آلِ شریف کانیاسیاسی امتحان؟

:Share

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے100دنوں کی کارکردگی عوام کے سامنے لاکراس کی غیرمعمولی پذیرائی کی جوتمنااپنے دل میں پال رکھی تھی ،وہ اپنے منشورپرعمل میں کوئی پیش رفت کرسکی یانہیں،اپنے دعوؤں کو پوراکرنے میں کتنی توجہ رہی اورکامیابی کی کیاصورت رہی یاحکومت نے اہم قومی امورپرکوئی واضح پالیسی وضع کی یانہیں،عوام کی اس پرگہری نگاہ ہے اوراب توپی ٹی آئی کے ووٹروں کی اکثریت بھی سخت نالاں اورمایوس نظرآتی ہے۔اب ان سوالات کاجواب حاصل کرنے کیلئے جتنی بھی محنت اورتحقیق کی جائے توایک ہی جواب سامنے آئے گاکہ پی ٹی آئی نے اپنی کارکردگی کاآغازجوبلاتفریق احتساب اورکڑااحتساب کاجونعرہ اوراس پر جو عملدرآمدشروع کررکھاہے،اب اس پربھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور اب تک احتساب کے اس عمل کاپہلااورابھی تک ہدف اپوزیشن جماعتیں ،ان کی قیادت اورقیادتوں کے قریبی ساتھی ہیں۔
میاں نوازشریف اوران کی جماعت مسلم لیگ ن سے چونکہ اقتدارپی ٹی آئی کی جھولی میں منتقل ہواہے،اس لئے احتسابی نزلہ کاپوارازوراسی پرگر رہا ہے۔ایک طرف نوازشریف العزیزیہ کیس نیب میں بھگت رہے ہیں اور24دسمبریعنی آج اس مقدمے کافیصلہ متوقع ہے اوردوسری طرف سپریم کورٹ میں ان کی سزاکی معطلی کے فیصلے کوچیلنج کئے جانے کے بعد اگرچہ نسبتاً یہی تاریخ دے دی گئی ہے لیکن جوریمارکس اب تک سامنے آئے ہیں اورفاضل جج صاحبان نے سزامعطلی کے خلاف اپیل پراپنے ذہن ورحجان کی جس طرح عکاسی کی ہے اس سے صاف لگ رہاہے کہ نوازشریف اور مریم نوازکااسلام آبادہائی کورٹ کافیصلہ ریورس ہوسکتاہے۔اس صورتحال نے نواز شریف،شریف خاندان اوران کی نوازلیگ کے بڑے چھوٹوں کو خدشات میں مبتلا کررکھاہے۔
جس طرح نیب عدالت نے ایون فیلڈکیس میں سزاسے پہلے شریف خاندان اورنوازلیگ کی قیادت پوری طرح یکسوہوچکی تھی کہ عدالت سے سزا یقینی ہے،اب بھی تقریباً وہی صور تحال ہے بلکہ بعض کے خیال میں اس صورتحال سے اب معاملہ زیادہ گھمبیراورمایوس کن ہے۔نوازشریف اور مریم نوازکی سزامعطلی کے خلاف اپیل کے منظورکرنے کادھڑکابھی ہے اورالعزیزیہ کیس میں نیب عدالت سے نئی سزاکی تلواربھی سروں پرلٹکتی محسوس کی جارہی ہے۔گزشتہ دنوں نواز شریف کا342کے تحت بیان ریکارڈکراتے ہوئے جذباتی ہوجانا بھی انہی احساسات کااظہارتھاجس میں انہوں نے بڑے جذباتی اندازمیں کہاکہ:بچے بیرون ملک کاروبارنہ کرتے توبھیک مانگتے، ساری دنیاکے بچے باہرپڑھنے،کمانے جاتے ہیں اوررقوم بھی بھیجتے ہیں ،میرے بچوں نے ایسا کیامختلف کیا؟حکومت دھکے دیکرجلاوطن نہ کرتی توبچے آج یہاں کاروبارکررہے ہوتے۔میرے بیٹوں نے باہرکاروبارکرلیاتوکون سا عجوبہ ہوگیا،یہاں کاروبارکریں تومصیبت،بیرون ملک کام کریں تومصیبت!اس جذباتی اندازکے باعث اپنابیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ان کی زبان بھی پھسل گئی اور انہوں نے یہ کہہ دیاکہ بیٹوں کابیان میرے خلاف بطورشواہدپیش کیاجاسکتاہے تاہم وکیل صفائی نے اصلاح کردی۔
اس ذہنی کیفیت کے ساتھ نوازشریف اوردیگراہل خانہ اس وقت سخت مشکل میں گھرے ہوئے ہیں ۔مریم نوازجنہیں پچھلے سال کے وسط کے بعدسے متبادل لیگی قائدکے طورپردیکھاجانے کارحجان پیداہوگیاتھا،دوماہ سے زائدعرصہ ہوا،سزامعطلی کے عدالتی فیصلے کے باوجودمکمل چپ کاروزہ رکھاہواہے اورمخالفین کامیڈیامیں مختلف اکسانے والے بیانات کے باوجودابھی تک ان کی طرف سے کوئی جوابی بیان نہیں آیا۔سیاسی امورپر خود نوازشریف نے بھی مکمل خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراب پچھلے چنددنوں سے انتہائی اختصارکے ساتھ میڈیا میں ان کی واپسی ہوئی ہے۔پارٹی کے سیاسی لوگوں سے سیاسی امورپرمشاورت کی بھی کوئی خبرسامنے نہیں آرہی۔پارٹی اجلاس بلارہے ہیں،نہ کسی سیاسی پیش رفت پر کوئی تبصرہ سامنے آرہاہے بلکہ عدالت کے باہرمیڈیاسے جب ٹاکراہوجائے توکہہ دیتے ہیں کہ میں آج کل میڈیانہیں دیکھ رہا،یقیناًیہ تجاہل عارفانہ بلاوجہ نہیں ہے،نہ ہی نواز شریف کااسلام آبادسے مری جاکربسیراکئے رکھنااورپارٹی کے اہم ترین رہنماؤں سمیت سابقہ صدرپاکستان ممنون حسین وغیرہ سے ملاقات سے شعوری گریزبے سبب ہے لیکن اتفاق ہے کہ نوازشریف اورمریم نوازکی خاموشی کارگرثابت ہورہی ہے،نہ شہبازشریف کی احتیاط پسندانہ اوراعتدال پسندانہ سیاسی روش،بلکہ حالت یہ ہے کہ اب خودصدرمسلم لیگ نوازاورقومی اسمبلی میں قائداحزبِ اختلاف بھی گرفتارہوکر نیب میں ایک دونہیں کئی کئی انکوائریاں اورمقدمات کی زدمیں ہیں۔
یہی وہ پس منظرنامہ ہے جس میں شریف خاندان اورنوازلیگ کی مشکلات غیرمعمولی طورپر بڑھی ہوئی نظرآتی ہیں حتیٰ کہ پارٹی قیادت بھی شریف خاندان سے باہرجانے کاخطرہ پیداہورہا ہے ۔پارٹی کے اندراگرچہ کسی باضابطہ مشاورت،غوروفکراورمیل ملاقات کاکوئی سسٹم اب عملاً باقی نہیں رہالیکن غیررسمی رابطوں،ملاقاتوں،نشست وبرخاست میں یہ ضروردیکھاجارہاہے کہ پارٹی کوقائم رکھنے اورمیدان میں کھڑے رکھنے کیلئے کچھ فیصلے ضرورکرناپڑیں گے۔اس لحاظ سے پارٹی کے حلقوں کی یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ حمزہ شہباز جن کانام ان کے چھوٹے بھائی سلمان شہباز سمیت نیب نے ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کردی ہے اورمتعلقہ کمیٹی اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے ۔سلمان شہباز جنہیں ان دنوں شہباز شریف اوران کے بچوں کے تمام ترکاروباری معاملات کانگران ماناجاتاہے،نیب میں طلبی کے باوجودچپکے سے لندن جابیٹھے ہیں۔ گویانیب کے ادارے بھانپتے ہوئے ہی سلمان شہبازکوان کے بڑوں نے حسین نواز،حسن نوازاور اسحاق ڈارکی رفاقت وقربت میں جابسنے کاکہہ دیاتاکہ نسبتاًمحفوظ علاقے میں پناہ گزین ہوسکیں ۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں قائدحزبِ اختلاف حمزہ شہبازکی گرفتاری کے خدشے سے بھی شریف خاندان اورنوازلیگ بچی ہوئی نہیں ہے۔
