نیٹو:امریکاسے خوفزدہ

:Share

آج کے حالات میں نیٹو کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔مغربی ممالک کے مطابق دہشتگر د یورپی ممالک کے دارالحکومتوں پر حملے کررہے ہیں، مہاجرین کی آمدمیں اضافے سے سرحدوں اورملک کی سلامتی کے نظام پردباؤبڑھ رہاہے، روس یورپ پراپنی عسکری طاقت ودیگر ذرائع سے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اورخواہش بھی جبکہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ یورپ کو اتحاد محدود اورختم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن ان سب میں کوئی بھی انتہائی سنگین مسئلہ نہیں ہے،سب سے بڑامسئلہ اتحاد کے اندرلبرل جمہوریت کاخاتمہ ہے۔ شمالی اٹلانٹک معاہدے کی تنظیم اپنے آغاز 1949 ء سے ہی عام تنظیم نہیں رہی۔نیٹو کو صرف بیرونی خطرات سے لڑنے کیلئےنہیں بنایاگیاتھا ،بلکہ اس میں لبرل جمہوریت کے ذریعے حکومت چلانے کا اصول بھی طے کیاگیاتھا۔آغازمیں سویت یونین کو مشترکہ خطرے کے طور پر تسلیم کیاگیا۔نیٹو اپنے ارکان کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے دوسری تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ متحد تھا، تقریباًتمام رکن ممالک میں منتخب جمہوری حکومتیں تھیں، جو عوام کوجوابدہ اورقانون پرعمل کرنے کی پابند تھیں اورسیاسی وشہری آزادی برقراررکھنے کیلئےپرعزم بھی تھیں۔نیٹومعاہدے کی دفعہ 2 تمام ارکان کواداروں کی آزادی کومستحکم کرنے کاپابند بناتی ہے۔مشترکہ خطرے سے دوچار ممالک اکثراپنی بقاکیلئےاتحاد قائم کرتے ہیں لیکن مشترکہ خطرہ ختم ہونے کے بعد زیادہ تراتحاد قائم نہیں رہتے۔اس لیے بہت سے مبصرین کاکہناتھاکہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹواتحاد بھی بے اثرہوجائے گالیکن مشترکہ جمہوری اقدار،مفادات اورنئے ارکان کی حوصلہ افزائی نے ان تبصروں کوغلط ثابت کردیا۔سرد جنگ کے بعدنیٹونئے چیلنج قبول کرکے بحراقیانوس کے پار بھی اہم دفاعی اتحاد بن گیا۔
کریملین ایک بارپھر یورپ کیلئےبڑاخطرہ بن کرابھراہےلیکن اب ماضی کی طرح نیٹوکی ساری توجہ روس پرنہیں ہوگی۔نیٹوکے کئی ارکان اب اداروں کوکمزوراورجمہوری رویوں کوترک کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے انہیں سرد جنگ میں فتح ملی تھی،نیٹواتحاد کوایسے حالات میں اندرونی خطرات کاسامناہے جب انہیں ہمیشہ کی طرح بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئےزیادہ مضبوطی کی ضرورت ہے۔ایسے میں نیٹوکے ارکان ممالک میں آمریت پسندانہ اورمقبول آوازیں سیاسی طورپر مضبوط ہونے سے صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔سویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹوارکان کیلئےلبرل جمہوری روایت کی اہمیت میں مزیداضافہ ہوگیا،بہت سے ماہرین کاخیال تھا کہ یورپ سردجنگ سے نکل آئے گااور امن قائم ہوجائے گا۔ دیگر ماہرین کاکہنا تھا کہ بغیر کسی مشترکہ دشمن کے یورپ ماضی کے عدم استحکام کے دورمیں لوٹ جائے گا،جب یورپ میں تنگ نظر، وطن پرست اورانتقام پسند حکومتیں قائم تھیں۔ماہرین کامزیدکہناتھاکہ نیٹو نے ماضی میں ایک دوسرے سے جنگ لڑنے والے ممالک کے درمیان اعتماد قائم کرنے اورلبرل جمہوری ریاستوں کو مضبوط کرنے میں بنیادی کرداراداکیا۔سویت یونین کے خاتمے کے فوری بعد مشرقی یورپ میں سرحدوں اورنسلی تنازعات نے امن کو خطرے میں ڈال دیا۔1990ءکے آغازمیں یوگوسلاویہ میں جنگ نے پرامن ماحول کاخاتمہ کردیا،ان چیلنجوں کے موجودگی میں نیٹونے تنظیم کی رکنیت کے خواہش مند ممالک میں سیاسی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کی،تاکہ نئے ارکان اچھی طرزحکومت کے معیارپرپورااترسکیں۔اس فیصلے کی وجہ نیٹوکایقین تھا کہ لبرل ادارے اوراقدارہی قوم پرستی، انتہاپسندی اورتشدد کی واپسی کاراستہ روک سکتے ہیں کیونکہ قوم پرستی اورتشدد کی وجہ سے ہی یورپ صدیوں تباہ کن تنازعات میں گھرارہا۔یورپ کے اندرامن کیلئےضروری ہے کہ نیٹو کے نئے ارکان آمرانہ طرزحکومت کو ترک کردیں۔ نیٹوکی شرائط اکثرسیاسی تنازع کاباعث بنتی رہیں اوررکن بننے کے خواہش مند ہمیشہ یہ شرائط پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔دہائیوں تک کمیونسٹ آمرانہ حکومتوں کے ماتحت رہنے والے ممالک نے خفیہ ایجنسیوں کے اثرات کوختم کیا، سیاست میں ملوث فوج کوغیرسیاسی اورپیشہ ورانہ فوج میں تبدیل کیا،دفاعی سامان کی خریداری کی نگرانی کیلئےقانون سازی کی گئی اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئےسخت پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ اس عمل کے دوران کافی وقت لگتاہے،مونٹے نیگرونے2007ء میں رکنیت حاصل کرنے کیلئےتمام اہداف حاصل کرلیے تھے،مگر اسے نیٹوکارکن بننے کیلئےمزید دس برس انتظارکرناپڑا۔ بہرحال نیٹوکی رکنیت حاصل کرنے کیلئےصرف خواہش کاہوناکافی نہیں،بوسنیااس کی ایک مثال ہے۔ جس کو2010ءمیں ممبر شپ پلان اورشمولیت اختیار کرنے کاطریقہ دے دیا گیاتھامگروہ اب تک نیٹو کے معیارکوپوراکرنے میں ناکام ہے۔سخت شرائط کی وجہ سے نیٹوارکان میں اضافے کاعمل سست روی کاشکارہوسکتاہےلیکن متنوع یورپی معاشرے میں لبرل ادارے اورروایت ہی یورپ کو تحفظ اوراعتماد فراہم کرسکتی ہیں،اس کے علاوہ کچھ بھی نیٹواتحادکوکمزورکردے گا۔
وسیع براعظم میں استحکام کے علاوہ بھی نیٹوممالک کے لبرل جمہوری کردارکامعاملہ اہم ہے۔ کسی مشترکہ بیرونی خطرے کی عدم موجودگی میں جمہوری روایات ہی رکن ممالک کومتحد رکھنے کیلئےاہم کرداراداکرسکتی ہیں،جواتحاد کے موثرہونے کیلئےبنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔نیٹو کی سیکیورٹی آپریشن کرنے کی صلاحیت کاانحصاررکن ممالک کی عسکری اہلیت کے ساتھ سیاسی ہم آہنگی پربھی ہے۔نیٹومعاہدے کی دفعہ5 فعال ہونے پرمشترکہ فوجی کاروائی کی جاتی ہے ، یہ دفعہ کسی اتحادی پربراہ راست حملے کی صورت میں فعال ہوجاتی ہے۔ مشترکہ بیرونی خطرہ متحدہ ردعمل پیداکرتاہے،مثال کے طورپرنائن الیون حملوں کے بعدنیٹوممالک افغان طالبان کے خلا ف امریکی مہم کاحصہ بن گئے۔سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے نیٹوکی دفعہ5فعال نہیں ہوتی،کیونکہ رکن ممالک اپنے مفادات کے حوالے سے مختلف ترجیحات رکھتے ہیں،اس طرح کے معاملات میں قانون کی حکمرانی کاعزم اہم کرداراداکرتاہے،کسی کاروائی کیلئےمضبوط بین الاقوامی قانونی بنیاد فراہم ہونے کی صورت میں بیرون یورپ آپریشن میں بھی رکن ممالک نے اتحاد کامظاہرہ کیا ہے، جس کی واضح مثال2011ء میں لیبیامیں مداخلت ہے،جس کی اجازت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دی تھی۔وسیع اورمشکل چیلنجوں کاسامناہونے پرنیٹوکیلئےلبرل جمہوری روایات ہی اتحاد کی مضبوط بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔1995ء میں نیٹو نے سربوں کے حملوں کاشکاربوسنیامیں اقوام متحدہ کے تحت علاقوں کی حفاظت کیلئےآپریشن کیا،1999ء میں یوگو سلاویہ کے انخلا کے وقت کوسوو میں البانیوں کوبچانے کیلئےبھی نیٹونے فضائی آپریشن کیا،یہ دونوں کاروائیاں سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت نہیں کی گئیں اورنہ ہی نیٹو معاہدے کی دفعہ 5کے تحت ایساکیا گیا، کیوں کہ کسی بھی نیٹورکن پربراہ راست حملہ نہیں کیاگیاتھا،بہرحال یہ دونوں کارروائیاں نیٹوکی سیاسی صلاحیت کاامتحان تھیں، جس میں رکن ممالک نے انسانی حقوق کے مشترکہ مقصدکیلئےاتحادکامظاہرہ کیا۔
یہ اصول2005ء میں’’حفاظت کی ذمہ داری ‘‘کے نام سے بین الاقوامی قانون کاحصہ بن گیا۔غیر نیٹو ممالک میں عوام پرظلم وستم روکنارکن ممالک کی اتنی ہی اہم روایت ہے جتنا کوئی فوجی اثاثہ اہم ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب جمہوری روایت اوراداروں کوکمزورکیاجاتاہے تواتحاد میں تقسیم واضح ہوجاتی ہے۔ بوسنیااورکوسوو میں کامیاب آپریشن کے بعدنیٹو2003ءمیں عراق جنگ پرتقسیم ہوگیا۔بش انتظامیہ کی جانب سے عراق کے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کوعالمی امن کیلئےخطرہ قراردینابھی نیٹوکومتحد نہیں کرسکا۔فرانس اورجرمنی نے عراق پرحملے کی سب سے زیادہ مخالفت کی حالانکہ بوسنیااورکوسوومیں مداخلت کاقانونی جوازبھی کافی کمزورتھامگرتمام اتحادی انسانی حقوق کے مشترکہ نکتے پرمتفق تھے لیکن جب عراق کامعاملہ آیاتوبغیرکسی لبرل جمہوری جوازکے تمام رکن ممالک نے حملے کی حمایت کرنے سے انکارکردیا۔اس صدی کے آغاز میں کئی مبصرین نیٹوکاحصہ بننے کے معیار کونئے ارکان کی جانب سے نقصان پہنچنے پر پریشان تھے، کیونکہ نئے ارکان اتحاد کاحصہ بننے کیلئےتوشرائط پرعمل کریں گے مگرنیٹوکارکن بننے کے بعد اس معیارکوپس پشت ڈال دیں گے۔جب کو ئی بین الاقوامی تنظیم اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرتی ہے تووہ مزیدپیچیدہ اورعمل کے معاملے میں سست ہوجاتی ہے،تعدادمیں اضافے کامطلب ہے ترجیحات اورمفادات پراختلاف میں مزیداضافہ۔ نیٹودعویٰ کرتاہے کہ لبرل جمہوری روایت کے حوالے سے مشترکہ عزم کے ذریعے اس چیلنج سے نمٹاجاسکتاہے،یہ ٹھیک ہےمگریہ تب ہی ممکن ہے جب نئے ارکان اتحادکاحصہ بننے کے بعدبھی اس معیارپرعمل کرتے رہیں۔ اکثرمغربی دانشوروں کوخوف ہے کہ طویل عرصے سے نیٹو کارکن رہنے والے ممالک میں بھی ریاستیں استحصال کررہی ہیں جیساکہ ہنگری ہے جوسیاسی اصلاحات کرنے کاوعدہ پوراکرنے کاارادہ نہیں رکھتا ،وعدہ خلافی کرنے والوں کوچھوٹ دینانیٹوکی ساکھ کونقصان پہنچائے گااورلبرل جمہوری اقدارکوبھی نقصان پہنچے گا،اگرنیٹواپنے رکنیت سازی کے معیارکوپوراکرنے کیلئےزورنہیں دے گاتوامریکاکیلئےاہم ترین اتحاد(نیٹو)کمزورہوجائے گا۔
ایک بات توواضح ہے کہ نیٹوکے لبرل جمہوری معیارکی خلاف ورزی کی کوئی قیمت نہیں،کچھ ناقابل اعتماد ارکان واقعی میں گمراہ ہوچکے ہیں ۔ہنگری کو1999ءمیں نیٹومیں شامل کیاگیا، ہنگری میں 2002ءاور2006ءکے شفاف انتخابات کے نتیجے میں دونوں مرکزی جماعتوں میں تبدیلی آئی۔ دونوں جماعتوں کاشمارسوویت دورکی بدعنوان جماعتوں میں ہوتاتھا،اس دوران رہنماؤں کااحتساب بھی کیاگیا۔2004ء میں ہنگری نے پوری سیاسی قوت کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کیلئےکوشش کی،اس دوران ہنگری نے شہری آزادی اورسیاسی حقوق کے حوالے سے بھی کافی پیشرفت کی۔ ایک غیرسرکاری تنظیم’’فریڈم ہاؤس‘‘کی رپورٹ کے مطابق2005 ء سے2010ء کے دوران شہری اورسیاسی آزادی کے حوالے سے ہنگری کی کارکردگی سب سے بہترین رہی۔2010ء کے انتخابات کے نتیجے میں دائیں بازوکے’’وکٹراربان‘‘کی جماعت جیت گئی۔ انہوں نے53 فیصد ووٹ اور68 فیصد پارلیمان کی نشستیں حاصل کرلیں۔پارلیمان میں واضح اکثریت کے ہوتے انہوں نے آئین تبدیل کردیااورحکومت کی نگرانی کرنے والے اداروں کوکمزورکردیا،خاص طورپرعدلیہ بری طرح متاثرہوئی۔انہوں نے ہنگری کی آئینی عدالت کے ججوں کی تعدادمیں اضافہ کرکے وہاں اپنے لوگوں کولگادیااورعدالتی اختیاربھی محدودکردیا۔2018ء میں فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق شہری اورسیاسی آزادی کے حوالے سے ہنگری کی کارکردگی بدترین رہی،ہنگری میں قانون کی حکمرانی اورحکومت کے احتساب کاعمل کمزورجب کہ بدعنوانی میں اضافہ ہوگیاہے۔اپریل2018ء کے انتخابات بھی دائیں بازوکی جماعت جیت گئی،اس بار49فیصدووٹ کے ساتھ پارلیمان میں بھرپوراکثریت حاصل کی گئی۔آج ہنگری کی حکومت ملک کویورپ کی لبرل جمہوری روایت سے مزید دور لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔
لبرل روایت کی خلاف ورزی کے حوالے سے ہنگری توصرف آغاز تھا ،صدیوں جنگیں لڑنے کے نتیجے میں تباہی کے بعد پولینڈ کے لوگوں کو امید تھی کہ لبرل جمہوریت ہی یورپ میں نسلی تنازع اور جذباتیت کا حل ہے،لیکن2015ء میں پولینڈ کااقتدارسنبھالنے کے بعد جسٹس پارٹی نے قانون کی حکمرانی اورحکومت کی نگرانی کیلئےبنائے گئے بہت سے قوانین ختم کرنے شروع کردیے، جیسا اس سے قبل ہنگری کرچکا تھا۔ پولینڈ میں قانون اور حکومتی اقدامات پر نظر ثانی کرنے والے آئینی ٹربیونل کے اختیارات محدود کردیے گئے،سیاسی رہنماؤں کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا،عدلیہ کواپنامحتاج بنالیاگیا۔فریڈم ہاؤس نے پولینڈکو2015ءمیں100میں سے93نمبر دیےجبکہ 2018ء میں 100میں سے85نمبر دیے ۔جنوری میں حکومت نے ایک قانون منظور کیاجس کے تحت پولینڈ کو ہولوکاسٹ میں شریک کہناجرم قراردے دیاگیا،قطع نظر کہ پولش لوگوں کا ہولو کاسٹ میں کیا کردار تھا۔ اس قانون کی منظوری سے لبرل جمہوریت کے اہم اصول اظہار رائے کی آزادی کو نقصان پہنچااوراظہاررائے کی آزادی کے بغیرعوام اپنی حکومت کا احتساب نہیں کرسکتے۔
ادھر2002 ء میں بھی آگاہ کریاگیاتھا کہ نئے ارکان میں شا مل جمہوری اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والے ممالک نیٹو اتحاد کو کمزور کرسکتے ہیں لیکن صورتحال کی سنگینی کا درست اندازہ نہ لگانے کی وجہ سے نتائج درست ثابت نہ ہوسکے۔ آج صرف نئے ارکان سے لبرل جمہوریت کو خطرہ نہیں بلکہ پرانے اوراہم ارکان بھی ان روایت کیلئے خطرہ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے نیٹوکااتحاداورصلاحیت زیادہ بڑے خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ سب سے حیران کن معاملہ ترکی کاہے، ترکی 1952 میں نیٹو میں شامل ہوا، وہاں کئی مرتبہ فوج اقتدارپرقابض ہوئی۔ترکی کافی عرصے سے طیب اردگان کی سربراہی میں نیٹوکی اجارہ داری کیلئے چیلنج بن چکاہے جس کے نتیجے میں ترکی کوسبق سکھانے کیلئے ایک دفعہ پھرفوجی بغاوت کروادی گئی جس کوترکی عوام نے فوری طورپرسڑکوں پرآکرناکام بنادیاجس کے بعد سازشی عناصرکے خلاف سخت ترین اقدام اٹھائے گئے۔اردگان نے فوری طورپر نئے انتخابات کے ذریعے اپنے عوام سے نظام کی تبدیلی کیلئے نیامینڈیٹ حاصل کرکے آئینی طورپربااختیار صدارتی نظام نافذکرکے ملک پراپنی حکومت کی گرفت مزیدمضبوط بنالی اور اب 2018 میں آئینی ترمیم کے بعداردگان کوعدلیہ میں سیاسی تقرری کرنے کااختیار بھی حاصل ہوگیاجس کے جواب میں مغربی فریڈم ہاؤس نے لبرل جمہوری اداروں اوراصولوں کے حوالے سے ترکی کوچین، روس، ایران اورشام کی صف میں شامل کردیااگرچہ ترقی وانصاف پارٹی نے2002 میں اقتدارسنبھالنے کے بعد قانونی ،شہری اورسیاسی آزادیوں کے حوالے سے کافی پیش رفت کی تھی۔دوسری طرف نیٹوکے اہم ترین رکن ممالک میں بھی حالات کافی خراب نظر آرہے ہیں۔فرانس میں نیشنل فرنٹ روس سے پیسے لینے کے اعتراف کے باوجود اپنے عروج پر ہے، جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے حیران کن کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ جرمنی میں متبادل قوت بن کر ابھری ہے۔نیدر لینڈ میں2017 میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما جیرٹ وائلڈر کو سخت اور ناقابل یقین مقابلے کے بعدشکست ہوئی،اس دوران ملک میں کشیدگی اپنی انتہاپرتھی۔
ادھرامریکابھی اسی راستے پرگامزن ہے،2016ء کے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی حکومت لبرل جمہوری اداروں اورروایات کوتہ وبالاکرنے کانیاریکارڈقائم کرنے پرتلی ہوئی ہے۔صدر ٹرمپ مسلسل غلطیاں کررہے ہیں،وہ آزادمیڈیاکے کردارپرحملہ آورہیں۔ صدرٹرمپ کا کہناہے کہ’’اگرصحافی اپنی خبرکے ذرائع نہیں بتائے تواسے جیل بھیج دینا چاہیے‘‘۔ صدرٹرمپ اوران کی حکومت میں شامل دیگرحکام کھلے عام تشدد پسند نسل پرستوں کی حمایت کرتے ہیں،وہ مذہبی اقلیتوں کوبدنام کرنے کی مہم کاحصہ ہیں،یہ لوگ جنسی تعصب اورعورت سے نفرت کی وکالت کرتے ہیں۔صدرٹرمپ مسلسل خودمختارمحکمہ انصاف پرتنقید کررہے ہیں،جس کی وجہ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور2016ء کے انتخابات میں بیرونی مداخلت کی تحقیقات جاری ہیں۔اس صورتحال کے بعد2018ءمیں فریڈم ہاؤس نے امریکاکو100میں86نمبردیے۔
کچھ نیٹوممالک میں سردجنگ کے دوران فوجی اورآمرانہ حکومتیں قائم رہیں، یونان میں1967ء سے1974ءتک فوجی حکومت قائم رہی،جبکہ پرتگال میں1974ءتک آمرانہ حکومت قائم تھی۔سرد جنگ کے دوران نیٹو کی فوجی صلاحیت کو بڑھانے اورمغربی یورپ میں کمیونزم کاراستہ روکنے کیلئےاس صورتحال کوبرداشت کرلیاگیا،لیکن پھرمغربی جمہوریت نے اپنی اہمیت کومنوالیا۔آمرانہ حکومت کے ماتحت یونان اورترکی میں قبرص کے معاملے پرلڑائی میں شدت آگئی،جس سے نیٹو اتحادکمزورہوالیکن سویت یونین کے مشترکہ خطرے نے اتحاد کی کمزوری کوکافی حد تک دورکر دیا۔آمرانہ حکومت کی وجہ سے کچھ نیٹوممالک اتحاد کے اہم ترین ارکان کے مخالف ہوگئے لیکن ان ممالک نے ایساکچھ نہیں کیاجس سے نیٹو کے بیرونی خطرے کے مقابلے میں کمزورہونے کا تاثرملتا۔آج صورت حال کافی مختلف ہے،روس ایک بارپھریورپ کیلئےخطرہ بن کرابھرا ہے ،یہاں بحراوقیانوس کی حفاظت کیلئےلبرل جمہوری اداروں کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہےکیونکہ غیر جمہوری ممالک زیادہ کمزورہوتے ہیں،آمریت کرپشن کوفروغ دیتی ہے اوریورپ میں کرپشن روسی اثرات کومزیدبڑھادے گی۔روس کی2014ء میں یوکرائن میں مداخلت کے بعدنیٹو ممالک سب سے زیادہ کرپشن اورمقبول فیصلے کرنے سے متاثرہوئے۔روسی میڈیا کے اثرات کی وجہ سے نیٹو کو متحدہ ردعمل دینے میں مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ہربارروس پریورپی پابندی کی تجدید کرنا پڑی، امریکااوراہم ترین اتحادیوں کویورپی ممالک کونیٹوسے نکلنے سے روکناپڑااورکریملین کے دباؤ کے خلاف سخت جدوجہد کرناپڑی۔امریکااورمغرب کایہ کہناہے کہ ماضی میں سویت یونین بنیادی طورپرعسکری خطرہ تھا،سویت یونین نے سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کیلئےکمیونسٹ نظریے اور بائیں بازو کی جماعتوں کااستعمال کیا۔آج روس سیاسی اثرات بڑھانے کیلئےمختلف طریقے استعمال کررہاہے،جس میں مشکوک اندازمیں فنڈ کی فراہمی،رشوت دے کر تعلقات قائم کرنا،بدعنوانی اور بلیک میلنگ شامل ہیں۔امریکاکاروس پریہ بھی الزام ہے کہ وہ ایک ایسے نظریے کوفروغ دے رہا ہے جوپرتشدد قوم پرستی،دوسروں سے نفرت اورعوام پرجبرکرنے پرمشتمل ہےاوراسی راستے پر ہنگری،پولینڈ،ترکی اوردیگریورپی ممالک گامزن ہیں۔ یہاں تک کہ جب بھی اربان اورایردوان پران کے اتحادیوں نے تنقیدکی توانہوں نے روسی صدرپوٹن کواپنی حمایت میں کھڑاپایا۔سردجنگ کے برعکس نیٹوکے غیرجمہوری ممالک کریملین کے اتحادی بن گئے ہیں۔حقیقت میں یہ ممالک اتحادکی سب سے بڑی کمزوری بن گئے ہیں،بس ایک امیدہے کہ روس کی جانب سے کسی نیٹورکن پر حملے کی صورت میں یہ ممالک اتحاد کے ساتھ کھڑے ہوں گے،مگریہ یقین کرناکہ ان ممالک نے سمجھوتہ کرلیاہے،بے کارامیدکرنے سے زیادہ بہترہے۔
مریکی صدرکی سابق معاون خصوصی”قومی سلامتی کونسل میں یوریشین اورروسی امورکی ڈائریکٹر،یوایس رشیا فاؤنڈیشن کی سربراہ کاکہناہے کہ”روس کامقابلہ کرنے کیلئےنیٹو کو اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے،اس بارے میں بہت کچھ لکھاجاچکااوریہ ضروری بھی تھا مگرزیادہ اہم بات یہ ہے کہ نیٹوکواپنی لبرل جمہوری بنیادوں کودوبارہ سے بحال کرکے اتحاد کی کمزوریاں دورکرنے کی ضرورت ہے،تاکہ روس جو بدعنوانی،’’انفارمیشن وار فیئر‘‘اوربلیک میلنگ کے ذریعے مداخلت کررہاہے،اس کامقابلہ کیاجاسکے۔میں نے2002ءمیں جمہوری روایت سے منحرف نیٹوارکان کونوٹس دینے کاطریقہ تجویزکیاتھا،جس میں ان کے حقو ق معطل کرنااورممکنہ طورپران کی رکنیت ختم کرناشامل تھا۔میری تجویزکامرکزی نقطہ نیٹومیں اتفاق رائے کے اصول کوتبدیل کرناتھا،نیٹومیں اہم فیصلوں کیلئےتمام ارکان کامتفق ہونالازمی ہے، مجھے یقین تھا کہ اتفاق رائے کا اصول ختم ہونے کے بعدمنحرف ارکان کوقواعد کاپابند بنانے میں دیگرارکان کو آسانی ہوگی،اس سے نہ صرف نیٹومضبوط ہوگابلکہ نیٹوقواعد کی خلاف ورزی کو بھی روکاجاسکے گا۔ میری تجویزمیں منحرف ارکان کی اصلاح اوران کی ممبرشپ کی مکمل بحالی کاطریقہ کاربھی موجودتھالیکن یہ تجاویزدیتے وقت میراخیال تھاکہ نیٹوکواپنے ارکان کی جانب سے قواعدسے انحراف کاکبھی کبھارہی سامناہوگا۔نئے اورپرانے کئی ارکان کی جانب سے قواعد سے انحراف نے خطرے کو کئی گنابڑھادیا ہے،اب2002ء کی تجاویزپرعمل کرنے کاوقت گزرچکا ہے، اگرانحراف کا سلسلہ اسی طرح چلتارہاتونیٹوبدعنوان اورغیر لبرل جمہوریت کوتحفظ دینے والا اتحاد بن سکتا ہے۔منحرف ارکان کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر نیٹوکومعاملات چلانے کیلئےاتفاق رائے کے اصول کے بجائے یورپی یونین کے طرح اکثریت کااصول اپناناہوگا۔نیٹوکوبھرپوراکثریت(ایک کے مقابلے میں دوووٹ) سے منحرف ارکان کے ووٹ اورفیصلہ کرنے کے حق کومعطل کردینے کوممکن بناناہوگا۔2007ء کے’’لزبن ‘‘معاہد ے کے تحت یورپی یونین کے زیادہ ترفیصلوں کیلئےدگنی اکثریت درکارہوتی ہے،اس طریقے سے اگر یورپی یونین کہیں قانون کی حکمرانی کو خطرے میں محسوس کرے تووہ رکن ملک کے ووٹ کے حق ودیگر حقوق کومعطل کرسکتی ہے ۔درحقیقت یورپی یونین درست طورپراس طریقے کوہنگری اورپولینڈکے فنڈزاورمراعات پرپابندی لگانے کیلئےاستعمال کرنے کاسوچ رہی ہے۔نیٹوکواپنے تمام نئے اورپرانے ارکان کے لبرل جمہوری طرزعمل کی نگرانی کی ذمے داری اپنے سینئرافسران کودینی چاہیے،اس حوالے سے سیاسی اموراورسیکیورٹی پالیسی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل موزوں انتخاب ہوسکتا ہے۔لبرل جمہوری اداروں اورروایت کی مرکزی اہمیت کے پیش نظرنیٹوکے ادارے میں کام کرنے والے افسران کو ارکان کے احتساب کے عمل کاحصہ بنناچاہیے،ان کونیٹو کے معیارپرمکمل طورپرعمل کرواناچاہیے۔نیٹوکویورپی یونین کے ساتھ تعلقات مزیدمضبوط بنانے چاہییں،بہترطرزحکومت، قانون کی بالادستی اورشہری حقوق کی نگہبانی دونوں تنظیموں کے مشترکہ مقاصد ہیں،اس حوالے سے تعاون دونوں تنظیموں کی مضبوطی کاباعث بنے گا،دونوں تنظیموں کے درمیان معلومات کے تبادلے کاباقاعدہ چینل بنایاجائے(یورپی یونین اس حوالے سے پہلے ہی جائزہ لے رہاہے)،اس سے نیٹو کیلئےاپنامعیاربرقراررکھنااورارکان کی نگرانی کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔معلومات کے تبادلے کے ذریعے یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی رکن کسی ایک تنظیم میں اپنی حیثیت کافائدہ اٹھاکردوسری تنظیم میں احتساب کے عمل سے بچ نہ جائے اورقواعد سے انحراف کرنے لگے۔ مثال کے طورپرپولینڈ اپنے غیر جمہوری رویے کے بدلے روس کے خلاف سخت موقف رکھتاہے اورنیٹو کامضبوط عسکری رکن ہے ۔نیٹو میں خرابی کودورکرنے کیلئےصرف طریقہ کار میں اصلاحات کافی نہیں، اس حوالے سے آمریت کا شکار ترکی کو نیٹو کے اہم مشن اور فیصلے سے دوربھی رکھاجاسکتاہے،اس بات کاامکان کم ہے کہ اس طرح کے اقدام پرترک قیادت اعتراض نہیں کرے،اورنیٹوکے قوانین اس طرح کے اقدامات کی اجازت نہیں دیتے،مگراس حوالے سے کوئی قابل عمل حل ڈھونڈنے میں تنظیم کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے۔
امریکی صدرکی سابق معاون خصوصی”قومی سلامتی کونسل میں یوریشین اورروسی امورکی ڈائریکٹر،یوایس رشیا فاونڈیشن کی سربراہ کاکہناہے کہ” نیٹوکے اہم ترین ارکان کالبرل جمہوریت سے انحراف کرناالگ معاملہ ہوگا،نیٹو کس طرح امریکا،فرانس اورجرمنی کی رکنیت معطل یا ان کی اصلاح کرسکتا ہے۔بہتردفاع کیلئےنیٹوارکان کواپنے ملک کے اندرکام کرناہوگا،نیٹو لبرل جمہوریت سے انحراف کرنے والے ممالک کی مراعات ختم کرنے اورسزا دینے کاطریقہ تشکیل دے سکتاہے،مگر صرف شہری ہی اپنے منتخب قیادت کااحتساب کرسکتے ہیں۔ امریکاکی طرف سے چیلنج کامقابلہ کرنے کیلئےکھڑاہوناسب سے ضروری ہے،نیٹو کے اہم ترین ممالک میں لبرل ازم کی کمی خدشات پیدا کررہی ہے۔جرمنی پورے خطے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک جماعتی آمرانہ حکومت سے باہرآرہا تھا،فرانس تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے مزاحمت کی علامت بن گیاتھا،جنگ عظم دوئم کے بعد یورپ زندہ رہنے کیلئےپرامیدتھا،مگریہ امریکاتھا جس نے بیسوی صدی میں یورپ کوآمریت سے بچایا اور خوشحالی،امن اوراستحکام حاصل کرنے میں مددکی۔نیٹو یورپ میں آمرانہ حکومتوں کے ساتھ تومحفوظ رہ سکتاہے مگرامریکامیں لبرل جمہوریت کی ناکامی اتحاد کوتباہ کرسکتی ہے۔یورپی یونین کواس حقیقت کاسامناکرناہوگاکہ آج نیٹو کوسب سے بڑاخطرہ امریکا سے ہی ہے۔سیاسی جماعتوں اورپالیسی ترجیحات سے ماوراتمام امریکی لبرل جمہوریت کے اداروں،روایت اورقوانین کی حفاظت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،یہ صرف علاقائی سیاست کانہیں بلکہ قومی سلامتی کامسئلہ بھی ہے۔ گھرمیں جمہوریت خطرے میں آجانے سے واشنگٹن کی نیٹوکے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت متاثرہوئی ہے،جس سے دنیاایک خطرناک اورغیر یقینی صورتحال سے دوچارہوچکی ہے۔ نیٹوکاسب سے طاقتوررکن ہونے کے ناطے امریکالبرل اداروں اوراقدارکے مشترکہ دفاع کی قیادت کی خواہش رکھتاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج نیٹوکوبنیادی خطرہ اپنے ارکان کے علاوہ امریکاسے ہی ہے،گویانیٹوکواب اپنے ہی مضبوط اتحادی ٹرمپ سے نجات کیلئے برسلز ہیڈ کوارٹرمیں سرجوڑکربیٹھناہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں