دنیاکے بیشترممالک کے موجودہ نقشے اورحدودِ اربعہ،بیسویں صدی کی عالمگیرجنگوں کی زیرِاثربنے ہیں۔یقینامشرقِ وسطیٰ بھی اس میں شامل ہے۔اس خطے کے ممالک مگر،تاریخی، جغرافیائی، نسلی،لسانی،تہذیبی،کسی بھی عامل سے زیادہ سابق استعماری قوتوں کی خواہشات کے تحت میزپرکھینچی گئی لکیرں سے بنے ہیں۔مثلالبنان،شام،اردن،اسرائیل،عراق، سعودی عرب ،کویت،اومان وغیرہ کے نقشے دیکھئے،صاف پتہ چلتاہے کہ سیدھی سیدھی لکیریں کھینچ کر،یہ نئے ممالک،عالمی نقشے میں ”کاڑھے” گئے ہیں۔یہ تمام ممالک،ماضی میں بڑی سلطنتوں کے صوبے یاضلعے ہواکرتے تھے۔یورپ کی استعماری اقوام خصوصابرطانیہ اورفرانس نیاپنی استعماری سوچ کے مطابق،یہ نئے ممالک تخلیق کردیے گئے،ان کی تشکیل میں امریکاعملا شریک نہیں تھا۔
اب تاریخ کاپہیہ ایسے مقام پرآگیاہے کہ آج کی سب سے بڑی استعماری قوت امریکااوراس کے اتحادی یورپی ممالک اوراسرائیل کونیامشرقِ وسطیٰ درکارہے۔چنانچہ گزشتہ صدی کے اختتام کے ساتھ ہی نئے عہداورنئی سرحدوں کابگل بجادیاگیاہے۔علاقائی عناصروعوامل کومارچ کاحکم مل چکاہے۔ ۔تمام ہرکارے،کارندے،پیادے،فیل وفرزیں روبوٹس کی طرح حرکت میں آچکے ہیں۔ پرانے زمانے کے راجاؤں اورنوابوں کے شکارکیلئے،جس طرح ہانکالگاکرتاتھا،مشرقِ وسطیٰ میں شکاراورشکاری اوران کے ہانکالگانے والے سبھی اس کھیل کاحصہ بن کر، اپنااپناکرداربخوبی نبھارہے ہیں۔ شاید اگلے ایک عشرے کے اندرہی،مطلوب نیا مشرقِ وسطیٰ تشکیل پاجانے کی خواہش وکوشش ہے۔ہم اہلِ حرم حسبِ سابق اِس رومن اکھاڑے کی سیڑھیوں پربیٹھے،محض تماشائی ہیں جواپنی بھوک اوراِفلاس،اپنادکھ اورغم غلط کرنے کیلئے،یہ کھیل دیکھ رہے ہیں،تبصرے کررہے ہیں یازیادہ سے زیادہ اس میں معاون ومددگاربننے کی خواہش رکھتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ اکھاڑے میں جاری کھیل کاجائزہ لیاجائے توچِیدہ چیدہ 19/نکات اس طرح سامنے آتے ہیں:۔
٭1۔دنیاکے موجودہ تناظرمیں،چارمسلم ممالک ایسے ہیں،جن کے حالات وواقعات،جن کاعمل اور بے عملی(یابدعملی)،جن کا استحکام یاانہدام اور جن کی قوت ویکجہتی یاکمزوری و انتشار سارے عالمِ اسلام کوسب سے زیادہ متاثرکرسکتے ہیں اوریہ ممالک سعودی عرب،مصر،ترکی اورپاکستان ہیں۔
٭2۔یہ چاروں ممالک ہم آہنگ ہوکر،ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کراورباہمی اعتمادومشاورت کے ساتھ عالمی بساطِ سیاست پر، دھیرے دھیرے ہی سہی،لیکن مظبوط قدم رکھتے چلیں، تو مسلم امہ کی بے چارگی وبے بسی میں تیزی سے،قابلِ لحاظ کمی آتی جائے گی۔
٭3۔اِس اتحادِاربعہ کے جھرمٹ میں کئی اورمسلم اورغیرمسلم ممالک،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، شامل ہوتے جائیں گے۔یوں یہ نیاعالمی بلاک آج کی بے توازن اوربے کل دنیا میں، قدرے توازن وقرارکاذریعہ بن سکے گا۔
٭4۔چندبرس قبل اللہ نے یہ سنہری گھڑی قریب کردی تھی،جب مصرمیں ڈاکٹرمحمد مرسی کی جسٹس پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تھی،اورترکی میں رجب طیب ایردوان کی”اے کے پی ” کی حکومت سے اس کابڑااچھاتعلق پروان چڑھ رہاتھا۔ گویااتحادِ اربعہ کیلئے حالات سازگارہونے جارہے تھے۔
٭5۔بدقسمتی سے آلِ سعودکے پچھلے بادشاہ اورکچھ شہزادے،امارات کے حکمراں،خصوصاًان کے موجودہ ولی عہد،اسرائیلی لابی اورمغربی استعمارنے مصرپر،اورامت پرنہایت اوچھا وار اور تاریخی ظلم کیا۔یہ گویاسنبھلتی اورقسمت بدلتی مسلم دنیا کی پیٹھ میں خنجرگھونپ دینے کے مترادف تھا۔
٭6۔اِسی دوران،شام کے معاملہ میں جوہوا،وہ حکمتِ عملی اوراسٹریٹجی کے لحاظ سے ایک تاریخی بلنڈرتھا۔اسرائیل کی پشت پناہ مغربی قوتوں نے سازش کاجوجال بنا،بدقسمتی سے اس میں ترکی،سعودی عرب،قطراوربعض دیگرعرب حکومتیں،یہاں تک کہ شام کے اِخوان بھی،حیرت انگیزطور پر بڑی آسانی سے پھنس گئے۔اب ان کے گلے میں گویاچھچھوندر پڑا ہے ۔1981 میں بھی شام کی اِخوان،اپنے نوجون عنصرکے دباؤمیں آکرخروج کی خودکش غلطی کرچکی تھی،جس کاخمیازہ ربع صدی تک اسے بھگتناپڑا۔خداجانے ہمارے یہ دوست ممالک اس استعماری وصہیونی جال سے بسلامت کیونکرنکل پائیں گے کیونکہ اب غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کھیلاجانے والاخونی کھیل خوداستعمارکے گلے کی ہڈی بن چکاہے؟
٭7۔ایک مضبوط رائے رہی ہے کہ شام کواس کے حال پرہی چھوڑدیناچاہیے تھا۔بشارالاسد کی علوی یانصیری حکومت سے امتِ مسلمہ کو،یااتحادِ امت کو،کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں تھا بلکہ دمشق میںحماس کوایک مناسب اورمضبوط ٹھکانامیسرتھا، جواب اس سے چِھن چکاہے۔شامی فوج کی صورت میں،اسرائیل کے سامنے ایک مظبوط عسکری قوت بھی موجود تھی، جو کلیتًا تباہ ہوگئی ہے۔اربوں ڈالرزمیں خریدے ہوئے لڑاکاجہاز، ٹینک ، توپیں،میزائل،گولابارود،یاتواستعماری قوتوں کی بمباری سے تباہ ہو گئے یااپنے ہی لوگوں سے لڑنے میں ضائع ہوگئے۔شام ،اِس علاقہ میں نسبتاًبہترفوج رکھتاتھا۔وہ فوج اسرائیلی نفسیات کوکانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔خانہ جنگی میں وہ بھی تتربترہوگئی جوخطے میں استعماری قوتوں کی پیش قدمی اورفتح کی نوید ثابت ہوئی۔
ابتداہی سے مجھے شام کایہ ساراجہادسمجھ نہیں آتاتھا۔اب تویہ امراظہرمِن الشمس ہوچکاہے کہ یہ بہت بڑااسٹرٹیجک بلنڈرتھا۔ شام میں،کئی سال سے ملی خودکشی کی گلوٹین مشین اب بھی مسلسل چل رہی ہے جبکہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے بعداس سے سبق حاصل کرنے کی اشدضرورت ہے ۔ مسلم دنیامیں صدیوں سے موجودسب سے بڑی فرقہ وارانہ (شیعہ، سنی)تقسیم زیادہ شدت سے نمایاں ہوکر،عالمگیرپیمانے پرسامنے آکھڑی ہوئی ہے ۔ عصرِرواں کی استعماری قوتوں نے اس تقسیم کومؤثرطور پربروئے کارلاکراپنے بہت سے منصوبے آگے بڑھائے ہیں،اوروہ اس کادائرہ مزیدبڑھائیں گی ۔ فی الحال اس میں کمی کابظاہرکم ہی امکان ہے لیکن اس کے باوجودامریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن مشرقِ وسطیٰ کے دورے کیلئے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں اور بظاہراپنے مذاکرات کی کامیابی کیلئے انہوں نے ایک مرتبہ پھرآزادفلسطینی ریاست کے قیام کاجھانسہ بھی دیاہے۔اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شروع ہوچکے ہیں اوریادرہے کہ نیتن یاہوکے خلاف سنگین کرپشن اوربدعنوانی کے مقدمات ان کوتاعمرجیل بھیجنے کیلئے منتظرہیں جس کیلئے نیتن یاہواب مکمل طورپرامریکاکی مددکامحتاج بن کراپنی خلاصی چاہتاہے۔
٭8۔اتفاق سے میں دینی اورعلمِ سیاسیات کاطالب علم بھی ہوں۔میں پوری ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ مسلم ممالک میں،عہدِماضی والے تصورِ خروج پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ایسی دنیا میں جہاں دشمنانِ دین وملت،ہر قابلِ لحاظ مسلم ملک کاتیا پانچااورقیمہ کرنے کی مہم پرصاف دِکھائی دے رہے ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ خروج ایک سیاسی اجتہاد اورفقہ سیاسیات کی ایک اصطلاح ہے۔یہ نہ ایمانی مسئلہ ہے،اورنہ فرائض و واجبات سے اِس کاکوئی تعلق ہے۔البتہ انسانی تمدن کے ایک خاص دورسے متعلق ضروررہاہے۔
٭9۔مصرکوجس طرح عملااسرائیلی تولیت میں دے دیاگیاہے،اس عاقبت نااندیش اورملی بربادی میں آلِ سعوداورسلفی مکتبِ فکر کے کلیدی کردارپر غورکرتاہوں تودل تھام کررہ جاتا ہوں ۔کئی بارمیرابڑادل چاہاکہ کچھ صہیونی آلہ کاروں کیلئے ”قنوت ”والی بد دعائیں کروں،عمرہ پرگیاتووہاں بھی یہی دل چاہامگرمیرے دماغ نے میری زبان پکڑے رکھی۔اِس بات کوسمجھناضروری ہے کہ سعودی عرب کاداخلی انتشار،چاہے وہ شاہی خاندان کے اندرہویا پوری مملکت میں،فی زمانہ ہرگزباعثِ خیرنہ ہوگا۔اِس سے ہمارے دین وملت کوکچھ نہیں ملے گابلکہ امت میں اِس کانفسیاتی فال آوٹ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوگااس لئے حرمین کی حرمت کی وجہ سے ان کے سدھرنے کی دعائیں کرنے کی اشدضرورت ہے۔
٭10۔عربستان کے جنوب مغربی کونے پر،یمن میں جوہورہاہے،اس کے دو فعال ترین فریقین میں ایک طرف ایران ہے،تودوسری طرف سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات۔ دونوں فریقوں نے جس عاقبت نااندیشی کامظاہرہ کیاہے،اس سے یمن توبربادہوہی گیا مگرتیل کاجوپیسہ دھواں بناکراڑا دیا گیااورملی وجود میں نفرتوں کاجوزہرسرایت کرچکا،اس کے کامل اثرات آہستہ آہستہ ہی ختم ہوں گے لیکن اس کے باوجودوہاں مٹھی بھرحوثیوں نے اپناوجودظاہرکردیاہے کہ اس حالت میں بھی وہ دنیاکی استعماری قوتوں کے سامنے سینہ سپرہیں اورابھی حال ہی میں جدیدترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ڈرون جہازکوگراکردشمنوں کوورطہ حیرت میں مبتلاکردیاہے۔
٭11۔اگریادہوتواسی خطے میں استعماری قوتوں نے ”آنسوکے قطرے” جیسے ننھے سے ملک قطرکے خلاف ”چارکاٹولہ ”سامنے لائے تھے حالانکہ اسی قطرنے اربوں ڈالرسے تعمیر کردہ اپنا بحری اڈہ مکمل طورپرامریکی دسترس میں دے رکھاہے لیکن اس کے باوجودیہاں بھی اپنی منافقانہ پالیسیوں کی بناپرخطے میں اپنی موجودگی کی ضرورت کوثابت کرنے کیلئے فریقین کواپنی اوقات میں رکھنے کیلئے یہ ساراکھیل کھیلاگیاحالانکہ سب جانتے تھے کہ ”چار کے ٹولہ”کی حیثیت شکاری شِکرہ سے زیادہ نہیں۔اصل فیصلہ سازتووہ ہاتھ اور ذہن ہے جس نے اِن شِکروں کوقطرکاکبوترشکارکرنے پرمامورکیا تھا۔ قطرکے خلاف اقدام کرنے کے بعد،چندماہ کے اندرہمارے عرب بھائیوں نے تقریباً180/ارب ڈالرکے سودے صرف امریکاسے اسلحہ خریدنے کیلئے کرلیے تھے جوبعدازاں اس اسلحے کی دیکھ بھال اورمرمت کیلئے مزیداربوں ڈالرکے معاہدے کئے گئے جس سے 18ہزارامریکیوں کوملازمت کے نئے مواقع ملے۔آنے والے برسوں میں اس سے چھ گنازیادہ خریداری کی نوید بھی دے دی گئی ہے ۔
یادرہے !کہ عرب بھائیوں کایہ معاہدہ تین درجن اسلامی ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔یہ اسلحہ کس کے خلاف خریداجارہاہے؟ایک دوسرے کے خلاف!یہی وجہ ہے کہ امریکی اسلحہ کی عربوں کوفروخت کے خلاف اسرائیل کی طرف سے ایک بھی لفظ نہیں کہاگیابلکہ ایک ایک امریکی صہیونی سینیٹرنے ایک فقرے میں اس کی جامع تشریح کرتے ہوئے کہاکہ”ہم اس کی مخالفت کیوں کریں جہاں اسرائیل کی حفاظت کیلئے عربوں کا سرمایہ استعمال ہواہے”۔صہیونی ریاست،اسرائیل سے مستقبل قریب میں کوئی جنگ ہونی ہے اورنہ اس سے کوئی خطرہ باقی رہاہے۔جنگ اس لیے نہیں ہونی کہ اسرائیلی مقاصدبغیرکوئی گولی چلائے حاصل ہورہے ہیں،پھراسے عربوں سے لڑنے کی کیاضرورت ہے۔ خطرہ اس لیے نہیں کہ اب اسرائیل سے دوستی کی مسابقت شروع ہوگئی ہے۔شنیدہے کہ دونوں حکومتوں میں مسلسل رابطہ ہے اورمفاہمت کے مختلف منصوبوں پرکام جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ امریکی صدرجوبائیڈن نے یروشلم سے براہِ راست ریاض کاسفرکرکے اپنے خاموش کردادکااعلان کردیاتھا۔توقع کی جارہی تھی کہ اگلے تین تاچھ ماہ میں کسی باقاعدہ مفاہمت کااعلان ہونے والاتھاکہ غزہ میں ہونے والی کاروائی حماس کے شہدا نے اپنے خون کی گہری لکیرسے اسے فی الحال روک دیاہے۔
٭12۔یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ حماس کے حملے سے قبل لبنان پر”حزب اللہ”پرحملے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور اس یلغارمیں اسرائیل کوامریکی شہہ پرمصراورسعودی عرب سمیت دیگرعرب ممالک کی تائیدحاصل کرنے کیلئے مذاکرات آخری مراحل میں تھے۔حزب اللہ کوختم کرنے کے بعدحماس کوختم کرنے کاپلان ترتیب دیاگیاتھا جس میں پہلادور ”حماس”کو گلاگھونٹ کرمارنا طے پایاتھااوردوسرے مرحلے میں جنگی طاقت سے بے دخل کرنے کاپلان ترتیب دیاگیاتھا۔
٭13۔چین کی مددسے ایران اوریمن میں جاری جنگ بندی کے بعدامریکا،اس کے اتحادی اوراسرائیل کواپنے مستقبل کے منصوبے میں ناکامی اور تاخیربرداشت نہ ہوئی جس کیلئے فوری طورپرخطے میں پلان ”بی”پرعملدرآمدشروع کردیاگیالیکن تاہم وہ اپنے منصوبے کی کامیابی سے واقف ہیں کہ سعودی عرب اورایران میں تصادم ہویازبانی جنگ جاری رہے، دونوں صورتوں میں خطہ، عدم استحکام اورنفرتوں کی آماجگاہ بنارہے گا۔اس صورتحال کابڑاگہرااثرپوری مسلم دنیاپرپڑھ رہاہے جس کی بناپرپوری امت مسلمہ عدم استحکام اورنفرتوں کی زہرناک فضاکاشکارہوچکی ہے۔
٭14۔ایران بھی ساسانی سلطنت کے خاتمے کے بعدپہلی بارعروج کے ایسے زینے کواپنے سامنے دیکھ رہاہے جواس کیلئے حالات نیاورخوداس کی حکمت کاری نے ممکن بنادیاہے ۔ مشرق میں زاہدان سے لیکر،مغرب میں بیروت تک،دمشق سے لیکریمن کے ساحلوں تک اس کووسیع و کشادہ عمل داری مل رہی ہے۔مسلم تاریخ میں ایساپہلی بارہورہاہے۔ خودبغداد پرکسی شیعہ حکومت کاقیام اب سے پہلے کبھی ممکن نہیں ہواتھا۔یہ صورتحال مسلمانوں کے سوادِاعظم(سنی دنیا)کیلئے ہضم کرناسہل نہیں۔ اسی لئے اہلِ مغرب اس ذہنی ونفسیاتی و جذباتی تقسیم کواپنے مقاصدکیلئے استعمال کررہے ہیں۔امریکااورایران میں غالباکوئی باقاعدہ مفاہمت نہیں ہے مگرسوئے اتفاق سے دونوں قوتیں،تاریخ کے ایک ہی صفحے پرآکھڑی ہوئی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈپلومیسی میں بہرحال اہلِ فارس بہت آگے ہیں۔اس کی شہادت آئے دن کے حالات وواقعات دے رہے ہیں جہاں پہلی مرتبہ ایران کی سب سے بڑی مذہبی طاقت کے سرخیل نے سنیوں کے ساتھ مکمل اتحادکافتوی جاری کرکے تمام شیعہ قوتوں کواحترام کادرس دیاہے۔
٭15۔خطے میں مسلمانوں کے اتحادکوپارہ پارہ کرنے والی قوتوں نے خطے میں بادشاہتوں کوخوفزدہ کرنے کیلئے سوشل میڈیاکے محاذپربڑی تیزی کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کوپھیلانا شروع کردیاہے کہ سعودی عرب کے حکمراں خاندان میں اِن دنوں جوٹوٹ پھوٹ اورمحلاتی کشمکش جاری ہے،اس سے ملک اورحکمراں طبقے کاداخلی استحکام بری طرح متاثرہورہا ہے اورآلِ سعودکی حکومت جواب تک باہمی اتفاق واتحادکے پائے پرکھڑی تھی،اب ڈانواں ڈول ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔یادرکھیں!اگریہ پایہ کمزورہوگاتوخطے میں اتحاد و اتفاق کاپورامحل ضعف و انہدام کے خطروں سے دوچارہوجائے گا۔ ایسے میں استعماری قوتوں کیلئے اپنے من مانے فیصلے کروانامزیدآسان ہوجائے گا جس کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے آلِ سعود کوان حالات سے بچایاجائے جومغلوں کی حکومت کے آخری سوسالوں میں فرنگیوں نے کیاتھاکہ وہ جب چاہتے توولی عہداور بادشاہ تبدیل کردیتے تھے۔
٭16۔دوعشروں سے،مغرب کی دانش گاہوں اورپالیسی سازی کے مراکزمیں دومسلم اقوام سے ہمدردی کامروڑاٹھ رہاہے۔وہ کہتے ہیں کہ دوقومیں ایسی ہیں،جنہیں ممالک دستیاب نہیں حالانکہ وہ اپنے لیے،الگ الگ ریاستیں بنانے کاپورااستحقاق رکھتی ہیں۔یہ دومسلم قومیںکرداوربلوچ ہیں۔ایک طرف کردستان کی پیدائش کیلئے زمین ہموارکی جارہی ہے تودوسری طرف بلوچستان کیلئے جوڑتوڑزوروں پرہے۔پہلے مشن کیلئے،اسرائیل کواسائنمنٹ دیاگیاہے،اوردوسرے کی ذمہ داری بھارت کے سپردکی گئی ہے۔ بیک وقت دونوں پرکام جاری ہے لیکن زیادہ تیزی کردستان کے معاملے میں دکھائی جارہی ہے۔جس کے نتیجہ میں ترکی، شام،عراق،ایران بری طرح متاثرہوں گے جبکہ گریٹربلوچستان کے مشن کاہدف پاکستان،ایران اورافغانستان کو”کٹ ٹوسائز”کرنا ہے جس کیلئے امریکاکاتھنک ٹینک خطے کانیانقشہ بھی جاری کرچکاہے اوراب تک خطے کی ٹوٹ پھوٹ کے جاری کردہ سارے پلان اورتاریخیں بری طرح ان کے مکارانہ عمل کے چہرے پرایک بھرپورطمانچہ بھی رسیدکرچکی ہیں جس کے بعدانہی اداروں سے آوازیں اٹھناشروع ہوگئی ہیں کہ ہمارے اس پلان میں فی الحال سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج ہے۔
٭17۔سعودی عرب،اپنے اثاثے بیچنے کااعلان کرچکاہے۔اپنے بجٹ کے خسارے پورے کرنے کیلئے اپنازرِمحفوظ پہلے ہی استعمال کرنا شروع کر چکاہے۔نیز ایک بہت بڑا پراجیکٹ ”نیوم”کے نام سے اردن،مصراوراسرائیلی سرحدکے قریب شروع کرچکاہے۔ تبوک میں26500/اسکوائر کلومیٹرپرمشتمل یہ ایساسعودی عرب ہوگا،جہاں سعودی عرب کی اقداروروایات اورشرعی قوانین کا داخلہ ممنوع ہوگا۔یہ پراجیکٹ مکمل ہوسکے گا یانہیں،یہ بتانادشوارہے البتہ اس کے نام پرپٹرول کی دولت،پانی کی طرح بہہ رہی ہے اوراپنی تکمیل پریہ مغربی استعماری معیشت کاحصہ بن جائے گا۔
٭18۔بہت اہم بات جاننے اورسمجھنے کی یہ بھی ہے کہ اِستعماری قوتوں نے اپنے میڈیاکے ذریعے یہ واویلاشرع کرناشروع کردیا ہے کہ اس وقت دنیا میں8مسلم ممالک جو”اٹلس” پر نظر آتے ہیں لیکن وہ اپناوجودعملاکھوچکے ہیں اورحقیقت میں”نان ایگزسٹنٹ”اور”ناکام ریاستیں اوروہ ہیں: افغانستان،عراق،شام،لبنان،یمن،لیبیا،صومالیہ اورمالی۔اگر اِس فہرست میں کل کلاں سعودی عرب، ترکی،تیونس، نائیجیریا،الجزائر،پاکستان یاکسی کابھی اضافہ کردیاگیا،تودین وملت کوجوناقابلِ تلافی نقصان ہوگا،اس کاتواندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتالیکن”ون ورلڈآرڈر”کی تکمیل کیلئے اس کوبروئے کارلانے کی پسِ پردہ کوششیں جاری ہیں۔
٭19۔صورتحال پرہم اپنے غصے یافرسٹیشن کااظہارضرورکریں مگراحوالِ جہاں اپنے اِردگِردکے زمینی حقائق اورچاروں طرف پھیلی بارودی سرنگوں کوبھی پیشِ نظررکھیں،اِنہیں ہرگز نظر اندازنہ کریں۔ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ سب سے پہلے تو اپنی شریانوں سے بہتے لہوکوروکیں،اپنے کمروں اورباورچی خانے سے اٹھتے شعلوں کوسردکریں اوراپنے ملکوں کو بطور” پنچنگ بیگ”استعمال نہ ہونے دیں۔آخر اس دعاکے ساتھ ختم کرتاہوں :الٰہی!ہم پر،اپنے کمزوربندوں پراپنے نام لیوابے عمل اوربدعمل مسلمانوں پر،اب رحم فرما،کرم فرما،راہِ نجات دِکھا،اس پر چلنے ہی کی نہیں،چلانے کی بھی صلاحیت وفراست،عزم و ہمت اورسلیقہ وتوفیق عطافرما۔آمین،یا ارحم الرحمین۔