Nuclear limits and the fragile nature of peace

جوہری حدوداورامن کی نازک نوعیت

:Share

منگل اوربدھ کی درمیانی شب انڈیاکی جانب سے پاکستان اورآزادکشمیرمیں’آپریشن سندور‘کے تحت متعدد مقامات رات ایک بج کر پانچ منٹ سے ڈیڑھ بجے تک جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران پاکستانی فوج کے مطابق پاکستان اورآزادکشمیرمیں مساجد اورعام شہریوں کونشانہ بنایاگیا۔22/اپریل2025کو بھارتی کشمیرمیں ہندوسیاحوں پرحملے کے بعد،بھارت نے پاکستان پراس حملے کاالزام عائدکیا۔اس کے ردعمل میں،7 مئی2025کوبھارت نے”آپریشن سندور”کے تحت آزادکشمیرمیں9مقامات پرمیزائل حملے کیے۔بھارت کادعویٰ ہے کہ ان حملوں کامقصد دہشتگردتنظیموں جیسے جیشِ محمداورلشکرِطیبہ کے ٹھکانوں کونشانہ بناناتھا۔پاکستان کے مطابق ان حملوں میں31افرادہلاک ہوئے،جن میں خواتین اوربچے بھی شامل ہیں،اور متعدد مساجداورتعلیمی ادارے بھی متاثرہوئے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے پرڈرون حملوں اور فضائی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکیے ہیں۔بھارت نے پاکستان کے اندرمتعدد مقامات پرفضائی حملے کیے،جن میں لاہورمیں واقع ایک چینی ساختہ”ایچ کیو،9بی ای”فضائی دفاعی نظام بھی شامل تھا،جس کی آزاد ذرائع نے بھی نفی کردی ہے۔

اگرچہ انڈیاکی جانب سے آج تک یہ نہیں بتایاگیاکہ ان حملوں میں کس قسم کے ہتھیاروں سے حملہ کیاگیاتاہم پاکستانی فوج کے ترجمان کاکہناہے کہ انڈیانے پہلے دن چھ مقامات پرمختلف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے مجموعی طورپر24حملے کیے تھے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ انڈیاکے پہلے دن کے میزائل حملوں کے بعدجوابی کارروائی میں پاکستان نے انڈین فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے اورایک ڈرون مارگرانےکے شواہدپیش کردیئے۔واضح رہے کہ یہ پہلاموقع نہیں جب انڈیاکی جانب سے کوئی میزائل پاکستان سرزمین پرآگراہو۔مارچ2022میں بھی انڈیاکی جانب سے ایک براہموس میزائل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہرمیاں چنوں کے قریب آگراتھا۔تاہم اس میزائل حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا۔

اگرچہ انڈیانے اس واقعے کے متعلق جاری بیان میں کہاتھاکہ یہ میزائل حادثاتی طورپرپاکستان کی طرف داغاگیاتھاجبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کوتفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاتھاکہ پاکستان حدودمیں داخل ہونے والا’انڈین پروجیکٹائل’زمین سے زمین تک مارکرنے والا سپرسونک میزائل تھا۔

پاکستان نے دعویٰ کیاتھاکہ ابتدائی جانچ پڑتال سے معلوم ہواکہ یہ میزائل سپرسونک کروزمیزائل تھاجوآوازکی رفتارسے تین گنا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اوریہ پاکستان کی حدود میں تین منٹ44سیکنڈتک رہنے کے بعدگرکرپاکستان کی سرحدمیں 124 کلو میٹراندرآکرتباہ ہوا۔پاکستانی عسکری ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ پاکستان کے ایئرڈیفنس سسٹم نے اس میزائل کی نگرانی تب سے شروع کردی تھی جب اسے انڈیاکے شہرسرساسے داغاگیا تھا۔اس کی پروازکے مکمل دورانیے کامسلسل جائزہ لیاگیا۔

2019میں بالاکوٹ حملے اورانڈین طیارہ گرائے جانے کے بعددونوں ملکوں نے نیادفاعی سازوسامان خریداہے۔جیسے انڈین ایئرفورس کے پاس اب 36 فرانسیسی ساختہ رفال جنگی طیارے ہیں۔پاکستانی فوج کادعویٰ ہے کہ انہوں نے حالیہ حملے میں جوابی کارروائی کے دوران تین رفال طیاروں سمیت پانچ طیارے مارگرائے ہیں اوراب تک49ڈرون بھی گرائے گئے ہیں جس میں اسرائیلی ڈرون ہاروپ بھی شامل ہیں جن کودنیامیں ناقابل تسخیرسمجھاجاتاتھالیکن پاکستان نے یہودہنودکاغرورخاک میں ملاکررکھ دیاہے۔تاہم انڈیانے اس کی تصدیق نہیں کی ہے جبکہ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیزکے مطابق اسی دورانیے میں پاکستان نے چین سے کم ازکم20جدیدجے10جنگی طیارے حاصل کیے ہیں جوکہ پی ایل15میزائلوں سے لیس ہیں۔

جہاں تک ایئرڈیفنس کی بات ہے تو2019کے بعدانڈیانے روسی ایس400اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سسٹم حاصل کیاجبکہ پاکستان کوچین سے ایچ کیو 9فضائی دفاعی نظام ملاہے جبکہ پاکستانی فضائیہ کے پاس اپنی فضائی صلاحیتوں میں’ایڈوانسڈایریل پلیٹ فارمز،ہائی ٹو میڈیم ایلٹیٹوڈایئر ڈیفنس سسٹم،
بغیرپائلٹ کامبیٹ ایریل وہیکلز،سپیس،سائبر،الیکٹرانک وارفیئراورمصنوعی ذہانت سے چلنے والے سسٹمزموجود ہیں۔

انڈیاکے پاکستان پراس حملے کے بعدچند اہم سوالات پیداہوئے ہیں کہ کیاپاکستان کافضائی دفاعی نظام انڈیاکی جانب سے آنے والے میزائلوں کوبڑی حدتک روکنے کی صلاحیت رکھتاہے؟اوریہ کہ پاکستان انڈین فضائی حدود سے داغے گئے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے قبل فضامیں ہی تباہ کیوں نہیں کرپایا؟

اسرائیل کے معروف فضائی دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘یا’ڈیوڈسلنگ‘کے متعلق توآپ جانتے ہوں گے جنہیں جدیدمیزائل شیلڈکہاجاتاہے۔ ایران کی جانب سے میزائل حملہ ہو،حماس کی جانب سے راکٹ داغے جائیں یاحوثی باغیوں کے طرف سے ڈرونز،جیسے ہی یہ اشیا اسرائیل کی فضائی حدودمیں داخل ہوتی ہیں توان خودکاردفاعی نظاموں کی مددسے انھیں فضاہی میں تباہ کردیاجاتاہے۔جنگ کی صورتحال میں کسی بھی ملک کیلئےاس کافضائی دفاعی نظام بہت اہمیت رکھتا ہے۔اوردفاعی نظام میں میزائل شکن سسٹم کے ساتھ ساتھ دشمن کے جہازوں کو ٹریس اینڈٹریک کرنے والے ریڈاراوردیگرآلات بھی شامل ہوتے ہیں۔

پاکستان کے فضائی دفاعی نظام میں چینی ساختہ “ایچ کیو،9بی ای”شامل ہیں۔”ایچ کیو،9بی ای”سسٹم 260کلومیٹرتک کی رینج میں لڑاکاطیاروں کونشانہ بنا سکتاہے اور50کلومیٹرتک کی رینج میں فضائی سے زمین پرمارکرنے والے میزائلوں کوروکنے کی صلاحیت رکھتاہے تاہم،حالیہ بھارتی حملوں میں لاہورمیں واقع”ایچ کیو،9بی ای”سسٹمزکونشانہ بنایاگیا،جس سے پاکستان کے فضائی دفاعی نظام کونقصان پہنچانے کادعویٰ کیاگیاجس کی ابھی تک کسی بھی ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔پاکستان کے پاس جدیدفضائی دفاعی نظام موجودہیں،جن میں چین سے حاصل کردہ پی ایل15میزائل شامل ہیں۔یہ میزائل 150 کلومیٹرسے زائدفاصلے پرہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورجے ایف17جیسے جدیدلڑاکاطیاروں پرنصب کیے جاسکتے ہیں تاہم بھارت نے اپنے ایس400دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے میزائل اورڈرون حملوں کوناکام بنانے کادعویٰ کیاہے۔

پی ایل 15میزائل ایک جدیدچینی ساختہ فضاسے فضامیں مارکرنے والامیزائل ہے،جو150کلومیٹرسے زائدفاصلے پرہدف کونشانہ بنا سکتاہے۔یہ میزائل پاکستان کے جے ایف17بلاک 3 طیاروں پرنصب کیے گئے ہیں اوربھارت کے جنگی طیاروں کے خلاف مؤثرثابت ہوسکتے ہیں ۔

پاکستان نے حالیہ جھڑپوں میں چینی ساختہ”پی ایل-15ای”فضاسے فضامیں مارکرنے والے میزائلوں کااستعمال کیاہے۔یہ میزائل145 کلومیٹرتک کی رینج میں ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورجدید”اے ای ایس اے”ریڈارسے لیس ہیں۔پاکستانی”ایف17 بلااک3اورجے،10سی”طیاروں پرنصب یہ میزائل بھارتی رافیل اوردیگرلڑاکاطیاروں کیلئےخطرہ بن سکتے ہیں۔

پی ایل15چین کاجدید ترین میزائل ہے۔بی وی آر(بی یانڈ ویشول رینج)ریڈارگائیڈڈسسٹم کوپاکستان نے اپنے طیاروں پرنصب کررکھاہے علاوہ ازیں آسٹا میزائل جوڈیڑھ سے دوسوکلومیٹرریجن رکھتاہے جوعام میزائل سے کہیں زیادہ مؤثرسمجھاجاتاہے۔فضائی برتری حاصل کرنے کیلئےیہ میزائل پاکستان کیلئے گیم چینجرہے،خاص طورپرجب دشمن کے طیارے پاکستانی حدودسے باہر ہوں۔

پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے بھارت کے حملوں کو”بزدلانہ”قراردیتے ہوئے جوابی کارروائی کاعندیہ دیاہے۔عوامی سطح پربھی جوابی کارروائی کے مطالبات میں اضافہ ہواہے۔ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں اوربیانات نے خطے میں مکمل جنگ کے خدشات کوبڑھادیاہے۔پاکستان کے وزیر اعظم شہبازشریف نے بھارتی حملوں کو”جنگی اقدام”قراردیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان اس کابھرپورجواب دے گا۔بھارت نے بھی اپنی دفاعی تیاریوں کوبڑھادیاہے،جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہواہے۔

اقوام عالم میں خطرہ کی گھنٹی بج چکی ہے اوروہ فکرمند ہیں کہ کیایہ صورتحال مکمل جنگ کی طرف جاسکتی ہے؟جبکہ دونوں ایٹمی طاقتیں اپنی افواج ہائی الرٹ پررکھ چکی ہیں۔پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف نے”فیصلہ کن ردعمل”کی بات کی ہے۔بھارت نے بھی اپنے شمالی کمان کوریڈ الرٹ کردیاہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے واضح اعلان کیاہے کہ پاکستان ہرصورت اپنے شہریوں کی ہلاکت کاجواب ضروردے گاجوان کی قومی ذمہ داری بھی ہے،اس کیلئے پاکستان جگہ اوروقت کاانتخاب خودکرے گااورپاکستان کے جواب کی گونج بھی ساری دنیامیں سنائی دے گی جس کے جواب میں بھارتی ترجمان نے بھی ایساہونے کی صورت میں مکمل جنگ کے خطرہ بڑھ جانے کی دہمکی دی ہے۔اگردیکھاجائے توبھارت تومکمل جنگ شروع کرچکاہے۔گویااب کبھی کوئی فیصلہ کن موڑان ایٹمی طاقت کے حامل ملکوں کواس خطرہ کی طرف لیجاسکتاہے۔

پاکستانی عوام اورعسکری حلقے جوابی کارروائی کامطالبہ کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے فیصلہ کیاہے کہ پاکستان شہری آبادیوں پرحملہ کرنے سے گریزکرتے ہوئے مکمل جنگ سے بچتے ہوئے فوجی اہداف پرنپی تلی جوابی کارروائی پرغورکررہاہے۔انڈیاکے سابق ہائی کمشنراجے بساریاکاکہناہے:پاکستان کاردعمل ضرورآئے گا۔اصل چیلنج یہ ہوگاکہ اس کے بعدبڑھتی ہوئی کشیدگی کو کیسے سنبھالاجائے۔یہی وہ وقت ہوگاجب بحران سے بچانے والی سفارتکاری اہم کردارادا کرے گی۔پاکستان کوضبط اورتحمل سے کام لینے کامشورہ دیاجائے گالیکن پاکستان کے جوابی حملے کے بعداصل کامیابی اس وقت کی سفارتی کوششوں میں ہوگی تاکہ دونوں ممالک کسی بڑے فوجی تصادم کی طرف نہ بڑھیں۔ایک اورسیاسی اوردفاعی تجزیہ نگارکاکہناہے کہ انڈیاکی جانب سے مریدکے اور بہاولپورجیسے مقامات پرسرجیکل اسٹرائیکس’موجودہ حالات کے پیش نظرمتوقع تھیں۔تاہم پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کا امکان بہت زیادہ ہے۔

ایک امریکی دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق”پاکستانی فوج کے بیانات اوراس کے”حساب چکانے”کے عزم کودیکھتے ہوئے،یہ کہاجا سکتاہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحدپارجوابی حملے ممکنہ طورپراگلے چنددنوں میں کیے جاسکتے ہیں۔تاہم خدشہ ہے کہ دونوں جانب سے ایسے محدودحملے’ایک محدودروایتی جنگ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

امریکا کی یونیورسٹی ایٹ البانی کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے حملوں کی وسعت اور پاکستان میں کئی ٹھکانوں پر واضح جانی و مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا ردعمل ’انتہائی متوقع‘ ہے۔انھوں نے عالمی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر پاکستان کوئی ردعمل نہ دے تو یہ انڈیا کو کھلی اجازت دینے کے مترادف ہو گا کہ وہ جب چاہے کارروائی اور حملہ کرے اور یہ پاکستانی فوج کے ’ادلے کا بدلہ‘ اصول کے خلاف بھی ہو گا۔‘

زیادہ تر ماہرین اس بات پرمتفق ہیں کہ پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی ناگزیرہے اورجلدیابدیرسفارتکاری کی ضرورت پڑے گی۔بالآخر بھارت نے پاکستانی نورخان ائیربیس اوررحیم یار خان ائیربیس پر حملہ کرکے پاکستان کو مجبورکردیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس جارحیت کا منہ توڑجواب دیا جائے۔

10مئی کے نصف شب رات1یک بج کر50منٹ پرپاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی میں ایک نیاموڑآیا،جب بھارت نے آدم پور سے6بیلسٹک میزائل فائرکیے،جوتمام بھارتی حدودمیں ہی گرگئے۔ان میں سے ایک میزائل آدم پورمیں جبکہ باقی5/امرتسرکے علاقوں میں گرے۔اس واقعے کے بعد،پاکستان نے”آپریشن بنیان المرصوص”کے تحت جوابی کارروائی کی،جس میں بھارت کے مختلف علاقوں میں25اہداف کونشانہ بنایاگیا۔ان حملوں میں بھارتی فضائی اڈے،اسلحہ ڈپواوردیگرفوجی تنصیبات شامل تھیں۔پاکستانی ذرائع نے شواہد کے ساتھ دعویٰ کیاکہ اس حملے میں جہاں سے حملے ہوئے،وہی پرجوابی میزائل داغے گئے اورپاکستان نے صرف فوجی تنصیبات پرحملے کئے۔

جے ایف17تھنڈرطیارے نے آدم پوربیس پرہائپرسپرسونک میزائل سے ائیرڈیفنس سسٹم ایس400کوراکھ کردیا۔بھارت کے آدم پور،اودھم پور، بھٹنڈہ،سورت گڑھ،مامون،اکھنور،جموں اوربرنالہ کی ائیربیسزاورفیلڈکومکمل تباہ کردیا۔بھارت کی بھارت کی سورت گڑھ،سرسہ اوربھٹنڈہ ائیر فیلڈز،بھارتی آرٹلری گن پوزیشن دہرنگیاری،اڑی فیلڈسپلائی ڈپو،سسہ اورہلوارہ ائیرفیلڈکومکمل تباہ کردیاگیا۔راجوری میں افواجِ پاکستان کی کاروائی میں ایڈیشنل ڈی سی راج کمارتھاپاجوبھارتی حکومت کی پشت پناہی میں کام کرنے والاسہولت کاراور کشمیریوں پربے تحاشہ ظلم کرتاتھا،ماراگیا۔بھارتی حکومت نئی دہلی،اور گجراتی قصاب مودی کے شہرگجرات میں پاکستانی ڈرون کی کامیاب پروازیں اوراہداف کانشانہ بنایاگیا۔پاکستانی میزائل اور ڈرون کوجہاں جہاں حملہ کرناتھا،وہ کامیابی کے ساتھ ٹھیک نشانے پرپہنچے۔پاکستانی الفتح 1میزائل سسٹم کے ذریعے متعدد بھارتی اہداف کونشانہ بنایاگیااورپاک فضائیہ نے پہلی مرتبہ کامیابی کے ساتھ اپناتیارکردہ جے10سےطیارہ کاکامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔پاک فوج نے مضبوط شواہدکیلئے میزائل لیجانے والے جے ایف17تھنڈر اوردیگر طیاروں کی کئی ویڈیوز جاری کردیں تاکہ اقوام عالم اورعالمی میڈیااس سے باخبرہو۔ان طیاروں کی کامیابی خوداپنامنہ بولتے ثبوت کے ساتھ پیش کر دی گئیں۔

میزائل حملےکے بعد انڈین کی طرف سے پہل کرنے کے جواب میں سائبرحملے بھی شروع کر دیئے گئے ہیں۔بیشترانڈین ویب سائٹس میں بی جے پی کی آفیشل ویب سائٹ،کرائم ریسرچ انویسٹی گیشن ایجنسی،ماہانگرٹیلی کیمونیکیشن کمپنی لمٹیڈ، ارتھ موورزلمیٹیڈ،آل اںڈیانیوی ٹیکنیکل سپروائزری سٹاف ایسوسی ایشن،ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ،ہارڈرسیکورٹی فورسز، یونیک آٹونیٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا،انڈین ائیرفورس،مہاراشٹرالیکشن کمیشن اوراس سے منسلک دیگرسائٹس ہیک کی گئی، سائٹس کامکمل مواداڑادیاگیا۔انڈیامیں سائبراٹیک سے70فیصد بجلی گرڈتباہ کرکے ملک کابیشترحصہ تاریک ہوگیا۔پاکستانی سائبرصلاحیت کااس سے زیادہ کیااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان کے پاس زمین سے فضامیں مارکرنے والے میزائلوں کے خلاف دفاعی صلاحیت ہے؟جی ہاں!پاکستانی فضائی دفاعی نظام کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ زمین سے زمین پرکم فاصلے،درمیانے فاصلے اورطویل فاصلے تک مارکرنے والے کروزاوربیلسٹک میزائلوں کوروک سکے۔پاکستان نے اپنے دفاعی نظام میں چینی ساختہ ایچ کیو16ایف ای ڈیفنس سسٹم سمیت مختلف میزائل سسٹمزکوشامل کیاہے جوپاکستان کوجدیددفاعی میزائل نظام کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں اوریہ زمین سے زمین مار کرنے والے میزائل،کروزمیزائلوں اورجنگی جہازوں کے خلاف مؤثرہے۔تاہم اگرفضاسے زمین پر مارکرنے والے میزائل کوانٹرسیپٹ (روکنے)کرنے کی بات کی جائے توایسادفاعی نظام موجودنہیں ہے۔

دنیامیں فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے والاایساکوئی دفاعی نظام نہیں بنا،خاص کرایسی صورتحال میں جس میں پاکستان اورانڈیا جیسے ممالک جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اوربعض مقامات پریہ فاصلہ محض چندمیٹرکارہ جاتاہے،ایسے میں فضاسے زمین پرکیے جانے والے میزائل حملوں کوسوفیصد روکنایقیناً ناممکن ہے۔ہردفاعی نظام کی صلاحیت کی ایک حدہوتی ہے کہ اگربیک وقت مختلف قسم کے متعددمیزائل فضامیں مختلف سمت سے داغے جاتے ہیں تووہ کس قسم کے میزائلوں کوروکے گا۔

بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے متعدد جدیدمیزائل اورریڈار نظام شامل کیے ہیں اور اپنی دفاعی صلاحیت کوبہتربنایاہے۔اگرچہ یہ جدیددفاعی نظام بہت حد تک مؤثرہوتے ہیں تاہم یہ ممکن نہیں کہ آپ ڈھائی ہزارسے زائدکلومیٹرطویل مشرقی سرحدپرکوئی ایسا ایئر ڈیفنس سسٹم لگائیں جوسوفیصدیہ ممکن بنائے کہ کوئی میزائل وہاں سے داخل نہ ہو سکے۔ایساکرنے کیلئےاربوں ڈالرزدرکارہوں گے اوروہ سرحدوں کی انتہائی قربت کی وجہ سے اتناکارآمد بھی نہیں ہوگا۔ انڈیاکے پاس بھی ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔

اگرہم6مئی کی شب کے واقعے کی بات کریں تواس میں ہمیں کچھ باتوں کوسمجھناہوگا۔ممکنہ طورپرانڈیاکی جانب سے یہ میزائل فضا سے زمین پرداغے گئے ہیں اوراگرہم فضاسے زمین پرمار کرنے والے میزائلوں کی بات کریں تویہ آج کل بہت جدیدہوگئے ہیں۔اُن کی رفتاربہت تیزہوگئی ہے جوماک تھری (3675کلومیٹرفی گھنٹہ)سے ماک نائن(11025کلومیٹرفی گھنٹہ)تک جاتی ہیں اوراتنے تیزرفتار میزائل کوروکنے یاانٹرسیپٹ کرنے کی صلاحیت امریکا ، روس اورچین سمیت کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے۔

فضاسے فائرکیے جانے والے میزائل کوروکنے میں ایک اورمشکل یہ بھی ہے کہ ان کاپروازکادورانیہ بہت کم ہوتاہے اورآپ کے پاس ردعمل کرنے کا وقت بہت محدودہوتاہے جبکہ اس کے برعکس زمین سے زمین پرمارکرنے والے میزائل کوروکاجاسکتاہے کیونکہ اُن کی پرواز کادورانیہ زیادہ ہوتاہے۔انڈیاکے پاس بھی یہ دفاعی صلاحیت نہیں کہ اگرپاکستان فضاسے زمین پرکوئی میزائل داغے تووہ اسے روک پائے۔اگر پہلی شب کے واقعے کی بات کریں توایساہی معاملہ تھاکہ پاکستان کے پاس ردعمل کاوقت بہت محدودتھااوریہ میزائل چندہی لمحوں میں پاکستان میں آگرے۔دنیاکاکوئی بھی دفاعی نظام ایسانہیں جو جغرافیائی طورپرساتھ جڑے حریف ممالک کے حملوں کوسوفیصد تک روک سکے۔

تاہم یہ نقصان کوکم کرسکتاہے۔ایسے نظام میں دفاع کیلئےحملے کی نوعیت بھی اہم ہے۔اگربیک وقت فضاسے زمین پرمارکرنے والے میزائل مختلف اطراف سے فائرکیے جاتے ہیں تواس میں ان کی ریڈارپرنشاندہی کرنااورفوری ردعمل دیناکچھ مشکل ہوتاہے۔جبکہ اگر زمین سے زمین پرمارکرنے والے میزائلوں یاکروزمیزائلوں کی بات کی جائے توان کی ڈپلوائمنٹ کاعلم ہوتاہے اورآپ ان کے فلائیٹ پاتھ یاکوریڈورکوکورکرسکتے ہیں۔

جیساکہ پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈارنے بتایاکہ انڈیاکی جانب سے اس حملے میں70کے قریب طیاروں نے حصہ لیاتوایسی بڑی کارروائی میں اگرآٹھ نو میزائل زمین پرآگئے تویہ جنگی صورتحال میں معمول کی بات ہے۔اگرچہ ان چندبموں کے گرنے سے انسانی جانوں کاضیاع ہواہے مگرجیساانڈیانے بڑے پیمانے پریہ کارروائی کی تھی ایسے میں یقیناًکچھ فیک اٹیک ہوں گے توان چندمیزائلوں کا گرناجنگی اعتبارسے غیرمعمولی نہیں۔

جیساکہ پاکستانی فوج نے دعویٰ کیاکہ پہلے ہی دن انڈین حملوں کے ردعمل میں پاکستانی فضائیہ نے انڈیاکے5طیارے اورایک جنگی ڈرون مارگرایاہے،یہ ایک ٹیکٹیکل معاملہ ہے اورہر فضائی ماہرکی اس پررائے مختلف ہوسکتی ہےکیونکہ ائیرفائٹ کی صورتحال میزائل حملوں کے کافی مختلف ہوتی ہے۔جب کسی بھی ملک کی فضائیہ کسی دوسرے ملک پرجہازوں سے میزائل فائرکرتی ہے تواس کامطلب ہوتاہے کہ جنگ شروع ہوگئی اوراِس کے بعداس ملک کی فضائیہ وہاں رکتی نہیں بلکہ وہاں سے آگے بڑھتی ہے کیونکہ وہاں رکناانتہائی غیردانشمندانہ ہوتاہے وہ بھی ایسے وقت میں جب دشمن کے جہازبھی فضامیں ہوں۔

انڈین میڈیامیں ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ انڈین جہازپاکستانی فضائی حملے کے خلاف دفاعی حکمت عملی کے تحت فلیئرفائراستعمال کررہے تھے لیکن یہ دفاعی حکمت عملی وہاں کارآمدہوتی ہے جہاں انفراریڈگائیڈڈمیزائل آپ پر15سے20کلومیٹرسے فائرکیاگیاہو۔یہ دفاعی حکمت عملی ریڈارگائیڈڈمیزائل کے خلاف کام نہیں کرتی۔لگتایہ ہے کہ انڈیاکویہ اندازہ نہیں تھاکہ پاکستان ان پران کی فضائی حدودکے اندرہی کوئی کارروائی کرے گا۔

تاہم دفاعی ماہرین کے مطابق لڑاکا طیاروں کی فضامیں لڑائی کی صورتحال بہت مختلف ہوتی ہے۔اگرزمین سے فضامیں مار کرنے، یا زمین سے زمین سے مارکرنے کے دفاعی نظام میں آپ کوان میزائلوں کی صلاحیت،داغے جانے کے ممکنہ مقام، اورپروازکے ممکنہ پاتھ کاعلم ہوتاہے مگرفضامیں لڑائی میں ہم کوعلم نہیں کہ کہاں سے کیافائرکیاجاسکتاہے اورآپ کوہر طرف سے خودکوکورکرناہوتاہے۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان اس سلسلے میں کہاں کھڑاہے؟
ایچ کیونائن بی ایف دفاعی نطام چین سے حاصل کردہ وہ نطام ہے جو260 کلومیٹرکی ریجن تک طیارے،کروزاوربیلسٹک میزائلوں کا نشانہ بناسکتاہے۔اسی طرح ایل وائی80اورایچ کیو16 درمیانی رینج کے میزائل ہیں جو40سے70کلومیٹرتک ہدف کومارکرسکتے ہیں۔ بھارت کواسرائیل سے درآمدہاروپ کامی کازڈرونزاورسٹینڈآف ویپنزسے پاکستان کے دفاعی نظام کونقصان پہنچانے کی کوشش کی جس کے ناقابل تسخیرہونے کے دعوے کئے جاتے تھےلیکن پہلی مرتبہ پاکستان نے ان ڈرونزکوبھی تباہ کردیاہے اوراس کاملبہ عالمی میڈیاکے سامنے پیش کردیاہے۔

پاکستان نے پہلے ہی دن 5بھارتی طیاروں کوگرانے کادعویٰ کیاتھاجس پربھارت نے مکمل خاموشی اختیارکی ہوئی ہے لیکن رافیل طیاروں کی بربادی کے متعلق خودفرانسیسی حکام نے تصدیق کرکے پاکستان کے مؤقف کی حمائت کردی ہے۔پاکستانی جے ایف17، جے10سی اوربلاک3نے تمام بھارتی فضائی حملوں کونہ صرف پسپاکردیاہے بلکہ خودانڈیاکے اندرہی ان کوتباہ کرکے پاکستان نے اپنی برتری ثابت کردی ہے۔دراصل پاکستان کی اس ٹیکنالوجی نے نہ صرف بھارت بلکہ اس کے تمام اتحادیوں کوبھی ورطہ حیرت میں مبتلاکردیاہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے فضائی حملوں کیلئے اپنے طیاروں کی بجائے ڈرون طیاروں کواستعمال کررہاہے۔

کیا یہ حملہ ایک نئے اورخطرناک مرحلے کاآغازہے؟دنیانے دیکھ لیاکہ اسرائیل کی مددسے انڈیاکی طرف سے آرٹی فشیل ٹیکنالوجی سے مزین ڈرون ہائی برڈوارفئیرکیلئے فضائی دفاعی نظاموں کوتباہ کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں نے آئندہ جنگوں کیلئے نیاٹرینڈمقررکردیاہے جس کودیکھتے ہوئے علاقائی استحکام کیلئے شدیدخطرات نے جنم لے لیاہے۔اس نئے رحجان کی وجہ ہے کہ چین، ایران،اورخلیجی ممالک کی نظریں بھی اس صورتحال پرہیں،جوممکنہ طورپرایک بڑے علاقائی تنازعے میں بدل سکتی ہے۔

بھارتی حکومت نے ابھی تک ان دعووں کی تصدیق یاتردیدنہیں کی،بھارت کی اس خاموشی سے اندازہ ہوتاہے کہ یاتونقصان ہواہے یا بھارت کشیدگی مزید بڑھانانہیں چاہتا۔تاہم غیرمصدقہ رپورٹ کی ڈوگ فائٹ اطلاعات کے مطابق پی ایل15میزائل سسٹم نے فرانسیسی رافیل طیارے،پانچوین جنریشن کے روسی ساخت کے سخوئی طیارے سمیت ایس یوایم کے ایل کوگرا کر اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ اس حادثے کے بعدعالمی مارکیٹ میں رافیل طیاروں کے حصص کی قیمت میں23فیصدکمی دیکھی گئی ہے اورپاکستانی جے ایف تھنڈر طیاروں کے عالمی مارکیٹ میں حصص میں18فیصداضافہ ہوگیاہے۔

قوم کے بیشتراذہان میں یہ سوال گردش کررہاہے کہ کیاپاکستان کا دفاعی نظام فضاسے زمین پرداغے گئے میزائلوں کوروکنے کی صلاحیت رکھتاہے؟جس کاجواب یہ ہے کہ پاکستان کادفاعی نظام مختلف ٹائرزپرمشتمل ہے۔جے ایف17تھنڈراورایف16طیاروں پر نصب جدید میزائل ہواسے ہوامیں100٪ فیصدنشانہ کی صلاحیت کے حامل ہیں جوایک دفعہ فائرکرنے کے بعد دشمن جہازکی رفتارسے دوگنی رفتارسے حریف کاتعاقب خودکرتے ہیں۔

پاکستان نے غازی جیسے اپنے انٹی میزائل ڈیفنس ٹیکنالوجی سسٹمزتیارکئے ہیں لیکن ان کی افادیت کاانحصارمیزائل کی رفتاراور راستے پرہے۔زمین سے ہوا میں چینی ساختہ ایل وائی80اورایچ کیو9کروزمیزائلوں کوروکنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔انڈیاکا ہائپرسونک برہموس میزائل کواس سسٹم سے روکنااس لئے مشکل ہے کہ اس کی رفتارزیادہ ہے لیکن اس کیلئے دوسرانظام تیار ہے جو اسے دشمن کی زمین پرہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔

یادرہے کہ 2019ءمیں بالاکوٹ سٹرائیک میں انڈیا کے نہ صرف دوطیارے تباہ کردیئے تھے بلکہ ان کاپائلٹ بھی زندہ گرفتارکرلیاتھا جوبعدازاں پاکستانی کی چائے کاساری دنیاکے سامنے اعتراف کررہاتھالیکن یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ ایسی چائے کابندوبست انڈیا کے رافیل طیاروں سمیت دوسرے طیاروں کوتباہ کرکے چائے کابندوبست وہی کردیاگیاتھا۔پاکستان نے آپریشن سراب کے تحت انڈین فضائی حدودمیں داخل ہوکرنشانہ بازی کی،جس میں انڈیا کاایک مگ21طیارہ تباہ کردیاگیاتھا۔

پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے خبردارکیاکہ بھارت کے حالیہ حملے”جنگ کااعلان”ہیں اوراگربھارت نے مزیدکارروائی کی توپاکستان بھرپورجواب دے گا۔بین الاقوامی برادری نے اس صورتحال پرتشویش کااظہارکیاہے اوردونوں ممالک سے تحمل کامظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے میں امن واستحکام کیلئےخطرات پیداکردیے ہیں۔دونوں ممالک کے پاس جدیدہتھیاراوردفاعی نظام موجودہیں،تاہم کسی بھی غلط فہمی یااشتعال انگیزی سے مکمل جنگ کاخطرہ بڑھ سکتاہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں ممالک کومذاکرات کی میز پرلائے تاکہ خطے میں امن قائم رکھاجاسکے۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سخت بیانات کے ساتھ کشیدگی عروج پرہے،لیکن بین الاقوامی دباؤاورممکنہ جوہری تصادم کے خطرے کے پیش نظر، دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے مسئلے کے حل کی کوشش کرسکتے ہیں۔تاہم عالمی برادری کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ماضی میں بھی دونوں ممالک کشیدگی کے باوجودمکمل جنگ سے گریزکرتے رہے ہیں۔موجودہ صورت حال میں سفارتی کوششوں اورعالمی دباؤکے باعث مکمل جنگ سے بچنے کاامکان موجودہے،تاہم حالات کی نزاکت کے پیش نظرکسی بھی وقت صورتحال بگڑسکتی ہے۔

اگرحالات کوکنٹرول نہ کیاگیاتویہ جاری صورتحال مکمل جنگ کی طرف جاسکتی ہے فی الحال،واقعات2019کی سطح سے زیادہ سنگین نہیں ہیں،لیکن کشیدگی میں مسلسل اضافہ تشویشناک ہے۔اگرحالیہ ہائپرسونک میزائلوں یاسائبرجنگ تک جاپہنچیں تویہ خطرناک ہوسکتاہے۔دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیارہیں،جوکسی بھی بڑی متبادل تباہی یعنی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔2023میں،پاکستان اورانڈیاکے تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجوہات کشمیرتنازعہ،سرحدی خلاف ورزیوں،اوردونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پرتناؤہیں۔کشمیرجیسے عالمی تنازعہ کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے پچھلی سات دہائیوں سے انڈیاراہِ فرارحاصل کررہاہے جبکہ ان قراردادوں پرعالمی طاقتیں ضامن بھی ہیں۔

اس پرمستزادیہ کہ انڈیاکی جانب سے5 اگست2019میں آرٹیکل370کے خاتمے کے بعدسے کشمیرکواس نے ہندوستان کاحصہ قراردے دیاہے جو صریحاًعالمی قراردادوں کی خاف ورزی ہے ۔اس صورتحال پرپاکستان کی طرف سے سفارتی احتجاج جاری ہے اوراب ایک مرتبہ پھرلائن آف کنٹرول پر گولہ باری اورفائرنگ کے واقعات شروع ہوگئے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی جنگ کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ایک مرتبہ پھر تشددکی بہیمانہ کاروائیوں کاآغازہوگیاہے۔

پاکستان اورانڈیاکے درمیان کشیدگی ایک پیچیدہ اورتاریخی مسئلہ ہے،جوجوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں محدودجنگ تک ہی رہنے کاامکان رکھتاہے۔ دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے حملوں کوروکنے کی صلاحیت موجودہے،لیکن مکمل جنگ سے گریزان کی پالیسی کاحصہ ہے۔بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل نگرانی اورثالثی اس تناؤکوکنٹرول میں رکھنے کیلئےاہم ہے۔

کیادونوں ممالک جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟اس کیلئے ہمیں ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔2019 کی پلوامہ۔بالاکوٹ کشیدگی کے بعددونوں ممالک سفارتی ذرائع سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن بیک ڈورچینل پرکئی ممالک امن کی کوششوں کوبڑھا رہے تھے اوراس وقت بھی بیک ڈورچینلز کی وجہ سے جنگ کے خطرات ٹل گئے تھے۔اب ایک مرتبہ پھرچین، امریکا ، سعودی عرب اوریواین سفارتی مداخلت کیلئےمتحرک ہوچکے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے یہ خبرملی کہ بالآخرامریکی صدرجواس جنگ سے خودکوالگ کئے بیٹھے تھے، انہوں نے چندلمضے پہلے اپنے ٹوئیٹرمیں دونوں ملکوں میں سیزفائرکا اعلان کیاہے جویقیناًپاکستان کی فتح کااعلان ہے۔

اگرکوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کوتیارہو،توکشیدگی کم ہوسکتی ہے۔دونوں ممالک کوبڑی جنگ سے روکنے کاسب سے بڑاعنصرجوہری ہتھیاروں کاہے،جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں مذاکرات کی گنجائش باقی ہے۔لیکن فی الحال دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات کافقدان ہے لیکن غیررسمی چینلزجیسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو فعال کرنی ضرورت ہے۔دونوں ممالک خاص طور پرحالیہ کووڈ19کے اثرات نے ان کی معیشت پرخاصادباؤڈالاہے اور دونوں ملکوں کے عوام کیلئے سب سے بڑاچیلنج ان کے ہاں غربت اورمہنگائی کاابھی تک چل رہاہے۔اس پرمزیدجنگ کے اقتصادی اثرات ان کودہائیوں پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں