The letter Iqbal and the sense of Balochistan — One nation, one dream, one mission

“حرفِ اقبال اور حِسِ بلوچستان — ایک ملت، ایک خواب، ایک مشن”

:Share

(بیادِ اقبال ملتِ اسلامیہ کی بقا، پاکستان کا دفاع، اور عصرِ حاضر کے تقاضے)
یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ میں نہ پڑو۔سورۃ آل عمران، آیت 103

یہ آیت دراصل امتِ مسلمہ کے وجودی فلسفے کا خلاصہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے اقبال کی فکر، نثر، اور بصیرت ایک نکتۂ مرکز پر آ کر ملتی ہیں۔ یہ آیت اتحادِ امت کی صدا بھی ہے، اور بیداریِ شعور کا منشور بھی۔ اقبال اسی پیغام کو اپنے شعری الہام میں یوں ڈھالتے ہیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
یہی وحدت آج ہماری فکری زندگی کا وہ گمشدہ راز ہے، جس کے بغیر نہ ایمان میں گرمی رہ سکتی ہے، نہ وطن میں سلامتی۔یہی وہ صدا ہے جو صدیوں کے پردوں کو چیر کر آج بھی ملتِ اسلامیہ کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے، اور اقبال کی روح اسے اپنے وجدانی آہنگ میں دہراتی ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہ مصرعہ اقبال کا ایک سوال نہیں، ایک آئینہ ہے جس میں امتِ مسلمہ اپنی غفلت کا چہرہ دیکھ سکتی ہے۔یہ محض شاعرانہ پکار نہیں بلکہ ایک عہدِ نو کی اذان ہے ، ایک ایسی صدا جو عقل کو بیدار کرتی ہے، ایمان کو حرارت بخشتی ہے، اور کردارکوصیقل کرتی ہے۔اقبال نے نوجوانِ مسلم کوزمانے کے ہنگاموں کا راہبر بنایا، محض مقلد نہیں بلکہ مجتہدِ عصربنایا۔فرماتے ہیں:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اے نوجواں مسلم تُو وہ چراغ ہے جو اگر بجھ جائے تو ملت کی تاریخ اندھیروں میں ڈوب جائے۔ تدبر کا مطلب صرف سوچنا نہیں بلکہ ایمان، عقل اور عمل کی مثلث میں جینا ہے۔کہاتو وارث ہے جسے قرآن نے خَلِیفَۃً فِی الْاَرْضِ کہا مگر کیا تُو نے کبھی غور کیا کہ خلافت کا مطلب صرف اقتدار نہیں بلکہ ذمہ داری ہے؟ اقبال نے فرمایا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
یہی وہ تدبر ہے جو قوموں کو بیدار کرتا ہے۔ علم میں توازن، کردار میں استقلال، اور عمل میں ایقان پیدا کرتا ہے۔جمہور نہ توزر سےہےنہ سلطانی سے بلکہ خلافت کی روحانی قوت سے ہے۔ یعنی امتوں کی بقا دولت یا طاقت سے نہیں، بلکہ تدبر اور روحانی شعور سے ہے۔یہاں وہ نوجوان مسلم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آج جب دنیا فتنوں کے طوفان میں گھری ہے، جب میڈیا کے شور میں صداقت دب رہی ہے، جب سوشل میڈیا تمہارے شعور کو غفلت کے زہر سے سیراب کر رہا ہے، تب اقبال تمہیں پکار کر سورہ الانبیاء کی آیت 104 کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اٹھ کہ یہ افلاک نہیں تیرے مقدر کے ستارے ہیں ، تُو چاہے تو انہیں تدبر سے اپنی مٹھی میں لے لے۔ تدبر یعنی وہ شعور جو انسان کو وقتی جذبات سے نکال کر ابدی مقصد کی طرف لے جاتا ہے۔

اقبال کے نزدیک نوجوان صرف عمر کا نہیں، بلکہ فکر و ارادہ کا پیمانہ ہے۔اسی لئے وہ فرماتے ہیں کہ
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
آج کا نوجوان اگر اقبال کے پیغام کو سمجھ لے تو وہ قلم سے، علم سے، اور عزم سے اپنے زمانے کا روحانی مجاہد بن سکتا ہے۔

2025ء کی دنیا ایک نئے سیاسی تلاطم سے گزر رہی ہے۔ آج کی دنیا میں، خصوصاً مئی 2025ء کے بعد کے عالمی منظرنامے میں، جب پاکستان نے اپنے دفاع میں ہندوستان کی جارحیت کو پسپا کیا، تب سے سازشوں کا ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مگر یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سرزمینِ پاک وہی امانت ہے جو کلمہ طیبہ کے عہد پر بنی تھی،ایک نظریاتی ریاست ہے، کوئی عام جغرافیہ نہیں، پاکستان، جو امتِ مسلمہ کا قلعہ ہے، آج دشمنوں کی نظروں میں وہی مقام رکھتا ہے جو ماضی میں خلافتِ عثمانیہ رکھتی تھی۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
آج پاکستان اسی سحر کا استعارہ ہے

جب دشمن سازشوں کے خنجر تیز کرتے ہیں، تو ہمیں اقبال کی یہ صدا یاد آتی ہے کہ وہ مردِ درویش امت پر مصائب پر گھبرانے کی بجائے بندہ کو خدا کارازداں بننے کی ترکیب بتارہا ہے کہ ہمیں اس وقت اپنی بقا کے لیے سیاسی ہوش، فکری استقلال، اور قومی وحدت کی ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مودی کی شکست کے بعد دنیا کے بہت سے طاقت ور گروہ ایک نئے منصوبے پر کاربند ہیں کہ اس مملکتِ خداداد کوکمزور کیا جائے، اسے اندر سے توڑا جائے، اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو متزلزل کیا جائے۔ مودی کی جنگی سازشیں ہوں یا اس کے مغربی حلیفوں کی دوغلی پالیسیاں — ان کا جواب تلوار سے پہلے ایمان و اتحاد میں ہے۔دراصل ہمارے عیار ومکار دشمن بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی حادثہ نہیں، بلکہ تقدیرِ الٰہی کی ایک تجلی ہے۔یہ ملک لا الٰہ الا اللہ کے اعلان پر بنا ہے، اسے بندوق سے نہیں، عقیدے سے طاقت ملی ہے۔اقبال نے جس خواب میں یہ ملک دیکھا، وہ دراصل امت کی بقا کا خواب تھا
تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کارازداں ہوجا،خداکاترجماں ہوجا
پاکستان کی عظمت صرف اس کے نیوکلیئر اثاثوں میں نہیں، بلکہ اس کے روحانی اور نظریاتی تشخص میں ہے۔

ہمیں اپنی قوم کو یہ سمجھانا ہے کہ دفاعِ وطن فقط صرف توپ و تلوار سے نہیں ہوتا بلکہ فکر و خودی کے ہتھیار سے بھی لازم ہے۔ قرآن کہتا ہے:
(اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے ہر ممکن قوت تیار رکھو)
یہ قوت علم کی بھی ہے، ایمان کی بھی، اتحاد کی بھی۔ اگر ہم نے خودی کھو دی، تو ایٹم بم بھی ہمیں نہیں بچا سکتے۔ اقبال کے الفاظ میں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
آج کی اس عالمی کانفرنس سے ہمیں یہ صدا بلند کرنی ہے —
کہ پاکستان صرف ایک ریاست نہیں، بلکہ اسلامی تمدن کا دفاعی مورچہ ہے۔ ہم اگر بیدار رہے، تو کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ قرآن کہتا ہے:
(یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)
اور اقبال نے اسی کی تفسیر کی
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے

پس، آج اس عالمی کانفرنس سے ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان محض ایک ملک نہیں، بلکہ عصرِ حاضر میں اسلام کی عزت و وقار کی علامت ہے۔ جس کا دفاع تلوار سے پہلے تدبر، اتحاد، ایمان اور علم سے ہوتا ہے۔

اقبال کا آفاقی پیغام تو افغان بھائیوں کیلئے بھی ہے، پاکستان اور افغانستان دو جسم نہیں، ایک ہی روح کے دو سانچے ہیں۔ یہ دونوں خطے اسلامی غیرت، جہاد، اور عزتِ ایمان کے محور ہیں ۔یاد کریں جب داؤد کا تختہ الٹ کر چند افغان وطن فروشوں نے اپنی مدد کیلئے سوویت یونین کو افغانستان پر یلغار کی دعوت دی، تو پاکستان نے چالیس برس تک افغان بھائیوں کو اپنے دل میں جگہ دی۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔یہ سب صرف ہمسائیگی نہیں تھی، یہ ایمان کا رشتہ تھا۔

ذرا وہ زمانہ بھی یاد کریں کہ جب امریکا نے نائن الیون کے موقع پر افغانستان میں جارحیت کی تو امریکا نے جواب میں پاکستان کو پتھر کے دور میں بھیجنے کی دہمکی دیکر مجبور کیا کہ وہ اس کا ساتھ دے لیکن پاکستان نے اس کے باوجود اپنی میزبانی کا حق پورا ادا کیا اور آج تک ادا کر رہا ہے۔

اگر دشمن کی زبان میں امریکا کا ہماری سرزمین استعمال کرنے کا طعنہ دیا جا رہا ہے تو کیا وہ ہمارے مسلم برادر ملک قطر کا کردار بھی فراموش کر دیں گے جہاں باقاعدہ طور پر ان کو دفتر بنانے کی اجازت فراہم کی گئی اور امریکی انخلاء کا معاہدہ بھی دوحہ قطر میں ہوا جہاں امریکا کا سب سے بڑا فضائی اڈہ العدید ہے جہاں سے افغانستان پر خطرناک فضائی حملے بھی کئے گئے۔افغانستان سے امریکی انخلاء میں پاکستان کا تاریخی کردار تو آپ فرامو ش کر ہی رہے ہیں لیکن افغان دوستوں کو قطر سے کوئی شکائت نہیں اور آج ایک مرتبہ پھر انہوں نے دوحہ قطر کو ہی پاکستان کے ساتھ مصالحتی اور امن مذاکرات کیلئے منتخب کیا۔ اور افغانستان میں نیٹو فورسز میں ترک افوج بھی شامل تھی لیکن ترکی سے بھی ان کو کوئی گلہ نہیں۔۔۔کیا وجہ ہے کہ لاکھوں افغان افراد کی میزبانی کے ساتھ ساتھ کئی عسکری رازدانی کے باوجود پاکستان سے ان کو گلہ ہے؟

اور آج لندن میں کئی میرے افغان دوستوں کو جب پتہ چلا کہ مجھے اقبال کی اس عالمی کانفرنس میں شمولیت کی سعادت مل رہی ہے تو انہوں نے بڑی دلسوزی کے ساتھ یہ پیغام دیا اور گواہی دی کہ گزشتہ 40 برس سے پاکستان اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی کر رہا ہے، ہم کیسے بھول جائیں کہ پاکستانی قوم نے اپنا رزق بانٹا، اپنے دروازے کھولے، اپنے شہروں کو پناہ گاہ بنایا ۔ یہ صرف انسانی خدمت نہیں، بلکہ اسلامی اخوت کا وہ مظہر ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

کیا وہ بھول گئے جب ملا عمر نے کہا تھا کہ ہم قیامت تک پاکستان کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے،پاکستان کا جہاں پسینہ گرے گا ،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے۔ اور مجھے بطور کشمیری ملا عمر کا وہ وجدانی خطبہ یاد ہے جب انہوں نے مظلوم، مجبور اور مقہور کشمیریوں کو پیغام دیا تھا کہ ہم جلد آپ کو ہندوستان کی ظالم قابض فورسز سے آزادی دلوانے کیلئے آئیں گے۔ملا عمرؒ کے تو یہ الفاظ تاریخ میں ایک عہد بن کر ثبت ہوگئے ہیں۔اس وقت افغانستان کے موجودہ رہنماء ملا ہیبت 20 سال کے نوجوان اور افغانستان کا وزیر دفاع ملا یعقوب ان کا بیٹا پانچ سال کا ان کے پہلو میں بیٹھے یہ خطاب سن رہے تھے۔ مجھے یہ بتایاجائے کہ ملا متقی کے حالیہ دورہ ہند کے موقع پر ان کے پاکستان اور کشمیر کے بارے میں بیانات پر پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دلوں پر جو گزری، سو گزری، ملا عمر کی روح تو عالم بالا میں تڑپ گئی ہوگی۔

مگر افسوس، آج وہی سرزمین جس نے کبھی روس کے مقابلے میں جب جہاد کیا، تویہی پاکستان نے ان کے ساتھ ان کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قربانیاں دے رہا تھا،لاکھوں افغانوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی تھی، ان کی عصمتوں کا اپنی جانوں پر کھیل کر پہرہ دے رہا تھا اور امریکی جارحیت کے دوران بھی پاکستانی قوم نے میزبانی اور قربانیوں سے دریغ نہیں کیا مگر آج وہی سرزمین، جو کبھی جہاد کی علامت تھی، ٹی ٹی پی کی پناہ گاہ بن چکی ہے۔ یہ زخم صرف سیاسی نہیں، اخلاقی اور ایمانی زوال کی علامت ہے۔

یعنی جب دین کو قوم پر قربان کیا جائے، تو ایمان کی روشنی مدھم ہو جاتی ہے۔ اے افغان مسلمان،اقبال تم سے کہتا ہے:تمہارے کوہِ ہندوکش کے نیچے جو لہو بہہ رہا ہے، وہ اسلامی اخوت کا نہیں بلکہ امت کی تقسیم کا لہو ہے۔ آج یہی میزبان بڑی دلسزی کے ساتھ سوال کر رہے ہیں کہ کیوں آپ کی سرزمین اب دشمنانِ اسلام کے لیے پناہ گاہ بن چکی ہے؟ٹی ٹی پی فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں فتنہ الہند جیسے گروہ، جو دراصل اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار ہیں،افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔ اقبال اگر آج زندہ ہوتے، تو شاید یہی کہتے
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

یہ شعر کوئی طعنہ نہیں، بلکہ دردِ امت کی صدائے بازگشت ہے۔ اقبال نے افغانوں میں اسلامی حریت کی روح دیکھی تھی۔

وہ کہتا تھا کہ افغان اگر بیدار ہوں تو پوری امت بیدار ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ دشمن کے فریب میں آ جائیں،تو ان کی تلوار اسلام کے بجائے اپنے ہی بھائی کے خون میں تر ہو جائے گی۔
بلوچستان سے، اس سرزمینِ وفا سے، افغان بھائیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان تمہارا دشمن نہیں، تمہارا محافظ ہے۔ہم تمہارے ایمان کے ساتھی ہیں، لیکن اگر تم نے اپنی زمین دشمنوں کے ہاتھ بیچ دی،تو تمہاری نسلیں تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ تمہاری غیرت اگر بیدار ہو جائے تو تمہارے پاس سب کچھ ہے، لیکن اگر تم نے خودی کھو دی، تو سب کچھ خاک ہو جائے گا۔ قرآن کا حکم واضح ہے(یقیناً مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)

پس اگر تم واقعی ایمان والے ہو، تو اپنی زمین کو باطل کے لیے استعمال نہ ہونے دو۔ تمہاری تلوار، تمہارا ایمان، تمہاری غیرت یہ سب تقاضہ کرتے ہیں کہ پاکستان کا اسی طرح ساتھ دو جیسا گزشتہ چالیس برسوں نے پاکستان نے تمہارا ساتھ دیا نہ کہ پاکستان کے ازلی دشمن مودی کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں شریک کار بن کر دہشتگردی میں شامل ہوں اور اب دریائے کابل کے پانی کا رخ بدلنے کیلئے ڈیم بنانے کے منصوبے جاری ہیں جبکہ اقبال کی صدا تو یہ ہے کہ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

یہی پیغام بلوچستان کی اس سرزمین سے تمہیں دیا جا رہا ہے —کہ امت کا اتحاد، تمہارا اور ہمارا مشترک فریضہ ہے۔اور پیغام حیات لیکر آیا ہوں میں آج اپنے غیور و بہادر بلوچستان کے عوام کے لیے اقبال کا پیغامِ عمل بلوچستان پاکستان کی روح ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سنگلاخ پہاڑوں میں وفا کے چراغ جلتے ہیں۔ جہاں قوم پرستی اسلام سے جدا نہیں بلکہ اس کی بقا کا حصہ ہے۔اقبال کے نزدیک قومیت کا مفہوم جغرافیہ نہیں بلکہ ایمان کا رشتہ ہے۔ بلوچستان — جس کی مٹی میں تاریخ کی گونج، وفا کی خوشبو، اور غیرت کا وقار بسا ہوا ہے۔ بلوچستان — جس کی مٹی میں تاریخ کی گونج، وفا کی خوشبو، اور غیرت کا وقار بسا ہوا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو صدیوں سے اسلامی تمدن کے قلعے کا دروازہ رہا ہے۔یہاں کے عوام نے ہمیشہ وفاداری، قربانی اور استقلال کی مثالیں قائم کیں۔ انہوں نے فرمایا:
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک ضربِ ید اللہی، ایک سجدۂ شبیری

بلوچستان کے عوام کو آج یہ پیغام دینا ہے کہ اسلام، پاکستان اور بلوچستان — یہ تینوں ایک مثلث کے تین زاویے ہیں۔ اگر ایک زاویہ ٹوٹے، تو مثلث منہدم ہو جاتی ہے۔
اے میرے بلوچ نوجوان دنیا تمہیں تمہاری پہچان سے محروم کرنا چاہتی ہے،تمہیں قبیلے کی تنگ دیوار میں قید کر کے قوم و ملت کے وسیع افق سے جدا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن تمہاری اصل پہچان اقبال کے مطابق یہ ہے

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تم وہ دیدہ ور ہو جس کے خواب میں پاکستان کی بقا ہے۔ تمہارے ایمان میں وہ حرارت ہے جو امت کی بیداری کا چراغ بن سکتی ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے جب وفا کی صدائیں اٹھتی ہیں، تو پوری امت کا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اقبال کے شاہین کی طرح پرواز کرو، اور اپنی مٹی کے ساتھ وہی وفا کرو جو ایک سپاہی اپنے پرچم کے ساتھ کرتا ہے۔ اقبال نے اہلِ وطن کو یہی درس دیا تھا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

بلوچ قوم کے نوجوانوں سے میں کہتا ہوں:
تم اقبال کے خواب کی تعبیر ہو — تمہارا کردار وہ بنیاد ہے جس پر پاکستان کا وقار قائم ہے۔سی پیک ہو، قومی وحدت ہو، یا دشمن کی سازشوں کا مقابلہ، بلوچ عوام نے ہمیشہ وفاداری کا پرچم بلند رکھا۔اقبال کے الفاظ میں

یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہراؑ
اس شعر کی روح تمہیں خبردار کرتی ہے کہ اپنے وطن کے خزانوں کی حفاظت کرو۔ دشمن چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے ہی وسائل سے جدا کر دے، مگر اقبال کہتا ہے
خودی کا سرِ نہاں لا إله إلا الله
خودی ہے تیغ، فساں لا إله إلا الله
بلوچستان کے فرزندو یہی تمہارا سرمایہ ہے — تمہاری خودی، تمہارا ایمان، تمہاری وفا۔ اسی سے پاکستان کی تکمیل ہوتی ہے۔

آج کی اس کانفرنس سے یہ عہد اٹھنا چاہیے کہ ہم علم و تدبر کو اپنا اصل ہتھیار بنائیں گے۔ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کریں گے۔امتِ مسلمہ کے اتحاد کو اپنی سیاست اور معاشرت کا محور بنائیں گے۔ نوجوان نسل کو اقبال کے فلسفۂ خودی سے روشناس کرائیں گے اور دشمن کے فتنوں کا جواب علم، اخلاق اور کردار اور قرآن سے دیں گے۔
(اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے)
اور اقبال نے فرمایا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہی اس مجلس کا اصل پیغام ہے کہ اقبال صرف شاعر نہیں، قرآن کے فکری شارح ہیں۔ان کا پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا ان کے دور میں تھا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پیغام کو اپنے دلوں میں زندہ کریں۔

آج کی اس عالمی کانفرنس سے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اقبال کے خواب کو شعور کا حصہ بنائیں گے۔
اسلامی دنیا کی بقا اب صرف نعرہ نہیں بلکہ عملی اتحاد، سائنسی ترقی، فکری بیداری اور روحانی تجدید کا تقاضا ہے۔
میرے انتہائی عزیز دوستوں اور بھائیو!اب وقت آگیا ہے کہ ہم شکوہ سے جوابِ شکوہ تک کا سفر طے کریں۔ غفلت سے بیداری کی طرف، تقلید سے اجتہاد کی طرف، کمزوری سے قوت کی طرف۔
آج کی میری تمام گزارشات اس عہدِ جدید کیلئے اقبال کے پیغامِ بیداری کا استعارہ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں خودی کی ایک ایسی پکار کی شمع روشن کرتی ہے، اور کہتی ہے
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
میں آپ سب کا بہت ممنون ہوں کہ اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتا ہوںاے رب کریم!ہمیں توفیق دے کہ ہم پاکستان میں بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینے کے مشن کو مکمل کر سکیں اور اس ارضَ وطن کو ایک صحیح اسلامی ریاست بنادے جو امت مسلمہ کی رہنمائی کر سکے.
پاکستان …زندہ وپائندہ باد

اپنا تبصرہ بھیجیں