New hunting traps

شکاری کے نئے جال

:Share

عالمی میدان میں بیک وقت کئی محاذکھل گئے ہیں۔پچھلے چندبرسوں میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کی بناءپرایساہی ہوناتھا۔جب تمام معاملات جڑے ہوئے ہوتے ہیں تب کسی ایک چیزکے خراب ہونے پردوسری بہت سی چیزوں کاخراب ہوجانابھی فطری امرہے۔ اس وقت یہی ہورہاہے۔امریکااور یورپ مل کرجوکچھ کرتے ہیں وہ کئی ممالک ہی نہیں،بلکہ خطوں کوبھی ہلاکررکھ دیتاہے۔ تبدیلیاں توخیرپوری دنیامیں آرہی ہیں،مگرامریکاویورپ کیلئے یہ تبدیلیوں کامعاملہ بہت اہم ہے۔سبب اس کایہ ہے کہ عالمی سیاست و معیشت کامرکزاب ایشیاکی طرف منتقل ہورہاہے۔چین،جاپان،روس اورترکی کی معیشت غیر معمولی رفتارسے مستحکم ہورہی ہیں۔ جنوبی کوریااورملائیشیاوغیرہ کااستحکام بھی اس معاملے میں روشن مثال کادرجہ رکھتاہے۔

امریکاچاہتاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی فیصلہ کن حیثیت برقراررہے۔تین عشروں سےواحدسپرپاورہونے کابھرپورفائدہ اٹھایاہے۔یورپ نے بھی اس کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے خوب مزے لوٹے ہیں۔اب یہ دَوررخصت ہوتادکھائی دے رہاہے۔امریکااوریورپ نے مل کردنیاکواپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔

ڈھائی عشروں کے دوران چین تیزی سے ابھراہے،جس نے امریکااوریورپ دونوں ہی کیلئےخطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔چینی معیشت کافروغ تیزرفتاررہا ہے۔ چین خودبہت بڑی مارکیٹ ہے،اس لیے بہت بڑے پیمانے پرپیداواری عمل اس کیلئےہراعتبارسے موزوں اور سودمندہے۔امریکااوریورپی ممالک اس معاملے میں اس کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔امریکانے محسوس کرلیاہے کہ یورپ اپنی راہ بدل رہاہے اورہر معاملے میں اس کاساتھ دینے کو تیارنہیں۔یورپ وہی کررہاہے،جوعقل کاتقاضاہے۔یورپ کی بیشترقوتیں افریقا اورایشیاکے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرچکی ہیں۔وہ اب سوفٹ پاورپر یقین رکھتی ہیں۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہرمعاملے کوہاڈپاورکے ذریعے درست کرنانہ صرف ناممکن ہے بلکہ بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموارکرتاہے ۔

چارپانچ سال کے دوران چین نے باقی دنیاسے اپنامعاشی رابطہ بہتربنانے کی بھرپورتیاریاں کی ہیں۔اس حوالے سے بیلٹ اینڈروڈ منصوبہ تیارکیاگیا۔انہی خطوط پرچین نے پاکستان کے ساتھ مل کر(سی پیک)شروع کیاہے۔یہ منصوبہ پاکستان کی بھرپورترقی کی راہ بھی ہموارکرسکتاہے۔سی پیک کی مجموعی مالیت کم و بیش 60ارب ڈالرسے زیادہ ہے۔

امریکااوریورپ کیلئےسی پیک واضح طورپرخطرے کی گھنٹی ہے۔یہی سبب ہے کہ اس کے خلاف پروپیگنڈابھی تیزکردیاگیاہے۔ امریکاچاہتاہے کہ پاکستان سی پیک پرنظرثانی کرے اورجہاں تک ممکن ہوسکے،اس منصوبے کوایسابنادے کہ اس سے پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی آئے نہ خطے میں۔اس مقصد کے حصول کیلئےبھارت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش کوبھی متحرک کیاگیاہے۔بھارت کو اس بات پراعتراض ہے کہ سی پیک سے جڑے ہوئے منصوبے کشمیرمیں بھی شروع کیے جارہے ہیں،جومتنازع علاقہ ہے۔عمران نے وزیراعظم بننے سے قبل کئی باریہ کہاتھاکہ وہ آئی ایم ایف یاکسی بھی عالمی ادارے سے قرضوں کاپیکج لیناپسند نہیں کریں گے مگر منصب سنبھالتے ہی انہوں نے اس حوالے سے بھی یوٹرن لیتے ہوئے کہاکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیے بغیربات نہیں بنے گی کیونکہ قومی خزانے میں کچھ نہیں۔ملک کوبڑے پیمانے پرترقیاتی اقدامات کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کے اعلان پرعمران کواندرونِ ملک توخیرتنقیدکاسامناکرناہی پڑا،بیرونی محاذپرباضابطہ مورچہ کھل گیا۔امریکاتوایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔امریکانےپاکستان کیلئےآئی ایم ایف سے قرضوں کے ناگزیرحصول کافائدہ اٹھاتے ہوئےآئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر ایسی شرائط نافذ کرادی کہ جنہیں پوراکرنے میں اس کی ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے۔ایک طرف چین سی پیک کے حوالے سے پہلے مرحلے میں کم وبیش19/ ارب ڈالرکے منصوبوں کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کی منزل کے بہت نزدیک ہے اوردوسری طرف عمران سی پیک پرنظرثانی کاعندیہ دے رہے ہیں۔یہ سب کچھ چین کیلئےغیرمعمولی تشویش کاباعث ہے کیونکہ سی پیک سے متعلق تمام معاہدے ریاستی سطح پرہوئے ہیں اورنظرثانی کے ذریعے ان میں کوئی بڑی تبدیلی غیرمعمولی منفی نتائج بھی پیداکرسکتی ہے۔

امریکاچاہتاہے کہ سی پیک میں غیرمعمولی تبدیلیوں کی راہ ہموارکی جائے۔اس کیلئےاس نے دوڈھائی سال سے یہ راگ تواترکے ساتھ الاپاہے کہ چین نے کئی ممالک کوقرضوں کے جال میں جکڑلیاہے اوراب پاکستان کوبھی قرضوں کے شکنجے میں کسناچاہتاہے۔ امریکاکے علاوہ یورپ کے میڈیاآؤٹ لیٹس بھی سی پیک کے حوالے سے تحفظات پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔پاکستانیوں کوباورکرایا جارہاہے کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان عملاًچین کاغلام ہوجائے گا۔ چین نے بارہاوضاحت کی ہے کہ ایساکچھ بھی نہیں۔امریکا اوریورپ نے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کوتیاری سے پہلے ہی متنازع بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔
15اکتوبر2018ءکوچینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میڈیاکوبریفنگ کے دوران بتایاتھاکہ چین آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کوبیل آؤٹ پیکیج دیے جانے کے حوالے سے سی پیک اوردیگرامورکاجائزہ لینے کاحامی ہے۔پاکستان کوقرضوں کاپیکیج دینے سے قبل بہترہے کہ سی پیک اورپاکستانی قرضوں کابھرپورجائزہ لیاجائے،تاہم یہ سب کچھ حقیقت پسندی کے ساتھ ہوناچاہیے تاکہ پاک چین تعلقات کونقصان نہ پہنچے۔سی پیک دوممالک کے درمیان طویل مشاورت کے بعدطے پانے والامعاہدہ ہے،جسے آسانی سے ختم یا تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔اس میں کسی بھی بڑی تبدیلی کیلئےغیرمعمولی دانش مندی کامظاہرہ کرناہوگا۔

چینی دفترخارجہ کی بریفنگ اس بات کامظہرہے کہ چین اب بھی سی پیک کوغیرمعمولی اہمیت دیتاہے اوراس پرنظرثانی سے متعلق خبروں کاسنجیدگی سے نوٹس لے رہاہے۔امریکاچاہتاہے کہ سی پیک پرنظرثانی کی جائے اوراس سے جڑے تمام منصوبوں کوایسے مقام پرپہنچایاجائے جہاں یہ کسی کام کے نہ رہیں۔یہ پاکستان کیلئےبھی بہت مشکل مرحلہ ہے۔ایک طرف اسے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج بھی لیناہے اوردوسری طرف چین سے اپنے خصوصی تعلق کوبھی سنبھال رکھناہے۔یہ گویادودھاری تلوارسے بچنے کامعاملہ ہے۔

امریکاکی مرضی بظاہریہ ہے کہ اس مرحلے پرچین اورپاکستان کے تعلقات زیادہ بارآورثابت نہ ہوں اوردونوں ممالک مل کرروس اور ترکی کے اشتراک سے ایشیا کوعالمی سیاست ومعیشت کامرکزبنانے کے حوالے سے زیادہ کامیاب نہ ہوں۔اس مقصدکاحصول یقینی بنانے کیلئےامریکاجوکچھ کرسکتاہے،اس میں وہ کامیاب دکھائی دے رہاہے۔ایسے میں پاکستان کوعملی طورپرثابت کرناہے کہ وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئےکسی بھی ملک کے دباؤکوایک خاص حدتک ہی برداشت کرسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں