔یہاں منعقدہ سہ روزہ عالمی اقبال کانفرنس گویاقرونِ وسطیٰ کی دانش گاہوں،بغدادوقرطبہ کی علمی محفلوں،اوردہلی ولاہورمیں گونجتی اقبالؒ کی صداکا تسلسل بن گئی۔یہ اجتماع نہ صرف عالمِ اسلام کی فکری دھڑکنوں کویکجا کرتا ہے بلکہ عصرِحاضرکے ذہنی انتشارمیں روحِ اقبالؒ کی دوبارہ بیداری کااعلان بھی ہے۔

یہ اجتماع محض اہلِ علم کااکٹھ نہیں،یہ زمانے کی رفتارسے مکالمہ ہے؛ایک ایسامکالمہ جونوجوانوں کوبتاتاہے کہ نہ امریکی عقاب کی جارحیت میں کوئی نجات ہے اورنہ چینی اژدہے کی حکمت میں کوئی بے خطاراستہ۔راستہ صرف وہی ہے جس کی طرف اقبالؒ نے اشارہ کیا—شاہین کی آزادپرواز،خودی کی آگ،ایمان کی حرارت اورانسانیت کی خدمت کاجہان۔

یہ کانفرنس گویا تاریخ کے سینے پردستک ہے،امت کے سوئے ہوئے شعورکوجھنجھوڑنے کی ایک جرات ہے،اوراس یقین کااعلان ہے کہ اقبالؒ آج بھی زندہ ہیں،ان کاپیغام آج بھی منزلوں کاتعین کرتاہے اورآج بھی قوموں کے مقدرکا چراغ بن سکتاہے۔

یہ وہ ساعت ہے جس میں تاریخ،تہذیب اورفکرکی تمام ندیاں ایک دوسرے سے آملتی محسوس ہوتی ہیں؛اورکوئٹہ کایہ اجتماع اس بات کی روشن دلیل بن گیاہے کہ قومیں جب اپنے فکری مرکزکی طرف لوٹتی ہیں تواُن کی تقدیرنئے سرے سے لکھ دی جاتی ہے۔اس عظیم فکری توشہ خانے کی ترتیب وتکمیل میں جس اخلاص،جانفشانی اورمحبت کاکردارہے،اُس کاسہرا حافظ طاہر صاحب اوراُن کی پوری مخلص ٹیم کے سرہے—وہ ٹیم جونہ صرف اقبالؒ سے محبت رکھتی ہے،بلکہ اس محبت کوعمل کالباس پہناتی ہے۔اقبالؒ شناسی کی یہ مشعل انہوں نے اس اندازسے روشن کی ہے کہ بلوچستان ہی نہیں پوراپاکستان،پوراعالمِ اسلام اُن کاممنونِ احسان ہے۔

دنیاکے سیاسی افق پرجونقش ونگارابھررہے ہیں،وہ محض طاقت کے بدلتے ہوئے مراکزکی داستان نہیں بلکہ تہذیبوں کے باطنی میلان، فکری دھاروں اور تاریخی عمل کی گہری تہوں میں اترجانے والی وہ کروٹیں ہیں جوقوموں کی زندگی میں فیصلہ کن موڑبن جاتی ہیں۔ دنیاکی تاریخ صرف واقعات کی تکرارنہیں، قوموں کے مزاج اورتہذیبوں کے باطن میں چلتی ہوئی وہ خفیف مگرفیصلہ کن لہریں ہیں جو تمدن کی سمت متعین کرتی ہیں۔قومیں جب اپنے اندرجھانکنابھول جائیں توبیرونی علامتیں ان کے افکارپرنقوش ثبت کرتی چلی جاتی ہیں دنیاکی تاریخ کے اوراق پرجب ہم نظردوڑاتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ طاقت اور تہذیب ہمیشہ علامتوں میں سوچتی اوراستعاروں میں بولتی آئی ہے۔کبھی شیردبدبے کی علامت بنا،کبھی گھوڑاچستی کی،کبھی بازشاہانہ رعب کانشان ٹھہرااور کبھی اژدہاخوف اورحکمتِ عملی کامجموعی تصوربن گیا۔علامتیں قوموں کے مزاج،ان کے نفسیات اوران کی اجتماعی زندگی کی کشتی کودھارانوربناتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جدیددنیانے بھی اپنی سیاسی کہانی علامتوں سے لکھی:امریکاکاعقاب عسکری تسلط کانشان بناتوچین کااژدہااس کی تہذیبی حکمت،صبر،معاشی پھیلاؤ اوردیرپاتزویراتی مزاج کامظہرٹھہرا۔

عصرِحاضرمیں امریکاکے عقاب کوجس طرح قوت وغلبہ کااستعارہ بنایاگیاہے اورچین کے اژدہے کوحکمتِ عملی،معاشی رسوخ اور تہذیبی تسلسل کی علامت سمجھاجارہاہے،وہ دراصل دنیاکی ان دوہمہ گیرروایتوں کی ترجمانی ہے جوطاقت کے حصول میں مختلف راستے اپناتی ہیں۔آج کے سیاسی منظرنامے میں اگر امریکا کاعقاب طاقت کااستعارہ بن چکاہے اورچین کااژدہاقوت و حکمتِ عملی کا،تو یہ دونوں علامتیں دراصل طاقت کی اُس کشمکش کی ترجمان ہیں جواکیسویں صدی کے افق پرروزِاول کی طرح تازہ ہے۔مگرعلامہ اقبالؒ نے اپنے نوجوان کوان دونوں سے الگ اوربلندایک ایسی مخلوق سے نسبت دی جس کے پروں میں آفاق کی وسعت اورنگاہ میں بصیرت کی روشنی ہے۔

ایک جانب عسکری قوت،بین الاقوامی سیاست اورمالی بالادستی؛دوسری جانب تدبیر،صبر،وقت کی رفتارکواپنے حق میں موڑنے کی دیرینہ مہارت اور تہذیبی ضبط۔ لیکن علامہ محمد اقبالؒ نے جب اپنے نوجوان کوشاہین کہاتووہ ان دونوں روایتوں سے یکسرمختلف، ماورااورکہیں بالاترتصورلے کرسامنے آئے ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے نوجوان کوشاہین کہا،تووہ ان دونوں علامتوں سے کہیں ماورااورکہیں بالاترتصور لے کر سامنے آئے۔اقبالؒ کاشاہین نہ سامراجی عقاب ہے نہ کثیرالتہذیبی حکمت سے لبریزاژدہا۔اس کی اصل نہ غلبے میں ہے نہ چالاکی میں،بلکہ خودی کی اس لومیں ہے جس سے انسان اپنے اندرخداکی نیابت کا شعوربیدارکرتاہے۔یہی وہ بامعنی فرق ہے جو اقبالؒ کے شاہین کوعصرِحاضرکے عقاب اوراژدہے کی عالمی کشمکش میں ایک منفردمقام دیتاہے۔

امریکی عقاب طاقت وبرتری کی علامت ضرورہے،مگراس کی پروازکامدارزمین کے وسائل اوردنیاوی غلبے کی کششِ ثقل میں بندھا ہواہے۔ یہ عقاب جس آسمان کامسافرہے،وہ سیاست کے پیچ درپیچ، معیشت کی حرص اورعسکری قوت کے غرورسے بھراہواہے۔اس کی نگاہ تیزضرورہے،مگراس تیزی میں وہ خودغرضی شامل ہے جودوسروں کے آشیانوں کوتاراج کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتی۔ اقبالؒ کاشاہین اس کے برعکس ہے۔وہ خاکبازی سے آزاد،قیدوبند سے ماورا،اورغنیمتِ دنیاسے بے نیازہے۔وہ رزقِ حلال کی جستجومیں اپنی چونچ کومردارسے آلودہ نہیں کرتا۔وہ پہاڑوں کی تیزہواؤں میں پلتااوربلندمقامات کی خلوتوں میں اپنے آپ کوپہچانتاہے۔اقبالؒ کا شاہین دنیاوی تسلط کی علامت نہیں بلکہ خودی کی عظمت،روح کی آزادی اوراخلاقی بلندی کامژدہ ہے۔اس کی دنیامیں فتح وشکست کا معیاروہ نہیں جوسامراجی قوتیں طے کرتی ہیں۔وہ راستہ وہیں بنتادیکھتاہے جہاں دوسروں کیلئے صحرائے محشرکاساسناٹاہے۔گویا اقبالؒ نے نوجوانِ مسلم کواس بلندہمتی کی طرف بلایاجس میں طاقت،اخلاق کی دہلیزپارکیے بغیرجمال بن جائے۔

اقبالؒ کاشاہین ایک ایساکردارہے جس کی پروازکے پیچھے نہ شرقِ اقصیٰ کااژدہاہے نہ غربِ بعیدکاعقاب؛بلکہ اس کی پوری قوت اس کے باطن،اس کی خودی اوراس کی روحانی تربیت میں پوشیدہ ہے۔اقبالؒ نے بجاطورپرکہاکہ شاہین کارزق مردارنہیں اوراس کابسیرا بلندیوں میں ہے۔یہ محض ایک حیوانی صفت نہیں بلکہ نوجوانِ مسلم کی اس تطہیرِکردارکی طرف اشارہ ہے جس میں بلندہمتی،پاکیزگیِ خیال،قوتِ ارادی اوراخلاقی استقامت کاوہ امتزاج موجودہے جواسے دنیا کی طاقت کی روایتی علامتوں سے الگ کردیتاہے۔اس تمثیل کے تاریخی جوازکیلئےاگرہم اقبالؒ کے مکاتیب،خطبات اورعلمی مراجع کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلتاہے کہ انہوں نے یہ استعارہ محض شاعرانہ ذوق سے نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کے اس فکری سرمایہ سے لیاجو ابتدائے اسلام سے لے کرسلطنتِ عثمانیہ کے زوال تک اُمت کوبلندعزائم اورعالی ہمتوں کی دعوت دیتارہا۔’’تشکیلِ جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ‘‘(1930)میں اقبالؒ نے صراحت کی کہ مسلمان کی قوت اس کی اخلاقی خودمختاری اورخالق کے حضورجواب دہی میں مضمرہے،نہ کہ زمین کے وسائل پرقبضے میں۔یہی تصوربعد ازاں’’ضربِ کلیم‘‘اور’’بالِ جبریل ‘‘ کی شاہین تمثیل میں مزید واضح ہوتاہے۔

اقبالؒ کاشاہین محض ایک شعری تمثیل نہیں۔اس کی جڑیں اسلامی تاریخ،صوفیانہ رمزیت،اورقرآن وسنت کے تصوراتِ انسان میں پیوست ہیں۔عربی و اسلامی علامتی روایت کاجائزہ لیاجائے تواسلامی تہذیب میں پرندے کوہمیشہ بلندصفات کے استعارے کے طورپرلیا گیاہے۔قرآن مجیدمیں(سورۃ النحل، سورۃ الملک،سورۃ البقرہ،سورۃ فیل)پرندوں کاذکرحکمت،رزق کی تلاش اوربندگی کے شعورکے ساتھ آتاہے۔

حدیث شریف میں ایک مؤمن کی مثال اس پرندے سے دی گئی ہے جوصبح کواللہ پربھروساکرکے نکلتاہے اورشام کورزق لے کرآتا ہے —یعنی اعتماد،توکل اوررزقِ حلال کی تلاش۔اقبالؒ نے اسی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے نوجوان کیلئےشاہین کاانتخاب کیا۔

سلطنتِ عثمانیہ اور وسطی ایشیا کی ترک تاریخ میں شاہین کااستعارہ بکثرت ملتاہے۔ترک ومغل عسکریت میں بھی شاہین کوشکار،ذہانت،شجاعت اور شاہی وقارکی علامت سمجھاجاتاتھا۔مغل دربار کے شاہی نمونوں میں بھی شاہین باربارایک امتیازی نشان کے طورپر سامنے آتاہے۔اقبالؒ نے’’بالِ جبریل‘‘میں اسی ترک واسلامی روایت کوجدید حکمت کے ساتھ ملایا۔

تصوف میں بھی شاہین کوبلندپروازی کے استعارہ میں پیش کیاگیاہے۔ابن عربیؒ،رومیؒ اورعبدالکریم الجیلیؒ نے انسانِ کامل کوایک ایسے پرندے سے تشبیہ دی جواپنی اصل کی طرف پرواز کرتاہے۔اقبالؒ نے اسی روحانی تصورکوعملی زندگی کے ساتھ جوڑکرشاہین کا استعارہ تراشاہے۔ جوتجھے بلندکرے وہ خودی ہے، جو پست کرے وہ خواہش ہے۔

امریکی عقاب کی علامت کاتاریخی پس منظر1782ءسے ملتاہے جب’’گریٹ سیل آف دی یونائیٹڈاسٹیٹس‘‘میں بالڈایگل کوریاستی طاقت کانشان بنایاگیا۔ عقاب کی یہ علامت ایسے سیاسی مزاج کی عکاسی کرتی ہے جس میں عسکری غلبہ، جغرافیائی مداخلت،عالمی بالادستی کی خواہش،اورطاقت کے مظاہرکی مسلسل نمائش مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔چنانچہ یہ عقاب ہماری آنکھوں کے سامنے کئی دہائیوں سے ویتنام،عراق، افغانستان،لاطینی امریکااورمشرقِ وسطیٰ میں طاقت کاوہ مکروہ کھیل کھیلتارہاجس کامقصد”آزادی”کے نام پر جغرافیائی تسلط تھا۔

علامہ اقبالؒ اس رویے کواچھی طرح سمجھتے تھے۔1920ءکے بعدکے ان کے خطبات’’مسلمانوں کی موجودہ سیاسی صورتِ حال”اور’’تشکیلِ جدید‘‘میں امریکی ویورپی سامراجی ذہنیت کی گہری تنقیدملتی ہے۔

دوسری طرف چین میں اژدہاہزاروں سال سے چینی تہذیب کی علامت’’طاقت،حکمت،صبر‘‘کامجموعہ سمجھاجاتاہے۔وہ قوت جس میں عسکری جارحیت کم اورتزویراتی حکمتِ عملی زیادہ ہے۔تاریخِ چین(شاہی سلسلہ ہان،تانگ،منگ اورچنگ)میں اژدہے کوبادشاہ کی حکمت،قوم کی اجتماعی طاقت،ضبط وانتظار ، معاشی تنظیم کی علامت سمجھاجاتارہاہے۔آج کی جدید ریاستِ چین اسی تاریخی تصورکی سیاسی شکل ہے۔اس کابیلٹ اینڈروڈمنصوبہ ہویامعاشی رسوخ،سب تزویراتی صبراورتدریج کے فلسفے پرمبنی ہے۔

لیکن اقبالؒ کا شاہین—عقاب اور اژدہا سے مختلف کیوں ہے؟ اقبالؒ کا شاہین نہ سامراجی عقاب کی جارحیت رکھتا ہے، نہ چینی اژدہے کی زمینی حکمت۔ اس کی اصل قوت خودی، ایمانی فراست، رزقِ حلال، بےخوف پرواز اور اس کے باطن میں ہے۔

اقبالؒ کے یہاں شاہین کی خصوصیات ان دونوں تہذیبوں سے یکسرمختلف ہیں۔اقبالؒ کاشاہین بلندی کاخوگرپہاڑوں کی چوٹیوں پربسیرا کرتاہے،آزادمنش، قیدسے نفرت کرتاہے،پاکیزگی کی علامت ہے کہ مردارسے گریزکرتاہے،جرأت کی علامت ہے اورہرقسم کے خطرات سے بے نیازہے،اس کی خلوت اسے بلندیوں میں تنہائی اورتفکرعطاکرتی ہے اورسب سے اہم صفت اقبالؒ کاشاہین طاقت کا غلام نہیں،اخلاق کاامین ہے۔یہ وہ صفات ہیں جونہ امریکی عقاب میں ہیں نہ چینی اژدہے میں۔

یہاں اصل سوال یہ ہے کہ اقبالؒ کی خودی عقاب اوراژدہے کی اس عالمی کشمکش میں مسلم نوجوان کوکیاکردارعطاکرتی ہے؟خودی کا مفہوم،جواقبالؒ نے ’’جاویدنامہ‘‘(1932)،’’ارمغانِ حجاز‘‘(1938)،اور’’بالِ جبریل‘‘(1935)میں گہرائی کے ساتھ بیان کیا،بتاتاہے کہ مسلمان کااصل سرمایہ اس کی بیرونی طاقت نہیں بلکہ اس کی اندرونی تعمیرہے۔وہی تعمیرجوانسان کو زمین پراللہ کی خلافت کااہل بناتی ہے۔

اگرآج مسلمان ریاستیں محض طاقت کے ان دومراکز—امریکااورچین—کے درمیان دب کررہ جائیں تویہ ان کی اپنی فکری کمزوری کا نتیجہ ہے۔اقبالؒ نے اس کمزوری کاعلاج خودی میں بتایاہے۔خودی وہ قوت ہے جوانسان کواپنی آزادی کااحساس دیتی ہے،اسے غلامی سے بغاوت،ظلم سے ٹکراؤاوردنیاکے طاقتوروں کے سامنے سربلندرکھنے کاحوصلہ عطاکرتی ہے۔اگر امتِ مسلمہ اس خودی کے پیغام کوسمجھ لے تونہ عقاب کاسایہ اسے خوفزدہ کرسکتاہے،نہ اژدہے کی حکمت اسے شکست دے سکتی ہے۔

تاریخی اعتبارسے یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اپنی روحانی واخلاقی قوت پربھروساکیا،وہ دنیاکی مضبوط ترین طاقتوں کامقابلہ کرگئے۔ بدرو اُحدکی وادیاں،قسطنطنیہ کے مینار،غرناطہ کی فصیلیں اورسلطنتِ عثمانیہ کی تنظیمات—سب اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ خارجی قوتیں اُسی وقت مضبوط ہوتی ہیں جب باطن میں خودی کی آگ روشن ہو۔

مجددالفِ ثانیؒ کے مکتوبات سے لے کرشاہ ولی اللہ دہلویؒ کی’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘اورمولانامودودیؒ کی’’خطبات‘‘و’’تفہیم القرآن‘‘تک ایک ہی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے کہ مسلمان کااصل امتیازاس کااخلاقی تشخص اوراس کی فکری خودداری ہے۔اقبالؒ اسی روایت کاوہ روشن مینارہیں جسے بیسویں صدی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

لہٰذاآج جب دنیاعقاب کی جارحیت اوراژدہے کی حکمت کے بیچ تقسیم ہورہی ہے،اقبالؒ کاشاہین اب بھی راستہ دکھاسکتاہے۔شرط صرف یہ ہے کہ نوجوان اپنے باطن میں خودی کی وہ چنگاری پیداکریں جس کی روشنی میں راستے کے تمام سراب مٹ جائیں۔اوراگرامتِ مسلمہ اپنے علمی ورثے،دینی شعوراور تہذیبی وقارسے دوبارہ رشتہ استوارکرلے،توکھوئی ہوئی منزل محض ایک خواب نہ رہے گی بلکہ ایک زندہ حقیقت بن سکتی ہے—وہ حقیقت جس کااعلان اقبالؒ نے پوری دنیاکوسنایاتھاکہ:نفس کی تسخیرکے بغیرآفاق کی وسعتیں بےمعنی ہیں۔

علامہ اقبال کے مطابق،کائنات کی وسعتوں کوسمجھنایاان پردسترس حاصل کرنااس وقت تک بیکارہے جب تک انسان اپنے نفس پرقابو نہ پالے۔ان کاکہنا ہے کہ تسخیرِنفس(نفس پرکنٹرول ) تسخیرِآفاق(کائنات کوفتح کرنے)سے پہلے لازم ہے،کیونکہ بغیرخودی کی فتح کے بیرونی دنیاکوسمجھنااورفتح کرنابے معنی ہے۔

اقبالؒ کے فلسفے میں”خودی”کاتصورمرکزی ہے،جونفس کی تسخیرسے وابستہ ہے۔ان کے نزدیک،انسان جب اپنے نفس کوسنوارتااور اس پرقابوپاتاہے، تو اس میں کائنات کی حقیقت اوراس کی قوتوں کوسمجھنے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔اقبالؒ نے تسخیرِآفاق کوتسخیرِ نفس کی مشروط یامطلوبہ نتیجہ کے طورپرپیش کیا ہے۔جب تک انسان اپنی ذات کاتزکیہ نہیں کرتا،بیرونی دنیا کی فتح محض مادی حصول رہ جاتی ہے اوراس میں کوئی روحانی یاحقیقی معنی نہیں ہوتے۔یہ قول اقبال کی اس سوچ کی عکاسی کرتاہے کہ انسان کو پہلے اپنے اندرکی دنیاپرغلبہ حاصل کرناچاہیے، تاکہ وہ بیرونی دنیاکوصحیح معنوں میں سمجھ سکے اوراس پراپنے صحیح حق کادعویٰ کر سکے۔بغیراس کے،انسان کی تمام کوششیں اورحصول ادھورے اوربے معنی ہوں گے۔

اقبالؒ نے اپنی نظموں میں جن استعاروں کوبرتا،وہ محض شعری صناعت کاہنرنہیں بلکہ تہذیبی دعوتِ تعمیرہے۔آج جب عقاب اوراژدہا دنیاکی طاقت کے دوبڑے مراکزبن چکے ہیں، مسلم دنیاایک تماشائی کی طرح اس کشمکش کے بیچ کھڑی ہے۔اقبالؒ یہاں بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ان کے نزدیک قوتِ مسلم کاسرچشمہ نہ توعقاب کی جارحیت میں ہے اورنہ اژدہے کی حکمتِ عملی میں،بلکہ خودی کی اس آگ میں ہے جوانسان کواپنی اصل پہچان سے روشناس کردیتی ہے۔

یہی خودی،انسان کوخالق کے حضورجواب دہ بناتی ہے،اسے ظلم کے خلاف سینہ سپرہوناسکھاتی ہے،اسے قوت دیتی ہے کہ وہ طاقت کے مراکزکے سامنے دستِ سوال درازنہ کرے، اور اسے یہ حوصلہ عطاکرتی ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی منزل آزادی،وقاراورتہذیبی خودمختاری دوبارہ حاصل کرسکے۔

اگرمسلم نوجوان،اقبالؒ کے شاہین کی طرح خودی کے پہاڑوں پربسیراکرلے اوراپنے باطن میں وہ روشنی پیداکرے جوایمان،علم اور عمل سے پھوٹتی ہے توپھرنہ عقاب کاخوف باقی رہے گا،نہ اژدہے کاہیبت ناک سایہ۔پھرامتِ مسلمہ اپنے مقامِ بلندکوپانے کے قابل ہو جائے گی،وہ مقام جس کیلئےکبھی اقبالؒ نے کہاتھا:
حق بات کو لیکن میں چھپاکرنہیں رکھتا
توہے،تجھے جوکچھ نظرآتاہے،نہیں ہے!
اقبالؒ کے فکرِخودی کاتاریخی رشتہ اسلامی تاریخ کی اُس سنہری لڑی کاتسلسل ہے جوحضرت عمرؓکی عدالت،خالدبن ولیدکاعزم، صلاح الدین ایوبیؒ کاحلم، ٹیپو سلطانؒ کی مزاحمت،نورالدین زنگیؒ کاتقویٰ،اورسلطنتِ عثمانیہ کی شجاعت سے مل کربنی ہے۔

“اسرارِخودی”کے دیباچے میں اقبالؒ لکھتے ہیں کہ مسلمان کی اصل قوت اس کے باطن کی تعمیرہے۔
“رموزِبےخودی”میں وہ اسے امت کی اجتماعی وحدت سے جوڑتے ہیں۔
“جاوید نامہ”میں اسے روحانی کائنات کی وسعتوں سے ملاتے ہیں۔
“ارمغانِ حجاز”میں اسے عشقِ رسول ﷺ کی تکمیل پرچھوڑدیتے ہیں۔
یہ پوراتصورشاہین کی علامت بن کرسامنے آتاہے۔

آج دنیادوبڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش میں پھنسی ہوئی ہے،لیکن اقبالؒ نے یہ واضح کردیاتھاکہ اگرمسلمان اپنی خودی کوزندہ کرلیں، اپنافکری مرکزپہچان لیں ، اپنی روحانی طاقت کوحرکت میں لے آئیں،اورایمان وعلم کی بنیادپراپنی اجتماعی وحدت قائم کرلیں،تونہ عقاب کاسامراجی سایہ انہیں ڈراسکتاہے اورنہ اژدہے کی تہذیبی یلغارانہیں بلاثبوت محصورکرسکتی ہے۔ اقبالؒ نے’’بالِ جبریل‘‘”خداکے حضور”میں وہ نسخہ پیش کیاجوآج بھی عصرِحاضرمیں رہنمائی فراہم کرسکتاہے:
اے انفس وآفاق میں پیداتری آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ وپایندہ تری ذات
دنیاکی جنگیں خواہ معاشی ہوں،عسکری ہوں یاتزویراتی،اقبالؒ تاریخی تناظر میں امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی منزل کاحل تلاش کرتے ہیں۔یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ مسلم امت نے جب بھی اپنے مرکزسے دوری اختیارکی،زوال نے اس کاتعاقب کیا۔اندلس کے زوال سے لے کر بغدادکی تباہی تک،سلطنتِ عثمانیہ کی کمزوری سے لے کربرصغیرکی سیاسی شکست تک—ہردورمیں ایک ہی درس نمایاں تھا:قومیں اپنے باطن سے غافل ہوں توبیرونی طاقتیں ان پرمسلط ہوجاتی ہیں۔اقبالؒ اسی نقطے کی طرف لوٹاتے ہوئے کہتے ہیں:۔
خودی کوکربلنداتناکہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے خودپوچھے بتاتیری رضاکیاہے
یہ وہ نکتہ ہے جوامت کواپنی کھوئی منزل دوبارہ دلانے کاواحدراستہ ہے۔

اگرآج مسلم نوجوان اقبالؒ کے شاہین کواپناکرداربنالیں،اپنی خودی کوتعمیرکرلیں،اپنے ایمان کوحرارت دے لیں،اپنی علمی وراثت سے رشتہ جوڑلیں،اپنی اجتماعی وحدت کوبحال کرلیں،تودنیاکی طاقتیں ان پراثراندازنہیں ہوسکتیں۔دنیاکی تاریخ شاہدہے کہ جوقومیں اندر سے مضبوط ہوجائیں،انہیں بیرونی طوفان شکست نہیں دے سکتے۔اقبالؒ نے اسی یقین کوتاریخ،دین،انسان اورتہذیب کے آئینے میں دیکھ کرکہاتھا:
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارا
یہ ستارااگرچمک اٹھے توعقاب واژدہاکی جنگ میں بھی امت اپناراستہ خودتراش سکتی ہے اوراقبالؒ کے کلام سے امت مسلمہ ایک نئی صبح کاآغازکرسکتی ہے۔

اسی فکری پس منظرمیں اگرہم کوئٹہ کے تعمیرِنوٹرسٹ کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والی اس سہہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کاجائزہ لیں توحافظ طاہرصاحب—جوکہ ایک سول بیوریو کریٹ بطور سیکرٹری حکومت بلوچستان ہیں،کانام آج کے فکری افق پرایک مشعل بردار کے طورپرابھررہاہے جنہوں نے اقبالؒ شناسی کی نئی صبح کاسراغ لگانے کابیڑہ اٹھایا۔حافظ طاہر صاحب نے اپنے ساتھیوں کی شب وروزمحنت کے ساتھ اس عظیم الشان عالمی اقبالؒ کانفرنس کاکیاخوب اہتمام کرتے ہوئے یہ ثابت کردیااوران کے اخلاص اورعزم سے یہ حقیقت اوربھی نمایاں ہوگئی کہ اقبالؒ کی فکرآج بھی زندہ،فعال اورامتِ مسلمہ کی رہنمائی کیلئے نازک ترین وقت پرسامنے آنے والی روشنی ہے۔

حافظ طاہرصاحب نے گویااس سچ کوپھرسے نمایاں کردیاکہ اگردنیاسیاسی انتشار،تصادم اورفکری گمراہی کے اندھیروں میں گم ہوتی جارہی ہے تواس کیلئے اقبالؒ کاپیغامِ حیات—خودی، عمل، شجاعت اورخدمتِ انسانیت ایک ایساچراغ ہے جواب بھی نئی صبح کاسراغ دے سکتاہے۔وہ دردِ دل رکھنے والے ایسے دانشور ہیں جن کے سینے میں اقبالؒ کی فکرکاچراغ ابھی تک پوری آب وتاب سے روشن ہے۔ تعمیرِنوٹرسٹ کوئٹہ کی سرپرستی میں انہوں نے جس عزم اور حوصلے کے ساتھ پہلی بارسہہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقدکی،وہ صرف ایک اجتماع نہیں تھابلکہ اقبالؒ کی فکرکودوبارہ مرکزِگفتگو بنانے کی عملی جدوجہد تھی۔پاکستان کے گوشے گوشے سے،اور کئی ملکوں سے آنے والے اقبال شناسوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں کوایک صف میں رکھ کریہ اقرارکیاکہ:آج کے ہنگامہ خیزدورمیں اقبالؒ کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

حافظ طاہرصاحب نہ صرف اقبال شناس دانشورہیں بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سینے میں اقبالؒ کی فکرکاوہ تپتاہواچراغ موجود ہے جوآج کے فکری اندھیروں میں راستہ دکھاتاہے۔ان کی کاوشیں اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں کہ اگرچہ ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی،سیاسی افراتفری اورعالمی سطح پربڑھتے ہوئے تصادم سے دنیاایک عجیب بےسمتی کاشکارہے،لیکن اقبالؒ کی تعلیمات اب بھی امت کووہ مرکزِثقل عطاکرسکتی ہیں جہاں سے اس کی اجتماعی زندگی نئی توانائی حاصل کرسکتی ہے۔

یہ حقیقت قابلِ تحسین ہے کہ کوئٹہ جیسے شہرمیں حافظ طاہرصاحب نے اقبالؒ کے شیدائیوں کوجمع کرکے عالمی سطح کی پہلی سہہ روزہ کانفرنس منعقد کرکے وقت کی پکارکابروقت کامیاب جواب دیکربالعموم پاکستان اوربالخصوص بلوچستان کے نوجوانوں اور مقتدراداروں کوموجودہ سیاسی ظلمتوں میں روشنی کاوہ چراغ بلندکرکے راستہ دکھایاہے جس کی اس وقت اہم ضرورت ہے۔یہ محض انتظامی کامیابی نہیں تھی بلکہ ایک فکری احیاتھا۔اس کانفرنس میں پاکستان، ایران،مالدیپ،بنگلہ دیش،عراق،مراکش،وسطی ایشیااور دیگرعرب دنیاکےاقبال شناسوں نے شرکت کی ۔بنگلہ دیش سے آئے ہوئے محقق اور دانشور نے برملاحالیہ بنگلہ دیش میں آنے والے انقلاب کواقبالؒ کی تعلیمات سے جوڑتے ہوئے بتایاکہ کس طرح علامہ اقبالؒ کی شاعری نے وہاں کے نوجوانوں کے دلوں کے اندر خودی کاوہ جذبہ پیداکیاجس نے حسینہ واجد کی ظالم حکومت کوفرار ہونے پرمجبورکردیا۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اقبالؒ کی فکرآج بھی بین الاقوامی سطح پرزندہ ہے۔اس اجتماع میں’’تشکیلِ جدید‘‘،’’جاوید نامہ‘‘،’’اسرارو رموز‘‘،اور’’شعریاتِ اقبال‘‘پرانتہائی علمی مقالات پیش کیے گئے۔یہ وہ لمحہ تھاجس میں اقبالؒ کے شاہین کی آوازایک بارپھراجتماعی سطح پرسنی گئی۔

اس کانفرنس میں پاکستان سمیت مختلف ممالک کے اقبال شناسوں نے اقبالؒ کے کلام اورافکارپرنہ صرف تحقیق پیش کی بلکہ’’اسرارِ خودی‘‘(1915)اور ’’رموز بےخودی‘‘(1918) جیسے بنیادی متون کوعصرِحاضرکے تناظرمیں سمجھنے کی نئی جہتیں بھی پیداکیں۔ ’’خطبۂ الٰہ آباد‘‘(1930)اور’’پسِ چہ باید کرد‘‘(1936)کے تاریخی پس منظرکوبھی اس میں خاص اہمیت دی گئی،جن کابنیادی پیغام یہ ہے کہ مسلمان اگراپنے فکری مرکزسے جڑجائیں توزمانے کی تیزترتبدیلیاں ان کے رُخ کوموڑنے کی بجائے مضبوط کردیتی ہیں۔

دنیاکے سیاسی نقشے بدلتے رہیں،طاقتیں ادلتی بدلتی رہیں،مگراقبالؒ کاشاہین آج بھی ایک زندہ اورجاویدعلامت ہے۔اقبالؒ کاپیغام وقت کے دھارے میں کبھی پرانانہیں ہوتا۔آج جب دنیا طاقت کی دوعلامتوں—عقاب اوراژدہے—کے بیچ الجھی ہوئی ہے،اقبالؒ کاشاہین قوموں کو بتاتاہے کہ اصل طاقت درحقیقت روح کی پروازمیں ہے،نہ کہ زمین کی لادین سیاست میں۔خودداری،ایمان،اخلاق،جرأت اورروحانی بلندی کی علامت۔جب تک امتِ مسلمہ اس شاہین کی پروازکومحسوس نہیں کرے گی،اس کی تقدیردھندلکوں میں لپٹی رہے گی اورجب یہ پروازبیدارہوجائے گی تونہ عقاب کی جکڑباقی رہے گی نہ اژدہے کی حکمت کی ضرورت کیونکہ شاہین کی نگاہ جہاں پہنچتی ہے وہاں دنیاکے سارے سراب ماندپڑجاتے ہیں۔

یہ کانفرنس اگرچہ اپنے ایّام مکمل کرچکی ہے،مگراس کی فکری چمک ابھی شفق کی طرح آسمانِ اُمت پرپھیل رہی ہے۔تاہم یہ عظیم الشان بین الاقوامی اجتماع اپنے اختتام پرنہیں—بلکہ ایک نئی صبح کے آغازپرکھڑاہے۔یہ تین دن محض علمی گفتگونہیں تھے؛یہ تاریخ کے ساتھ ایک عہدِنوکی تجدیدتھی۔یہاں پیش کیے گئے افکارمیں وہی حرارت تھی جس نے کبھی بدرکے ریگزاروں کوطاقت بخشی، وہی بینائی تھی جس نے قسطنطنیہ کے دروازے کھولے،وہی روحانی وقار تھاجس نے غرناطہ کوصدیوں تک جِلابخشی،اوروہی اخلاقی استقامت تھی جواقبالؒ کےشاہین کوعصرِحاضرکے عقاب واژدہے سے بلندرکھتی ہے۔

عقاب اوراژدہے کی اس بےرحم دنیامیں جہاں طاقت کے بت بلندہورہے ہیں اوراخلاق کی بنیادیں لرزرہی ہیں،دنیاکی سیاست آج بھی طاقت کے انہی بُتوں کے گردگھوم رہی ہے، مگرکوئٹہ کی اس فکری بزم نے اعلان کیاکہ مسلمان کی تقدیرنہ واشنگٹن کی میزوں اور ایوانوں سے لکھی جاتی ہے،نہ بیجنگ کے نقشوں اورحکمتِ عملی سے—امتِ مسلمہ کی اصل توانائی تو اس کے اندرہے—اس کی خودی میں،اس کی روح کے استقلال میں،اوراس کے ایمان کی وہ حرارت جسے اقبالؒ نے شاہین کی پروازمیں مجسم دیکھا۔اُس کی تقدیر تواُس وقت روشن ہوتی ہے جب اُس کے دل میں خودی کی آگ جاگ اٹھتی ہے،جب اُس کی روح میں شاہین کی پروازتازہ ہوجاتی ہے، جب وہ اقبالؒ کے پیام کواپنارہنمابنالیتاہے۔

حافظ طاہرصاحب اورتعمیرِنوٹرسٹ کی یہ کوشش صرف ایک علمی کارنامہ نہیں،یہ تاریخ میں گونجتاہواوہ نغمہ ہے جونسلوں کوجگاتا ہے۔انہوں نے اس کانفرنس کے ذریعے ثابت کردیاکہ بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں میں بھی اقبالؒ کاپیغام اسی طرح گونجتاہے جیسے کبھی لاہورکی بادشاہی مسجد کے میناروں سے یادہلی کے کھنڈروں سے گونجاکرتاتھا۔اوریہ سب کچھ اس لیے ممکن ہواکہ حافظ طاہرصاحب نے اپنی محبت،اپنی بصیرت اوراپنے خلوص سے اس چراغ کوروشن کیامگریہ چراغ فقط اُن کے ہاتھ میں نہیں تھا—یہ اُن کی پوری ٹیم کی شبانہ روزمحنت، اخلاص، قربانی اورعزمِ مسلسل کاثمرتھا۔ان لوگوں نے کوئٹہ کی وادیوں میں ایساعلمی مینارکھڑاکیاہے جس کی روشنی اب پورے خطے میں پھیل رہی ہے۔

یہاں پیش کیے گئے مقالات،مکالمے اورفکرکے چراغ اس حقیقت کاثبوت ہیں کہ اقبالؒ کاشاہین آج بھی اُمت کی پیشانی کاستارہ بن سکتا ہے—اگرہم اس کی پروازکاپاس رکھیں۔دنیا بدل رہی ہے،طاقت کے مراکزتبدیل ہورہے ہیں،لیکن اقبالؒ کاپیغام نہ کبھی پراناہوانہ کبھی ہو سکے گا۔جب تک مسلمان نوجوان اپنی خودی کوبیدارنہ کریں،اپنی فکرکوروشن نہ کریں،اوراپنے اخلاق کانگہبان نہ بنیں،دنیاکے نقشے ان کے خلاف رہیں گے۔مگرجب ایک باریہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے تونہ عقاب کے پنجے اسے روک سکتے ہیں نہ اژدہے کی فلسفیانہ پھنکاراسے دھوکہ دے سکتی ہے۔

آخر میں،دعاہے کہ حافظ طاہرصاحب کی یہ سعیِ مشکور،یہ شبانہ روزمحنت،اوریہ عشق وآگہی سے بھرپورخدمتِ اقبالؒ،ان کیلئےدنیا وآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ بنے۔خداکرے کہ اس کانفرنس کی روشنی پورے عالمِ اسلام میں پھیل جائے،نوجوانوں کے دلوں میں خودی کی آگ دہکادے،اوراقبالؒ کاشاہین ایک بارپھرامت کواس کی کھوئی ہوئی صبح تک پہنچادے۔جب تک اقبالؒ کاشاہین زندہ ہے،امت کی صبح کبھی نہیں ڈھلتی۔یہی وہ امیدہے جس پرقوموں کا مستقبل کھڑاہوتاہے،اوریہی وہ عہدہے جوکوئٹہ کی اس عالمی اقبال کانفرنس نے دنیاکے سامنے ایک زندہ حقیقت کی طرح رکھ دیاہے۔اورآج—کوئٹہ نے ثابت کردیاہے کہ یہ شاہین اب بھی بیدارہے،اب بھی اپنی پروازکااعلان کررہاہے، اوراب بھی نسلوں کے مقدربدل سکتا ہے ۔

حافظ طاہرصاحب جیسے عاشقِ رسولﷺدانشوراورتعمیرنوٹرسٹ کوئٹہ بلوچستان کے تمام اکابرین اس پیغام کوزندہ رکھنے کی جو عملی کوشش کررہے ہیں، میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعاگوہوں کہ ان کی یہ شب وروزکی کاوشیں ان کی عقبیٰ ؤآخرت کی نجات کا وسیلہ بن جائیں اوریہی امیدکی وہ کرن ہے جو بتاتی ہے کہ اقبالؒ آج بھی زندہ ہیں،اوران کاشاہین آج بھی بیداری کی نئی صبح کاپیامبربن سکتا ہے۔

یہ ٹیم اس قابل ہے کہ اُمتِ مسلمہ ان کا شکریہ اداکرے،انہیں خراجِ تحسین پیش کرے،اور ان کے اس کارنامے کونئے فکری احیاءکا مقدمہ سمجھے۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ حافظ طاہرصاحب اوراُن کی پوری ٹیم کے اخلاص کوقبول فرمائے،ان کی کاوشوں کوان کیلئےدنیا و آخرت کی نجات کاوسیلہ بنائے،اوراس کانفرنس کی روشنی کوایک ایسے فکری سورج میں بدل دے جوامت کے سفرِجدیدکوسمت عطا کرے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں