Only The Names Of Bloodthirsty Beasts Are Different

خوں خواردرندوں کے فقط نام الگ ہیں

:Share

روس اوریوکرین میں جاری جنگ میں جوں جوں شدت پیداہورہی ہے،مغربی وامریکی میڈیامیں اب خوفناک الزامات کی چیخ و پکارشروع ہوچکی ہے اورجواب میں روسی صدرپیوٹن نے عراق،افغانستان،یمن اورشام کے علاوہ دیگرممالک میں امریکاو مغرب کی جارحیت کے مظالم کاتذکرہ کرتے ہوئے اقوام عالم کومتوجہ کیاہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ آج کاروس جب سوویت یونین تھاتواس کے مظالم کی تاریخ بھی انتہائی خوفناک ہے۔آئیے تاریخ اورامریکی ومغربی مورخین ہی کی زبانی حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں :

دہشتگردی کواگردہشتگردکے مذہبی حوالے سے متعین کیاجائے توہندوؤں،بدھوؤں،یہودیوں،عیسائیوں اورمسلمانوں میں سے کرۂ ارض پر دہشتگردی کابانی کون ہے اورکس مذہب کے ماننے والوں نے سب سے زیادہ انسانوں کاخون بہایاہے؟یوں توتاریخ کے صفحات کی چیختی گواہی ہی ایسے سفاک افرادکیلئے کافی ہے لیکن کیادنیاکواس بدامنی کی طرف دھکیلنے والے امریکانے کوئی سبق حاصل کیاہے،یقیناًاس کاجواب نفی میں ہے۔دورنہ جائیں افغانستان پرجوانسانیت سوزمطالم ڈھائے گئے ہیں،اس کوپڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن مغربی اورامریکی میڈیاکی مجرمانہ خاموشی اورتعصبانہ رویے پرکئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔

ایک مقامی اخبارمیں برطانوی صحافی جیمی ڈوران کی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔جیمی ڈوران کی یہ رپورٹ بیس منٹ دورانئے کی فلم سے ماخوذہے جومزار شریف اورشہرغان کی اجتماعی قبروں کے بارے میں تھی ۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ مزارشریف اورشہرغان کے قریب دریافت ہونے والی دواجتماعی قبروں میں تین ہزارکے قریب طالبان اورالقاعدہ کے جانبازابدی نیندسورہے ہیں۔دونوں قبروں میں انسانی باقیات باہرہی سے نظرآرہی تھیں۔ان لاشوں پرگوشت خورپرندوں اورجانوروں کے نوچنے کے واضح نشانات موجودتھے۔ان میں ایک اجتماعی قبرشبرغان قصبے سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جوچارایکڑپرمحیط ہے۔یہ قبرمربع شکل کی ہے اوراس میں تین ہزارسے زائدلاشیں دفن ہیں۔یہ علاقہ افغان نژادصلیبی کمانڈرعبدالرشیددوستم کے کنٹرول میں تھاجواپنی سفاکی میں اب ہلاکواورچنگیزخان سے بھی کہیں زیادہ عالمی شہرت رکھتاہے۔

فزیشن ہیومن رائٹس کے مطابق یہ لاشیں دسمبر2001ءیاجنوری2002ءمیں یہاں لاکردفن کی گئیں۔یہ بہیمانہ قتل عام اس وقت ہوا جب فضامیں امریکی بمبار طیارے 23قسم کے ممنوعہ ہتھیارجس میں چھوٹے جوہری بم،کلسٹرونیپام بم اورمیزائل ”ایم کیونائن‘‘ ریپرڈکے ساتھ ڈرٹی بموں کی بارش کررہی تھی اورزمین پر امریکی فوج ظلم وستم میں مشغول تھی۔سنڈے مررکی رپورٹ کے مطابق امریکی،یورپی اوران کے افغان اتحادی فوجیوں کی قیدی طالبان قیدیوں کے ساتھ سفاکیت اوردرندگی جہاں ایسی دل دہلا دینے والی تھی کہ ہلاکواورچنگیزخان کی کاروائیوں کوبہت پیچھے چھوڑگئی تھی وہاں میڈیاکے نمائندوں کوخودپرقابونہ رہااور کیمرہ کے پیچھے اورخبردینے والوں کی حالت بھی غیرہوگئی اوران دل دہلا دینے والے خوفناک مناظرنے ان کوایساحواس باختہ کیاکہ وہ کئی دن سونہیں سوسکے۔

قندوزمیں جان بخشی اوراچھے سلوک کے وعدے پر8ہزارطالبان نے امریکی فوجیوں کے سامنے ہتھیارڈالے تھے۔ان میں پاکستانی،عرب اوردیگر درجن بھر ممالک کے مجاہدین شامل تھے۔جیمی ڈوران اوران کی فلم میں عینی شاہدین کے حوالے سے بتایاگیاکہ ان طالبان اورالقاعدہ مجاہدین کے سروں پراس وقت گولیاں ماری گئیں جن ان کے ہاتھ پشت پربندھے ہوئے تھے تاکہ ان کی موت کویقینی بنایاجاسکے،بعض مجاہدین کے نرخرے میں ایک تیزدھارنالی داخل کرکے پٹرول انڈیل دیا جاتا اور بعد میں اس کوآگ دکھا دی جاتی جس سے ہوا میں ان کے جسم بم کی مانند پھٹ کر چیتھڑوں میں اڑ جاتے اور یہ مکار، ظالم اورسفاک دوربیٹھے ان مناظرسے لطف اندوزشراب کی بوتلیں ہاتھوں میں تھامے رقص کرتے تھے۔ریت کے اس میدان میں جب فلم بنائی گئی تو طالبان اورالقاعدہ مجاہدین کی کھوپڑیاں،ہڈیاں،ان کے کپڑے،نمازکی ٹوپیاں،تسبیح،جوتے اورجانوروں کے نوچے ہوئے انسانی ڈھانچے ہرطرف بکھرے پڑے ہوئے تھے۔عینی شاہدین میں شامل ایک ایساکرین ڈرائیوربھی شامل تھاجوہچکیاں لیتے ہوئے بتا رہاتھاکہ کس طرح اسے گن پوائنٹ پرچالیس فٹ لمباکنٹینرجس میں تقریباًتین سو سے زائد نوجوان مجاہدٹھونس کربندکردیئے گئے تھے،اس کے نیچے ٹائروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے اوپرکنٹینرکومعلق کرنے کاحکم دیاگیا،ذراسوچیں کہ اس کے اندرقیدشہداء کاکیاحال ہوگا۔آخریہ انسانیت سوزسزاؤں کاموجد کون ہے اورایسے افرادکوتاریخ کس نام سے یادرکھے گی؟رپورٹ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے دوران نازیوں کے ظلم وستم،تشدداورروسیوں کے ہاتھوں قیدیوں کی ہلاکت کی تمام دلخراش داستانیں اس امریکی درندگی کے سامنے ماندہیں مگر افسوس کہ انسانی حقوق کاعلمبردارامریکی میڈیااس ظلم پرابھی تک خاموش ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق قلعہ جھنگی یا(زنگی) میں چھ سومجاہدین کی شہادت کے بعدامریکی فوج نے قلعے کاکنٹرول حاصل کیا تووہاں تین ہزارسے زائد نوجوان مجاہدین کی گردنیں مروڑکرشہیدکیاگیااوراپنی نفرت کے اظہارکیلئے ان کے چہرے مسخ کر دیئے گئے۔اس رپورٹ کے مطابق ساڑھے سات ہزارسے زائد قیدی مجاہدین میں سے تین ہزارکوعلیحدہ کرکے انہیں شبرغان جیل کی طرف روانہ کیاگیا۔شبرغان قندوز سے تین دن کی مسافت پرہے، ہوابندہرکنٹینرمیں دوتا تین سوقیدیوں کوٹھونساگیا۔ایک عینی شاہدڈرائیورکے مطابق ڈیڑھ سوسے زائد قیدی فی کنٹینرتوراستے میں سفرکی صعوبتوں اور دم گھٹنے سے شہیدہوگئے تھے۔ ہوا کی عدم دستیابی پرجب قیدیوں نے شورمچایاتوسفاک امریکی کمانڈرنے حکم دیاکہ قیدیوں سے بھرے کنٹینروں پر گولیاں برساکر ہواکیلئے سوراخ کئے جائیں۔ایک ٹیکسی ڈرائیور جس نے ان کنٹینروں کی طویل قطاردیکھی تھی،اس نے بتایاکہ”کنٹینروں سے خون رس رہاتھااوراس منظرکودیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اوراب بھی جب یہ منظرمیری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے تو نیندکے ساتھ بھوک بھی ختم ہوجاتی ہے۔

