ڈونلڈٹرمپ کے بطورصدرانتخاب نے نہ صرف امریکی سیاست بلکہ عالمی تعلقات میں بھی ایک نئی بحث کوجنم دیاہے۔ان کابے خوف اورغیرروایتی رویہ، مختلف معاملات پرسخت بیانات،اورفیصلے کرنے کامنفرداندازدنیابھرکے ممالک کیلئےحیرانی کاباعث بن رہاہے۔ان کی صدارت کے پہلے دورمیں گرین لینڈکوخریدنے کی پیشکش اوراب اس پر عسکری طاقت کے زور پرامریکامیں شامل کرنا،پاناما کینال اورکینیڈاپرسخت بیانات،غزہ کوپاک کرنے کے منصوبے کومصراوراردن کی جانب سے مستردکیاجانااور ٹی وی پرسی این این کی جگہ فاکس نیوزکے غالب آنے جیسے عوامل نے عالمی سیاست پرگہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
صحافیوں کے ساتھ 20منٹ کی گفتگوکے دوران ٹرمپ نے تصدیق کی کہ انہوں نے رات گئے کئی سرکاری اداروں کے آزاد نگرانوں کوبرطرف کردیا ہے۔اس اقدام نے امریکی سیاسی نظام میں نگرانی اورتوازن کے اصول کوکمزورکیا۔مزید برآں،انہوں نے کہاکہ امریکاگرین لینڈکواپنی سرزمین کے طورپرحاصل کرے گا،جس سے ان کے عالمی جغرافیائی عزائم ظاہرہوتے ہیں۔ٹرمپ نے مصراوراردن سے مزید فلسطینیوں کوپناہ دینے کامطالبہ کیا، جوبظاہرپورے فلسطین کواسرائیل میں ضم کرنے کی ایک خواہش کا عکاس ہے۔اس نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کومزیدبڑھادیاہے اورمسلم ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات کومزیدپیچیدہ بنایاہے۔
ٹرمپ کابے خوف رویہ اورغیرروایتی سیاست امریکی تاریخ کاایک منفردباب ہے۔ان کے دورحکومت نے عالمی سیاست میں ہلچل مچائی اورامریکا کے اندرونی اوربیرونی تعلقات کونئی جہت دی ہے تاہم ان کی پالیسیوں کے طویل المدتی اثرات کااندازہ لگاناابھی باقی ہے۔کیاان کا دورحکومت امریکاکو ایک مضبوط اورخودمختارملک بنائے گایایہ عالمی سیاست میں امریکاک ے کردارکوکمزور کرے گا؟یہ سوال وقت کے ساتھ مزیدواضح ہوگا۔سوال یہ ہے کیاٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پرچین خاموشی اختیار کرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھر شمالی کوریاکاخطرہ سامنے آکرٹرمپ کوپسپائی اختیار کرنے پرمجبورکردے گا۔کیاچین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااور ایران،افغانستان کے علاوہ روس کی مددسے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرورسوخ مزیدبڑھادے گا؟
سوال یہ ہے کیاٹرمپ کاموجودہ دورِاقتدارامریکاکومضبوط کرے گایامزیدکمزورکردے گا؟دنیاکے مختلف حصوں میں جاری جنگ کے شعلوں کوبجھانے کی کوشش ہوگی یاپھراس پرمزیدتیل چھڑک کرٹرمپ اپنے مقاصدکی تکمیل کے خواہاں ہیں؟کیا35ممالک سے زائد ممالک میں امریکی جارحیت کے جواب میں امریکاکے حصے میں جورسوائی آئی ہے،اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی یاامریکاکی مضبوط لابی ٹرمپ کوجاری پالیسیوں کے تسلسل سے پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دے گی؟یہ وہ تمام سوالات ہیں،جن کاآج کے مضمون میں جائزہ لینے کی کوش کرتے ہیں:
صدرٹرمپ کااپنی مرضی سے دنیاکوچلانے کاخواب،ان کی پالیسیوں،بیانات اورعالمی تعلقات پرواضح جھلکتاہے تاہم،دنیاایک پیچیدہ اورکثیرالجہتی نظام پرمبنی ہے جہاں طاقتورریاستوں کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے،علاقائی اتحاد،اورعوامی رائے بھی اہم کرداراداکرتے ہیں۔ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ اپنی خارجہ اورداخلی پالیسیوں کے ذریعے امریکا کی طاقت کوبلندکریں اوردنیا کے معاملات پراپنی مرضی مسلط کریں لیکن عالمی ردعمل،اندرونی مزاحمت اورعالمی نظام کی حقیقت ان کے راستے کی آہنی دیواریں ثابت ہوسکتی ہیں۔ان کی پالیسیاں جیسے مسلم ممالک پرسفری پابندیاں،ایران پرسخت پابندیاں،اوراتحادی ممالک کے ساتھ کشیدگی پیداکرنا،دنیاکے مختلف خطوں میں
امریکاکے اثرورسوخ کومحدودکررہی ہیں۔چین اورروس جیسے طاقتورممالک اس خلاکوپُرکرنے کیلئےآگے آ رہے ہیں۔موجودہ حالات بھی اس کااشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی سیاست میں بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کومکمل طورپرنافذکرنا ممکن نہیں۔کانگریس،عدلیہ،اورعوامی دباؤجیسے عوامل ان کےاختیارات کومحدودکرتے ہیں۔دنیاکوچلانے کیلئےنہ صرف طاقت،بلکہ تعاون،اعتماد، اورانصاف پرمبنی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ٹرمپ کے اقدامات، جیسے کہ فلسطین کے مسئلے پریکطرفہ اسرائیل کی حمایت،اوراتحادیوں کومالی دباؤمیں لانا،ان عناصرکے خلاف ہیں۔اس مضمون میں،ہم ان موضوعات کاتفصیل سے جائزہ لیں گے اوریہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ٹرمپ کاموجودہ دوراقتدارامریکاکو مضبوط کرے گایاکمزور۔
ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی پالیسیوں کاوعدہ کیاجوامریکی عوام کی ترجیحات کوسامنے رکھتی تھیں۔”امریکا فرسٹ،سب سے پہلے امریکا”کے نعرے نے عوام کویہ تاثردیا کہ ٹرمپ امریکاکوعالمی معاملات سے دوررکھتے ہوئے قومی مفادات پرتوجہ مرکوزکریں گے۔تاہم،ان کے اقدامات اوربیانات نے ایک مختلف تصویرپیش کی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے ڈنمارک کوگرین لینڈخریدنے کی پیشکش ایک غیرروایتی اورغیرمتوقع اقدام تھا۔اس پیشکش کوعالمی سطح پر حیرت اورمذاق کے ساتھ دیکھاگیا،لیکن اس نے امریکاکی جغرافیائی اوراقتصادی اسٹریٹجی پرروشنی ڈالی۔گرین لینڈقدرتی وسائل سے مالامال ہے اوراس کی جغرافیائی حیثیت چین اورروس کے اثرورسوخ کے خلاف ایک اہم دفاعی چوک ہے۔تاہم،ڈنمارک اور گرین لینڈکے حکام نے اس پیشکش کوسختی سے مستردکیا،جس سے ٹرمپ کومایوسی کاسامناکرناپڑا۔
برطانیہ کے مشہوراخبار” فنانشل ٹائمز”کے رچرڈملنز نے اپنے مضمون میں اس معاملے کی حساسیت اوراہمیت پرٹرمپ پالیسیوں پرمتنبہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ:ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ فریڈرکسن کے ساتھ 45منٹ کی فون کال کی، جسے پانچ موجودہ اورسابق سینئر یورپی حکام نے فنانشل ٹائمزکوآگ اورتصادم کے طورپربیان کیا۔حکام نے کہاکہ ڈنمارک کی حکومت”بحران کے موڈ”میں ہے جب ٹرمپ کی جانب سے نیٹوکے اتحادی سے علاقہ چھیننے کیلئے فوجی کاروائی کومسترد کرنے سے انکار کرنے اوراس کے خلاف ٹارگٹ ٹیرف کی دھمکی دینے کے بعدغیرمعمولی قدم اٹھایاگیا۔جزیرے کے شمال میں گرین لینڈ میں امریکاکاپہلے ہی واحدفوجی اڈہ موجودہے۔
وہ اپنے مضمون میں آگے چل کرلکھتے ہیں:یورپی ممالک ڈنمارک کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں پرخوداس کے کراس ہیئرزمیں شامل ہوئے بغیرردعمل ظاہرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ لوگوں نے فریڈرکسن پرزوردیاہے کہ وہ امریکی صدرکے خلاف “لڑائی”کریں۔اب تک،ڈنمارک کے وزیر اعظم نے اصرارکیا ہے کہ گرین لینڈ فروخت کیلئےنہیں ہے لیکن انہوں نے آرکٹک میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی کاخیرمقدم کیاہے۔
گرین لینڈ،پاناما کینال اورکینیڈاکے متعلق ٹرمپ کے بیان اورجوابی ردعمل پرپاناماکینال کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل میں تفصیلاً لکھ چکاہوں۔پاناماکینال جوکہ عالمی تجارت کیلئےایک اہم راستہ ہے،پرٹرمپ کے بیانات نے عالمی تجارتی نظام میں امریکاکی بالادستی کے بارے میں ان کے خیالات کوظاہرکیا اور کینیڈا کے بارے میں سخت بیانات اورتجارتی معاہدوں پردوبارہ مذاکرات کے مطالبات نے امریکاکے شمالی ہمسائے کے ساتھ تعلقات کوکشیدہ کرنے کے اقدامات ایک ایسے صدرکی عکاسی کرتے ہیں جو امریکاکے معاشی مفادات کوہرقیمت پرتحفظ دیناچاہتاہے،چاہے اس کیلئےدیرینہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی طرح اپنی انتخابی مہم میں ہی ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے حق میں کھل کرحمایت کامظاہرہ کرکے اپنی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کاعندیہ دے دیاتھا،جس کاثبوت یروشلم کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے اورامریکی سفارتخانے کووہاں منتقل کرنے میں نظرآیاتھا۔اب غزہ کو “پاک” کرنے کے منصوبے نے مشرق وسطیٰ میں مزیدتنازعات کوجنم دے دیا ہے۔مصراوراردن جیسے اہم عرب ممالک نے اس منصوبے کومستردکردیاہے جوکہ فلسطینی عوام کے حقوق کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔ان ممالک کے ردعمل نے ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں پرسوالیہ نشان لگادیے ہیں۔
ٹرمپ نے مصراوراردن سے مزیدفلسطینیوں کوپناہ دینے کامطالبہ کرتے ہوئے بادی النظرمیں فلسطین کواسرائیل کے نقشے میں ضم کرنے کی خواہش ظاہرکی ہے۔یہ مؤقف نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کیلئےخطرہ ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں مزید تنازعات کاباعث بھی بن سکتاہے۔عرب ممالک اور دیگرمسلم ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات مزیدخراب ہونے کاخدشہ ہے۔مزید مسلم ممالک کے شہریوں پرسفری پابندیاں عائدکرنے کے اقدامات سے امریکاکے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کوشدیدنقصان پہنچا ہے۔ان پالیسیوں نے امریکامیں موجودمسلم کمیونٹی کوالگ تھلگ کردیاہے اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوشدیدتشویش میں مبتلاکیا ہے۔
ٹرمپ نے ورلڈ اکنامک فورم میں اپنی تقریرکے دوران سعودی عرب سے کم ازکم ایک ہزاربلین ڈالرکی امریکا میں سرمایہ کاری اور450بلین ڈالرکی امریکی مصنوعات خریدنے کامطالبہ کیا۔اس اقدام نے امریکااورسعودی عرب کے تعلقات کواقتصادی بنیادوں پرمزیدمضبوط کرنے کی بجائے یہ ظاہر کیاکہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے اتحادیوں پرمالی دباؤڈالنے سے گریزنہیں کرتی۔اس قسم کی پالیسیاں وقتی طورپرامریکی معیشت کیلئےفائدہ مندہوسکتی ہیں، لیکن طویل المدتی میں یہ امریکاکے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچاسکتی ہیں۔
ٹرمپ نے روس کویوکرین میں جنگ بندی کیلئےمعاہدہ کرنے پردباؤ ڈالنے کیلئےروسی مصنوعات پرٹیرف بڑھانے کی دھمکی دی۔یہ اقدام ایک طرف روس پردباؤبڑھانے کیلئےتھا،لیکن دوسری طرف یہ امریکاکے تجارتی تعلقات کومزید پیچیدہ بناسکتاہے۔ روسی حکومت نے اس دھمکی کومستردکرتے ہوئے امریکاپرالزام عائدکیاکہ وہ یکطرفہ فیصلوں کے ذریعے عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہاہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا اورچین کے اثرورسوخ کومحدودکرنے کیلئےکواڈاتحادکو فعال کرنے کی حکمت عملی کاعندیہ بھی دیاہے۔اس حکمت عملی میں انڈیاکوایک اہم کرداردیاگیاتاکہ چین کی اقتصادی اورعسکری طاقت کامقابلہ کیاجاسکے۔ان اقدامات نے انڈیاکے ساتھ امریکاکے تعلقات کو مضبوط کیا،لیکن چین کے ساتھ تجارتی جنگ اورخطے میں تنازعات کومزیدگہراکیاہے۔کواڈاتحاد کی حکمت عملی نے جنوبی ایشیامیں طاقت کے توازن کو بھی متاثرکیاہے۔مودی سرکارخطے میں اپنی برتری کیلئے امریکااور اسرائیل کے کندھوں کواستعمال کرنے کیلئے امریکی خواہشات پرسربسجود ہوچکی ہے جس کی بناءپروہ پاک چین کی سرمایہ کاری سے بننے والے”سی پیک”کے خلاف پاکستان میں دہشتگردی کیلئے اپنی پراکسیزکواستعمال کررہاہے۔
گزشتہ برسوں میں اس نے چین کے سرحدی علاقوں لداخ میں چینی افواج کے ساتھ جھڑپوں میں اس کی خاصی قیمت اداکی ہے اور خودبھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھامیں یہ بیان دیاکہ چین نے بھارتی لداخ کے36ہزارمربع میل پرقبضہ کرلیاہے اوراب واپسی کی بجائے اس نے وہاں اپنے فوجیوں کیلئے مستقل کنکریٹ کے بینکرزتعمیرکرلئے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ اس نے یہ علاقہ مستقل طورپرچین میں شامل کرلیاہے۔اسی سلسلے میں بھارت کوایک اوردھچکادیتے ہوئے چین نے ہوتان پریفیکچر میں لداخ کے کچھ حصے شامل کرکے2نئی کاؤنٹیوں کے قیام کااعلان بھی کردیا۔دراصل بھارت کی وزارت خارجہ کی جانب سے واویلا خطے میں اس کی بالادستی کے خواب کولگے دھچکے کاردعمل ہے،بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی قبضہ جمارکھا ہے اوراب چین کے ہاتھوں اس کےساتھ بھی وہی ہواہے۔امریکاکوبھی بری طرح احساس ہوگیاہے کہ خطے میں پہلے ہی وارمیں اس کاگھوڑا لنگڑاہوگیاہے جس میں اب آگے چلنے کی نہ توہمت ہے اورنہ ہی اس میں سکت ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین پرٹیرف بڑھاکراسے معاشی دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاچین اس دباؤکے سامنے جھک جائے گا یااس کاجواب دے گا؟چین کی معیشت متنوع اورمضبوط ہے۔بیلٹ اینڈروڈانیشیٹوکے ذریعے چین نے دنیاکے کئی خطوں میں اپنااثرورسوخ قائم کیاہے۔چین کے پاس عالمی منڈی میں امریکاکے ٹیرف کاجواب دینے کیلئےمختلف آپشنزموجود ہیں،جیسے کہ امریکی مصنوعات پرپابندیاں عائدکرنایا دیگرممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کرنااورچین امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگاکرامریکی کسانوں اورصنعتوں کونشانہ بناسکتاہے،جیساکہ ماضی میں ہواہے۔اس سے امریکی معیشت پردباؤبڑھ سکتاہے اورٹرمپ کے ووٹربیس پرمنفی اثرپڑسکتاہے۔
چین نے حالیہ برسوں میں اپنی کرنسی،یوان کومضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔وہ دیگرممالک کے ساتھ تجارت میں ڈالرکی جگہ یوان کے استعمال کو فروغ دے کرامریکی مالیاتی نظام کوچیلنج کررہاہے۔وہ اپنی ضرورت کا40فیصدتیل ایران سے خریدرہاہے اور اس کی ادائیگی یوآن میں کررہاہے اوراسی طرح سعودی عرب میں درجن سے زائدبڑے پراجیکٹ چین تعمیرکررہاہے۔سعودی چینی بزنس کونسل کے چیئرمین محمد العجلان نے”الاخباریہ” کو انٹرویومیں کہا”دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین120ارب ڈالرتک پہنچ گیاہے اورچینی سرمایہ کاری کے حجم میں نمایاں اضافہ ہونے جارہا ہے ۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ چین شمالی کوریا کے ذریعے امریکاپردباؤڈال سکتاہے۔اگرشمالی کوریانے اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کیے تویہ ٹرمپ انتظامیہ کیلئےایک بڑی سفارتی شکست ہوسکتی ہے۔
ٹرمپ کے دورمیں میڈیاکے ساتھ تعلقات ایک اہم موضوع رہاہے۔سی این این اوردیگرلبرل میڈیاچینلزکے ساتھ ان کے تنازعات نے میڈیاکی آزادی پربحث کوجنم دیا۔ٹرمپ کی فاکس نیوزکوترجیح اوراس چینل کے ذریعے اپنی پالیسیوں کوعوام تک پہنچاناان کی میڈیاحکمت عملی کاحصہ رہا۔ اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ٹرمپ اپنی مرضی کابیانیہ تشکیل دینے میں کتنے سنجیدہ ہیں اورہم سب جانتے ہیں کہ فاکس نیوزچینل کوچلانے والے کون ہیں۔
ٹرمپ کے دورحکومت میں امیگریشن پالیسیوں میں سخت تبدیلیاں دیکھنے کوملیں۔میکسیکوکی سرحدپردیوارکی تعمیر،مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں،اورغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات نے عالمی سطح پرانسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقیدکوجنم دیا۔یہ پالیسیاں ان کے”سب سے پہلے امریکا”کے نعرے کی عکاسی کرتی ہیں لیکن ان کے نفاذنے امریکاکوایک کثیرالثقافتی ملک کے طورپرکمزورکیاہے۔
لیکن یہاں یہ جاننادلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ سخت گیرامیگریشن پالیسیوں کے ماسٹرمائنڈکون ہیں اوراس کے پیچھے خفیہ مقاصد کیاہیں جس کے تحت بالخصوص مسلمان ممالک کے شہریوں کونشانہ بنایاگیاہے۔سٹیفن ملر،جوڈونلڈٹرمپ کی انتظامیہ میں سینئرمشیررہے ہیں،امریکاکی سخت گیرامیگریشن پالیسیوں کے ماسٹرمائنڈسمجھے جاتے ہیں۔ان کی پالیسیاں امریکی سیاسی منظرنامے میں گہرے اثرات مرتب کرچکی ہیں،خاص طورپرغیرقانونی امیگریشن کے خلاف سخت اقدامات اورامریکاکے”پیدائشپرشہریت” کے قانون کے خاتمے کے حوالے سے ملرنے امریکی شناخت اورتحفظ کے نام پرایک متنازعہ بیانیہ پیش کیا،جوامیگریشن پالیسیوں کے سخت ہونے کاباعث بنا۔
سٹیفن ملر23اگست1985کوسانتامونیکا، کیلیفورنیامیں پیداہوا۔ اس کے والدین روسی یہودی مہاجرین کی اولادتھے،جوخودایک امیگریشن پس منظر رکھتے تھے۔تاہم ملرنے اپنی ابتدائی عمرسے ہی امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔ڈیوک یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد،وہ قدامت پسند سیاست میں شامل ہوگیااوربعد میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کے اہم رکن بنا۔وہ ٹرمپ کے”سب سے پہلے امریکا”کے ایجنڈے کانمایاں حمایتی رہااور امیگریشن کوامریکی معیشت،سیکیورٹی اورثقافت کیلئے خطرہ قرار دینے کی کوشش کی۔
ملرکی نگرانی میں ٹرمپ انتظامیہ نے کئی سخت گیرامیگریشن اقدامات متعارف کرائے،جن میں مسلم اکثریتی ممالک پرسفری پابندی،جنوبی سرحدپر دیوارکی تعمیراورپناہ کے قوانین میں سختی شامل تھی۔ان پالیسیوں کامقصدبظاہرغیرقانونی تارکین وطن کوروکنااورقانونی امیگریشن کوبھی محدود کرنا تھا۔ملرنے ان پالیسیوں کوامریکی معیشت اورثقافت کے تحفظ کیلئے ضروری قرار دیالیکن ناقدین نے انہیں نسل پرستی اورتعصب پرمبنی قراردیا۔
امریکامیں”پیدائش پرشہریت”کاقانون آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت حاصل ہے،جس کے مطابق امریکامیں پیداہونے والاہربچہ خودبخودامریکی شہری بن جاتاہے۔تاہم ٹرمپ اورملرنے اس قانون کوختم کرنے کیلئے ایگزیکٹوآرڈرپردستخط کرنے کاارادہ ظاہر کیا۔ان کامؤقف ہے کہ یہ قانون غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کوغیرضروری طورپرشہریت فراہم کرتاہے جوکہ امریکی وسائل پربوجھ بنتے ہیں۔آئینی ماہرین کے مطابق”پیدائش پرشہریت”کاقانون چودھویں ترمیم کے تحت محفوظ ہے اوراسے ایگزیکٹوآرڈرکے ذریعے تبدیل کرناممکن نہیں۔قانون میں ترمیم کیلئے کانگریس کی منظوری یاسپریم کورٹ کی تشریح ضروری ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے یہ معاملہ قانونی سطح پرچیلنج کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن اس کے عملی امکانات محدودنظرآتے ہیں۔
سٹیفن ملرکی پالیسیاں اوراس کے سخت گیراورمتعصبانہ نظریات امریکی سیاست میں امیگریشن کے حوالے سے گہرے اختلافات کی عکاسی کرتے ہیں ۔اگرچہ ان کامقصدامریکی مفادات کاتحفظ قراردیاگیالیکن ان کے اقدامات نے انسانی حقوق،آئینی اصولوں، اورسماجی مساوات کے مسائل کوبھی اجاگرکیاہے۔ٹرمپ کے دورحکومت میں یہ کوششیں توجہ کامرکزرہے گی لیکن آئندہ حکومتوں کیلئے یہ ایک متنازعہ ورثہ چھوڑجائے گی۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیاتھاکہ وہ نئی جنگوں سے گریزکریں گے اورجاری جنگوں سے باہرنکلیں گے۔تاہم،ان کی خارجہ پالیسی ان وعدوں سے متصادم نظرآئی۔ایران کے ساتھ کشیدگی،افغانستان سے مکمل انخلامیں امریکاجیسی سپرپاورکی ناکامی،اورشام میں امریکی مداخلت کے جاری رہنے نے ان وعدوں کی حقیقت پرسوال اٹھائے ہیں۔اگرآپ کویادہوتو ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں افغانستان میں جس بہیمانہ اندازمیں”بموں کی ماں”کابے دریغ استعمال کیاتھا،لیکن اس کے باوجودانہیں پاکستان کے توسط سے دوحہ میں انہی طالبان کے سامنے ان کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بعد امریکی افواج کابراستہ پاکستان انخلاء ممکن ہوسکاتھا۔
ٹرمپ کابینہ کے خارجہ سیکرٹری کی جانب سے اسامہ بن لادن کے سرکی قیمت سے زیادہ افغانستان کے حکمران طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت لگانے کاعندیہ ایک نیاموڑہے۔یہ پالیسی خطے میں عدم استحکام کاباعث بن سکتی ہے کیونکہ طالبان کے خلاف اس قسم کے اقدامات ان کے ردعمل کو مزیدشدت دے سکتے ہیں۔یہ نہ صرف افغانستان میں امریکی مفادات کونقصان پہنچا سکتاہے بلکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک پربھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان پردباؤڈالنے کی امریکی کوششیں بھی ناکام دکھائی دیتی ہیں کیونکہ سی پیک چین کے بیلٹ اینڈروڈ انیشیٹوکاایک اہم حصہ ہے اور اس پردباؤڈالنے کامقصدچین کے اثرورسوخ کومحدودکرناہے۔تاہم یہ دباؤ پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے،جونہ صرف پاک-امریکا تعلقات کومتاثرکر سکتا ہے بلکہ خطے میں امریکاکیلئےمزیدمشکلات پیداکرسکتاہے۔
مزیدمسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات سے امریکا کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کوشدید نقصان پہنچاہے۔ان پالیسیوں نے امریکامیں موجود مسلم کمیونٹی کوالگ تھلگ کردیاہے اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوشدید تشویش میں مبتلاکیاہے۔یہ اقدامات امریکاکے عالمی اثرورسوخ کوکمزورکرسکتے ہیں،کیونکہ مسلم ممالک میں ان پالیسیوں کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کوملاہے۔
صدرٹرمپ نے دعویٰ کیاکہ ان کے برطانیہ کے وزیراعظم سرکیئرسٹارمرکے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں،باوجوداس کے کہ وہ لبرل ہیں لیکن ان کی پالیسیاں برطانیہ میں مقیم برٹش مسلمانوں میں شکوک وشبہات کوبڑھارہی ہیں،جوان کے بیانات اورپالیسیوں کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ بات ظاہرکرتی ہے کہ ٹرمپ اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں لاناچاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ان مذموم مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے تاہم ایک کاروباری ذہن کے مالک نے اپنے ووٹرزکوخوش کرنے کیلئے یہ بیان تودیاہے لیکن وقت آنے پریہ خوش گمانی ختم ہوجائے گی اورٹرمپ اپنے حامیوں سے یہ کہہ کربری الذمہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے توپوری کوشش کی لیکن مقامی حالات ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔
ٹرمپ نے اپنی وائٹ ہاؤس واپسی کے ابتدائی دنوں میں واضح کردیاکہ وہ ایگزیکٹواختیارات کابڑی حدتک استعمال کرکے ملک کو بدلنے کاارادہ رکھتے ہیں ۔یہ تبدیلیاں وقتی طورپرتوامریکی معیشت یاسیاست میں کچھ فوائد فراہم کرسکتی ہیں،لیکن طویل مدت میں یہ امریکاکے جمہوری ڈھانچے کونقصان پہنچا سکتی ہیں۔اس لئے ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات کاتجزیہ کرتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ ان کادورحکومت امریکاکومضبوط کرے گایاکمزور۔ان کے اقدامات نے اندرون ملک عوام کوتقسیم کیاہے اورامریکاکی عالمی حیثیت کوچیلنجزکاسامناہے۔
ٹرمپ کےٹیکس کٹوتیوں کے حکم سے امریکی معیشت میں بہتری دیکھنے کوملی ہے۔انہوں نے قومی مفادات پرتوجہ دیتے ہوئے اس کواولین ترجیح دی ہے جوان کے ووٹرزکیلئےایک مثبت پہلوتھالیکن دوسری طرف انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کادعویٰ کرنے والے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں نے امریکا کی اخلاقی حیثیت کوکمزورکردیاہے۔
ٹرمپ کی یورپی اتحادیوں،کینیڈا،اورمیکسیکوکے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے جہاں امریکاکی سفارتی طاقت کونقصان پہنچایاوہاں ٹرمپ کی پالیسیوں نے چین اورروس کوعالمی سطح پراپنااثرو رسوخ بڑھانے کاموقع فراہم کیاہے۔ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں اور ایگزیکٹواختیارات کے غیرمعمولی استعمال نے امریکاکوایک ایسی راہ پرڈال دیاہے جہاں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کمزورہورہے ہیں اورعالمی سیاست میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔یہ پالیسیزوقتی طورپرامریکاکے مفادات کوفائدہ پہنچاسکتی ہیں لیکن طویل المدتی میں یہ امریکاکی عالمی حیثیت کونقصان پہنچا سکتی ہیں۔دنیاایک پیچیدہ اورباہم جڑی ہوئی جگہ ہے،اورکسی بھی عالمی طاقت کو اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش بالآخرمشکلات کوجنم دیتی ہے۔امریکاکی کامیابی باہمی تعاون،سفارتی حکمت عملی، اور اندرونی استحکام پرمنحصرہے اوریہی اصول اس کی عالمی قیادت کوبرقراررکھنے کیلئےناگزیرہیں۔
ٹرمپ اپنی مرضی سے دنیاکوتونہیں چلاسکتے لیکن وہ عالمی نظام کوچیلنج ضرورکرسکتے ہیں۔ان کی پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات امریکاکی ساکھ اورعالمی قیادت کی حیثیت پربھی اثراندازہوں گے۔ان کایہ رویہ وقتی طورپرداخلی حمایت حاصل کرسکتا ہے لیکن طویل المدتی میں اس کااثرنقصان دہ ہوسکتاہے ۔ٹرمپ کے جارحانہ بیانات اورپالیسیوں سے یہ تاثرملتاہے کہ وہ دنیاکو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔تاہم عالمی سیاست میں یکطرفہ فیصلے اکثرردعمل اورمخالفت کوجنم دیتے ہیں۔ چین،روس،ایران،اوردیگرطاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئےاقدامات اٹھارہی ہیں۔شمالی کوریا کاخطرہ،سی پیک کی مضبوطی اور مشرق وسطیٰ میں چین اورروس کی شراکت داری امریکاکیلئےچیلنجزپیداکرسکتی ہیں۔
ٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پرکیاچین خاموشی اختیارکرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھرشمالی کوریاکا خطرہ سامنے آکرٹرمپ کوپسپائی اختیارکرنے پرمجبورکردے گا۔کیاچین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااورایران،افغانستان کے علاوہ روس کی مددسے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرو رسوخ مزیدبڑھادے گا۔اس کاجواب اگلے چندمہینوں میں اس وقت واضح ہوجائے گاجب ٹرمپ کے جاری کردہ بہت سے ایگزیکٹوآرڈرمنہ چھپاتے پھریں گے۔