عام طورپرتوہماری سیاست میں انتخابی منشورکارواج ہی نہیں رہالیکن اگر سیاسی جماعتیں منشورجاری بھی کریں توعوام اسے سیاسی جماعتوں کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ایک پرفریب نعروں اورناقابل عمل وعدوں سے ایک بھرپورایک تحریرسے زیادہ کوئی وقعت نہیں سمجھتی۔اس مرتبہ عمران خان نے ایک کروڑملازمتیں دینے اورپچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کااعلان کرکے ذوالفقار علی بھٹوکے”روٹی،کپڑااورمکان”کی یاددلادی ہے جو آج تک پورانہیں ہوسکالیکن ان کے نام پراب تک سیاست کے میدان میں کام کرنے والی جماعت آج تک بھٹوکوزندہ رکھے ہوئی ہے اورصرف ان کی برسی پران کوقبرمیں دوبارہ دفن کردیتی ہے۔عوام کے سامنے پیش کرنے میں دوسری جماعتیں بھی میدان میں اترآئی ہیں اوریہ کیسے ممکن ہے کہ باقی جماعتیں سیاسی میدان میں عوام کے ساتھ وعدوں کی دوڑمیں پیچھے رہیں، مسلم لیگ ن کے صدرشہبازشریف سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کی بھی رگِ منشور پھڑک اٹھی ہے اورانہوں نے بھی اپنامنشورعوام پردے ماراہے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل نے اپنامنشورپیش کیالیکن پیپلزپارٹی کے نوخیز صدرنشیں بلاول زرداری کادعویٰ ہے کہ وہ بازی لے گئے ہیں۔پیپلزپارٹی کامنشور28 جولائی کو سامنے آیاتھااورتب سے بلاول اپنی انتخابی مہم کے ہرجلسے میں اس منشورکی ایک کاپی کواپنے سینے سے لگائے عوام کودکھاتے پھررہے ہیں گوکہ یہ منشوراردومیں ہے جسے بلاول خودٹھیک سے پڑھ نہیں سکتے بلکہ وہ جب بھی ”رومن اردو”میں لکھی ہوئی تقریرپڑھتے ہیں توان کے اتالیق یقیناًاردوکاخون ہوتے ہوئے ضرورمحسوس کرتے ہوں گے۔اس سے قطع نظرجوپارٹیاں کسی نہ کسی صورت اقتدارمیں رہیں ہیں وہ اپنے منشورمیں لمبے چوڑے دعوے کرتی رہیں ہیں کہ ایک بارپھراقتدارمل گیاتوملک اورعوام کی تقدیربدل دیں گےلیکن اپنے دورِ اقتدارمیں یہ کام کیوں نہیں ہوا؟پیپلزپارٹی چارمرتبہ مرکزمیں حکمراں رہی اورگزشتہ دس برس سے سندھ کے سیاہ وسفیدپر مسلط ہے،اب جاکربلاول عوام سے کہہ رہے ہیں کہ ہم میٹرویاگرین لائن نہیں بنائیں گے بلکہ عوام پرسرمایہ کاری کریں گے۔فوڈکارڈدیں گے،صحت کی سہولتیں فراہم کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس سال میں سندھ میں انہوں نے کون ساکام کیاکہ اب ان کوپھرسے غریبوں کی یادبری طرح ستانے لگی ہے تاکہ عوام کوایک مرتبہ پھرجھانسہ دیکراقتدارکا راستہ ہموارکیا جا سکے۔تھرکے ہسپتالوں میں سینکڑوں بچے علاج معالجے کی عدم دستیابی کی بناء پرایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے پیاروں کوداغِ مفارقت دے گئے اوراب تک صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکی۔زرداری خاندان بلامبالغہ اقتدارمیں آکر کھرب پتی بن چکی ہے اورابھی پچھلے دنوں آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی بینکار لوائی کو گرفتارکرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے آصف زرداری اوران کی بہن فریال تالپور کے درجنوں بے نامی اکاؤنٹس میں 70بلین کی رقوم بیرون ملک منتقل کی ہیں۔ سندھ کے ایف آئی اے کے سربراہ جس کے تبادلے کاپیپلزپارٹی نے حال ہی میں مطالبہ کیاتھا،پتہ چلاکہ یہ اس نے خوفناک قسم کے انکشافات کئے ہیں جس کی بناء پر ای سی ایل میں ان کے نام ڈال دیئے گئے لیکن بعدازاں ان کے وکلاء سپریم کورٹ میں پیش ہوکران کویہ رعائت دلادی کہ انتخابات کے بعداس مقدمے کی کاروائی شروع کی جائے اوران کے نام بھی ای سی ایل سے نکال دیئے گئے ہیں۔آج بھی تھرپارکرکے اسپتالوں میں مریضوں کوشدیددشواری کاسامناہے،کیااب تک تھرپارکرکے غریب اب تک پیپلزپارٹی کوووٹ دیتے نہیں آئے؟بلاول اپنے نانااوراپنی والدہ کے وعدے پورے کرنے کاعلم اٹھائے ہوئے ہیں لیکن ان کے نانااوروالدہ نے کون سے وعدے پورے کئے ہیں،ذرایہ بھی اپنے غریب وسادہ رائے دہندگان کوبتادیں۔
صادق آبادکے چانگ فارم نوازآبادمیں بلاول نے لکھی ہوئی تقریرپڑھتے ہوئے کہا:میں اقتداراپنے لئے نہیں عوام کیلئے چاہتاہوں،ملک سے بیروز گاری ختم کردوں گا۔اسی طرح کے کچھ خواب خیبر پختونخواہ پرحکمرانی کرنے والی تحریک انصاف کے سرپراہ عمران خان نے بھی دکھائے ہیں۔ وہ بھی ہر ایک کوملازمت فراہم کریں گے اورانسانوں پرسرمایہ کاری کرنے کابیانیہ انہوں نے بھی اپنا لیاہے۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر ایک مزدورکوانجینئربنادیاجائے تووہ جتناایک ماہ میں کماتاہے۔وہ صرف ایک دن یاایک گھنٹے میں کمائے گا لیکن ان سے اگریہ سوال پوچھا جائے کہ وہ کون سے ٹیکنالوجی ہے جس سے وہ ایک مزدورکوانجینئربنادیں گے اوریہ بھی سوال جواب طلب ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دھرنوں میں سرمایہ کرنے کے سواانہوں نے کتنے مزدوروں کوانجینئربنادیاہے۔انجینئرنہ سہی ،پلمبرہی بنادیاہو!انہیں چاہئے تھاکہ اپنے وعدوں میں وزن ڈالنے کیلئے چند مثالیں ہی پیش کردیتے توعوام کوان کے وعدوں پریقین آجاتا۔
مرکزاورپنجاب میں حکومت کرنے والی مسلم لیگ ن نے بھی اپنامنشورپیش کردیاہے۔ارب کھرب پتی عوامی نمائندوں کے منہ سے غریبوں کی ہمدردی کے دعوے مضحکہ خیزہیں۔5 جولائی کون لیگ کے صدر شہبازشریف نے پارٹی منشورجاری کیاجس میں کہاگیاہے کہ بھاشاڈیم،ہیلتھ کارڈ ، بچیوں کی تعلیم ترجیح ہوگی۔لاکھوں افراد کیلئے گھراوردولاکھ ملازمتیں پکی ہیں۔ایک بارپھروہی سوال، مرکزمیں پانچ سال اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی طرح پچھلے دس سال تک ن لیگ کی حکومت رہی بلکہ نوازشریف کو نااہل کرنے کے باوجودمرکزمیں زمامِ حکومت ن لیگ کے پاس ہی رہی ،اس عرصہ میں بھاشاڈیم کیلئے پیٹ میں کبھی دردتک نہیں اٹھا۔واضح رہے کہ اب بھاشاڈیم کاتذکرہ اس لئے کیاجا رہاہے کہ چیف جسٹس نے بھاشا ڈیم کیلئے اپنے کاوشوں کااعلان کرتے ہوئے اس کیلئے اپنی جیب سے دس لاکھ کاچندہ دیکرملک گیرتحریک کاآغازکر دیاہے۔ علاوہ ازیں ن لیگ سے یہ سوال بھی کیاجاسکتاہے کہ اپنے دور اقتدار میں کتنے ہیلتھ کارڈکااجراء ہوا،کتنی بچیوں کوتعلیم حاصل کرنے میں حکومت نے سہولت فراہم کی ،لاکھوں نہ سہی ہزاروں کوگھردیئے گئے ،آٹھ لاکھ نہ سہی ایک لاکھ اہل افراد کوملازمت میں لیا گیاہو؟لاہورسمیت پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ حاملہ خواتین کوہسپتال میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے رکشہ یااسپتال کی سیڑھیوں میں زچگی ہوتی رہی ہے۔اسپتال میں ایک بسترپردودومریض لٹائے ہوئے ہیں،جعلی ادویات اورجعلی ڈاکٹروں اورعطائیوں پرقابو نہیں پایاجاسکا۔
میاں شہبازشریف نے کہاکہ لوڈشیڈنگ اوربدامنی کاخاتمہ ہماری کامیابی ہے۔کیالوڈشیڈنگ واقعی ختم ہوگئی ہے؟ شہبازشریف کااپنے اقتدارکے آخری دن کہناتھاکہ اب لوڈشیڈنگ کے ہم ذمہ دارنہیں بلکہ نگران حکومت ہوگی گویافاضل بجلی شہبازشریف اپنی جیب میں ڈال کراپنے ساتھ لے گئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ، اس کواپنی کامیابیوں کی فہرست سے نکال ہی دیں ،لوگ تواب تک نام بدلنے کے اعلان کولیے بیٹھے ہیں۔شہبازشریف نے منشورپیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعدڈیم بنانے ہوں گے۔بابراعوان نے نندی پورپروجیکٹ میں اربوں روپے ضائع کر دیئے،کیاہی بہترہوکہ نیب اس معاملہ کوسنجیدگی سے لیتے ہوئے اس الزام کی تحقیقات کیلئے فوری طور پر اقدامات اٹھائے تاکہ پتہ چل سکے کہ قومی خزانے کوکس کس نے شیرمادرسمجھ کر استعمال کیا۔شہبازشریف نے یہ بھی پیغام دیاکہ ملکی قانون کااحترام ہم سب پرواجب ہے ، جمہوری اسول اورآئین کی بالادستی میری زات اورپارٹی سے اہم ہے لیکن اگلے ہی دن وہ قانون کی حکمرانی سے انحراف کررہے تھے اوراقتدارمیں آتے ہیں نوازشریف کوجیل سے رہائی دینے کا اعلان کررہے تھے۔
ان بڑی پارٹیوں کے منشوراوردعوے دیکھ کریہی لگتاہے کہ ان ہاتھیوں کے دانت کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور۔عمل کاموقع ملاتوکچھ کیانہیں اور اب پھروعدوں کی پٹاری کھول دی گئی ہے ۔وعدے بھی وہ جن کاایفاممکن ہی نہیں۔ایم ایم اے نے ایک بارپھروعدہ کیاہے کہ اقتدارملاتواس کو اسلامی وفلاحی حکومت بنادیں گے۔پاکستان کے بانیوں نے تواس کو”ریاست مدینہ ثانی”بنانے کا وعدہ کیاتھا،قرآن کوپاکستان کاآئین بنانے کی بات کی تھی لیکن اس حوالے کی تصویردیکھنے کی آس میں آنکھیں ترس رہی ہیں۔فی الحال تواس اتحادکی تجدیدواحیاء کی کاوشوں کی سیناریومیں ایک ہی تصویرآنکھوںکوخیرہ کیے ہوئے ہے اوروہ ہے تصویرمولانافضل الرحمان کی،جن کی اصل نظریاتی وطبعی قوت محموداچکزئی ہیں جونوازشریف کویہ کہنے کامحرک بنے کہ میں بھی اب نظریاتی بن گیاہوں۔نجانے وہ وقت کب آئے گاجب ہمارے ان سیاسی رہنماؤں کے قول وفعل کا تضاد ختم ہو گا۔
Load/Hide Comments