شبرغان جیل کے ایک قیدی نے بتایا”میرے سامنے ایک امریکی فوجی نے ہتھکڑی اورپاؤں میں بیڑیاں پہنے ایک مجاہدکی گردن بڑے ہی ظالمانہ انداز میں مروڑکرتوڑڈالی اوراس کی تڑپتی لاش پروہ دیوانہ وار قہقہے لگاتاہواچھریاں چلاتارہا۔”اس نے مزیدبتایا کہ ”امریکی فوجی طالبان قیدیوں کے سر منڈواتے اورپھران کے سروں پرتیزاب یاکوئی ملتی جلتی چیزڈالتے جس سے وہ قیدی بری طرح تڑپنے لگتے،اس پر امریکی فوجی قہقہے لگاکرمحفوظ ہوتے ۔ایک دوسرے قیدی نے بتایاکہ امریکی فوجی طالبان قیدیوں کی انگلیاں اورزبانیں کاٹ کران کے سروں پرتیزاب انڈیلتے ہوئے ننگی مغلظات بکتے ہوئے یہ کہتے کہ ان انگلیوں سے تم ہم پرفائرکرتے تھے اوراس زبان سے اللہ کے نام کے نعرے لگاتے تھے،اب اپنے اللہ کوآوازدوکہ تمہیں زمین پر آکربچائے،وہ اپنے ساتھ کھڑے مترجم سے کہتے کہ ہمارایہ نفرت بھراپیغام دیتے ہوئے تمہارے چہرے پربھی ویساہی غصہ جھلکناچاہئے جیسا تم ہمارے چہروں پردیکھ رہے ہو!ایک اورقیدی نے اپنی آنکھوں دیکھااحوال بتاتے ہوئے کہاکہ امریکی فوجی اپنے دل کوخوش کرنے کیلئے اچانک قیدیوں کوکمرے سے نکالتے،ان کی داڑھیاں منڈواتے،پھران پر عجیب ظالمانہ اندازسے اس قدر تشددکرتے کہ قیدی بے ہوش ہوجاتا۔جب امریکی مارمار کر تھک جاتے توقیدیوں کوگھسیٹ کرکمروں میں دوبارہ پھینک دیتے لیکن یہ بہت کم مرتبہ ہواکہ وگرنہ جانے والا قیدی کبھی واپس نہیں آتاتھا۔

ایک افغان سپاہی نے بتایاکہ ایک امریکی کمانڈرنے کھڑے کنٹینروں کے ڈرائیوروں کوحکم دیاکہ کیمرے کی نظرمیں آنے سے قبل ان کنٹینروں کو ”دشت لیلیٰ” لے جاؤ اوران میں موجودزندہ ومردہ تمام طالبان کودفن کردو۔دو سے زائد ڈرائیوروں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ 3 ہزار سے زائدقیدیوں کووہ صحرا میں لے گئے جہاں تیس چالیس امریکی فوجیوں کی نگرانی میں زندہ قیدیوں کوگولیوں سے بھون دیاگیاجس کے بعدچارایکڑپرمحیط اجتماعی قبرمیں سب کو پھینک کربلڈوزروں کی مدد سے مٹی ڈال دی گئی۔ ”سنڈے مرر”کے مطابق ایک کنٹینرڈرائیور کنٹینرڈرائیورنے اسے بتایاکہ قیدیوں کی ایک بڑی تعدادبھوک،پیاس اور دم گھٹنے سے ہوئی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی لاش سے بدبوتک نہیں آئی بلکہ جب ایک اٹھارہ سالہ نوجوان پراس کی نظرپڑی تواسے غش آگیاکہ وہ حافظِ قرآن تواس کااپناہی قریبی عزیزتھااوراس نے زندگی بھرکبھی بندوق کوہاتھ نہیں لگایاتھا۔

یہ توامریکی فورسزکے مظالم کی وہ تصویرہے جومغربی میڈیاکے نامور صحافیوں نے دنیاکودکھاکرامریکی فورسز کے بھیانک چہرے کوبے نقاب کیاہے لیکن کینیڈاکے مشہور ماہر معاشیات ،مصنف اوریونیورسٹی آف اوٹاواکے پروفیسرمائیکل چوسوڈوسکی نے اپنی کتاب ”تیسری عالمی جنگ کے پس منظرکی جانب:ایٹمی جنگ کے خطرات‘‘میں انکشاف کیاکہ امریکا افغانستان میں دیگرکئی ممنوعہ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کابھی استعمال کررہاہے جبکہ اس سے پہلے وہ عراق میں بھی ان ممنوعہ ہتھیاروں کااستعمال کرچکاہے۔اس کتاب کے مطابق امریکی کانگرس نے2003 میں”غیرروایتی جنگوں میں”ان چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دی تھی اورکانگرس کے ممبران کے مطابق ان کااستعمال”عام شہریوں کیلئے بالکل بے ضرر”تھا۔

پروفیسرمائیکل کے مطابق امریکاان جوہری بموں اورمیزائلوں کواپنے اہداف پرگرانے کیلئے’’ایم کیو۔نائن”ریپرنامی ڈرونزکا استعمال کرتارہاہے۔ان ڈرونز میں 50کلو گرام وزن والے14ہیل فائرمیزائل لادکراڑنے کی صلاحیت موجودہے لہندااسے مختصرجوہری ہتھیاروں کومقررکردہ اہداف پر گرانے کیلئے باآسانی استعمال کیاجاسکتاہے۔امریکی مسلح افواج کے پاس اس وقت ہلاکت خیزی کی مختلف طاقتوں والے3400جوہری ہتھیارموجود ہیں جن میں دوہزارکومختلف جنگی محاذوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ان مختصرجوہری ہتھیاروں کوعموماً امریکی فوج کے خطرناک حد تک قریب دشمن کے خلاف استعمال کیا جاتاہ ے تاہم افغانستان میں اسے پہلی بارتورابوراکے علاقے میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے غاروں کے پیچیدہ جال پراستعمال کیاگیاتھا۔ اس کی تصدیق زلزلہ پیمائی کی تنظیموں کی طرف سے بھی کی گئی تھی جن کے مطابق تورابوراپرکئی دنوں تک جاری رہنے والی امریکی جنگی طیاروں کی بمباری کے دوران کئی مرتبہ تورابورااورگردونواح کے علاقوں میں نصف سے تین ری ایکٹر اسکیل کے زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے تھے جو بھاری ترین روایتی بموں کے پھٹنے کانتیجہ تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ”رائٹ ٹوہیل”کی ویب سائٹ کے مطابق امریکاکی فوج نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران غیر انسانی اوراقوام متحدہ کےضوابط کے تحت ممنوعہ ہتھیاروں کابے دریغ استعمال کیاجن کے بے پناہ مضراثرات ان علاقوں کے لوگوں کونسل درنسل اپنانشانہ بناتے رہیں گے جہاں یہ جنگیں لڑی گئیں تھیں۔امریکاکی طرف سے سفیدفاسفورس،نیپام بم،کلسٹربم (ڈیزی کٹربم)اورخام یورینیم سے تیارکردہ ڈرٹی بم کے استعمال کے نتیجے میں افغانستان میں بے شمارعام شہری ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ان میں بڑی تعدادبچوں کی ہے جونہ صرف حملے کے دوران بلکہ کلسٹربم کی صورت میں متعلقہ علاقے میں جنگ ختم ہونے کے بعدبھی مسلسل موت یامعذوری کاشکارہورہے ہیں۔ مزیدبرآں خام یورینیم اورکینسر پھیلانے والے خطرناک موادکے حامل فوجی سازوسامان کوبے دریغ جلائے جانے کے نتیجے میں انسانی زندگیوں پرزہریلے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ خام یورینیم والے ہتھیارجن علاقوں میں استعمال کئے جاتے رہے ہیں،یورینیم کے زہریلے اثرات کی وجہ سے برسوں بعدبھی وہاں نامکمل اور خطرناک جسمانی نقائص والے بچوں کی پیدائش کاسلسلہ جاری رہے گا۔

اقوام متحدہ کے جنیواپروٹوکول کے تحت مجموعی طورپر23قسم کے روایتی ہتھیاروں کے جنگوں میں استعمال پرپابندی عائدہے اورتاریخی حقائق کے مطابق امریکاوہ واحدملک ہے جو مختلف مواقع پران تمام ممنوعہ روایتی ہتھیاروں کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرچکاہے جبکہ ایٹم بم جیسے غیر روایتی ہتھیار کوبھی استعمال کرنے والایہ دنیاکاواحدملک ہے ۔23ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست جوامریکاآج بھی استعمال کررہاہے:آگ پھیلانے والے نیپام بم،غبارہ بم،خام جوہری مادے سے تیارشدہ ڈرٹی بم ،سالٹڈ بم،زہریلی گولیاں،کھوکھلے سرے والی گولیاں، نابیناکر دینے والی لیزرشعاعیں، مائیکرو لیزرشعاعیں،جلادینے والی پلاسٹک بارودی سرنگیں ،بغیرپھٹے بم،آگ پھینکنے اور پھیلانے والے ہتھیار،مسٹرڈگیس،اعصاب شکن گیس،خودبخودتباہ ہونےوالی سرنگیں،فوسجین گیس،آنسوگیس،مرچ اسپرے، نیزوں سے بھرے پوشیدہ گڑھے،حیاتیاتی ہتھیار،چمگادڑبم، ٹڈی دل،پسواورچوہے اور چیچک پھیلانے والے کمبل شامل ہیں۔

اقوام عالم کے سنجیدہ لوگوں کے ضمیرکوجھنجھوڑنے کیلئے رپورٹ کے آخر میں امریکااورمغرب کے دہرے منافقانہ معیارپر طنزاً یہ سوال پوچھاگیاہے کہ ”2003ء میں عراق پرامریکی حملے کابش انتظامیہ نے یہ جوازپیش کیاتھاکہ صدام حسین نے اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاراستعمال کئے ہیں اوراس کے پاس بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارموجود ہیں۔اس کے ثبوت کے طور پر1991ءمیں کردباغیوں کے خلاف سفیدفاسفورس استعمال کی رپورٹ پیش کی جاتی تھیں،اس کے باوجودجب امریکی فوجوں نے پہلے عراق اورپھرافغانستان پرقبضہ کیاتوان کی طرف سے فوجی مہمات میں جوسفید فاسفورس استعمال کیا گیا وہ عراق میں استعمال ہونے والے فاسفورس سے پانچ گنازیادہ مہلک تھا،جسے اہداف کوزیادہ نمایاں کرنے والی روشنی اور دھویں کی حفاظتی چادرپھیلانے کیلئے استعمال کیاگیا،پھرامریکااوراس کے حلیف ممالک اب اسے کیسے جائز قراردے سکتے ہیں؟یادرہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلئیرعراق پرحملے کےمعاملے پر عالمی میڈیاکے سامنے اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے معافی بھی مانگ چکے ہیں لیکن کیااتنے بڑے انسانی المیے پراس کی تلافی ممکن ہے؟

اس چشم کشارپورٹ میں تمام معلومات کے آخرمیں یہ نوٹ بھی تحریرہے کہ’’بہت سے حقائق کوضابطہ تحریراورنشرکرنے سے محض اس لئے گریز کیا گیاہے کہ قارئین اورناظرین بھی اس خوف سے دوچارنہ ہوں جس کرب سے ہم گزرے ہیں‘‘لیکن اس حقائق سے پردہ اٹھانااس لئے بھی ضروری ہے کہ پتہ چل سکے کہ اس دورمیں انسانیت کاسب سے بڑادشمن کون ہے!
خوں خواردرندوں کے فقط نام الگ ہیں
ہرشہربیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی

اپنا تبصرہ بھیجیں