اسلام کی اثرآفرینیوں کادائرہ بہت وسیع ہے۔اس نے جہاں توحیدکے اسرارفاش کیے ہیں،عظمتِ انسانی کاپرچم لہرایاہے،اخلاق وسیر کے گوشوں کوپاکیزگی عطاکی ہے،جہاں دلوں میں محبت الہٰی کی شمعوں کو روشن کیا ہے اورایسے پا کیزہ اورایسے اونچے معاشرہ کی تخلیق کی ہے کہ جس کی نظیرپیش کرنے سے تاریخ عالم قاصرہے وہاں مذاہب عالم پراس کاسب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے فکرو تعمق کے دواعی کواکسایاہے،عقل وخردکے اجالوں کوعام کیاہے اوردنیاکے تیرہ وتاریک افق پراستدالال واستنباط کے نئے نئے آفتاب ابھارے ہیں۔
کیایہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے کہ بادیہ نشینانِ عرب تھوڑے ہی عرصے میں تہذیب وتمدن کے فرازاعلیٰ پرفائزہوجائیں، حکمت ودانش کے افسردہ میکدوں میں پھرسے جان ڈال دیں اورعلوم وفنون کے اجڑے ہوئے دریامیں چہل پہل پیداکردیں،اورکیایہ امر تعجب خیزنہیں کہ عرب کی اُمی اورناآشنائے حرف قوم دیکھتے ہی دیکھتے فلسفہ وحکمت کے تخت دادرنگ پرتسلط جمالے اورنہ صرف یونانیوں کے بادہ فکرواندیشہ سے تشنہ کامان ادراک کی تسکین کاسامان بہم پہنچائے بلکہ اس کے جرعوں میں کیف وذوق کی ان سرمستیوں کابھی اضافہ کردے جواسلام کی دعوت عرفاں کے ساتھ خاص ہیں ۔
ہماری رائے میں یہ محیرالعقول انقلاب نتیجہ ہے قرآن حکیم کی ان تعلیمات کاجن سے تحقیق وتجسس کی روح بیدارہوئی اوریہ تبدیلی اور عظیم تغیرمرہون منت ہے اس وحی کاجس کاحرف آغاز”اقراء”ہے۔قرآن حکیم نے کیوںکرمسلمانوں میں خالص علمی ذوق کی پرورش کی اورکس طرح ان کے اسلوب فکرکوسائنس اور فلسفہ کے حسین سانچوں میں ڈھالا؟اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب تلاش کرنے کیلئےہمیں ان چارنکات پرغورکرناہوگا ۔
1۔ قرآن حکیم نے اس عالم ہست وبودکی معروضیت کوواشگاف الفاظ میں تسلیم کیا۔زندگی کواحترام کی نظرسے دیکھااوربتایاکہ مسلمان کانصب العین دنیاوآخرت کے حسن اورنکھارسے بہرہ ورہوناہے ۔
2۔اس کتاب ہدیٰ نے اس حقیقت کوکھول کربیان کیاکہ اس کائنات میں جوہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے نظام وقاعدہ کی استواریاں پائی جاتی ہیں،اوراس کی تخلیق میں متعین غرض وغایت پنہاں ہے ۔
3۔اسی صحیفہ مبارکہ نے پہلے پہل اورہمیشہ کیلئےاس مغالطہ کودورکردیاکہ دین اورعقل وخردکے تقاضوں میں تضادرونماہے ۔
4۔اوریہ بھی اسی کتاب کااعجازہے کہ اس نے فکرواستدالال کی ان راہوں کی طرف رہنمائی کی جنہیں ہم منطق کی اصطلاح میں استقرار کہتے ہیں ۔
اس کائنات کی نوعیت کیاہے؟آیایہ خوب صورت آسمان،یہ ہرے بھرے اشجار،یہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے دریا،یہ ٹھوس پتھراور ایستادہ پہاڑحقیقی وجود سے بہرہ یاب ہیں یاان کاوجودمحض باطل اورنظروخیال کی سیمیائی ہے؟اس بارے میں ارباب فلسفہ ومذہب میں شدیداختلاف پایاجاتاہے اوراس کانتیجہ یہ ہے کہ تہذیب وتمدن علوم وفنون کی پرورش وارتقاءسے متعلق دوبالکل ہی متضادنظریے دنیامیں رائج رہے ہیں۔اگرکائنات موجودہے اوریہ عالم ہست وبودوجودخارجی سے متصف ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے فکرونظرکاصحیح اسلوب اختیارکیاہے اورعلوم وفنون کی نشاط وآفرینیوں اورتہذیب وتمدن کی نقش آرائیوں کیلئےوجہ جوازڈھونڈلینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اگراس عالم کی حقیقتیں صرف تصوریاصورت کاکرشمہ ہیں یاان کاسرے سے کوئی وجودہی نہیں،تواس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے زندگی کی اہمیتوں کوگھٹایاہے،اس کی غرض وغایت کوسمجھنے میں ٹھوکرکھائی ہے اورایسی راہبانہ اورغیرعمرانی زندگی کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے انسانیت کوبجزقنوط اورمایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہواہے ۔
نفی وایجاب کے یہ دونوں راستے نہ صرف جداجداہیں بلکہ دونوں مختلف منزلوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ایجاب کے معنی زندگی کی گہما گہمی اورارتقاءکے ہیں۔علم وفن کے فروغ کے ہیں۔آگے بڑھنے اورکائنات کی ناہمواریوں پرقابوپانے اوراس کواپنے دائرہ تسخیرمیں لانے کے ہیں،اورنفی کامطلب محرومی،یاس،قنوط اورجہل ونادانی یاجمودوپسماندگی کواپناناہے ۔
اس بناپراسلام نے اس عالم آب وگل کواگرتسلیم کیاہے تواس کے معنی صرف یہاں کی ابھرتی ہوئی اورنمایا ں ومحسوس حقیقتوں کومان لینے ہی کے نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے انسانی علم وبصیرت پرپورے پورے اعتمادکااظہارکیاہے اورفکرونظرکاایسااسلوب اختیارکیاہے جس کی یقین افروزی کسی تشکیک کی متحمل نہیں۔دوسرے لفظوں میں اسلام نے کائنات کی معروضی حیثیت کومان کراس اساس اوربنیادکی نشاندہی کی ہے کہ جس پرآگے چل کرانسانی فکروتجربہ کے غرفے استوارہوتے ہیں ۔
یونانی حکماکی اکثریت اس عالم رنگ وبوکومانتی تھی ان میں استخوانِ نزاع صرف یہ دوباتیں تھیں کہ اس کی ترکیب وساخت میں کن عناصرکودخل ہے یایہ کہ یہ عالم،ساکن وراکد ہے یا متحرک ۔افلاطون ان میں پہلاشخص ہے جس نے اس مسلمہ سے انحراف اختیارکیااوربحث ونزاع کے اس دھارے کوڈھائی سوسال کے بعداس نقطہ کی طرف موڑدیاکہ جس عالم مادی کی ترکیب وساخت کے بارہ میں اب تک میدان مناظرہ گرم رہا۔اس کے متعلق سوچنے کی بات دراصل یہ ہے کہ آیایہ عالم حقیقی عالم بھی ہے یانہیں،افلاطون کے نزدیک یہ دنیاحقیقی دنیا کا محض عکس یامثنی ہے اوروہ حقیقی، مکمل اوغیرمتغیردنیاصرف تصوریاصورت کی جلوہ گری سے تعبیرہے۔افلاطون کااشکال دراصل اس عالم کی نا ہمواریوں پرمبنی ہے۔وہ جب یہ دیکھتاہے کہ یہاں نقص یاشرہی کادور دورہ ہے،زلزلوں کی تباہ کاریاں اور تغیر وفناکی ہولناکیاں ہیں تووہ ایسے عالم کوحقیقی عالم ماننے سے انکارکردیتاہے اورپکاراٹھتاہے کہ اس نقص یاشرکوڈیمی ارج کی طرف منسوب نہیں کیاجاسکتاکہ جس نے ان تصورات کاملہ اورنصب العینی صورکومادہ میں مرتسم کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ نقص مادہ کاہے۔اس کی صلاحیت قبول وپذیرائی کاہے کہ ان کامل تصورات کوپوری طرح اپنانہیں سکاہے۔افلاطون نے کائنات کی اس تعبیرسے گو تصوریت کی بنیادرکھی جوآگے چل کراس عالم مادی کی مکمل نفی پرمنتج ہوئی تاہم اتناغنیمت ہے کہ اس نے ایک صورت گرازلی اورمادہ کے وجودکوبہرحال تسلیم کیا۔
عیسائیت نے جب اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ مذہبی اذعانیات کوعقل وخرد کی روشنی میں پیش کیاجائے تواسے افلاطون کے نظریات اورپلا ٹینیوس کی تشریح،پذیرائی کیلئےزیادہ موزوں معلوم ہوئی،جن میں تصوریاروح کوقدرتاًفوقیت وامتیازحاصل ہے اورجسم کی حیثیت ایسی برائی یارکاوٹ کی ہے جوقلب وروح کی پروازاورترقیامت میں حائل ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک ایک شخص جسم کے تقاضوں سے رستگاری حاصل نہیں کرلیتااورجسمانی خواہشوں اور ولولوں سے دامن کشاں نہیں رہتااس وقت تک نجات کے استحقاق سے محروم رہتاہے ظاہرہے یہ طرزفکرسراسرزندگی کی ٹھوس اورضروری حقیقتوں سے گریز اورفرارپرمبنی ہے اورسوچنے کے اس نہج کامنطقی نتیجہ ہے جس کوافلاطون اوراس کے شارح پلاٹینیوس کے تتبع میں عیسائیت نے اختیارکیا ۔
اگرکائنات کے مظاہرمعروضیت سے متصف ہیں توپھرجسم بھی معروضی ہے اوراس کے تقاضے بھی اپنی آغوش میں معروضیت لیے ہو ئے ہیں اوراس بنیادپراگر غورکیجیے توان تقاضوں اورخواہشوں کی پرورش اورارتقاءکامسئلہ بھی بجائے حسیت کے حقیقت نگری قرارپاتا ہے۔اس بارہ میں فیصلہ کن نکتہ دراصل یہ ہے کہ کوئی بھی عمل یاتگ وپوکی کوئی بھی صورت حتیٰ کہ مجاہدہ اورریاضت بھی ان معنوں میں روحانی نہیں ہے کہ اس میں قطعاًجسم کاحصہ نہیں ہے،خواہش وتمناکی کارفرمائی نہیں ہے،ہمارے نزدیک کسی عمل یافعل میں،جو بہرحال جسمانی ہی ہوتاہے۔روحانیت کاعنصراس وقت ابھرتاہے جب آپ اس کوان محرکات نفسی کی بناءپر اختیار کرتے یاانجام دیتے ہیں جو کسی عظیم نصب العین یاکسی بلندقدرسے تعلق رکھتے ہیں یعنی جب یہ فعل یاعمل ذاتی منفعت کی سطح سے اونچاہوکرکسی آفاقی یاانسانی مطح نظرسے ہمقراں ہوتاہے،ورنہ کوئی فعل یاعمل اپنے روپ میں روحانی یاغیرروحانی نہیں ہوتا۔عمل وفعل کی یہ ثنویت اس غلط مفروضے پرمبنی ہے کہ انسان جسم وروح کی دومتضادحقیقتوں سے ترکیب پذیرہے حالانکہ جسم وروح دوعلیحدہ علیحدہ اورمخالف چیزوں کانا م نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت انسانی کے دوپہلوہیں دوپرتوہیں۔زیادہ واضح لفظوں میں یوں کہناچاہیے کہ انسان کے سوچنے اور عمل کرنے کی دوسطحیں ہیں۔ایک سطح کوہم روحانی کہتے ہیں اورایک جسمانی۔
عالم ومافیہ کوغیرحقیقی قراردینے کی دوسری واضح مثال ہمیں ہندواصول”مایا”میں ملتی ہے جس کاسیدھاسادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیااپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ دھوکہ ہے اورہرگزاس لائق نہیں کہ انسان یہاں رہے.یہاں کی دلچسپیوں سے دل بہلائے یاتہذیب وتمدن کی طرفہ طرازیوں کوشائستہ اعتناءسمجھے۔”مایا”کے اس منفی فلسفہ نے زندگی کے کارزارمیں اپج،جرات اور تخلیق واختراع کی نشاط آفرینیوں سے ہندوؤں کوکس درجہ محروم رکھا،یہ صرف تاریخ ہی کامسئلہ نہیں زمانہ حال کااشکال بھی ہے کیونکہ اس کی تہہ میں سوال یہ پوشیدہ ہے کہ آیاعالم کے بارہ میں یہ غیرسائنسی اورغیرہمدردانہ نقطہ نظرانسانوں میں تحقیق وتجسس کی روح بیدارکرسکتاہے اوراس کائنات سے متعلق اس گہرے لگاؤ،عمیق توجہ اورمبنی برکاوش التفات کوپیداکرسکتاجوعلم وعرفان کیلئےبمنزلہ اوّلیں شرط کے ہے۔ رادھا کرشنن نے”ایسٹرن ریلیجنزاینڈویسٹرن تھاٹ”میں اعتراض کے اس تیکھے پن کومحسوس کیاہے اورجواب دینے کی کوشش کی ہے۔ہم نہیں کہہ سکتے جواب کی نوعیت سے ڈاکٹرشویزرکی تسکین ہوتی ہے یانہیں۔
مایاکی اس فلسفیانہ اورمتصوفانہ تعبیرسے صرف یہ بات سمجھ پائے ہیں کہ ہندواہل فکرنے مغربی تہذیب کے زیراثراس خلیج کوبالآخر محسوس کرہی لیاہے،جوزندگی کے تقاضوں اورزندگی کی نفی کے مابین حائل ہے۔لطف یہ ہے کہ اس خلیج کی نشاندہی سب سے پہلے اسلام نے کی لیکن اس وقت نہ عیسائی اقوام نے اس پرغورکیا اورنہ ہندوفلسفہ نے”مایا”کی اس نئی تعبیروتشریح کی ضرورت سمجھی ۔ لیکن اب جبکہ زمانہ کے ارتقاءنے دونوں کوزندگی کی شورشوں میں دھکیل دیاہے۔دو نوں ہی جان گئے ہیں کہ رہبانیت اور”مایا”کافلسفہ موجودہ زمانہ میں چلنے والانہیں ۔
یہ جان لینے کے بعدکہ کائنات کی معروضی حیثیت تسلیم کرلینے سے کیونکرسا ئنسی ذہن اورمزاج پیداہوتاہے اوراس نقطہ نظرکواپنالینے سے تہذیب وتمدن کے مختلف گوشوں میں کس درجہ دوررس اورخوشگوارتبدیلیاں معرض وجود میں آتی ہیں۔اب یہ دیکھیے کہ قرآن حکیم نے اس حقیقت کوکس کس اسلوب سے بیان کیاہے: کیاکافروں نے اس بات پرغورنہیں کیاکہ آسمان اورزمین دونوں ملے جلے تھے ہم نے ان دونوں کوجداجداکردیااورتمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں کیااس پربھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔(انبیاء:30)
(2)“خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا اور اس میں یقینا صاحب ایمان لو گوں کیلئےنشانی ہے۔”(عنکبوت:44)
(3)کیا یہ لو گ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب روپ میں ان کو پیدا کیا گیا ہے اور آسمانوں کی طرف نظر نہیں دوڑاتے کہ کیسا بلند کیا گیا ہے ، اور پہاڑوں کے بارے میں نہیں سوچتے کہ کس طرح استادہ کیے گئے ہیں اور زمین پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح اس کو ان کے پاؤں تلے بچھایا گیا ہے ۔ (غاشیہ:71-20)
(4)“اور ہم نے قریب کے آسمانوں کو ستاروں کے چراغوں سے زینت بخشی ۔”(ملک:59)
(5)“آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے ۔”(الشوریٰ :11)
سورہ نحل میں اس حقیقت کا اظہار فر مایا کہ کا ئنات کو معروضیت کے لباس سے آراستہ کر نا، اور تخلیق و اختراع کے خلعت سے نوازنا ہی تو وہ صفت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنی تمام مخلوق سے امتیاز حاصل ہے ۔
(6)“کیا جو تخلیق و ابداع سے کام لیتا ہے وہ ایسا ہے جوکچھ بھی پیدا نہ کر سکے ۔”(النحل:17)
تخلیق عالم کیلئےقرآن حکیم نے جو پیرا یہ بیان اور الفاظ بیان کیے ہیں ، ان سے ان تمام تصورات کی نفی ہو جاتی ہے کہ جن کوتصوریت نے جنم دیا ہے ۔دوسرا نقطہ بھی کچھ کم اہم نہیں اگر یہ عالم ، بخت و اتفاق کا کر شمہ نہیں بلکہ اس کو حکیم و دانا خدا نے بنا یا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس میں نظم و تر تیب ہو ۔ قاعدہ اور قانون ہو اور اس کو اس نہج سے ڈھالا جا ئے کہ انسان اس سے پورا پورا استفادہ کر سکے ۔
جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے اس نے کائنات کے بارہ میں بار بار اس حقیقت کو پیش کیا ہے کہ اس کار گاہ حسن میں کہیں بھی بھونڈا پن یا نقص نہیں ۔ کہیں بھی نظم و ترتیب کی کوتا ہیاں نہیں ۔ یہاں ہر چیز کا ایک انداز ہے اور ہر شے قرینہ اور ڈھنگ کی آئینہ دار ہے ۔
قرآن حکیم اس عالم کو انسانی اغراض و مفادات کے منافی قرار نہیں دیتا ۔اس کو معاند اور غیر ہم آہنگ نہیں مانتا بلکہ اس کو اس لائق ٹھہراتا ہے کہ انسان یہاں رہ سکے ۔ اس کی نشاط آفر ینیوں میں شریک ہو سکے اور اس کے حسن اور نکھار سے ذوق و کردار کی زلف دوتا کو سنوار سکے ۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ اس کے اندر پنہاں ان جاری و ساری قوانین کو جان سکے ، اور ان کو معاشرہ کی بہتری اور بہبود کیلئےاستعمال کر سکے ۔
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ سا ئنس کو فی نفسہ غر ض و غایت سے کو ئی سرو کار نہیں اس کا موضوع بحث تو صرف یہ ہے کہ یہ مادہ کے مضمرات ارتقاء کومعلوم کرسکے اوراس علم کی روشنی میں تجربہ وآگاہی کے مزید قدم اٹھاسکے۔حدودوبحث میں الجھنے کی بجائےیہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ خالص سائنسی نقطہ نظرسے یہ عالم کسی غرض وغایت کی طرف رہنمائی نہیں کرتا،یا یوں کہناچاہیے اس بارے میں اس کی روشنی قطعاًغیرجانبدارانہ ہے۔اس سے نہ تواس بات کاپتہ چلتاہے کہ یہ عالم بامقصدہے،اوراس چیزکااندازہ ہوسکتا ہے کہ بامقصدنہیں ہے لیکن اگر فلسفیانہ نقطہ نظرسے دیکھیے تومعلوم ہوجائے گاکہ اس عالم میں بغیرغرض ومقصدکومانے اوربناکسی غایت ومعنی کے تسلیم کیے،مظاہرہستی کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہی نہیں۔اس سلسلہ میں دوٹوک سوال یہ ہے کہ یہ عالم مادی کیوں قاعدہ قانون کی افادیتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔پانی کیوں پیاس بجھاتاہے،کھانے سے کیوں سیری اورتوانائی حاصل ہوتی ہے اور معدہ کی ترکیب وساخت کیوں اس وضع کی ہے کہ وہ کھانوں کوآسانی سے جزوبدن بناسکے۔اسی طرح عقاقیراورجڑی بو ٹیوں میں صحت بخشی کی صلاحیتیں کیوں مضمرہیں۔زیادہ واضح لفظوں میں جواب طلب یہ سوال ہے کہ یہ عالم اوراس کے تمام مشمولات بحیثیت مجموعی کیوں ان خصوصیات کے حامل ہیں کہ ان سے بوقلموں ضرورتوں کوپوراکیاجاسکے۔کیا صرف یہ انسان کی تلاش اوردریافت کا نتیجہ ہے کہ اس نے ان اشیاءمیں افادیت کے مختلف پہلوؤں کوڈھونڈھ نکالا۔یاافادیت کے یہ پہلوچونکہ پہلے سے اشیاءمیں اللہ کی تدبیرو حکمت نے ودیعت کررکھے تھے اس لیے ہماری طلب وجستجوکے نتیجے میں ہمیں معلوم ہوئے ۔
ظاہرہے تخلیق کایہ اندازصاف صاف غمازی کرتاہے کہ یہ عالم ہست وبودبغیرکسی حکمت وارادہ کے یونہی اس اندازکانہیں بن گیاہے کہ انسان یہاں کی سازگاریوں سے لطف انداوزہو سکے اوریہاں کی ایک ایک چیزکواپنی ضرورتوں کیلئےاستعمال کرسکے یایہ جانابوجھااور سوچاسمجھاہوانظام ہے جوانہی اغراض کے پیش نظرقائم کیا گیاہے ۔
ہم دراصل غایتی اسلوب فکرکی نمائندگی کرکے یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے اس عالم کے بارہ میں جس نقطہ نظرکی وضاحت کی ہے اس سے علم اور سائنس کے تقاضے کہیں زیادہ خوبی سے تکمیل پذیرہوتے ہیں کیونکہ جب قرآن حکیم بارباراس حقیقت کوبیان فرمائے گاکہ اس عالم کی ہرہرشئے تمہارے لیے ہے حتی کہ یہ اتھاہ سمندر،وسیع وعریض زمین یہ تاباں اورفروزاں چاندوسورج اوریہ لیل ونہارکی تبدیلیاں اورگردشیں تمام ترتمہارے ہی فائدے کیلئےوقف ہیں تو اس اسلوب اظہارسے لامحالہ انسان کے دل میں ان سب کوجاننے کی شدید خواہش کروٹ لے گی۔ہم جانتے ہیں کہ غایتی طرزاستدالال پرکچھ اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں چنانچہ ان میں سب سے زیادہ مشکل اورتیکھاسوال یہ ہے کہ اگرکائنات کایہ مرقع کسی باکمال ذات کانقش حسیں ہے تواس میں مصیبت،ظلم،بیماری اور اندوہ وتشویش کے داغ دھبے کیوں نظر آتے ہیں یاپھرایک فلسفی کے الفاظ میں اگراس دبستان کانصف حصہ فکر،ذوق، حسن اورعقل وہنر کے پھول بوٹوں سے آراستہ ہے تودوسرے نصف حصے میں دشمنی،کینہ،بیماری اورحرص وآزکی عفونتوں کے ڈھیرکیوں پڑے ہیں؟
ہیوم نے اپنے مکالمات میں ایسی نوع کے اعتراضات پرتشکیک کا قصر رفیع تعمیرکیاہے کہ خیرمیں آخرشرکے پیوندکی کیاضرورت تھی اورحسن وزیبائی کے ساتھ قبح وعیب کی نمائش کاکیامو قع تھا؟ افلاطون نے تویہ کہہ کرسوال کی سنگینی سے پیچھاچھڑالیاکہ یہ عالم جس پرتم اعتراض کررہے ہوحقیقی کب ہے؟یہ توحقیقت کی بھونڈی تصویرہے۔حقیقی عالم تصور ات یاصورکاہے جوواقعی خوبصورت مکمل اورغیرمتغیرہے لیکن ہمارے لیے یہ مشکل ہے کہ جواب کی اس نوعیت پراطمینان کااظہارکرسکیں اس لیے کہ ہم تو قرآن کی روسے اس عالم کی معروضیت کے پُرزور حامی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس اشکال سے نکلنے کی تین معقول صورتیں ہیں:
1-یا توہم کیٹس کے اس موقف کوتسلیم کرلیں کہ یہ عالم درحقیقت ایک درسگاہ ہے جہاں عملی تر بیت دی جاتی ہے کہ ہم شراورتضادکی ناسازگاریوں کو خیروتوافق کے سانچوں میں ڈھالنے کافن سیکھیں۔دوسرے لفظوں میں جس کامطلب یہ ہے کہ جہاں جوتضادونقص پایاجاتاہے وہ قدرت کے سہووتغافل کانتیجہ نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ہماری عقل ودانش میں اضافہ ہو اور ہم یہ جان سکیں کہ ان پرقابوپانے کاکیاطریقہ ہے ۔
2-یامعتزلہ کی زبان میں یوں کہیں کہ یہ عالم اپنی موجود شکل ہی میں بہترین ہے اورشرونقص کااحساس محض اضافی ہے یعنی جزئیات کے ادھورے سے علم کی بناءپرہے۔اُس حکمت کی بناءپرنہیں جوہمہ خیراور خوبی ہے۔
3-اوریاپھربدرجہ آخراس نقطہ نظرکومان لیں کہ اعتراض کی یہ نوعیت اس عالم سے متعلق ہے جوہنوزمعرض تعمیرمیں ہیں یعنی اگر ارتقاءکاعمل جاری ہے اوراس عالم امکان کوابھی اورنکھرنا ہے اورتکمیل واتمام،کی مزیدمنزلیں طے کرناہے توکیوں نہ نقص وشرکے اس عیب کوعبوری اورعارضی شئے قراردیاجائے جس کوبا لآخرانسان کی سعی اورکو شش سے مٹنااورختم ہوناہے۔
ان مطالب کی تائید میں قرآن حکیم کے ان شواہد پر غور فر مائیے
1- ذَلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ
1-یہ اندازہےعزیزاورصاحب علم خداکا””(یٰس:38)
2.“بلا شبہ جوکچھ زمین پرہے اسے ہم نے اس کیلئےسنوارااوربنایاتاکہ انہیں آزمائیں کہ ان میں کس کاکام بہترہے۔”(الکہف:7)
3-وہی ذات ہے جس نے زمین کوتمہارے لیے رام کر دیا تاکہ تم اس کے گوشوں میں چلوپھرواوراس کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤاور اسی کی طرف جانا اور جی اٹھنا ہے ۔(ملک: 15 )
4-“”اورسورج اورچاندکاایک حساب متعین ہے(الرحمٰن:5)
5-“ اوراللہ تعالیٰ نے ہرہرشئے کاایک اندازہ مقررکررکھاہے”(الطلاق:3)
6-“اورتمہاری خد مت میں لگادیا رات اوردن کوسورج اورچاندکواورتمام نجوم وکواکب کوبھی مسخرکردیا ۔”(النحل:12)
7-“کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے جوکچھ زمین میں ہے،اس کوتمہارے لیے مسخرکردیا ۔”(الحج:65)
8-“اورہم نے زمین اورآسمان اورجوکچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طورپرپیدانہیں کیا ۔”(دخان:38)
وہ تیسرانقطہ جوسائنس اورفلسفہ کی ارتقائی کڑیوں کوآگے بڑھانے کاباعث ہوسکتاہے اورجس کی بدولت مسلمانوں نے تین چارصدیوں ہی میں علوم عقیلہ کو ثریاتک اچھال دیا،یہ تھاکہ فکرو دانش کی پروازاورفطرت کے انکشافات میں کہیں ایساموڑنہیں آتاکہ جہاں دین کی استواریاں مجروح ہوں۔قرآن حکیم نے جس نقطہ نظرکی پرورش کی،اس کاحاصل یہ تھاکہ عقل ودین میں کو ئی تضادپایانہیں جاتابلکہ یوں کہنازیادہ مناسب ہے کہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دوپتوہیں۔جس پروردگارنے انسانی روح کی تابش وضوکیلئےاقدارکی تلقین کی ہے، زندگی کانقشہ ترتیب دیا اورانسان کی علمی رہنمائی کیلئےفقہ وقانون کے حسین سانچے بخشے ہیں،وہ بھلایہ کیوں چاہے گاکہ اس کی عطا کردہ عقل وخردکی صلاحیتیں ان اقدارکے خلاف پڑیں،زندگی کے اس نقشے کی تغلیظ کریں اورربوبیت کے اس پہلوکوجھٹلانے کاباعث قرارپائیں کہ جس سے مقصودہی یہ ہے کہ انسان کواس کائنات میں اس کاصحیح صحیح مقام عطاکیاجائے اوران تمام فکری وعقلی اور عملی خوبیوں سے مکمل طور سے نوازاجائے جواس کوخلافت الٰہیہ کی مسندبلندپرفائزکرنے میں ممدومعاون ہوسکتی ہیں،مذہب وعقل میں دوئی کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ ہم کائنات میں ثنویت کے قائل ہوجائیں اوراس بات کومان لیں کہ مذہب ودین کے تقاضوں کی تکمیل وارتقاءتواللہ کے ذمہ ہے،اورعقل وخرد کی طرفہ طرازیوں کی تخلیق کاذمہ کسی ایسی قوت نے لے رکھا ہے جس کاتعلق خیرکی بجائے شرسے ہے،تضاداورنفی سے ہے اوراس قوت نے عقل وخردکی جدت طرازیوں کوپید اہی اس غرض سے کیاہے تاکہ دونوں میں ہمیشہ ٹھنی رہے اورکبھی بھی مصالحت اوریکجہتی قائم نہ ہوسکے لیکن اگرانسان ایک ہے،اس کی فطرت ایک ہے اوراس پوری کائنات میں ایک ہی اللہ کی فرمانروائی اورحکومت کاسکہ رواں ہے،تب یہ ناممکن ہوجاتاہے کہ ذہن وعقل میں تصادم وتضادرونماہویاکسی درجے میں بھی دوئی پائی جائے کیونکہ جب دونوں کاسرچشمہ ایک ہے اصل اورجڑایک ہے تواس کالازمی اورمنطقی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ان دونوں میں نہ صرف یہ کہ تضادوتنافرنہ ہوبلکہ اس کے برعکس کامل ہم آہنگی اوراتحادپایاجائے اوریہی وہ طرزِفکراوراسلوب نگاہ ہے جس کو قرآن حکیم نے عقل وذہن کے بارہ میں اختیارکیاہے ۔
مذہب اورعقل یادین اورسائنس کے تجربات زندگی کے دولاینفک پہلوہیں،جن سے کسی بھی طرح ہم دامن کشاں نہیں رہ سکتے اس لیے کہ اگرہم علم کے اس ذریعہ پراعتمادنہیں کرتے ہیں جوہمیں لاکھوں انبیاءکی وساطت سے پہنچاہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس عظیم تہذیبی وروحانی ورثہ سے محرومی اختیارکرلیتے ہیں جس سے کردارواخلاق سنورتے ہیں،ایمان و یقین کی دولت،بے پایاں کی تعمیرحاصل ہوتی ہے اورسب سے بڑھ کریہ کہ جس کی وجہ سے ہمیں تگ ودو،اور جدوجہد کیلئےایک متعین اوربامعنیٰ نصب العین دستیاب ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگرہم عقل وخردکے تقاضوں کوبیدارنہ رکھیں تحقیق ومشاہدہ سے کام نہ لیں، نئے نئے تجر بات وانکشافات سے بہرہ مند نہ ہوں اوراس بات کااندازہ نہ کریں کہ ہمارے تجربات اورغوروفکرکس حدتک فطرت کے رازہائے سربستہ کوفاش کرسکتے ہیں تواس سے جونقصان پہنچے گااس کاتحمّل کب آسان ہے؟اس سے ہماری شخصیت نامکمل رہے گی یعنی اپنے ان مضمرات عقلی کے اظہارسے قاصر رہے گی جوزمان ومکان میں نئے نئے انقلابات کی تخلیق کرتے رہتے ہیں اورتہذیب وتمدن کے دائرے سکڑکرخشک ہوجائیں گے،فکر ٹھس اورمردہ ہوجائے گی،اور زندگی کے پورے نظام کووہ تازہ اورسازگارآب وہوامیسر نہیں آسکے گی جس میں کسی زندہ ومتحرک ثقافت کانہال پھلتاپھولتااورپنپتاہے۔دوسرے لفظوں میں گویاہمیں اگر بھرپور زندگی بسرکرناہے اورفکرونظرکے وقائق سے لیکرقلب وروح کے لطائف تک ہرہرشئے سے استفادہ کرناہے توضروری ہے کہ ہم ایسامدرسہ فکرتسلیم کریں جودین ودنیااورعقل ومذہب دونوں کی برکات کا یکساں حامل ہو،اوراللہ کاشکرہے کہ ہمارامدرسہ فکراسلام اپنے دامن میں ان دونوں کوسمیٹے ہو ئے ہے۔
قرآن حکیم اس بات کی تصریح کرتاہے کہ کسی شخص کے پہلومیں دودل نہیں ہوسکتے جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ ہم عقائدوتصورات میں ثنویت برقرارنہیں رکھ سکتے یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن وسنت کی تعلیمات سے ہم کائنات،فطرت یااپنے گردوپیش کے حالات کے بارے میں ایک رائے قائم کریں اورعلوم وفنون سے اخذکردہ نتائج کی بناءپرہم جن تصورات وعقائد کوحق بجانب سمجھیں وہ دوسری نوعیت کے حامل ہوں۔اگرمذہب ودین اللہ کاپیغام ہے اوراس علم ازلی کی فیض رسانیوں کانتیجہ یہ ہے جس میں ماضی،حال اورمستقبل کے بارے میں کسی لغزش یاکوتاہی کاامکان نہیں توپھریہ ضروری ہے کہ اس سے اخذکردہ تعلیمات کسی طرح بھی روح عصرکے منافی نہ ہوں یعنی کسی بھی دورمیں علم وتجربہ کاکوئی بھی انکشاف اہل حق کے حلقوں میں اچنبھانہ پیداکرسکے بلکہ ہونایہ چاہیے کہ جب بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات سے کوئی نئی حقیقت فکرونظرکے سامنے آئے ایسامعلوم ہوکہ اس میں کوئی انوکھاپن نہیں بلکہ اصولی حدتک جانی پہچانی سی حقیقت ہے۔ہاں یہ بات البتہ صحیح ہے کہ کبھی کبھی ان میں تصادم وتضادمحسوس ہوتاہے اورایسی شدت اختیارکرلیتاہے کہ گویایہ دونوں باہم حریف ہیں ،جن میں فیصلہ کن لڑائی چھڑگئی ہے اورنظربہ ظاہراب صرف یہی امکان باقی ہے کہ دونوں میں سے ایک زندہ رہے اوردوسراہمیشہ ہمیشہ کیلئےاپنی شکست تسلیم کرلے۔جن لوگوں نے مغرب میں احیائے علوم کی تحریک کاسرسری مطالعہ بھی کیاہے وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ کلیسااورسائنس کے مابین اس طرح کے متعددموڑ آئے ہیں جن میں دونوں حریف خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آکھڑے ہو ئے ہیں ۔
لیکن تصادم کی یہ شکل عارضی ثابت ہوئی ہے اوربعدکی تحقیقات سے پتہ چلاہے کہ اصل میں ان دونوں میں تضادغلط فہمی کانتیجہ ہے اورعموماًاس وقت محسوس ہوتاہے جب یاتومذہب و دین کی تعبیرصحیح اصولوں پرمبنی نہ ہواوریاپھرسائنس اورعلوم سے غیرسائنسی اور غیرعلمی نتائج اخذکیے جائیں۔اگرمذہب کی تعبیروتشریح میں ان سائنٹیفک اورعلمی اصولوں کومدنظررکھاجائے کہ جن کی روشنی میں کسی بلندترحقیقت کی صحیح معنوں میں تعیین ہوتاہےاورسائنس سے صرف وہی نتائج اخذکیے جائیں جوآخری اوراٹل ہوں توناممکن ہے کہ دونوں میں ذرہ بھی اختلاف رونماہو ۔
علاوہ ازیں یہ تصادم اورتضادبڑی حدتک ہماری جلدبازی اوربے صبری کارہین منت بھی ہوتاہے۔ہماری عادت یہ ہے کہ سائنس کے ہر نئے انکشاف پرشورمچادیتے ہیں کہ بس اب مذہب ودین کی خیرنہیں حالانکہ وہ انکشاف کسی حیثیت میں بھی آخری اورفیصلہ کن نہیں ہوتا بلکہ اگلے انکشاف کی محض تمہیدہوتاہے اوراگلاانکشاف اگرحرفِ آخربھی ہوتب بھی اس سے اصول دین کاکچھ بھی نہیں بگڑتابلکہ اس کے برعکس ہوتاصرف یہ ہے کہ بعض جزئی اورتشریح طلب مسائل میں مذہب ودین کی تشریح وتعبیرکااندازواسلوب بدل جاتاہے اورپہلے سے کہیں زیادہ لطیف اورزیادہ اونچاہوجاتاہے،یہی نہیں زیادہ یقین افروزبھی ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے مطالعہ کائنا ت پر بہت زوردیاہے اورباربارفکروذہن کومتوجہ کیاہے کہ وہ اپنے گردوپیش پھیلی ہوئی وسیع تردنیاپرغورکرے۔آسمان اورزمین کودیکھے۔ اختلاف لیل ونہارکوہدف تعقل ٹھہرائے۔ ہواؤں کے دوش پرسوارہو۔سحاب وابرکی فیض رسانیوں کے حدود کاجائزہ لے۔پہاڑوں کی استواری کوزیر بحث لائے۔اونٹ کودیکھے اورفطرت کے ان عجائبات کوملاحظہ کرے جواس کی تخلیق میں ودیعت کردیے گئے ہیں۔فکرونظراور غوروتفحص کی یہ دعوت چوتھانکتہ یاپہلوہے جس کی بناءپرمسلمانوں میں علوم عقلیہ کیلئےطلب وجستجو کے داعیے بیدارہوئے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان صحرانور دوں نے محض اسلام کی بدولت تہذیب وتمدن کے بلندترین میناروں کوچھولیااورطب،کیمیا،جغرافیہ،فلکیات، منطق، فلسفہ اورکلام میں اتنی ترقی کی کہ برسوں یورپ ان کی تحقیقات کوجویاں رہا ۔
مطالعہ ومشاہدہ کی اس دعوت میں دو باتیں خصوصیت سے قابل غورہیں۔ایک یہ کہ قرآن حکیم نے جس فکروتعمق کی دعوت دی وہ ارسطا طالیسی استخراجی فکرنہیں ہے کہ جونتائج کے اعتبارسے بالکل عقیم اوربے ثمرہے اورجس سے کچھ حاصل ہو نے والانہیں بلکہ فکرو تعمق کامزاج استقرائی ہے جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جزئیات کے مطالعہ وتجربہ سے کلیات اخذکیے جائیں۔ظاہرہے کہ یہ راہ ٹھیٹھ سائنس کی راہ ہے اوراس میں نت نئے انکشافات کابہرحال خطرہ موجودہے لیکن اس کے باوجودقرآن حکیم کااصرارہے کہ تم اس نہج پرغورکرو اوراسی انداز سے سوچو اورفکرونظر کی ضیاءافروزیوں کوعام کرو۔اللہ تعالیٰ جوعلام الغیوب ہے خوب جانتاہے کہ اس راہ کے خطرات کیا ہیں اوراس مطالعہ وتحقیق سے علمی دنیامیں کیاکیاانقلاب آنے والے ہیں۔اس کے ہوتے ساتے جب رب کائنات کاحکم ہے کہ مسلمان ذہنوں کوٹھس نہ ہونے دیں۔علم وتحقیق کی شمعوں کوروشن رکھیں اورتحقیق وتفحص کاپرچم چاردانگ عالم میں لہراتے ہیں تواس کاصاف مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم جن نظام حیات کاداعی ہے اس میں اورعقل کی تیزرفتاریوں میں کہیں تصادم وتناقض کاخطرہ پنہاں نہیں ۔
یہ ہے قرآن کافلسفہ اورسائنس کی ترویج میں فکری حصہ۔ تفصیل اورحوالہ کیلئےدر ج ذیل آیات پرغورفرمائیے:
توتم ایک طرف کے ہوکردین(اللہ کے رستے)پرسیدھامنہ کئے چلے جاؤ(اور)اللہ کی فطرت کوجس پراُس نے لوگوں کوپیداکیاہے(اختیار کئے رہو)اللہ کی بنائی ہوئی(فطرت)میں تغیروتبدل نہیں ہوسکتا۔یہی سیدھادین ہے لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے۔(روم:30)
“حکمت ودانش جسے چاہتے ہیں ارزانی فرمادیتے ہیں اورجس کوحکمت ودانش سے نوازاگیااسے بڑی چیزمل گئی ۔”(البقرة:269)
“بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے پروردگارکی طرف سے بصائرآچکے ہیں ۔”(الانعام:104)
اوران میں کچھ وہ لوگ ہیں جوکہتے ہیں اے ہمارے پروردگارہمیں دنیامیں بھی بہتری عنایت کیجیے اورآخرت میں بھی بہتری سے بہرہ مند کیجیے اور ہم کو آگ کے عذاب سے محفوظ رکھیے۔”
(البقرة:201)
“اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دودل نہیں رکھے”(الاحزاب:4)
کیاان لوگوں نے اپنے اوپرآسمان کونہیں دیکھاکہ ہم نے اسے کیونکربنایاہے۔اورکیونکرآراستہ کیااورسجایاہے۔اوراس میں کوئی رخنہ تک نہیں۔اورہم نے زمین کوپھیلایااوربچھایا۔اوراس میں پہاڑوں کوجمایااوراس میں ہرطرح کی خوش منظرچیزیں اگائیں اس لیے کہ اس کی طرف رجوع ہو نے والا ہربندہ ان پرغورکرے اورعبرت پذیرہو۔(ق:6-8)
بلا شبہ آسمانوں اورزمین کے بنانے میں۔اوریکے بعد دیگرے دن کے آنے میں۔اورجہازوں میں جوکہ سمندرمیں چلتے ہیں،آدمیوں کے نفع کی چیزیں اوراسباب لبکراوربارش کے پانی میں جس کواللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا۔پھراس سے زمین کوزندہ کیاجبکہ یہ خشک ہو چکی تھی۔اورہرقسم کے حیوانات اس میں پھیلادیے اورہواؤں کے بدلنے میں اورابرمیں جوآسمان اورزمین کے مابین مسخرہے۔دلائل ہیں ان لوگوں کیلئےجوعقل سے کام لیتے ہیں ۔(البقرة:164)
غرض یہ ہے کہ مسلمانوں میں جوعلم وفن کی ترقی ہوئی اورکندی،رازی،ابن ماجہ،ابن سینا،فارابی اورابن رشدوغزالی ایسے عظیم مفکرین پیداہوئے تواس کی وجہ یہ نہیں کہ یونان وایران کے سرمایہ تہذیب وتمدن نے ان کے قلب وذہن میں یکایک تبدیلی پیداکردی تھی بلکہ اس کی بڑی اوربنیادی وجہ وہ داخلی انقلاب تھاجس کوقرآن حکیم کی تعلیمات نے پیداکیااوروہ تڑپ اورلگن تھی جواسلامی تعلیمات کے نتیجے میں خودبخودکاوش وجستجو کاباعث ہوئی۔ورنہ یہ وہی عرب تھے جوکافور کو نمک سمجھتے تھے اورچاندی کوسونے سے زیادہ قیمتی جانتے تھے۔جوطرح طرح کے اوہام کاشکارتھے لیکن تاریخ کے اوراق زندگی کے ہرپہلوپران کی تحقیقات سے نہ صرف فائدہ اٹھانے کی گواہی دے رہے ہیں بلکہ زندگی کوآداب وسلیقہ سکھانے کیلئے ان کی پیروی کررہے ہیں۔