شریف خاندان کے پاکستان میں موجوداہم ترین افرادکی دوملاقاتیں نیب لاہورکی حوالات میں ہوئی ۔ یہ پہلاموقع تھاکہ مریم نوازبھی اپنے والدنواز شریف اورکزن حمزہ شہبازکی معیت میں اپنے چچا شہبازشریف سے ملنے گئیں۔19ستمبرکورہائی کے بعدسے اب تک گھرسے باہریہ ان کاپہلی سرگرمی تھی جومیڈیاکی زینت بنی لیکن اس خاص ملاقات میں کسی بھی فیصلے کی تفصیلات ابھی تک منظرعام پرنہیں آسکیں اغلباً نیب کی حوالات میں ہمہ وقت نگرانی کرنے والے کیمروں کی وجہ سے شریف خاندان بہت ہی محتاط ہے اوریقیناًان کی مشاورت میں اس بات کابھی مکمل خیال رکھاگیاہوگاالبتہ یہ طے ہے کہ شریف خاندان کے خلاف انکوائریاں،مقدمات اورنیب عدالتوں کے پرانے والے کل کے فیصلوں کے علاوہ نوازلیگ کامستقبل اورملک کی مجموعی سیاسی صورتحال زیربحث آئی ہوگی۔تین گھنٹوں پرمحیط یہ غیرمعمولی ملاقات کے بعدبھی پارٹی کے اکثررہنماء اس امر سے آگاہ نہیں کہ ان کی جماعت سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اگلے دنوں کیاکرسکتی ہے اورکیانہیں تاہم یہ ضرورہے کہ پارٹی میں یہ بحث ضرور شروع ہوگئی ہے کہ حمزہ شہبازکے بعد پارٹی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی تاہم شنیدیہ ہے کہ پارٹی کاایک بورڈقیادت کاکام کرے گا۔
پارٹی کی باگ ڈورکے امکانی ماحول میں شاہدخاقان عباسی کوزیادہ اہم سمجھاجارہاہے کہ بطور وزیراعظم انہوں نے شریف خاندان اورپارٹی قیادت کے اعتمادمیں اضافہ کیا،کمی نہیں کی،حتیٰ کہ اب پارلیمان میں براستہ لاہورپہنچنے کے بعدبھی ان کی پارٹی قیادت کے ساتھ وفاداری پہلے سے بھی زیادہ چمک کرظاہرہوئی ہے ۔اس لئے پارٹی رہنماؤں میں اکثریت سمجھتی ہے کہ شریف خاندان کے بارے میں نیب اورعدالتوں کے سطح پرآنے والے دنوں کے فیصلوں کے بعدشاہدخاقان عباسی ہی پارلیمانی اورپارٹی دونوں کی سطح پر قیادت کیلئے موزوں ترین رہنماء ہوسکتے ہیں تاکہ نوازشریف کی 1999ء کی جلاوطنی کے دنوں میں جاویدہاشمی کی صدارت میں جس طرح قائم مقام صدر بن گیاتھااب سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کواس مشکل گھڑی میں بھی نہ صرف قائم مقام پارٹی صدربنادیاجائے بلکہ قومی اسمبلی میں بھی انہیں ڈپٹی اپوزیشن لیڈربناکرباضابطہ طورپرنوازلیگ کاپارلیمانی لیڈربنادیاجائے۔
اس سلسلے میں پارٹی کے بعض رہنماء جوپارٹی کی اصل قیادت کے قریب سمجھے جاتے ہیں،یہ رائے بھی پیش کررہے ہیں کہ عبوری اورمتبادل قیادت کیلئے ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے رکھنے سے گریزکیاجائے۔اگرپارلیمان کی سطح پرشاہدخاقان عباسی کی خدمات ضروری ہیں تو پارٹی کے قائم مقام صدرکیلئے خواجہ محمدآصف کانام سب سے زیادہ موزوں ہوگا کہ ان کی وفاداری بھی شریف خاندان اورنوازلیگ کیلئے ہرقسم کے شک وشبہ سے بالاترہے۔ان کے حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ وہ نہ صرف سیاسی پیچ وخم کوخوب سمجھتے ہیں بلکہ پنجاب میں سیاست کے محاورے اورلہجے کے بے دھڑک رہنماء ہیں،اس لئے انہیں کم ازکم پارٹی میں ضرورموقع دیا جائے گا لیکن یہاں یہ بتانابھی ضروری ہے کہ انتخاب میں ان سے شکست کھانے والے عثمان ڈار اب بھی مسلسل ان کے تعاقب میں ہیں اوراب انہوں نے نیب میں ایک اورنئی درخواست دائر کر دی ہے جس میں انہیں نااہل قرار دینے کیلئے ان کے دبئی اقامے کے حوالے سے نئے دستاویزی ثبوت مہیاکئے ہیں۔ماہرین قانون کے مطابق خواجہ آصف کے سیاسی مستقبل کواس درخواست سے کوئی خطرہ نہیں۔
علاوہ ازیں سابق وزیرداخلہ احسن اقبال کانام بھی مسلم لیگ ن کے انہی سوچنے سمجھنے والے حلقوں میں زیربحث رکھاہے کہ وہ بھی اچھامتبادل انتخاب ہوسکتے ہیں۔ان کے ناقدین بھی بہرحال پارٹی میں موجودہیں جن کاسب سے بڑااعتراض ہے کہ خواجہ آصف پارٹی میں کسی گروپ کا حصہ نہیں جبکہ احسن اقبال کوگروپ بندی سے بالاترنہیں کہاجاسکتا،نیزان کالب ولہجہ خالص علمی اوردانشورانہ ہوتاہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ملک کے سمجھدارسیاسی افراداورسیاسی تجزیہ نگاربھی ان کے انتہائی ٹھنڈے اورہرحال میں قابل برداشت لہجے کی تعریف ضرورکرتے ہیں اوراسی خوبی نے ان کے مداحوں میں اضافہ کیاہے جبکہ پنجاب کی سیاست کیلئے عوامی پن زیادہ چلتاہے اوراس مقصدکیلئے خواجہ آصف ہی زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ احسن اقبال کوپارٹی کے سیکرٹری جنرل کیلئے زیادہ موزوں سمجھاجارہاہے ۔
مسلم لیگ نوازاس وقت مشکلات میں گھری ہوئی ہے مگراعلیٰ قیادت اب اس منصب پربھی تبدیلی کی خواہاں ہے،نیزیہ بھی ان کی خواہش ہے کہ پارٹی کے بزرگ رہنماؤں کواس نئے سیاسی تگ ودو،آزمائشوں وکاوش کے دورمیں کم زحمت دی جائے بلکہ ان کواعتمادمیں لیکران کی مشاورت سے نوجوان قیادت کوسامنے لایاجائے ۔اگربزرگ رہنماؤں کو بروئے کارلانامفیدخیال کیاجاتاتوراجہ ظفرالحق اوراقبال ظفرجھگڑاکم ازکم پارٹی کیلئے آزمودہ انتخاب ہوسکتے تھے لیکن شریف خاندان زیادہ متحرک فعال اورجان ماری کی توقع لگائے بیٹھاہے،اس لئے راجہ ظفرالحق کی دانش وبینش، تجربہ و اعتماداپنی جگہ اوراقبال ظفرجھگڑاکی اہمیت سرآنکھوں پرمگریہ وقت ان کیلئے زیادہ سازگارنہیں ہے۔پارٹی کے حلقوں میں یہ بھی دیکھاجارہاہے کہ پارٹی کی اصل قیادت پارٹی کے پرانے،بزرگ اورپہلے سے مختلف مناصب پرفائزرہنے والوں سے شعوری طورپرہٹ کرسوچ رکھتی ہے،یہی وجہ ہے کہ راجہ ظفراقبال،اقبال ظفرجھگڑااورپارٹی کے دوسرے نام ان دنوں نواز شریف کے اس طرح رابطے میں ہیں نہ ان کے سیاسی رفقاء کونوازشریف زیادہ وقت دے رہے ہیں جن کی سیاسی فراست اورصلاحیت کوبطوروزیراعظم نوازشریف نے برسوں مواقع دیئے رکھا۔
اس کھاتے میں سینٹرپرویزرشید بھی اس سطح پررابطوں میں ہیں بلکہ انہیں پارٹی کے نئے اور اسیرصدرشہبازشریف سے گلہ بھی ہے کہ وہ انہیں پارٹی اجلاسوں میں بھی ایک دوبارنظرانداز کرتے ہوئے بلانے سے ہی گریزاں رہے ہیں،اس کی شکائت انہوں نے ان کے بڑے بھائی نواز شریف سے بھی کی ۔دوسری جانب شہبازشریف سمجھتے ہیں پارٹی کواس آزمائش اورمشکل میں ڈالنے کے ذمہ دارہی پرویزرشیداوران کے حلقے کے لوگ ہیں،اس لئے ان کی قربت مزیدنقصان پہنچاسکتی ہے ۔بہرحال نوازشریف جن کی کل سرگرمیاں ان دنوں عدالتوں کے چکر،پیشیاں اور وکیلوں کے مشوروں تک محدود ہوکررہ گئی ہیں۔ان دنوں نوازشریف کوبھی عملی طورپرپارٹی میں صرف ان لوگوں کے ساتھ زیادہ رابطہ پسند ہے جواسلام آباد ،مری وغیرہ میں ان کی لاجسٹکس تو دیکھ سکیں،بروقت ضرورت گاڑیاں اورعدالت کے اندراورباہرمعقول جیالوں کولاسکیں اورباقاعدہ انہیں متحرک رکھیں اورسیاسی امور پرتبادلہ خیال کے شائق نہ ہوں بلکہ محض اعلیٰ قیادت کیلئے خدمت اوروفاداری کاجذبہ بروئے کارلاتے ہوئے قربت اورتوجہ کے خواستگارہوں۔اس لئے نواز شریف کے ان دنوں طارق فضل چوہدری اورعباس فریدی ودیگرلوگ زیادہ نمایاں نظرآتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں سابق صدرممنون حسین ،سابق کے پی کے گورنراقبال ظفرجھگڑا اوراس نوع کے دیگراہم رہنماء بشمول امیرمقام،سردار مہتاب،پیرصابرشاہ اب کم کم نظرآتے ہیں۔
بہرحال نوازلیگ کی اعلیٰ قیادت اورشریف خاندان اس کوشش میں ہے کہ اپنے بارے میں نیب کورٹ اورسپریم کورٹ وغیرہ سے آنے والے اہم فیصلوں سے پہلے پہلے پارٹی کومضبوط اور مربوط رکھنے کیلئے خودبھی کچھ اہم اقدامات اٹھاسکیں لہندا سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی ، سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف اورسابق وزیرداخلہ احسن اقبال کے نام اہمیت اختیارکرتے جارہے ہیں۔ان ناموں میں ایک نام خواجہ سعدرفیق کااہم ہوسکتا تھا لیکن نیب کاخواجہ سعدرفیق ان کے بھائی خواجہ خواجہ سلمان کے گردگھیراتنگ ہوتادائرہ آڑے آرہاہے کہ مذکورہ دونوں بھائی جوکئی دنوں ضمانت کی بنیادپرہی گرفتاری سے بچے ہوئے تھے،وہ بھی گرفتارہوچکے ہیں۔ اگرچہ پارٹی میں خواجہ سعدرفیق کی صلاحیت اورتجربہ کااحترام کیاجاتاہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ انہیں بھی اگر عبوری قیادت میں شامل کیاگیاتو شائدزیادہ دیرتک کارآمدنہ رہیں۔نیزان سے گریزکی ایک وجہ بعض پارٹی رہنماء یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ جان طلبی میں بعض دوسرے رہنماؤں سے زیادہ آگے ہیں اس لئے مشکلات میں گھرے ہوئے شریف خاندان اورنواز لیگ کیلئے ایک چیلنج ہی نہ بن جائیں تاہم ان سارے آپشنزمیں کسی ایک یادوکوصرف اس صورت میں بروئے لایاجائے گاجب شہبازشریف کے بعد حمزہ شہبازکی بھی گرفتاری یقینی نظر آنے لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں