Palestine: From Persistence to Statehood

فلسطین: استقامت سے ریاست تک

:Share

غزہ کی مٹی آج بھی جل رہی ہے۔وہاں کی ہوائیں بارودکی بوسے آلودہ ہیں،آسمان بچوں کی سسکیوں سے بوجھل ہے،اورزمین ماں کے آنسوؤں سے شرمندہ۔اسرائیلی بمباری نے جسموں کو نہیں،انسانیت کوچیردیاہے۔غزہ میں ایک ماں اپنے بچے کی لاش کودیکھ کرخاموش ہے۔اس کی آنکھوں میں آنسونہیں،کیونکہ آنسوختم ہوچکے ہیں۔اس کے چہرے پرچیخ بھی نہیں،کیونکہ چیخیں اب کسی کوجھنجھوڑتی نہیں۔غزہ کی تباہ حال گلیوں میں آج بھی معصوم بچوں کی لاشیں ملبے تلے دبی ہیں،ان ماؤں کے بین گونجتے ہیں جنہوں نے صرف اپنے بچوں کے کھلونے دفن کیے۔ساری دنیاکے کیمرے، رپورٹر،سربراہانِ مملکت اوراقوامِ متحدہ کے اجلاس سب یہ منظردیکھ چکے ہیں—مگرجونہیں دیکھ پایاوہ ہے فلسطینی سرزمین پربہتاخون،تباہ شدہ مکانات، زخمی بچے،سسکتی عورتیں اوردھوئیں میں لپٹاآسمان—یہ کوئی اتفاقی سانحہ نہیں ،بلکہ ایک منظم نسل پرستی،دانستہ امتیازاورسفارتی منافقت کانتیجہ ہے۔بلکہ یہ انسانیت کاوہ جنازہ ہے جو ایک منظم نسل پرستی،دانستہ امتیازاورسفارتی منافقت کے نتیجہ میں ساری دنیاکے کندھوں پرلاددیاگیاہے۔

غزہ کی سرزمین جوآج بھی بے گناہ انسانی خون سے ترہورہی ہے،جہاں نہتے فلسطینی بچوں،خواتین اوربزرگوں کوجدیدترین اسلحہ اوربارودسے نشانہ بنایاجارہاہے۔گارڈین اخبارکے مطابق 64،260 فلسطنی شہیدہوچکے ہیں اورطویل المدتی اثرات(بیماری، غذائی قلت وغیرہ)کے باعث ہلاکتیں چارگناتک186،000تک پہنچ سکتی ہیں۔ان شہداءمیں19ہزارسے کہیں زیادہ بچے،12،500 خواتین اورباقی مردشامل ہیں۔”ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن اورلانسٹ”کے مطابق اسرائیل کے ہاتھوں مجموعی ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوسکتی ہیں،خاص طورپرجب غیرمنقسم اموات (بیماری، غذائی قلت، صحت کی سہولیات کی تباہی وغیرہ) کو شامل کیا جائے۔اس جنگ نے صرف فوری مارپیٹ سے انسان کانقصان نہیں کیا،بلکہ گھنٹوں تک جاری بھوک،بیماری اوربنیادی ڈھانچے کی تباہی نے بھی ایک کل وقتی انسانی بحران پیداکیاہے۔

اس ظلم کی داستان محض اسرائیلی جارحیت تک محدودنہیں،بلکہ اس میں عالمی قوتوں کے علاوہ بھارت کی مودی سرکارکابھی واضح اورمجرمانہ کردارسامنے آیاہے۔اطلاعات کے مطابق، بھارت نے اسرائیل کوایک ملین کے قریب افرادبھرتی کرکے دیے ہیں جوبراہ راست یابالواسطہ طورپرفلسطینی عوام کے قتل عام میں شریک ہورہے ہیں۔یہ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی ضمیر کیلئےایک کھلاچیلنج بھی ہے۔ایسے میں مودی حکومت کااسرائیل کے ساتھ اس سطح کاعسکری اشتراک اس”جرم عظیم”کاناقابلِ انکار حصہ بن جاتاہے،جس میں انسانیت سسک رہی ہے اور انصاف خاموش ہے۔

اسرائیل نے نسل پرستی کوجس ڈھنگ سے اپنایاہے،وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔یہ وہی روش ہے جوجنوبی افریقاکی سفید فام اقلیت نے سیاہ فام اکثریت کے خلاف اختیارکی تھی۔جس طرح جنوبی افریقامیں سوویٹو ظلم کے خلاف علامت بن گیاتھا،آج غزہ ویساہی فلسطینی جدوجہدکاایک استعارہ بن چکاہے۔جس طرح سوویٹوختم ہوا،دنیانے نسلی امتیازکے اُس نظام کوزمیں بوس ہوتے دیکھا، اسی طرح اسرائیل میں بھی نسل پرستی پرمبنی نظام کے خاتمے کی امیدکی جارہی ہے—اوراب یہ امیدپہلے سے کہیں زیادہ قوی ہوچکی ہے۔

21مارچ 1960ءکوشرپے ولے میں سیاہ فام مظاہرین پرگولیاں برسائی گئیں۔16جون1976ءکوسوویٹومیں بچوں کونشانہ بنایاگیااور پھر2018ءمیں، غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کوگولیوں کاسامناکرناپڑامگراب،2023ءاور2024ءکے بعداسرائیل کی کارروائیاں کہیں زیادہ شدیداوربے نقاب ہوچکی ہیں۔جنوبی افریقامیں سیاہ فاموں کوریاستی سطح پرالگ کیاگیا ، بنیادی حقوق سے محروم رکھاگیا،اورانہیں ووٹ تک کاحق نہ دیاگیا۔ اسرائیل نے بھی فلسطینیوں کوشہریت سے محروم رکھا(خصوصاًغزہ،مغربی کنارے کے باشندوں کو)آزادنقل وحرکت ، روزگار، تعلیم وعلاج جیسے بنیادی حقوق سے محروم کیا،الگ تھلگ بستیوں میں محدودکیا۔جنوبی افریقا میں بنٹواسٹین بنائے گئے،اسرائیل نے”پیلسٹینین اتھارٹی”کواسی طرزپرمحدودخودمختاری دی۔اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کواُن ہی حقوق سے محروم کررہاہے جن سے جنوبی افریقامیں سیاہ فاموں کورکھاگیاتھا۔

ووٹ کاحق محدود،نقل وحرکت پرپابندیاں،معاشی محاصرے،صحت،تعلیم،روزگارتک محدودرسائی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرکے غزہ کوایک بہت بڑی جیل میں منتقل کردیاگیا۔2024ءکی جنگ کے بعدعالمی اداروں نے متواتررپورٹ کیاہے کہ غزہ ایک “ناقابلِ رہائش”علاقہ بن چکاہے۔ دوائیں ناپید،پانی آلودہ،اوربنیادی ڈھانچہ ملبے کاڈھیربن چکاہے۔اسرائیل کی پابندیوں اورمحاصرے نے لاکھوں جانوں کوخطرے میں ڈال دیاہے۔غزہ کی صورتحال اب انسانی بحران سے کہیں آگے جاچکی ہے۔

آج بھی اسرائیل کی پالیسیوں کے مدافعین موجود ہیں،جیسے کہ رچرڈگولڈاسٹون،مگروہ آوازیں اب اقلیت میں ہیں۔جنوبی افریقا کے نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈٹوٹوکے مطابق”اسرائیل کی پالیسی وہی ہے جوجنوبی افریقاکی نسل پرست حکومت کی تھی۔”اب یہ رائے دنیا بھرمیں تقویت پکڑچکی ہے۔اسرائیل نے1948ءمیں جن سات لاکھ عرب باشندوں کوان کی سرزمین سے بے دخل کیا،آج ان کی اولادیں غزہ،اردن،لبنان،شام اور مغربی کنارے میں مہاجرت کی زندگی گزاررہی ہیں۔جب یہ فلسطینی مارچ فارریٹرن کے تحت اپنی زمینوں کی طرف بڑھتے ہیں، تو انہیں گولیوں سے روکاجاتا ہے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق،ہربے دخل شدہ قوم کواپنی آبائی سرزمین کی طرف واپسی کاحق حاصل ہے۔

2023-2025 کے دوران، دنیانے فلسطینی ریاست کے حق میں ایک نئی لہردیکھی ہے۔امریکاکی جامعات سے لیکریورپ کی پارلیمانوں تک،اسرائیل پردباؤمیں اضافہ ہواہے۔کئی ممالک نے اسرائیلی مظالم کو”ناقابل برداشت”قراردیاہے،جسے جنوبی افریقا کی طرزپرتسلیم کیاجارہاہے۔

اب سوال یہ نہیں رہاکہ اسرائیل کوکیاکرناچاہیے،بلکہ یہ ہے کہ اب کتنی دیراورظلم برداشت کیاجائے گا؟اگراسرائیل دوریاستی حل سے گریزاں ہے، تواسے جنوبی افریقاکی طرزپرایک مشترکہ ریاست کاماڈل اپناناہوگاجہاں ہرفرد—یہودی،مسلمان،یامسیحی—برابری کے حقوق سے بہرہ ورہولیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت،خاص طورپروزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے اتحادی،مساوی ریاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔2024ءمیں بیت المقدس،غرب اردن اورنیجیف میں جونئی بستیاں قائم کی گئیں،وہ واضح اشارہ دیتی ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کومزیدپسپاکرنا چاہتاہے۔

2024ءکی جنگ میں اسرائیلی درندگی اورانسانیت سوزمطالم نے غزہ کوکھنڈرمیں تبدیل کردیا۔اسپتال،اسکول،پناہ گاہیں تک نشانہ بنیں۔ہزاروں شہری ،جن میں بچے اورخواتین بھی شامل ہیں،جاں بحق ہوئے۔عالمی میڈیا،سوشل میڈیااورعینی شواہدنے ان مظالم کو پوری دنیاکے سامنے لاکھڑاکیا ۔ یورپ اورامریکاکی جامعات میں پڑھنے والی نئی عالمی نوجوان نسل کادباؤ، بالخصوص یہودی نوجوان بھی،اب اسرائیلی بیانیے کومسترد کرنے لگے ہیں۔ طلبہ مظاہرے،بائیکاٹ مہمات اورعوامی احتجاج نے یورپی سیاستدانوں کومجبورکیاکہ وہ اسرائیل کی کھلی حمایت کوترک کریں۔

لیکن اب منظربدل رہاہے۔وہ یورپ،جوکبھی اسرائیل کاخاموش حمایتی تھا،اب فلسطین کے حق میں بول رہاہے۔فرانس،اسپین،آئرلینڈ جیسے ممالک فلسطین کوتسلیم کررہے ہیں۔یہ صرف سفارتی فیصلہ نہیں،بلکہ یہ اُس بچے کے آنسوؤں کاجواب ہے،جس کاکھلونا خون میں لت پت ہوا۔یہ ان گمنام قبروں کااعتراف ہے،جوتاریخ کے ہرورق پراسرائیلی جارحیت کا نشان چھوڑگئی ہیں۔یہ کہانی صرف فلسطین کی نہیں،یہ ہراس انسان کی ہے جسے اس کی شناخت،نسل،مذہب یازمین کے نام پررونددیاگیا۔یہ کہانی ختم نہیں ہوئی،لیکن شایدایک نیا باب شروع ہونے والاہے۔یورپی عوامی دباؤ،طلبہ اورسول سوسائٹی کافلسطین کے حق میں بھرپوراحتجاج، اسرائیلی حکومت کی دائیں بازوپالیسیوں پرعالمی برہمی اورامریکاکی خاموشی اور دوہرے معیارنے یورپ کوخودمختارفیصلے لینے پرمجبورکیا۔

غزہ کی تباہ شدہ گلیوں سے اٹھنے والادھواں ابھی مکمل طورپرچھٹانہیں،لیکن دنیاکے سیاسی افق پرایک نئی روشنی کی کرن ضرورپھوٹی ہے۔فرانس، اسپین ، آئرلینڈ،ناروے اوردیگریورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کوباضابطہ ریاست تسلیم کیے جانے کا اعلان،بلاشبہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔برسوں سے عالمی برادری جس اسرائیلی بیانیے کے سائے میں خاموش کھڑی تھی،اب اس کے قدم ڈگمگانے لگے ہیں۔عالمی سیاست میں ایک غیرمتوقع اورانقلابی موڑ صرف ایک علامتی اشارہ نہیں بلکہ اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف ایک سفارتی بغاوت ہے۔اسی تناظرمیں یورپی ممالک کاحالیہ اقدام محض علامتی اعلان نہیں بلکہ ایک سفارتی انقلاب ہے۔فرانس جیسے ملک کا فلسطین کو تسلیم کرنا،اسرائیل کے دیرینہ اتحادیوں میں دراڑکی علامت ہے۔یہ اقدام دنیاکویہ پیغام دے رہاہے کہ فلسطینی قوم کی آوازکومزید دبایانہیں جاسکتا۔

فرانس جیسے ملک کی جانب سے فلسطین کوتسلیم کیاجاناغیرمعمولی بات اس لیے بھی ہے کہ یہ ملک طویل عرصے سے امریکا اوراسرائیل کے ساتھ توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتاآیاہے۔اب جبکہ اسرائیل نے غزہ میں 2024ءکی جنگ میں بے تحاشاانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں اورعالمی ضمیرکو جھنجھوڑکررکھ دیا،تویہ ممکن نہ رہاکہ یورپ اس ظلم پرخاموش رہے۔برازیل، جنوبی افریقا،انڈونیشیا،ترکی (عالمی جنوبی ممالک کااتحاد)اوردیگرترقی پذیرممالک فلسطین کے کھلے حامی بن کرسامنے آئے ہیں۔

ان ممالک نے اقوام متحدہ اوردیگرعالمی فورمزپرفلسطینی مؤقف کی حمایت میں نمایاں کرداراداکیاہے۔امریکاکی کمزورخارجہ پالیسی اورداخلی کشمکش، سیاسی تقسیم اورعالمی قیادت میں فقدان نے یورپ کومجبورکیاکہ وہ خودفیصلہ کرے۔اب یورپ امریکا کے بغیربھی سفارتی فیصلے لینے لگاہے،اورفلسطین کی تسلیمیت اسی رجحان کی علامت ہے۔

فلسطین کوتسلیم کرنے والے ممالک کی بڑھتی ہوئی فہرست نے اسرائیل کوسفارتی محاذپرتنہاکرناشروع کردیاہے۔اسرائیلی حکومت اس وقت شدید سفارتی بحران اوریورپی دباؤکاشکارہے اوراندرون ملک بھی مخالفت کاسامناہے۔ایک عرصے سے مردہ سمجھے جانے والے”دوریاستی حل”کونئی زندگی ملی ہے۔اب فلسطین کوایک جائزریاست کے طورپرتسلیم کیاجارہاہے،جس سے امن مذاکرات کے امکانات پھرسے پیداہوئے ہیں جس کے بعددو ریاستی حل کی بحالی کامطالبہ زورپکڑگیاہے۔

یہ اقدام اس بات کاثبوت ہیں کہ اسرائیل کے حالیہ ظلم وستم پرامریکی سرپرستی کومسلسل دیکھتے ہوئے امریکااوریورپ میں اختلافات ایوانوں سے نکل کرعالمی میڈیاکی زینت بنناشروع ہو گئے ہیں کہ یورپ اب امریکاکی پیروی نہیں کررہا۔یورپ کی آزاد خارجہ پالیسی کایہ قدم مغربی دنیاکی صف بندی کو نئے سرے سے تشکیل دے رہاہے۔جب دنیا کی بڑی طاقتیں فلسطین کوریاست ماننے لگیں توفلسطینی عوام کوایک نئی اخلاقی طاقت اورفلسطینی مزاحمت کواخلاقی جوازمیسرآجاتاہے۔گویایہ بات اس امرکاثبوت ہے کہ ان کی جدوجہداب صرف مزاحمت نہیں بلکہ آزادی کی منظم اورقانونی تحریک بنتی جارہی ہے۔

یہ پیش رفت بتاتی ہے کہ بین الاقوامی ضمیربیدارہوچکاہے۔فلسطینیوں کے ساتھ سات عشروں سے روارکھاجانے والاظلم،عالمی طاقتوں کیلئےاب دفاع کرناممکن نہیں رہا۔ایک نئی عالمی صف بندی کاآغازہوگیاہے۔اگریہ رفتارجاری رہی توآئندہ چندبرسوں میں فلسطینی ریاست اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرسکتی ہے۔

اب اسرائیل کوانتخاب کرناہوگایاتووہ دوریاستی حل قبول کرے،یاایک مشترکہ ریاست کے اصولوں کومانے—جہاں برابری کے ساتھ فلسطینیوں کومکمل حقوق دیے جائیں۔اگرایسانہ ہواتویورپی ممالک کی جانب سے یہ سفارتی بغاوت ایک بڑی عالمی تحریک میں تبدیل ہوسکتی ہے،جیسی ماضی میں جنوبی افریقاکے خلاف دیکھی گئی تھی۔

اسرائیلی حکومت،خصوصاًنیتن یاہوکی قیادت،اس یورپی اقدام کو’’دہشتگردوں کی فتح‘‘قراردے رہی ہےمگرخوداسرائیل کے اندر بھی اختلاف کی آوازیں بلندہورہی ہیں۔سابق اسرائیلی سفیروں ،دانشوروں اورفوجی افسران کی طرف سے تنقیدکاسلسلہ شروع ہوگیا ہے۔نئی نسل کی اسرائیلی یہودی آبادی کاسوال بھی زورپکڑرہاہے کہ کیاہم واقعی برابری پریقین رکھتے ہیں یا برتری پر؟

ادھرامریکاکی صورتحال قابلِ توجہ ہے۔ایک طرف وہ اسرائیل کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتاہے،دوسری طرف اب اُسے اپنے یورپی اتحادیوں کی نئی خودمختارپالیسیوں کاسامناہے۔واشنگٹن کی سفارتی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے۔ایک طرف وہ خلیجی ممالک پرزوردے رہاہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات معمول پرلائیں،دوسری طرف اس کے پرانے اتحادی فلسطین کوتسلیم کرکے اسرائیلی مؤقف سے بغاوت کررہے ہیں۔

ادھردوسری طرف ٹرمپ کے دامادجیرالڈکشنزایک نئے”لارنس آف عریبیا”کاکرداراداکرتے ہوئے2020ءمیں امریکاکی زیرِ سرپرستی معاہدہ ابراہیمی تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا،جس کے تحت متحدہ عرب امارات،بحرین،مراکش اورسوڈان نے اسرائیل کوباقاعدہ طورپرتسلیم کرلیا۔اس معاہدے کوامریکاکی ایک سفارتی فتح اوراسرائیل کو”نارملائز”کرنے کی کوشش کے طورپرپیش کیاگیا،اُس وقت اسے امن،ترقی اورمشرق وسطیٰ میں استحکام کی ایک نئی صبح قراردیاگیالیکن یہی معاہدہ فلسطینی عوام کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف بھی ثابت ہوا،کیونکہ ان کی ریاستی حیثیت کومسلسل نظراندازکیاجاتارہا۔۔

تاہم اس ابراہیم اکارڈمیں امریکی مقاصدکسی سے چھپے ہوئے نہیں کہ وہ اس خطے میں ایران کوعلاقائی طورپرتنہاکرنا،اسرائیل کوعرب ممالک کے قریب لاکرخطے میں اتحادی بلاک تشکیل دینا،امریکی اسلحہ صنعت اوردفاعی معاہدوں کوفروغ دینااور فلسطینی مسئلے کونظراندازکرکے اسرائیل کی سیاسی برتری کوتسلیم کراناچاہتاہے تاکہ مستقبل کے گریٹراسرائیل کی راہ ہموارکی جاسکے۔

مگر2024کی غزہ جنگ نے عالمی ضمیرکوجھنجھوڑکررکھ دیا۔سینکڑوں بچوں کی لاشیں،مسمارشدہ اسپتال،ٹوٹے ہوئے خواب اور بربادبستیوں کی تصاویر دنیابھر میں وائرل ہوئیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے پہلی بارکھل کراسرائیل کونسل پرست ریاست قراردیناشروع کیا۔اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادوں،عالمی عدالت انصاف کے فتووں اورصحافیوں کی رپورٹس نے ثابت کیاکہ اسرائیلی پالیسیوں میں واضح نسل پرستی،جبری قبضہ اورانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

اس پر مستزادٹرمپ کامطالبہ کہ غزہ کومکمل طورپرامریکاکے حوالے کردیاجائے اوروہ عالمی سیاحت کیلئے ایک ماڈل شہرتعمیر کرناچاہتاہے اورشنیدیہ بھی ہے کہ اس پراجیکٹ میں کئی کمپنیوں کویہاں پرجدیدسہولتوں کے ساتھ ہوٹل اوردیگر سیاحتی مقامات بنانے کاعندیہ بھی دے دیاگیاتھااوراس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ حکم بھی جاری کردیاتھاکہ یہاں پربسنے والے تمام باشندوں کو عرب پڑوسی ممالک اپنے ہاں بسانے کابندوبست کریں۔

2023ءسے لیکراب تک کی تباہ کن جنگوں کے بعد،فلسطینی مزاحمت نے ایک نئی جہت اختیارکی ہے۔دنیاکی نظریں غزہ پرجمی ہوئی ہیں۔اسرائیل اب زیادہ دیرتک نسل پرستی اورجبر کے ساتھ دنیاکے سامنے کھڑانہیں رہ سکتا۔عالمی سطح پراسرائیل کے خلاف بائیکاٹ تحریک،تنقیداورنفرت میں اضافہ ہواہے۔آج،فلسطینیوں کی جدوجہدکوجنوبی افریقاکی تاریخی تحریک سے جوڑاجارہاہے۔ اورجس طرح جنوبی افریقا میں نسلی امتیازکاقلع قمع ہواتھا،ویساہی انجام اسرائیل میں رائج ناانصافیوں کابھی مقدربن سکتاہے۔

یقیناًامریکامیں یورپی ممالک کے اس فیصلے کے ردعمل میں یہودی لابیوں کاموجودہ امریکی حکومت پرمزیددباؤبڑھ جائے گااور یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے فوری طورپرخاموش سفارتی ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے ان فیصلوں پرنرم اختلاف کیا،مگرکھلے عام مخالفت سے گریزکیاتاکہ ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کونقصان نہ پہنچے۔

تاہم امریکایورپ پرغیررسمی دباؤکیلئے نیٹو،جی سیون اورتجارتی پلیٹ فارمزکے ذریعےدباؤڈال سکتاہے کہ وہ اپنے مؤقف میں نرمی لائیں۔اقوام متحدہ میں اگرفلسطینی ریاست کومکمل رکنیت دینے کی کوشش ہو،توامریکافلسطینی ریاست کی رکنیت کی مزاحمت کیلئے ویٹوپاوراستعمال کرسکتاہے (جیساوہ 2011 میں کرچکاہے)۔

خلیجی ممالک پردباؤمیں اضافہ کرکے سعودی عرب،عمان،قطرجیسے ممالک پرزوربڑھایاجائے گاکہ وہ اسرائیل سے تعلقات بحال کریں تاکہ یورپ اوردیگرممالک کی طرف سے فلسطین کوتسلیم کرنے کا”اثر”زائل ہو۔

امریکافلسطین کے معاملے پرخلیجی ممالک سعودی عرب،عمان،قطرپردباؤبڑھائے گاکہ وہ فلسطین کے حق میں بیانات سے گریز کریں اسرائیل سے تعاون جاری رکھیں(بالخصوص انٹیلی جنس ،سائبرٹیک،ہتھیار)اورفلسطینی مزاحمت پرکھل کرتنقیدکریں مگریہ ممکنہ رکاوٹیں،یورپ کی طرف سے فلسطینی ریاست کی حمایت کے بعدخلیجی حکومتوں پراپنے عوامی دباؤکاسامنابڑھ جائے گا۔ اگرسعودی عرب فلسطین کوچھوڑکراسرائیل سے تعلقات قائم کرتاہے تواس کی قائدانہ حیثیت کوزک پہنچ سکتی ہے اوریہ خلیجی ممالک کیلئے ایساامتحان ہوگاجوان کے مستقبل کافیصلہ بھی کرسکتاہے۔

ادھر امریکا میں متعدد بااثر یہودی تنظیمیں سرگرم ہیں، جیسے امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی، اینٹی ڈیفیمیشن لیگ، جنسا) امریکاکے قومی سلامتی کیلئے یہودی ادارہ اور کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل اوردیگرطاقتورگروہ یورپی فیصلے کوروکنے یاکم ازکم بے اثربنانے کیلئےمتحرک ہوچکے ہیں۔وہ ایک طرف میڈیا پراثرڈال رہے ہیں اوردوسری طرف امریکی پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رکھیں۔ان تنظیموں کی طرف سے شدیدردعمل کے طورپر:
اسرائیل نوازیہودی لابیوں کی طرف سے امریکی کانگریس اور سینیٹ میں قراردادیں لائی جا سکتی ہیں جن میں یورپی ممالک کے اقدام کی مذمت ہو۔
عالمی میڈیا پراثراندازہونے کیلئے ایک بھرپورمہم کے ذریعے سی این این،فاکس نیوز،نیویارک ٹائمزاوردیگربڑے میڈیااداروں میں فلسطین کی تسلیمیت کو’’یکطرفہ فیصلہ‘‘یا’’دہشتگردوں کی جیت‘‘کے طورپرپیش کیاجاسکتاہے۔
امریکی سیاسی امیدواروں پردباؤکیلئے آئندہ انتخابات میں وہی امیدوارکامیاب ہوں گے جواسرائیل کی غیرمشروط حمایت کاعہد کریں گے۔
یہ گروہ،یورپی ممالک کے ساتھ دفاعی شراکتوں خاص طورپرنیٹوکے اندراثرڈالنے کی کوشش کرسکتے ہیں اوریورپی سرمایہ کاری اوردفاعی معاہدوں کوچیلنج کیاجاسکتاہے۔

تاہم زمینی حقائق اب تبدیل ہوچکے ہیں۔فلسطینی عوام اب صرف راکٹ یاپتھرکے ذریعے نہیں،بلکہ قانون،سفارتکاری اورعالمی رائے عامہ کی قوت سے اپنی شناخت منوانے نکلے ہیں۔اسرائیل کواب انتخاب کرناہوگایاتووہ دوریاستی حل قبول کرے،یاپھرجنوبی افریقاکے سابق نسل پرست نظام کی طرح ایک برابرکے حقوق پرمبنی ریاست کی طرف قدم بڑھائے،جہاں یہودیوں اورفلسطینیوں کومساوی شہری حیثیت حاصل ہو۔فلسطینیوں کاخون رائیگاں نہیں جائے گا۔اگراسرائیل ایک مساوی ریاست کی طرف قدم نہیں بڑھاتا توعالمی دباؤکی شدت اسے اسی طرح جھکنے پرمجبورکرے گی،جیسے جنوبی افریقاکی نسل پرست حکومت نے آخرکارہتھیارڈال دیے تھے۔ایک دن ایساضرورآئے گاجب فلسطینی اوراسرائیلی ایک ہی ریاست میں برابری کی بنیادپرسانس لیں گے—اورتب غزہ، سوویٹوکی طرح،آزادی کااستعارہ بن کرابھرے گا۔

فرانس،اسپین،آئرلینڈ،ناروے،بیلجیم اوردیگرممالک کی طرف سے فلسطین کوباضابطہ ریاست تسلیم کرنا،ابراہیمی معاہدوں کی روح کے برعکس ایک بڑاسفارتی جھٹکاہے۔یورپی اقدامات کا مطلب اسرائیلی مظالم پربراہِ راست بین الاقوامی مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کوقانونی واخلاقی جواز فراہم کرنابھی ہے۔یورپ کے اس عمل پرجہاں امریکا کی یکطرفہ پالیسیوں کے خلاف یورپی مزاحمت کااظہارہوتاہے وہاں خلیجی اوردیگرمسلم ممالک کے اسرائیل سے تعلقات پراخلاقی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

دنیایہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی دائیں بازوکی اندرونی سیاست انتہاپسندی کی طرف تیزی سے مائل ہورہی ہے۔مغربی کنارے میں نئی بستیاں،غزہ کامسلسل محاصرہ،اوربیت المقدس کی مسلسل یہودکاری نہ صرف امن کے امکانات کوزہرآلودکررہے ہیں بلکہ عالمی حمایت سے بھی ہاتھ دھلارہے ہیں۔

یورپ کاحالیہ اقدام ثابت کرتاہے کہ عالمی سفارتکاری میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیادرکھ دی گئی ہے۔سوال اب یہ نہیں کہ فلسطینیوں کوریاست کاحق دیاجائے گایانہیں،بلکہ یہ ہے کہ کب اورکس قیمت پر۔امریکا،اسرائیل اوران کے اتحادی اگرواقعی امن کے خواہاں ہیں توانہیں اب مظلوم کی آواز سننی ہوگی۔

فلسطین کی عالمی تسلیمیت محض ایک سفارتی اقدام نہیں،یہ صدیوں سے جاری استبدادکے خلاف انصاف کی پہلی شعاع ہے۔اگر یورپ کایہ قدم مزید ممالک کی حوصلہ افزائی کرتاہے،تواسرائیل کواپنی نسل پرستانہ پالیسیوں پرنظرثانی کرنی ہوگی۔ورنہ عالمی بائیکاٹ،اخلاقی تنہائی اورسفارتی دباؤ کی شدت میں اضافہ ناگزیرہے۔

یہ وقت ہے کہ دنیا صرف تماشائی نہ بنے،بلکہ انسانیت کے حق میں،قانون کے تقاضوں کے مطابق،اورمظلوموں کی حمایت میں ایک واضح اورمؤثر مؤقف اپنائے۔شایدفلسطینی ماؤں کی آنکھیں کسی روشن کل کاخواب پھرسے دیکھنے لگیں۔

فلسطین اب صرف ایک مظلوم قوم کانام نہیں،بلکہ انصاف،مزاحمت اوراصولوں کی علامت بن چکاہے۔اورجس طرح جنوبی افریقا میں نسل پرستی دم توڑگئی تھی،اسی طرح اسرائیل کی نسل پرست پالیسیاں بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذرہونے والی ہیں۔ فلسطینیوں کاخون شایدسستاسمجھاگیاہو، مگر اب وہ عالمی ضمیرکی دہلیزپرسوال بن کرکھڑاہے اورتب تک اس جرم سے رہائی نہیں ملے گی جب تک یہودوہنودکے مجرمانہ ضمیرکوان کے انجام تک نہ پہنچایاجائے۔

حق وانصاف کی شمع جوفلسطین کے آسمان پرروشن ہوئی ہے،اُس کانوراب گہری تاریکیوں میں بھی گم نہیں ہوسکتا۔یہ روشنی صرف سیاسی بیان بازی یاجغرافیائی حدبندی کامسئلہ نہیں،بلکہ ایک عالمگیرجذبہ ہے جوانسانیت کے ضمیرکو جھنجھوڑدیتاہے۔وہی ضمیرجوتاریخ کے طوفانوں میں صدیوں سے خموشی اختیارکیے ہوئے تھا،اب نعرہء حق بلندکر رہا ہے:
اورجوشخص جان بوجھ کرکسی مؤمن کوقتل کرے تواس کی جزاجہنم ہے۔(النساء:93)
یہ مقدس آیت ہرظلم وستم کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے۔

یہ وہی فلسطین ہے جہاں نہتے بچوں کی معصوم ہنسیوں کوگولیوں نے خاموش کردیا،جہاں ماؤں کی فریادیں گونجتی ہیں اورپتھروں کی زبان بولتی ہے مگرآج کے دورکے مجاہدنہ صرف فائرنگ کی لڑائی لڑرہے ہیں،بلکہ عالمی عدالتوں، سفارتی میدانوں اورصحافت کے محاذپربھی وہی جذبہء شہادت لئے لڑرہے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ظلم وجبرکی دیواریں تباہی کے رستے پرگرتی ہیں ، چاہے وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی ہویافلسطین کی زمین پرپھیلایہ ظالمانہ قبضہ۔

یاد رکھیں: عدل وانصاف کی صبحِ ظہورمیں، فلسطین محض ایک مسندِ دکھ ورنج نہیں،بلکہ صبرواستقامت،حق وصداقت اورربانی صبرکی جاوداں علامت بن چکاہے۔اس کے شہداءکالہوفراموش شدہ نہیں،بلکہ قربانی کی سیاہی سے تاریخ کے اوراق پرلکھاگیاایک مقدس عہد ہے۔جیساکہ قرآن مجید میں فرمانِ حق ہے:
نہ ان کے مال ہی اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام آئیں گے اورنہ ان کی اولاد،وہی دوزخ والے ہیں،اس میں ہمیشہ رہیں گے(مجادلہ:17)
پس یہ روح کی پاکیزگی،حق کی سربلندی اورعوام کی جرات وہ ثقل ہیں جوتاریخ کے ترازو پربھاری ہوں گے۔

ممالک وملتوں کی نظروں میں فلسطینی جدوجہدکے حقائق کی پردہ داری ممکن نہیں رہی۔جس طرح ماضی میں جنوبی افریقہ کے نسلی تعصب کے خلاف تحریک نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑا،آج بھی عالمی شعورکوبیدارکررہی ہے۔سوال محض یہ نہیں کہ فلسطین کوریاست کاحق دیاجائے یانہیں،بلکہ یہ ہے کہ کب اورکس قیمت پرانصاف قائم ہوگا۔فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا، انسانیت،سیاست اوراخلاق کاامتحان ہے،جوریاستوں کیلئے نہیں،بلکہ پوری دنیا کے ضمیرکیلئے ہے۔

یہ وقت ہے کہ دنیاکے حکمران،جن کے ہاتھوں میں دنیاکے تقدیرکے فیصلے ہیں،حق کی صداسنیں اوراپنے ضمیروں کوجگائیں۔اب راہ صرف انصاف کی ہے،دوریاستوں کی مساوات یاایک مشترکہ وطن کی امید،جہاں ہرانسان کواس کی انسانیت کے مطابق مقام ملے۔ورنہ وہی انجام ہوگاجوپہلے ہوا،جب ظلم کی دیواریں گرگئیں اورآزادی کی کرنیں پھوٹیں۔یہی وہ وقت ہے جب اسلام کی اعلیٰ تعلیمات،جوبرابری،عدل اورامن کی بنیادہیں،دنیاکی سیاست میں روشنی بن کر چمکیں۔قرآن کی حکمت ہمیں سکھاتی ہے کہ
“اور انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔”(النجم:39)

فلسطینی قوم کی یہ جدوجہد،چاہے جغرافیائی ہویاسیاسی،محض ایک قوم کی کوشش نہیں،بلکہ عالم انسانیت کی کوشش ہے،ظلم کے خلاف ایک آوازہے جودیواروں اورسرحدوں سے بالاترہے۔
آج جہاں طاقتوروں کے درمیاں سازشیں اورتضادات عروج پرہیں،وہاں دنیاکوچاہیے کہ وہ بے نیازی کالباس اتارکرحق و انصاف کیلئے کھڑے ہوں ۔ رستہ کٹھن ہے،ماضی کی گونج ابھی کانوں میں ہے،مگرروشنی کی کرن ضرورآنی ہے۔ہر مظلوم ماں کی آنکھوں میں وہی خواب پل رہاہے جس کی تعبیر انصاف ہے۔فلسطین صرف ایک قوم کانام نہیں،بلکہ وہ چراغ ہے جوظلمت کومٹانے،عدل قائم کرنے،اورحق کی سربلندی کاپیغام لیے کھڑاہے۔جس طرح جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کاخاتمہ ہوا،ویسے ہی اسرائیل کی نسل پرست پالیسیاں بھی تاریخ کے کوڑے دان میں گرتی جائیں گی۔ فلسطینیوں کا خون سستے داموں نہیں بکے گا؛وہ آج دنیاکے ضمیرپرایک سوال بن کرکھڑاہے،اورجب تک ان مظالم کے مجرموں کوان کے انجام تک نہیں پہنچایا جاتا،یہ جرم معاف نہیں ہوگا۔

یقیناً،تاریخ ظالموں کومعاف نہیں کرتی،اورایک دن ظلم کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں،جب عالمی ضمیرجاگ اٹھتاہے۔فلسطین کی جدوجہد،جس کی جڑیں ایمان، حریت اورحق کے اصولوں میں پیوست ہیں،نہ صرف خطے بلکہ عالم انسانیت کیلئے ایک روشنی ہے،ایک صدائے احتجاج ہے،جوظلم کی ہردیوارکوگرانے کاعزم رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں