گیارہ ستمبر2001ءکوقصرسفیدکے فرعون کی نخوت وتکبربھری آوازنے ساری دنیاکودوحصوں میں تقسیم کردیاجس میں اس نے اپنی فرعونی طاقت کے بل بوتے پرساری انسانیت کوللکارکر خوفزدہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ”آج ہماری تہذیب اورطرزِزندگی پرحملہ ہواہے،یاتوآپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف”۔ایک وہ جویہودی منصوبہ بندی”ورلڈآرڈر”کی امریکی حکمت عملی کاحصہ بنیں گے اورجدیدتہذیب کادفاع اپنی زندگی کا نصب العین قراردیکرتن من دھن سے اس مشن میں حصہ لیں گے،انہیں اپنے مفادات کی حدتک محبوب رکھاجائےگاچاہے وہ تاریخ کی سب سے بدترین وحشت ناک بربریت کے مرتکب کیوں نہ ہوں اوردوسرے وہ جویا توجدیدتہذیب کامقابلہ کریں گے یافرعونی امریکی حکمت عملی کے بارے میں سکوت اختیار کریں گے،مؤخرالذکردونوں کو بالتدریج عبرت کانشان بنادیاجائے گالیکن کس کواس بات کاعلم تھاکہ غروروتکبرکے نشے میں مدہوش عالمی طاقت کہلانے والا ایسی دلدل میں پھنسنے جارہاہے جس میں اس سے قبل زمین پرخدائی کادعویٰ کرنے والوں کےآثارموجودہیں لیکن اب بھی یہ عبرت حاصل کرنے کوتیارنہیں۔
کاش تاریخ کوگیارہ ستمبر2001ء کادن نہ دیکھناپڑتاجس کے نتیجے میں ملکوں کے ملک اجڑ گئے،شہرویران کردیئے گئے، بستیاں بربادہوگئیں،لاتعداد گھروں کاملیامیٹ کردیاگیا،لاکھوں انسانوں کوتہزیبی،معاشی وسیاسی بالادستی کی خاطربارودسے نہ صرف بھسم کردیاگیابلکہ ان کے چیتھڑے تک اڑا دیئے گئے،جوان لڑکیوں کواجتماعی تشددوہوس کانشانہ بنادیاگیا،اولادکے سروں سے والدین کاسایہ چھین لیا گیا۔نوجوان نسل کوان کے ماں باپ کے سامنے چیتھڑوں میں تبدیل کردیاگیا،انسانیت کوعبرت کانشان بنادیاگیا،انسان توکیاحیوانات،نباتات اورجنگلات تک کوبھی جنگی جنون کی خاطرجلا کر راکھ کردیاگیا۔
کاش!گیارہ ستمبر2001ءکووہ81مسافرسفرمعطل یامؤخرکردیتے یابوسٹن کے لوگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی بجائے کسی دوسرے ہوائی اڈے کاانتخاب کرلیتے یااس کی ائیرپورٹ سے موت کی طرف فلائٹ لینے کی بجائے کسی دوسری پروازکومنتخب کرلیتے توشائد8بجکر48منٹ پر81مسافروں سے بھرا جہازجو”لاس اینجلز”کی طرف جارہاتھا،ورلڈٹریڈسنٹرسے جاکرنہ ٹکراتااورآج اس فرعون صفت ریاست امریکاکارعب ودبدبہ، وقاراوربین الاقوامی بالادستی بدستورقائم رہتی،اسے مسلسل دودہائیوں تک ذلت و رسوائی کاسامنانہ کرناپڑتااورآخرکارافغانستان کی خاک پرناک رگڑتاواپس لوٹنے کافیصلہ نہ کرناپڑتا۔
لیکن یہ توہوناہی تھاکیونکہ آسمانی رزق من وسلویٰ کھانے والی قوم کی منصوبہ بندی نے امریکاکوآرام سے کب بیٹھنے دیااور اس بین الاقوامی تذلیل کے فوری بعدیوکرین میں نیامحاذگرم کردیا جبکہ قصرسفید کے فرعون اوران کے حواریوں کوبخوبی علم ہے کہ بعض ادارےوقتاًفوقتاًامریکاکواپنی جھوٹی شان اوربالادستی کی خاطربیک وقت مختلف ممالک جنگوں میں دھکیل دینے کے بعد اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچارہے ہیں، اورانہی اداروں کے بدترین فیصلوں کی تعمیل میں ٹرمپ کوفوجی،سیاسی اورمعاشی طورپرکمزورامریکاکومزیدتباہی سے بچانے کیلئے افغانستان سے اپنی افواج کوواپس لوٹنے کاحکم دیناپڑا،اوراس کے ساتھ ہی پاکستان سے اپنے افواج کی سلامتی کیلئے براستہ پاکستان واپسی کیلئے درخواست دینی پڑی ، جس پر عملدرآمدکیے بغیرامریکاکے پاس کوئی دوسراآپشن موجود نہیں تھا۔اس کے نتیجے میں 16دسمبرکوامریکااورافغان طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہوئے اورپھر افغانستان میں موجودامریکی سفارتخانے کی طرف سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلامیہ جاری کردیاگیا۔یہ ایک طرف توافغان مجاہدین کی فتح کااعلان تھاتودوسری طرف امریکاکی خودمختاری پرایسا شرمناک سوالیہ نشان بن گیاجوامریکاکی آئندہ نسلوں کوشرمندہ کرنے کیلئے کافی رہے گا۔
اس تمام صورتحال کاتجزیہ کرنے کیلئے یہ جاننااس لئے ضروری ہے کہ آئندہ ایسی المناک غلطیوں سے جہاں عبرت حاصل کی جائے وہاں ایسے جرمِ عظیم کااعاداہ نہ کیاجاسکے۔کن مفادات اورمقاصدکے پیش نظرامریکانے افغانستان میں قدم رکھا؟کیاامریکا افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب ہوا؟اگرہاں توافغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی بھیک مانگنے اوررسوا کن فرارکے مناظرکوآپ کیانام دیں گے؟یہاں تک کہ اپنے ہی جگری یاروں یعنی بھارت،اسرائیل اورکابل کی کٹھ پتلی حکومت کی حاضری کوبھی ضروری نہ سمجھااوراگر امریکا اپنے مفادات کے حصول میں اب تک ناکام رہاتوکس کے ایماءپراپنی قومی غیرت کاجنازہ نکالنے اورسب سے پہلے امریکاکے نعرے کونظراندازکرنے پرمجبورہوا،اورافغانستان سے اس قدر عجلت میں کوچ میں اپنی عافیت کاراستہ کیوں اپنایا؟اس کاایک انتہائی سیدھااورسادہ جواب ہے کہ امریکی معیشت خودتوبیساکھیوں پرکھڑی ہے اور امریکا مزیدجنگوں میں جانی ومالی نقصان کے بوجھ تلے دیوالیہ کی حدتک پہنچ گیاتھا۔امریکی مالیاتی اداروں کے مطابق اس کے پاس جنگوں پرمزیدخرچ کرنے کیلئے اخراجات کافقدان امریکاکوجلدازجلداس مالیاتی طوفان سے بچنے کا مطالبہ کررہاتھااور امریکی معیشت کی پشت پرکارفرمایہودی لابی بھی افغانستان میں مزیدسرمایہ اوروقت ضائع نہیں کرناچاہتی تھی کیونکہ دنیاپر خدائی نظام کی مانندایک عالمی نظام نافذکرنے کاخواب دیکھنے والے نظریاتی یہودیوں کوامریکا کے اکتالیسویں صدر سنیئربش (جارج ہربرٹ والکربش)کا1992ءمیں بنایاگیااٹھارہ سال کے بانی ومالی نقصانات کے باوجودبھی ناکام دکھائی دے رہاتھا،لہندا ٹرمپ جوبالواسطہ اوربلاواسطہ یہودی لابی کیلئے ایک مہرے کے طورپرامریکاکی صدارت پربراجمان تھا،نے صدارت سنبھالتے ہی فوج کوواپس بلانے کاارادہ ظاہرکیاتھا،جس پرعملدرآمدکیلئے افغانستان میں موجودامریکی سفارت خانے کی طرف سے اعلامیہ جاری کروانے کے بعد آئندہ ماہ وسال میں اسے عملی جامہ پہنانے کے امکانات پرواضح یقین دلایاگیا۔
میرے اس مؤقف سے یقیناًبعض حضرات کواختلاف ہوسکتاہےکہ فلسطین میں غیرقانونی سکونت اختیارکرنےوالے صرف65لاکھ یہودی عالمی طاقت امریکاکوکیسے مجبورکرسکتے ہیں کیونکہ امریکا توجمہوریت کاعلمبردارہے اورٹرمپ اپنے تمامتراختیارات کواستعمال کرنے کے باوجودبھی جمہوری اقدارکوپامال نہیں کرسکتاتھااوراگروہ چاہے بھی توکابینہ میں ایسے افرادضرورپائے جاتے ہیں جوٹرمپ کے ایسے اقدامات کوہرگزقبول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس کیلئے وہ امریکی بالادستی اورمفادات پرزد پڑنے کاجوازپیش کریں گے۔امریکی خودمختاری کس طرح یہودی لابی کے پنجے میں ہے اور کابینہ،سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں پھیلے یہودی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے امریکی فیصلوں پرکیسے اورکس حدتک اثراندازہوتے ہیں،یہ حیرت انگیز انکشافات پرمبنی ایک دلچسپ تاریخ ہے جس کااندازہ آپ تاریخ کے چندواقعات سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
جارج ایچ ڈبلیوبش(1989تا1993 ء)جوامریکاکااکتالیسواں صدرتھا،اس کاخاندانی پیشہ تیل کاکاروبارتھا۔یہ لوگ امریکاکی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے رہنے والے ہیں جسے امریکی تیل کادارلحکومت بھی کہاجاتاہے،چونکہ اس زمانے میں امریکاتیل کاسب سے بڑادرآمدکنندہ تھااوراس کی اپنی پیداواراستعمال کے بیس فیصدکےبرابرتھی،باقی سعودی عرب،میکسیکواور وینزویلاسے درآمدکیاجاتاتھا،اس لئے ریاست ٹیکساس میں تیل کے کاروبار سے وابستگی کے باوجودجارج ڈبلیو بش نے دنیابھرکے تیل پرقبضہ جمانے کیلئے ایک منصوبہ بنایااور1992ءمیں تیل کی تین بڑی کمپنیوں کے سربراہان کوواشنگٹن میں جمع کیا۔خلائی اسٹیشنوں سے لی گئی تصاویراسکرین پرچلائی گئیں اوراپنی چھڑی سے آذربائیجان،قازقستان،ترکمانستان اورازبکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان چارملکوں کے نیچے پانچ کھرب ڈالرکاتیل اورگیس پوشیدہ ہے جس پرمیں قبضہ کرناچاہتاہوں،کون میرا پارٹنر بننا پسندکرے گا؟
تمام کمپنیوں کے سربراہان نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔مذاکرات ابھی حتمی شکل اختیارنہیں کرپائے تھے کہ سنیئربش کی حکومت ختم ہوگئی تاہم مذاکرات پھربھی جاری رہے۔اسی دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادکوان تمام سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں اوروہ بھی متحرک ہوگئی۔ اب موسادکویہاں دوچیلنجزکاسامناتھا،ایک نئے منتخب ہونے والے امریکاکے42 ویں صدر کو حصارمیں لینا،کابینہ اوراردگردتمام سرکاری اورحساس اداروں تک رسائی حاصل کرنااوردوسرادنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنا۔آپ یہ جان کرچونک اٹھیں گے کہ تقریباًایک سال سے بھی کم عرصے کےدوران یہودیوں نے بل کلنٹن کے گردایک مضبوط حصارقائم کردیامثلاً کلنٹن کی یہودی نژادوزیرخارجہ میڈلین البرائٹ،نائب وزیرخارجہ سٹینلے ارتھ،وزیر دفاع ولیم کوہن،وزیر خزانہ لارسن سمرز،نائب وزیرخزانہ اسٹورن آنزن ٹیسٹ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیررچرڈہال بروک،نیشنل سیکورٹی کا سربراہ سینڈل برگر،چیف آف سوشل سیکورٹی کینتھ ایفل، ٹریڈ کانمائندہ چارلس برشینکی،ڈائریکٹرسی آئی اے ڈیوڈکوہل،آئی بی ڈائریکٹرہال آئزنر، کیمونیکشن ڈائریکٹررابی امونیل راہم،نیشنل ہیلتھ کئیر ایڈوائزر ٹھامس ریپٹن،ڈائریکٹرمینجمنٹ آف بجٹ ایلیس ریولن،اکنامک پالیسی ایڈوائزرصتیلے پوسکن،یہاں تک خودکلنٹن اورہیلری کاذاتی سٹاف تک یہودی تھالہنداصدراورخاتون اوّل کی ذاتی اور کاروباری مصروفیات کاتماترشیڈول یہی لوگ بناتے تھے۔یہ دوریہودیوں کیلئےانتہائی سنہری دورتھاجس میں خوب کھل کرامریکی انتظامیہ،مقننہ اورعدلیہ کے ذریعے اپنی پالییسیوں کوعملی جامہ پہناتے رہے۔یوں محسوس ہوتاتھاکہ تین فیصدامریکی یہودی97 فیصدامریکیوں اورسوفیصددنیاکے مالک بنے بیٹھے ہیں اوریہ تمام یہودی انتہائی درجہ کے متعصب،بنیادپرست اورنظریاتی تھے۔
دوسری طرف دنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے موسادنے یوسف اے میمن کوترکمانستان میں تعینات کیا۔یوسف اے میمن موسادسے ریٹائرڈہونے کے بعداسرائیل کی ایک کمپنی مہیروگروپ کاصدربن گیا۔اس وقت ترکمانستان کے صدرنیازوف نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے یوسف اے میمن کونہ صرف ترکمانستان کی شہریت دی بلکہ اسے آئل وگیس کا مشیراورخصوصی سفیربنادیااوریوں ترکمانستان کے تیل پراسرائیل کاقبضہ ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ تیل کے دیگرتجارتی معاہدوں کے ذریعے یوسف اے میمن نے آذربائیجان کے تیل کے ذخائرتک بھی رسائی حاصل کرلی۔ادھرسنیئربش کےتیل کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں امریکاکی دیگر آئل کمپنیوں نے بھی ترکمانستان اور قازقستان میں مجموی طورپر33ْ/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اورپاکستان سے افغانستان اورافغانستان سے ترکمانستان گیس پائپ لائنزبچھانے کی سرمایہ کاری اس کے علاوہ تھی۔اس صورتحال نے اسرائیل اوربش خاندان کوایک دوسرے کے مدمقابل کھڑاکردیاکیونکہ تیل کے ذخائر پرقبضہ کرنادونوں کامقصدتھا۔
بش خاندان نے جب سینٹرل ایشیاکے تیل کویورپ اورامریکاپہنچانے کے بارے میں سوچاتواس کے صرف تین راستے تھے۔ پہلا راستہ ترکمانستان ، قازقستان، ازبکستان اورآذربائیجان سے روس اورروس سے یورپ،دوسراچارممالک سے براستہ ایران سے بحیرۂ عرب اوروہاں سے یورپ اور امریکا، اور تیسراان چارممالک سے افغانستان براستہ پاکستان،بھارت اوروہاں سے بحر ہند سے یورپ اورامریکا۔روس کے صاف انکارکردینے پرصرف دوآخری آپشن تھے لیکن چونکہ امریکاایران پراعتمادکرنے کیلئے تیار نہیں تھا ،اس لئے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا۔اسی راستے میں جوسب سےبڑاخطرہ تھاوہ افغان طالبان کاانقلاب تھاچنانچہ سنیئر بش نے دوجون 2000ء کوامریکا میں تیل کمپنیوں کے بڑے بڑے مالکان کوکھانے پربلایا اوران کے سامنے تجویزرکھی کہ اگر میرے بیٹے(جارج ڈبلیوبش)کوامریکاصدرمنتخب کرادیاجائے توہم پانچ کھرب ڈالرکےتیل کےذخائرآپ کی جھولی میں ڈالنے کیلئے تیارہیں۔کمپنیوں کے مالکان نے جب گارنٹی مانگی توبش نے انہیں پیشکش کی کہ حکومت تشکیل پاتے ہی آپ تمام کو کابینہ کے ارکان کے طورپرلے لیا جائے گا۔بس پھرکیاتھاتیل کمپنیوں کے مالکان نے ڈالروں کی بارش کردی اورہرطرف بش خاندان کاڈنکا بجنے لگا۔ٹی وی،ریڈیواخبارات،رسائل و جرائد میں اشتہارات کی بھرمارہوگئی یہاں تک کہ پانامااورایتھوپیاجیسے بدحال ممالک کے اخبارات میں بھی بش کی حمائت میں مضامین چھپنے لگےاوراس مہم کے نتیجے میں بش خاندان ایک بارپھروائٹ ہاؤس میں داخل ہوگیا۔وعدے کے مطابق تیل کمپنیوں کے مالکان کووزیرداخلہ، وزیرخارجہ ، وزیرتوانائی اوردیگرحساس نوعیت کے سرکاری عہدے سونپ دیئے گئے۔الیکشن مہم میں سب سےزیادہ چندہ دینےوالی آئل کمپنی ایزون کے وائش چیئرمین تھامس وائٹ کوامریکا کی سب سے مضبوط وزارتِ فوج کاسربراہ مقررکردیاگیا۔
بش خاندان چونکہ مذہباًعیسائی تھااوریہ لوگ ہراتوارکوباقاعدگی کے ساتھ چرچ بھی جایاکرتے تھے بلکہ سنئیربش کے بارے میں تویہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ یہ یہودیوں کاسخت مخالف اور فلسطین کے معاملے پرعربوں کاحامی تھا۔اس لئے عربوں کاخیال تھا کہ جونیئربش صدرمنتخب ہونے کے بعدفلسطین کے مسئلے میں ہماری حمائت کرے گااورمشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیوبش کی الیکشن مہم کیلئے عربوں نے ڈیڑھ بلین ڈالرچندہ دیاتھاجو الیکشن مہم کے اخراجات کاتقریباً نصف بنتاتھا۔کامیاب مہم کے نتیجے میں جب جارج ڈبلیوبش امریکاکا43واں صدرمنتخب ہوااوراس نے اپنی کابینہ کااعلان کیا تواس میں یہودیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرتھی اوریہ یہودیوں کیلئے شدید جھٹکاتھا۔اس سے قبل چونکہ امریکی معیشت و حکومت پریہودی مکمل طورپرقابض ہوچکے تھےلہندابش حکومت کیلئے مشکلات پیداکرناان کیلئے کوئی مشکل کام نہ تھا چنانچہ تمام یہودیوں نے شٹرڈاؤن کرکے بش حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیااوراسٹاک ایکسچینج اپنی آخری حدتک گرگیا۔کارخانوں کیلئے آتش بازی کاسامان تک چین سے منگوانا پڑگیا جس کی وجہ سے بش حکومت کو125ملین ڈالرکایومیہ خسارہ برداشت کرنا پڑگیا۔
یہودیوں نے اسی پراکتفانہیں کیابلکہ موسادنے اپنے120/اعلیٰ تربیت یافتہ افرادکوورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کی منصوبہ بندی میں لگا دیاجوبعدمیں امریکی تحقیقات کے خفیہ ادارے سی آئی اے کی تفتیشی کاروائیوں کے نتیجے میں گرفتار بھی ہوئے لیکن تاریخ مزیداس حوالے سے خاموش ہے۔دوسری جانب امریکاکی الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاکی تمام بڑی کمپنیاں جن کےمالکان کٹر متعصب یہودی تھے،نے اپنی توپوں کارخ بش کی طرف پھیردیا۔ میڈیا پراسامہ بن لادن کوبنیادبناکرافغان طالبان اوراسلامی سزاؤں کے خلاف پرزور پروپیگنڈہ کاآغازکردیاجس کے نتیجے میں امریکی عوام کے دلوں میں طالبان کوانسانیت اورامریکی تہذیب کا بدترین دشمن بناکرپیش کیاگیااور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکی عوام کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگاکہ طالبان کوجلدازجلدسبق سکھاناچاہئے۔
طالبان حکومت کے بعض لوگ اس منصوبے کے پیچھے خفیہ عزائم کوبھانپ گئے تھے لہنداانہوں نے تعلقات عامہ کی ماہرخاتون اورسی آئی اے کے سابق سربراہ رچرڈ ہیلمزکی بھتیجی لیلیٰ ہیلمز نامی خاتون کوباقاعدہ معاوضہ دیکرخدمات حاصل کیں۔لیلیٰ ہیلمزکی کوششوں سے امریکاانتظامیہ طالبان کے نمائندوں سے گفتگوکیلئے تیارہوگئی اورمارچ2001ءکوطالبان حکومت کےمشیر سیدرحمت اللہ ہاشمی پانچ روزہ دورے پرواشنگٹن پہنچ گئےجہاں ان کے سامنے صلح کی صرف ایک ہی شرط رکھی گئی کہ افغانستان میں لبرل اورماڈریٹ حکومت تشکیل دی جانی چاہئے بصورت دیگرامریکاطالبان پر حملہ کردے گا۔6/اگست کواسلام آباد میں موجودافغان سفیرکے ذریعے طالبان کوآخری وارننگ دی گئی لیکن طالبان نے امریکی دہمکیوں کونظر اندازکردیا۔ جونیئر بش افغانستان پرحملے کااس لئے بھی خواہشمندتھاکہ ایک طرف تواس کے والدسنیئربش کےمنصوبے کے تحت تیل کے ذخائرپرقبضہ کرلیاجائےگاتو دوسری طرف بش جونیئرکی حکومت کی پذیرائی ہوگی اورامریکی صنعت وحرفت کاپہیہ چلناشروع ہوجائے گا۔
بش حکومت نے ورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کاکبھی سوچابھی نہ تھایہ توموسادکے120/اعلیٰ تربیت یافتہ جاسوسوں کوورلڈٹریڈ سنٹرپر حملے کی منصوبہ بندی کاجوٹاسک دیاگیاتھا،وہ پوراہوا،اورپھردنیانے 11ستمبر2001ء کادن بھی دیکھاکہ دنیاکابلندترین تجارتی مرکزجس کی تکمیل چند ماہ قبل ہی22 اپریل 2001ءکوہوئی تھی،جس میں روزانہ ساڑھے آٹھ ارب ڈالرکابزنس ہوتاتھااورجس کو 99سال کیلئے تین ارب بیس ملین ڈالرزکی لیزپرسلوراسٹیشن پراپرٹیزاورویسٹ فیلڈامریکانے حاصل کیاتھا،زمین بوس ہوگیا۔اس حملے سے بش خاندان حواس باختہ ہوکراپنی تمامترانتظامی صلاحیتیں گنوا بیٹھا اور افغانستان پرچڑھ دوڑااوراس طرح یہودی لابی نے امریکاکونہ ختم ہونے والی طویل جنگ میں جھونک دیا۔ایک طرف بش حکومت پہلے ہی سے غیرمستحکم حالات اورہچکولے کھاتی معیشت کاشکارتھی تودوسری طرف افغان جنگ سے یہودی لابی نے نہ صرف امریکی معیشت کودیوالیہ کردیابلکہ ریکارڈ حدتک ورلڈبینک اورآئی ایم ایس جیسے اداروں کامقروض بھی بنادیا، اوریہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دونوں ادارے عالمی سودی مالیاتی نظام کی تشکیل کا سرچشمہ ہیں جس کے تحت ممالک کومقروض بناکرجکڑلیاجاتاہے اورآج امریکی محکمہ خزانہ کے اعداد وشمارکے مطابق امریکی تاریخ میں پہلی بارامریکاکا قومی قرض33ٹریلین ڈالرسے تجاوزکرگیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرامریکی شہری ایک لاکھ ڈالرسے زائدکامقروض ہے۔
اس کےعلاوہ عراق امریکاجنگ میں بھی ان 32یہودیوں کے مرکزی کردارکونظراندازنہیں کیاجاسکتاجوورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کے بعدبش انتظامیہ اورتمام اہم کلیدی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔یہی وہ یہودی تھے جواس وقت تمام امریکاکے سیاہ وسفیدکے مالک بن بیٹھے تھے اورتمام پالیسیوں کوتشکیل دےرہےتھے۔ان میں سے ایک رچرڈپرل تھاجو پینٹاگون کے ڈیفنس پالیسی بورڈکاچیئرمین اورخارجہ پالیسی کے سلسلے میں بش کامشیرتھا۔اس سے قبل رچرڈاسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری سولٹم میں ملازم تھا دوسراشخص پال ولف اوٹس جو امریکا کانائب وزیردفاع اور رچرڈ کے ڈیفنس پالیسی بورڈکا ممبرتھا ۔یہ وہ شخص ہے جس کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات کی خبریں متعددبارامریکی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ تیسرا شخص ڈگلس فیتھ تھاجودفاع کاانڈرسیکرٹری اورپینٹاگون میں پالیسی ایڈوائزرتھا۔یہ شخص ایک متعصب یہودی تھاجوعرب مخالف پالیسیوں کی بناء پرامریکامیں خاصامقبول تھااوریہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم زاہانسٹ آرگنائزیشن آف امریکامیں بھی شامل رہا۔
چوتھاشخص ایڈورڈلٹواجوپینٹاگون میں قائم سیکورٹی اسٹڈی گروپ کاممبرتھا۔یہ ایک نظریاتی اورانتہاءپسندیہودی تھاجس کی تعلیم وتربیت تل ابیب میں ہوئی اوراخبارات میں مسلسل اسرائیل کی حمائت میں مضامین بھی لکھتارہا۔اگلاشخص ڈوزاخم جودفاع کاانڈر سیکرٹری اورمحکمہ دفاع کاچیف فنانشل آفیسر تھا ۔یہ شخص بھی نسلاًیہودی تھااوراورامریکاکے ساتھ ساتھ اسرائیل کی شہریت بھی رکھتاہے۔اس کاکہناہے کہ جب تک مسلمانوں کی طاقت ختم نہیں ہوجاتی یہودیوں کا عروج شروع نہیں ہوسکتا۔کینتھ ایڈولمین پیٹاگون میں مشیرتھااوررچرڈکے ڈیفنس پالیسی بورڈ کا ممبربھی تھا ۔یہ بھی ایک انتہائی متعصب اورانتہاء پسندیہودی ہے،جس کا کاکہناہے کہ اگردنیاامن چاہتی ہے تومسلمانوں کی بیخ کنی کرناہوگی اوراگریہ ممکن نہ ہوتو مسلمانوں کواس جگہ پر رکھنا چاہئے جہاں لوگ پرانے غلاموں کورکھاکرتے تھے۔اس شخص کوآپ ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی ٹی وی چینل فاکس نیوزپرعربوں اور مسلمانوں کے خلاف گفتگوکرتاہواپائیں گے۔لیویز لیبی امریکاکے نائب صدرڈک چینی کاچیف آف سٹاف تھا،اس کاکہناہے کہ اگردنیا سے دہشتگردی کوختم کرنا ہے توجہادکے جذبے کومٹاناہوگا،اس کیلئے مسلمانوں کے اندرایک گروہ”احمدی ”(قادیاانی)کے نام سے جوکام کررہاہے،ان کی ہرموقع پرحوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
رابرٹ سٹالوف امریکی قومی سلامتی کامشیرتھاجواس سے قبل اسرائیل کے تھنک ٹینک،واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فارنیئرایسٹ کا ڈائریکٹرتھا۔اس کاکہناہے کہ عربوں کاتیل بنیادی طورپر یہودیوں کی جاگیرہے لیکن مسلمان اسے استعمال کررہے ہیں،یہ سراسر بے ایمانی ہے اورایک دن یہودی اپناحق لیکرہی رہیں گے۔ایسٹ ابرامزکاشماربھی انتہاءپسندیہودیوں میں ہوتاہے اوریہ شخص اس دورمیں نیشنل سیکورٹی کونسل کامشیرتھا۔اس کاکہناتھاکہ اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتاجب تک وہ تمام ذرائع مسدودنہ کردیئے جائیں جن سے اسامہ بن لادن جیسے لوگ پیداہوتے ہیں۔پس منظرکے طورپر عرض کیاجاتاہے کہ بش کوعراق پرحملے کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ عرب حکمرانوں کی تمام دولت امریکامیں ہے اورامریکا کوتیل کی ترسیل روک کروہ اپنے اربوں کھربوں ڈالرزکوخطرہ میں نہیں ڈال سکتے لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ وزارتِ خارجہ اورڈیفبس جیسے حساس اداروں پرانتہاء پسند اورمتعصب یہودی تعینات ہوں جوبرسوں سے مسلمانوں کے زوال اوربیخ کنی کے منتظر تھے اورجونیئربش (جارج ڈبلیو بش)کوعراق پرحملہ کرنے کی تجویزنہ دیں بلکہ مجبورنہ کریں۔اس بات کااندازہ لگانابھی مشکل نہیں کہ ان حضرت کے ہوتے ہوئے جونیئربش عراق پرحملہ کرنے سے کیسے انکار کرسکتاتھاجبکہ بش کواپنے آگے اورپیچھے دونوں طرف موت منڈلاتی دکھائی دے رہی تھی اوراسے اس بات کابخوبی علم تھاکہ امریکاکے 16ویں صدر ابراہام لنکن اور20ویں صدرچیمزگارفیلڈ عالمی مالیاتی نظام جسے براہِ راست یہودی کنٹرول کرتے ہیں میں رخنہ ڈالنے کے سبب قتل کئے جاچکے ہیں،اس لئے وہ کسی بھی صورت میں اپنی جان کوخطرے میں نہیں ڈال سکتاتھا۔
یہودی اگرامریکاکوعراق اورشام کے خلاف جنگ کرنے پرابھارتے ہیں اورحملہ کرنے پرمجبور کرتے ہیں توبات سمجھ میں آتی ہے کہ ایساکرنے سے یہودیوں کے گریٹراسرائیل(جو مصرکے نیل سے لیکرفرات تک پھیلاہواہے اورجس میں اردن سمیت سعودی عرب کاشمالی علاقہ نصف عراق اورپوراشام شامل ہے)کاخواب تکمیل تک پہنچتاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ یہودی لابی نے امریکا کوافغانستان کی دلدل میں کیوں دھکیلا؟تواس بات کورسول اکرم ۖکی حدیث مبارکہ سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔سنن ابن ماجہ میں حضوراکرم ۖ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ جب تم دیکھو کہ خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے نکل آئے ہیں تواس لشکرمیں شامل ہوجاؤ تمہیں اس کیلئے برف پرگھسٹ کرہی کیوں نہ جاناپڑے کہ اس لشکرمیں اللہ کے آخری خلیفہ مہدی ہوں گے۔
اس وقت توپوری دنیامیں خراسان نام کے کسی ملک کاوجودنہیں ملتالیکن صدیوں پہلے یہ افغانستاان،ایران،پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلا ہوا تھا۔یہ تمام وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺنے فرمایاکہ امام مہدی علیہ السلام کی مدد کیلئے یہاں سے کالے جھنڈے لیکر مسلمان فوجیں چلیں گی اوران کوراستہ کوئی نہ روک سکے گایہاں تک کہ وہ کالے جھنڈے ایلیائی(بیت المقدس)میں نصب کئے جائیں گے اورچونکہ یہی علاقے یہودی لابی کے عالمی غلبےکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،اس لئے یہودی امریکاکو افغانستان کی جنگ میں دھکیل کرخراسان کے علاقوں کوکمزور کرنا چاہتے تھے اورایک تیرسے دوشکارکرناچاہتے تھے اوردوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کی حدودشروع ہوتی ہیں اورکرۂ ارض پر دو ہی نظریاتی ریاستیں وجودرکھتی ہیں،ایک پاکستان اوردوسرااسرائیل،چونکہ پاکستان قومی نظریہ اورلاالہٰ الااللہ کی بنیادپر وجودمیں آیاہے جویہودیوں کے عالمی نظام کے بالکل متصادم ہے لہندااسرائیل کیسے اپنے نظریاتی حلیف کوبھول سکتاہے؟اس کابرملااظہاران کے سرکردہ رہنماؤں نے کئی باراپنے نظریاتی کارکنان کے سامنے کیاہے تاکہ وہ اپنے ٹارگٹ کوکسی بھی حالت میں بھولنے نہ پائیں۔
1967ءکی عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیل کوفتح حاصل ہوئی توکامیابی کاجشن منانے کیلئے بن گوریان نے پیرس(فرانس) کاانتخاب کیااور ساربون یونیورسٹی میں ممتازیہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:بین الاقوامی صہیونی تحریک کوکسی بھی طرح اپنے لئے پاکستان جیسے عظیم خطرے کو نظراندازنہیں کرناچاہئے اورپاکستان اب بھی ان کااوّلین ہدف ہوناچاہئے،اس لئے کہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجودکیلئے خطرہ ہے۔(پاکستان کاذہنی وفکری سرمایہ اورجنگی وعسکری قوت وکیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لئے باعثِ مصیبت بن سکتی ہے)۔پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتاہے،عربوں سے محبت کرنے والایہ ملک ہمارے لے خودعربوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے چنانچہ عالمی صہیونیت کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری طورپراقدامات کرے اورپاکستان سے ہمیشہ خبرداررہے اورجہاں تک ہو سکے اس کو تباہ کرنے کیلئے اپنی تدابیر کوبروئے کارلانے میں کبھی بھی سستی نہ کرے جبکہ جزیرۂ نمائے ہندکے رہنے والے ہندوہیں جن کے دل مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے بھارت ہمارے لئے بہترین اڈہ ثابت ہوسکتاہے۔ہمارے لئے یہ نہائت اہم اورضروری ہے کہ ہم اس اڈے کواپنے تصرف میں لاکرخوب فائدہ اٹھائیں اورپنے تمام خفیہ اورپوشیدہ منصوبوں کے ذریعے پاکستانیوں کونشانہ بناکرانہیں نیست ونابود کردیں جویہودیت وصہیونیت کے دشمن ہیں۔بھارت کے ستھ ہماری دوستی نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفیدبھی ہے اورہمیں اس تاریخی عنادسے ضرور فائدہ اٹھاناچاہئے ۔جوہندوپاکستان اوراس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتاہے۔یہ تاریخی دشمنی ہمارے لئے زبردست سرمایہ ہے لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط وضبط رکھیں”۔(یروشلم پوسٹ 19/ اگست1967)
تقریرکے مندرجہ بالااقتباس میں ڈیوڈبن گوریان نے اپنے ممتازیہودیوں کوپاکستان کے مسلمانوں اوربھارت کے ہندوؤں کے درمیان نفرت کو بہترین وکارآمدہتھیارکے طورپراستعمال کرنے کی جوتجویزپیش کی تھی اورکون نہیں جانتاکہ آج افغانستان میں بھارت کے ایک سوسے زائد مراکز میں جہاں افغانی اوردیگرقومیت کے افرادکوپاکستان میں تخریبی ودہشتگردکاروائی کیلئے ہر قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے،آرمی پبلک اسکول جیسے وحشیانہ واقعات اسی کاشاخسانہ ہیں۔لہنداافغانستان کے راستے پاکستان کے امن کوسبوتاژکرناہمیشہ سے یہودوہنودکاایجنڈہ رہاہے اوراب تک ارضِ پاکستان کوشدیدنقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اللہ کی تائیدونصرت کی وجہ سے ہماری بہادرافواج اپنی لازوال جانوں کی قربانیوں سے ان کی مکروہ کوششوں کوناکام بناتی چلی آرہی ہیں۔مثلاً27 مئی 1998ءکوپاکستان کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کیلئے بھارت کے ائیرپورٹ پراسرائیلی جہازوں کاپایاجاانالیکن پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اورپاک فضائیہ کی بروقت کاروائی نے اس خطرناک منصوبے کاناکام بنادیا۔دونوں ممالک کواس کے بلاتاخیرخوفناک نتائج سے آگاہ کردیاگیا۔
بہرحال افغانستان سے غاصب امریکاکاانخلاءیقیناًافغان مجاہدین کی استعمارسے جاری18سالہ جنگ میں ایک عظیم الشان فتح ہے جس پرافغان مجاہدین مبارکبادکے مستحق ہیں کہ انہوں نے دنیا کی دوبڑی سپرطاقتوں کابڑی جوانمردی سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ ذلت آمیزشکست دیکر افغانستان کوان دونوں فرعونی طاقتوں کاقبرستان بھی بنایا۔افغان مجاہدین کے صبر،ہمت وحوصلے کی دل کھول کرداددیناچاہئےجوتقریباً18سال تک مشترکہ مسلح امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے ساتھ برسرپیکاررہے اوراسلامی نظام پرکسی بھی قسم کاسمجھوتہ کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی اوریقیناًخودافغان جہادی قوتوں کااس فتح کی پشت پر پاکستان کے کلیدی کردارکااعتراف بھی موجودہے لیکن کیااسے محض اتفاق کانام دیاجاسکتاہے کہ امریکاجوبرسوں سے شام کی سرزمین پردولت اسلامیہ(داعش)کوکچلنے کے بہانے،ایران کاراستہ روکنے اورشام میں ایرانی فوج کےاثرورسوخ کومحدود کرنے کیلئے کودپڑاتھا ، اسے اب اچانک انخلاءکافیصلہ کیوں کرناپڑاجس پرعملدرآمدبھی افغانستان سے قبل ہی شروع ہوچکاتھا جبکہ شام میں تاحال داعش کاوجود کثیرتعداد میں باقی ہے اورایران کے ساتھ مل کرحزب اللہ کواتاردیاہے اوراس وقت شام میں ایرانی فوج اورپاسداران کے پانچ کمانڈر،تیرہ فوجی اڈے اورقریباً ایک لاکھ نفری موجودہے۔یہ پانچ کمانڈردمشق کے بیس میں واقع ایرانی ہیڈکوارٹرسے براہِ راست منسلک ہیں بلکہ التنف میں جوشام،اردن وعراق کا انتہائی اہم سرحدی علاقہ ہے،امریکی اڈے کے گردحزب اللہ کی پیش قدمی عروج پرپہنچ گئی تھی۔
اس کے نتیجے میں شام سے امریکی انخلاء کابیان سامنے آتے ہی اسرائیل پرجیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اخبار”یدی ہوتھ اخرونوتھ”کے مطابق ایک اسرائیلی عہدیدارکے مطابق”امریکاکی طرف سے اس قسم کابیان ہمارے لئے تعجب سے کم نہیں بلکہ افسوسناک ہے۔ ہمیں اس بیان سے کوئی فرق نہیں پڑتااورہم شام میں ایرانی فوج کی موجودگی کے خلاف سخت اقدامات جاری رکھیں گے۔”کیاامریکاکوبیچ میں سے نکال کر اسرائیل براہِ راست گریٹراسرائیل کے منصوبے کی طرف پیش قدمی کرناچاہتاہے؟یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ٹرمپ نے جس وقت امریکی سفارت خانے کویروشلم منتقل کرنے کااعلان کیاتھا،امت مسلمہ کے دانشوران اس بات کوسمجھ گئے تھے کہ اب طاقت کاتوازن امریکاسے اسرائیل کی طرف منتقل ہونے والاہے اور اسرائیل اقتدارمیں آنے سے قبل امریکی افواج کودنیابھرسے واپس بلانے اوراخراجات کم کرنے کے عزائم کی طےشدہ منصوبے کی تکمیل کررہاہے جہاں پرامن، محفوظ اورلاتعلق نیاامریکادنیاکی سربراہی سے دستبردارہوجائے گااوردنیاپرگریٹراسرائیل کی عملاًحکمرانی ہو گی۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کوبھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل اپنے گریٹراسرائیل کی تکمیل کیلئے کس طرح بھارت کی مودی سرکارکو استعمال کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے اورباقاعدہ پاکستان پرمشترکہ حملے میں اسرائیل کے ذہن سازوں نے تین برس تک اس منصوبے کی نہ صرف نوک پلک سنواری بلکہ بالاکوٹ حملے میں بھارتی مگ جنگی جہاز اسرائیلی بموں سے لیس ہوکرحملہ آورہوئے اورباقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت اگلے دن درجن بھربھارتی جدیدجنگی جہازوں کی مددسے بالاکوٹ کے قریب حملے میں اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000بم استعمال کئے گئےجبکہ یہ بم صرف میراج طیاروں پرہی نصب کیے جا سکتے ہیں تاہم اسرائیل ان بموں کوروسی ساختہ سخوئی30 طیاروں پرنصب کرنے میں بھارت کی بھرپور معاونت کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعاون کئی برسوں سے چل رہاہے۔
پاکستان نے بھارت کے جوطیارے تباہ کیے ان میں سے ایک مگ21تھاجس کاملبہ پاکستانی حدودمیں گراجب کہ دوسراسخوئی30 بتایاجاتا ہے جس کا ملبہ مقبوضہ کشمیرمیں گراتاہم بھارت اپنے دوسرے طیارے کی تباہی سے انکارکرتارہالیکن بعدازاں میڈیانے بھارت کے اس جھوٹ کاپردہ چاک کردیا۔ ذرائع کایہ کہنا ہے کہ چونکہ دوسرا پائلٹ اسرائیلی ہے اس لیے بھارت کیلئےیہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا ایک اورپائلٹ پاکستان کی تحویل میں ہے۔ دوسری جانب اسرائیل بھی سرعام یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا پائلٹ پاکستان پرحملہ کرنے گیاتھا۔بھارتی میڈیا یہ بھی کہہ چکاہے کہ پاکستانی طیاروں کا مقابلہ کرنے کیلئےجوبھارتی جہازاڑے تھے ان میں میراج بھی شامل تھے۔اسرائیلی فضائیہ کے پاس میراج طیارے ہیں اوراس کے پائلٹ ان طیاروں کو اڑانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس حملے میں پاکستان کے پانچ اہم مقامات کونشانہ بنانے کاپروگرام بھی منکشف ہواتھاجس میں راجستھان سے بہاولپورپرحملہ کرکے پاکستان کوسندھ کی طرف سے الگ کرنامقصودتھالیکن اس سے قبل ہی پاکستان کی فضائیہ اورجنگی ماہرین نے بھارت کے آٹھ اہم علاقوں کوعملی طورپرلاک کرکے پیغام بھیج دیاگیاکہ پاکستان کاجواب اس منصوبے سے تین گنازیادہ ہوگااوربھارت اپنے دو درجن حصوں کوجمع نہیں کرپائے گاجس پربھارت واسرائیل کو ویسی ہی ناکامی کامنہ دیکھناپڑاجیسا 27 مئی 1998ءکو بری طرح ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتھا۔تاہم یہ بات طے ہے کہ افغانستان سے امریکاکے انخلاء کے بعد بھارت واسرائیل کوجس عظیم ناکامی کاسامناہے،امریکی انخلاء کوناکام بنانے کیلئے بھارت واسرائیل ہلکے پیٹ برداشت نہیں کرپائے اوراب بھی خطے میں پانچ کھرب ڈالرزکے تیل سے دستبرداری دنیاکومزید تباہی کی طرف لیجاسکتی ہے لیکن جس طرح حالات نے افغان مجاہدین کو فتح سے ہمکنارکیاہے، بدقسمتی سے اس کے فوائدسے خطے کومحروم کرنے کیلئے دونون ممالک میں غلط فہمیوں کے پہاڑحائل کرنے کی کوششیں عروج پرہیں اوراب ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ افغان حکومت جوکئی مرتبہ امریکااور اس کے اتحادیوں سے افغانستان کوآزادکروانے میں پاکستان کے کلیدی کردارکے معترف ہیں،ایک مرتبہ پھردشمنوں کی سازشوں کاجائزہ لیتے ہوئے دوست اوردشمن کاواضح فرق کو سمجھیں کہ اسی میں پورے خطے کی بقاءمضمر ہے۔ ہمارے مقتدرحلقوں کوبھی عقل کے ناخن لینے کی اشدضرورت ہے کہ دن دیہاڑے جماعت اسلامی کے سابقہ سینیٹرمشتاق صاحب کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف دھرنے کے دوران ایک انٹیلی جنس کے افسرکا دو افرادکوکچل کرشہیدکردینااورکئی دیگرافرادکوزخمی کرکے فرارہوجانا، کیااس بات کی دلیل ہے کہ درپردہ یہودوہنودکے احکام کی پیروی ہورہی ہے۔
یادرکھیں کہ خطے میں جس طرح میرے رب کے نظام کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں،امیدواثق ہے کہ میرارب کے فیصلوں کی بہاریں دنیاکو مستفیذ کرنے جارہی ہیں اوردنیاکانیادجّال اک نئے جنجال میں غرق ہوجائے گاان شاءاللہ۔