نیاٹرائی اینگل

:Share

یہودی نژادہنری کسینجرکے ترتیب دیئے ہوئے ورلڈآرڈرکے نصاب کے مطابق عرب بہارکے نام پرصرف سنی عرب ممالک کوایک خاص مقصد کے تحت بربادیاانتہائی کمزورکردیا گیااوراب باقی ماندہ ممالک کومالی وعسکری طورپر کمزورکرنے کی سازشیں جاری ہیں لیکن جانتے بوجھتے اگر شکار صیاد سے دوستی کرلے توپھراسے پھڑپھڑانے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔مشرقِ وسطیٰ کے امورپرگہری نظررکھنے والے ایک اہم ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ شام میں ترکی کے کردارکوختم کرنے کیلئے اسرائیل اورعرب ممالک کے درمیان خفیہ معاہدہ ہوگیاہے۔شام سے امریکی انخلاء کے اعلان کے بعداسرائیل،متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب اورمصرکے درمیان انٹیلی جنس سطح پراعلیٰ عہدیداروں کی خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔ چاروں ممالک نے شام میں صدربشار الاسدکی حمائت اورانہیں مضبوط کرنے پراتفاق کرلیاہے جبکہ شام کے کشیدگی کے علاقوں میں ترکی کیلئے خطرہ بننے والے کرد عسکری گروپوں کی خفیہ مددوحمائت پربھی اتفاق ہواہے،حلب اورادلب کے معاملے پربطورخاص اسرائیل اورعرب ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق گزشتہ ماہ متحدہ امارات کادمشق میں سفارتخانہ کھولنااس بات کاکھلاثبوت ہے کہ امارات شام میں تعمیرنوکے نام پرانٹیلی جنس بنیادوں پرکھیل کھیلنے کافیصلہ کرچکاہے۔خیال رہے کہ دسمبرمیں سوڈانی صدرعمرالبشیرنے دمشق کادورۂ کیاتھاجبکہ ماہِ رواں میں موریطانیہ کے صدر بھی دمشق کادورۂ کرنے کااعلان کرچکے ہیں۔الجزیرہ کے مطابق سعودی عرب اور امارات کے شامی کردوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔سعودی عرب کے عراقی کردوں کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں اوریہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کاقونصل خانہ بصرہ کی بجائے کردستان کے شہرربیل میں ہے۔الجزیرہ کے مطابق خطے میں نیااتحادترکی کے خلاف بن رہاہے جس سے ترکی کے اندر علیحدگی پسندکرد بغاوتی تحریک کوہوادی جائے گی۔
تجزیہ نگاروں نے سعودی عرب،امارات اوراسرائیل کواس حوالے سے نیاٹرائی اینگل قراردیا جا رہاہے۔واضح رہے کہ مارچ2011ء میں شام کی بشار الاسدحکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اورشام کی عرب اتحادکی رکنیت معطل کرنے کااعلان کیاگیاتھالیکن اب ان ممالک نے شام کوایک بارپھرعرب لیگ میں واپس لانے کی باقاعدہ تیاری شروع کردی ہے۔شام میں سیاسی عمل کی پیش رفت اورموجودہ خانہ جنگی کاخاتمہ دمشق کی عرب لیگ میں واپسی ممکن بناسکتاہے اورشام میں نئے دستور کی تدوین سے بہت سے حل طلب مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔نئے دستورکی تدوین کے ذریعے حکومت کی تشکیل کاطریقہ کارپارلیمنٹ اورانتخابات جیسے اقدامات اہمیت کے حامل ہیں۔دوسری طرف ترکی اورقطرکے درمیان متنازعہ سولہ صفحات پرمشتمل عسکری سمجھوتہ ہوگیاہے اوراس خفیہ معاہدے کے تحت ترکی اپنے ہزاروں فوجیوں کوقطرکی سرزمین پرتعینات کرے گا۔
ویڈش ویب سائیٹ”نورڈیک مانیٹر”کے مطابق اس معاہدے کی ایک شرط یہ ہے کہ قطراپنی فضا اور سمندر کو ترکی کے صدر اردگان کو خلیجی خطے میں اپنے نظریات کی ترویج کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ علاہ ازیں ترک صدر کے ذاتی اور شخصی اہداف مفادات کو یقینی بنانے میں دوحہ مدد فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود کسی بھی کاروائی میں ترکی اپنی فوج کو بھی استعمال کرسکے گا۔ رپورٹ کے مطابق قطر اور ترکی کے درمیان طے پائے معاہدے کے کئی خطرناک پہلو ہیں۔ خطے میں کسی بھی کشیدگی کی صورت میں ترکی خواہ مخواہ جنگ میں الجھ سکتا ہے جس کا ترکی کے مفادات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔دونوں ملکوں کے درمیان طے پائے فوجی سمجھوتے میں بات دو طرفہ فوجی مشقوں میں شراکت تک محدود نہیں بلکہ “عملی کاروائی”کی شق شامل کی گئی ہے۔اس طرح صدر اردگان بیرون ملک کسی بھی آپریشن میں فوج بھیج سکتے ہیں۔
ترکی اورقطر کے درمیان یہ دفاعی سمجھوتہ دوسال قبل طے پایا۔2017 کوترک پالیمنٹ نے اس کی توثیق اوروسیع کی۔ دراصل ترکی نے قطر کے ساتھ دفاعی سمجھوتہ کرکے سعودی عرب،امارات اورخطے کے دوسرے ممالک کویہ پیغام دیاتھا کہ انقرہ اپنے اتحادی قطر کے ساتھ کھڑاہے۔ ترکی اورقطر میں طے پائے دفاعی معاہدے کو”مملکت قطر میں جمہوریہ ترکی کواپنی مسلح افواج تعینات کرنے کی اجازت”کاعنوان دیا گیا۔28اپریل 2016 کو دوحا میں دستخط کیے گئے۔اس معاہدے کاآرٹیکل4زیادہ پراسرارہے جس میں کہاگیا ہے کہ صدراردگان کو اپنے ملک کی پارلیمنٹ سے بیرون ملک کسی بھی مشن پرفوج تعینات کرنے کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ ترک صدر ذاتی طورپرقطر میں اپنی فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ کسی بھی کارروائی کاحکم دے سکتے ہیں۔ایساکرناخودترکی کے اپنے دستور کے خلاف ہے اورماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔معاہدے کی اگلی شق میں قطرمیں ترک فوج کی تعیناتی کا مقصد قطری فوج کی دفاعی شعبے میں تربیت،انسداد دہشتگردی کی کاروائیوں میں معاونت اوردوسرے ممالک میں مشترکہ آپریشنز میں حصہ لینا بتایا گیا ہے۔
9جون2017 کو ترک پارلیمنٹ نے قطرمیں ترک فوج کی تعیناتی کی توثیق کی۔ اس توثیق میں قطر میں فوج کی تعیناتی کی مدت کاکوئی تعین نہیں کیاگیا۔ترک فوج قطرمیں کب تک رہے گی اوراس کی تعدادکیاہوگی،یہ سب کچھ صدراردگان پرچھوڑدیاگیاہے۔معاہدے کے آرٹیکل17میں قطرمیں ترک فوج کی تعیناتی کاابتدائی عرصہ10سال رکھاگیاہے۔ یہ عرصہ ختم ہونے کے بعداس میں پانچ سال کی توسیع کی جاسکتی ہے اور یہ توسیع باربارکرنے کیلئے ترکی کواختیاردیاگیاہے۔معاہدے میں یہ واضح نہیں کہ آیاقطرمیں کتنی ترک فوج تعینات ہوگی۔معاہدے میں لکھاگیاہے کہ ترکی قطرکواپنے دفاع کیلئے جس طرح کی دفاعی ضرورت ہوگی مہیا کرے گا۔ترکی کی جانب سے قطرکوفضائی، بری اورنیول فورس کے دستے مہیا کیے جائیں گے۔سویڈش ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق قطر اورترکی کے درمیان طے پایا معاہدہ ان کی دفاعی ضروریات سے زیادہ ان کے خطے میں مشترکہ مقاصد کے تحفظ کیلئے ہونیوالی مشترکہ کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔گویامستقبل میں مسلمانوں کوباہم دست وگریباں کرنے کیلئے یہودی نژادہنری کسینجرایک نئے ”لارنس آف عریبیا”کا کردارادا کررہاہے۔کیاہمارے مسلم حکمرانوں کواس خوفناک سازش کادراک ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں