لمحوں نے خطاکی،صدیوں نے سزاپائی

:Share

فلسطینی اپنے وطن کوچھوڑکرنہیں جارہے۔یہ مرحلہ فلسطینیوں کی صہیونی استعمارکے خلاف70سالہ جدوجہدکاحاصل ہے۔تیس سالہ عمارنہ جو سول انجینئربھی ہے،مغربی کنارے کے ایک دیہات فرسان سے تعلق رکھتاہے،عمارنہ اپنے خاندان کے ساتھ کئی برسوں سے ایک غارمیں قیام پذیرہے۔ عمارنہ کے خاندان نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپناگھرتعمیرکرلیں لیکن اسرائیلی فوجی حکام انہیں اجازت دینے کوتیارنہیں۔فرسان سے تعلق رکھنے والا تقریباًہرخاندان اوربیشترفلسطینی انہی مسائل اورحالات کاشکارہیں۔ مغربی کنارے میں قیام پذیریہ بدقسمت خاندان اسرائیل اورفلسطینی تنظیم الفتح کے درمیان1995ءمیں طے پانے والے’’اوسلو معاہدے‘‘کے تحت یہاں آبادہوئے تھے لیکن ان کااب کوئی پرسان حال نہیں۔یہ علاقہ مغربی کنارے کے کل رقبہ کا60فیصدہے،بے شمارقدرتی وسائل سے مالامال ہےلیکن آبادی کے لحاظ سے بہت کم افرادپرمشتمل ہے۔یہ سمجھنازیادہ مشکل نہیں کہ کیوں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہواس علاقے پرمکمل قبضہ چاہتاہے۔صہیونی استعمارکاآغازسے ہی یہ منصوبہ رہاہے کہ فلسطینیوں کومنتشر رکھاجائے،یعنی بہت بڑے رقبے پربہت کم آبادی۔نیتن یاہوکایہ منصوبہ کچھ حصوں پرقانونی اورمتنازع حیثیت کی وجہ سے مؤخر ہے، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل نے مختلف طریقوں اورسازشوں سے فلسطینی آبادی پرقبضہ جاری رکھاہواہے۔اسرائیل کی توسیع پسندانہ اورظالمانہ کارروائیوں میں مسلسل شدت آرہی ہے۔ چندماہ قبل اسرائیل نے مغربی کنارے میں30گھروں کومسمار کردیاہے،اس شرمناک کارروائی کی وجہ سے100سے زیادہ افرادبے گھرہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے مطابق اس علاقے میں اسرائیلی افواج نے غیررہائشی 33عمارتوں کوبھی منہدم کردیاہے۔بدقسمتی سے فرسان اوراس جیسے بہت سے علاقے اسرائیلیوں کے نشانے پرہیں۔

200افرادپرمشتمل ایک اورآبادی کواسرائیلی فوج گزشتہ کئی برسوں سے ہراساں کررہی ہے۔اسرائیل کی خواہش ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے عین وسط میں یہودیوں کولاکر آبادکردے۔29جولائی کواسرائیلی افواج نے فرسان پرحملہ کیااوریہاں کی آبادی کو ڈرادھمکاکرڈیملولیش آرڈرتھما دیا۔ فرسان کے ایک ذمہ دارشخص نے بتایاکہ آغازہی سے اسرائیل کامنصوبہ ہے کہ پوری مسلم آبادی کوختم کردے۔عمارنہ کے خاندان کوبھی بے دخلی کاحکم نامہ دیاگیاہے،جبکہ وہ توکسی باقاعدہ گھر میں رہتے ہی نہیں،غارمیں رہتے ہیں۔عمارنہ کاکہناتھا،اسرائیلی ہمیں غارمیں رہنے سے کیوں کرروک سکتے ہیں۔ غاراورپہاڑوں میں رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے مسکن سے محروم نہیں کیاجاتا۔چلیں یہ ہمیں جانورہی سمجھ کر غار میں رہنے دیں۔عمارنہ کایہ کہنا محض جذباتیت پر مبنی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔اسرائیل اپنے اس منصوبے کیلئےتمام شاطرانہ اورظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کررہاہے تاکہ یہاں کے مسلمانوں کوزبردستی بے دخل کردے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کی تعمیروترقی کوروکنے کیلئے زمین کے ایک بڑے حصے کوازخود ریاستی زمین،سروے لینڈ،فائرنگ زون،نیشنل پارک کادرجہ دے دیاہے۔اسرائیل منظم اندازسے بتدریج اس منصوبے پرکام کررہاہے۔اصل مقصدمقامی مسلمانوں سے زمین چھین کریہاں یہودی آبادکاروں کوبساناہے۔

یہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس سے پہلے نومبر2017ءمیں اسرائیل نے180فلسطینی علاقوں میں سے صرف16علاقوں کوترقیاتی کاموں کی اجازت دی تھی۔2016ء سے2018ءتک1458فلسطینیوں نے تعمیرات کیلئےدرخواست جمع کروائی تھی لیکن ان میں سے صرف21کواجازت دی گئی۔اس غیرحقیقی اورجابرانہ پابندیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس صرف یہی راستہ بچاہے کہ وہ اجازت حاصل کیے بغیرتعمیرات شروع کردیں۔بہت سے خاندانوں کے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے عمارنہ کی طرح متبادل طریقے کواختیارکیااورپہاڑوں اورغاروں کارخ کیا۔یہ صورتحال خاص طورپرنابلس اور الخلیل کے علاقوں کی ہے۔نابلس کے مضافات میں واقع مغربی پہاڑوں میں جابجاخالی گھروں،منہدم مکانات اورنامکمل گھروں کودیکھاجا سکتا ہے۔یہ سارے مناظر اسرائیلی افواج اورفلسطینی مجاہدین کے درمیان جاری جنگ کی خبردے رہے ہیں۔عمارنہ اوراس طرح کے بے شمارخاندان جو استقامت اور عزیمت کے ساتھ حالات کامقابلہ کررہے ہیں،جنہوں نے تاریک غاروں کو اپنامستقربنالیاہے،انسانی برادری سے بنیادی انسانی حقوق اورانصاف کاتقاضا کر رہے ہیں۔

اسرائیلیوں اورفلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے تنازع یاقضیے کوکچھ لوگ سوسال پہلے کے بالفور ڈیکلیریشن سے جوڑتے ہیں۔بعض کے نزدیک یہ اعلامیہ اچھاتھااوربعض کے نزدیک بہت ہی بُرا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 1947 ءمیں اسرائیل کے قیام کے اعلان نے معاملات کوخرابی کی منزل میں داخل کیا۔غالب امکان یہ ہے کہ مستقبل میں جب ہم ماضی پرنظردوڑائیں گے توٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے اوروہاں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا اعلان ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ دکھائی دے گاجوبعدازاں عرب ملکوں کااسرائیل کوتسلیم کرنے کاسبب بنا۔

ٹرمپ کے اعلان کاجائزہ لینے اورپھراس کاتجزیہ کرنے سے قبل ہمیں دیکھناہوگاکہ اسرائیل اورفلسطین کے درمیان نفرت کا موجود دور،جو30سال قبل پیداہوا،دراصل کن حالات کی پیداوارہے۔9دسمبر1987ءکواسرائیل کی ایک فوجی جیپ نے غزہ کی پٹی میں چارفلسطینیوں کوکچل ڈالاتھا۔ تب فلسطینی اپنے علاقوں پراسرائیل کے قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔بھرپورعوامی مزاحمتی تحریک نے جنم لیاجوکسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے۔

اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ یہ عوامی تحریک مجموعی طورپرغیرمنظم ہونے کے باعث یہ اب تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے مگرفلسطینیوں کی اکثریت نے ثابت کیاہے کہ انہیں اسرائیل سے شدید نفرت ہے اوروہ اپنے وطن کوآزادکرائے بغیرکسی طورچین سے نہیں بیٹھیں گے ۔1988ءمیں تنظیم آزادیٔ فلسطین نے غیرمعمولی ہمت کامظاہرہ کرتے ہوئے الگ،آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کااعلان کیااوراس منزل تک پہنچنے کیلئے جوکچھ بھی کرنالازم ہووہ کرگزرنے کاعزم ظاہرکیا۔یہ بات البتہ قابل ذکرہے کہ انتہائی جذباتی اندازسےکیے جانے والے اس اعلامیے میں تنظیم آزادیٔ فلسطین نے1947ءمیں گنوائی جانے والی زمینوں کے مقابلے میں صرف بیس فیصدارض مقدس یعنی غزہ کی پٹی اورغرب اردن پر اکتفاکرتے ہوئے کسی بھی شکل میں فلسطینی ریاست قبول کرنے کااعلان کیا۔

1987ءسے پہلے تک فلسطینیوں کی اکثریت آزادی کیلئے جوکچھ بھی کرتی تھی وہ انفرادی سطح پرکی جانے والی کوشش کے سواکچھ نہ ہوتاتھا ۔ 1987ءکی تحریک’’انتفاضہ‘‘نے پہلی بارفلسطینیوں کوحقیقت پسندی کی طرف مائل کیالیکن اب جس تیزی سے اپنوں کے بے وفائی کی وجہ سے کے ساتھ حالات نے پلٹاکھایاتولگتاہے کہ “لمحوں نے خطاکی،صدیوں نے سزاپائی”کے مصداق خطے کے حالات ایک انتہائی خطرناک موڑپرپہنچ چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں