مدھیہ پردیش کے شہر ستنا میں انتہا پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے کارکنوں نے پولیس کی حراست میں۳۲پادریوں اور دیگر عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی گاڑیاں بھی جلا دیں اوربعدازاں تمام عیسائیوں پر جبری مذہب تبدیل کرانے کا مقدمہ درج کر کےانہیں لاک اپ کردیااور کسی نے حملہ آوروں کوہاتھ تک نہیں لگایا۔ اسی دوران ہندو جاگرن منچ نے علی گڑھ کے کرسچین اسکولوں کو خبردار کیا کہ اگر اس کے طلبہ نے کوئی مذہبی تہوار منانے کی کوشش کی تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے۔اتر پردیش کے کئی دوسرے شہروں سے بھی ایسی ہی دھمکیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ایک مقامی ہندوکے مطابق میرا گھرانہ بھی کرسمس کی خوشیوں میں عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہےمگر اب ماحول کچھ ایساہوگیا ہے کہ کسی کو میری کرسمس کہنا بھی انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت بھر میں مذہبی بنیاد پر عدم برداشت اس قدر بڑھ رہا ہے کہ کرسمس کاگانا اور کرسمس کا کیک کاٹنا بھی انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ ایسے ماحول میں مذہبی رواداری کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ میں نے اب عیسائیوں سے کسی بھی قسم کی یکجہتی کے اظہاراور کرسمس میں شرکت سے توبہ کرلی ہے۔
بھارت اب اپنی مسلم اور عیسائی دونوں اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ تر ہوتا جارہا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں دی ورلڈ واچ لسٹ نے بھارت کواقلیتوں کیلئے پندرواں خطرناک ترین ملک قراردیاہے۔ چار سال قبل بھارت اکتیسویں نمبر پر تھا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں سے کیساسلوک روارکھاجارہاہے۔ مسلمانوں پرایک طرف تو انتہاپسند ہندوحملے کررہے ہیں اوردوسری طرف پولیس ان کی ٹارگٹ کلنگ کررہی ہے۔عیسائیوں پر بھی گرجوں اور اجتماعی دعا کی تقریبات میں حملے کیے جارہے ہیں۔ پادریوں اور راہباؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دی یونائٹیڈ کرسچین فورم نے۲۰۱۷ءمیں عیسائیوں پر۲۱۶حملے رپورٹ کیے ہیں۔ پولیس نے ان میں سے صرف ایک چوتھائی واقعات کی رپورٹ درج کی۔گرفتار کیے جانے والے حملہ آوروں کی تعداد برائے نام ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد حملے چھتیس گڑھ، تامل ناڈو، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں ہوئے۔ کرسچین کمیونٹی کے معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ ملازمت کے مواقع چھیننے کے ساتھ ساتھ انہیں پانی اور بجلی تک رسائی سے بھی روکا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اورسنگھ پریوارکے دیگرانتہاپسند ہندوگروپ ایک زمانے سے پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ بھارت کے طول وعرض میں نچلی ذات کے،معاشی طورپرکچلے ہوئے ہندوؤں اورآدی واسیوں کودولت کے بل پرعیسائی بنایا جارہا ہے۔ اس پروپیگنڈے نے ایک امن پسند کمیونٹی کے خلاف شدید نفرت ابھارنے میں کلیدی کرداراداکیاہے اور اس کانتیجہ گرجوں،دعائیہ تقریبات اورمزارات وغیرہ پرحملوں کی شکل میں برآمدہواہے۔
گلوبل ہندو ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے امریکی ریاست ٹیکساس میں ۲۰۱۵ء میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس کے مندرجات ملاحظہ فرمائیے: ’’بھارت میں صرف عیسائی ہی نہیں ،بہت سے ہندوبھی عیسائیت کے بارے میں جانے اورسوچے بغیر کرسمس مناتے ہیں۔انہیں معلوم ہی نہیں کہ عیسائیت کیاہے، یہ بت پرستی کے بارے میں کیا کہتی ہے، اس نے کتنی تہذیبوں کوبربادی سے دوچارکیاہے، کتنے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرکے انہیں اپنے ہی مذہب کے مخالف کھڑاکردیاہے اور یہ کہ ہندوؤں کوعیسائی بنانے کیلئے کہاں کہاں سے فنڈ آرہے ہیں۔عیسائیوں میں یہ عقیدہ پایاجاتاہے کہ یسوع مسیح نے انہیں دھوکادینے، مذہب تبدیل کرانے،کسی بھی قوم پر چڑھ دوڑنے اور اسے فتح کرنے کے بعد تباہی سے دوچار کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کا عمل بہت تیز ہے۔ وہاں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کے بعد ہندو ازم کے خلاف کھڑا کردیا جاتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے بتوں کو توڑنے اور ان کی تصاویر پھاڑنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آندھرا پردیش کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ دیہات میں رہنے والے کم وبیش۳۰ فیصد ہندوعیسائیت قبول کرچکے ہیں۔‘‘
اِسے کہتے ہیں چور مچائے شور۔ اس پروپیگنڈے کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت میں کئی عشروں کے دوران عیسائیوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کے ڈھائی فیصد سے زائد نہیں ہوسکی ہے۔ اگر بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب کا معاملہ ہوتا اور ہندو نمایاں تعداد میں عیسائیت قبول کر رہے ہوتے تو اعداد و شمارکی شکل میں اس کااثرضرورظاہرہوتا۔اس حقیقت کوبھی نظراندازنہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی سرزمین پرعیسائی یورپ میں عیسائیت کے پھیلنے سے ایک ہزارسال پہلے آئے تھے اور یہاں برطانوی راج کی صدیوں کے دوران بھی رہے۔ اتنی طویل مدت کے دوران جب عیسائیوں کی تعدادمیں غیرمعمولی اضافہ نہ ہو سکا تواب ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون کہتے ہیں کہ انتہاپسند ہندوعیسائیوں اوردیگراقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈااس لیے کررہے ہیں کہ وہ بھارت کوخالصتاً ہندوریاست قرار دلانے کیلئے سرگرم ہیں۔ اس نکتے پربھی زور دیاجارہا ہے کہ ماضی میں مذہب تبدیل کرنے کے تمام واقعات زبردستی،لالچ یاخوف کانتیجہ تھےاور سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقبل میں مذہب کی تبدیلی کے واقعات کم سے کم ہوں۔ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے مچایا جانے والا شور بلاجواز اور ہندتوا کے فروغ کی علامت ہے۔ بھارت بھر میں انتہا پسند اس امر کیلئے کوشاں ہیں کہ بھارت کو خالص ہندو ریاست قراردیاجائے اوردیگرتمام مذاہب کیلئے شدیدعدم برداشت کی فضاپروان چڑھائی جائے۔انتہاپسند ہندو چاہتے ہیں کہ ہندودیگرمذاہب کی طرف نہ جائیں یعنی مذہب تبدیل نہ کریں اوراس سے ایک قدم آگے جاکردیگرمذاہب کوبرداشت کرنے کارویہ بھی ترک کریں۔ یہ سب کچھ ہوگا تب ہی ہندتواکے ایجنڈے کی تکمیل ہو گی۔ راجیو دھون مزید کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت، آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینزاوران کے بچوں کابہیمانہ قتل اوراسی نوعیت کے دیگرواقعات خوف کی ایسی فضاپیداکرنے کی کوشش ہیں،جس میں بھارتی سرزمین پردیگرمذاہب کے پنپنے کی گنجائش کم سے کم رہ جائے اورعام ہندوکسی بھی مذہب کوقبول کرتے وقت شدید خوف میں مبتلا ہوں۔ ساتھ ساتھ اقلیتوں کو ڈرانے،دھمکانے کیلئے قانونی طریقوں کابھی سہارالیاجارہاہے۔ایسے قوانین تیار کیے جارہے ہیں، جن کی مددسے مذہب کی تبدیلی کوئی آسان عمل نہ رہے گی۔
مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے ہمارے ہاں بحث اتنی تلخ ہوچکی ہے کہ یہ بنیادی حقیقت بھی نظراندازکردی گئی ہے کہ آئین نے ہر شہری کواپنے مذہب پر عمل ہی کا نہیں بلکہ اس کی تبلیغ کاحق بھی دیا ہے۔ راجیو دھون کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے بھارت مذہب تبدیل کرنے والوں کاملک ہے۔ بھارت کے اصل باشندوں نے جین ازم کوقبول کیا۔ پھربدھ ازم کی باری آئی۔ اس کے بعد اسلام اور عیسائیت نے سیٹ سنبھالی۔ اس پورے عمل نے بھارت کو منفرد حیثیت عطا کی ہے۔ آج بھارت کا مسلم یا عیسائی محض مسلم یا عیسائی ہے، سابق ہندو نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اسے پولیس سے رابطہ کرنے یا کسی مجسٹریٹ کی نگرانی میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس معاملے میں قانون بھی کچھ نہیں کرسکتا۔بھارت کاآئین ہر شخص کو کسی بھی مذہب سے وابستہ ہونے کا حق دیتا ہے۔آئین ساز اسمبلی میں ایم رتنا سوامی نے آرٹیکل ۲۵ میں لفظ ’’پروپیگیٹ‘‘شامل کرنے کی بھی تجویز پیش کی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ کسی بھی شخص کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت اپنے مذہب کی بھرپور تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا۔
انتہاپسندگروپوں کی سرپرست تنظیم سنگھ پریوارنے شورمچارکھاہے کہ ہندوؤں کودولت اورخوف کی بنیادپردوسرے مذاہب کی طرف دھکیلاجارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذہب تبدیل کرنے کابنیادی آئینی حق چھین لیاجائے۔کئی ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قوانین لائے گئے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے یعنی ہندوؤں کو دیگر مذاہب کی طرف جانے سے روکا جائے۔ اس مقصدکاحصول یقینی بنانے کیلئے ڈرانے،دھمکانے سے بھی گریزنہیں کیا جا رہا۔ مذہب کی تبدیلی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین آئین سے براہِ راست متصادم ہیں۔ ایسے قوانین ان ریاستوں میں اپنائے گئے ہیں جہاں کانگریس کی حکومت نہیں۔ کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں گائے کے ذبیحے پر پابندی اور اسی نوعیت کے دیگر قوانین لائے گئے ہیں جبکہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہرلعل نہروایسے قوانین کے سخت مخالف تھے۔اڑیسہ نے۱۹۶۷ء میں سوتنترپارٹی کی حکومت کے تحت مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظورکیا۔ اگلے ہی سال مدھیہ پردیش میں ایک ایسی مخلوط حکومت نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظورکیاجس میں جن سنگھ بھی شامل تھی۔ جن سنگھ ہی بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں تبدیل ہوئی۔ بی جے پی کے تحت گجرات میں ۲۰۰۳ء اورچھتیس گڑھ میں ۲۰۰۶ء میں مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قانون لایاگیا۔ تامل ناڈومیں جیہ للتا کی حکومت نے۲۰۰۲ء میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظورکیا تاہم دوہی سال بعداس میں ترمیم کردی۔ کانگریس کے تحت مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظورکرنے والی واحداسمبلی ہماچل پردیش کی ہے،جس نے یہ’’کارنامہ‘‘۲۰۰۶ء میں انجام دیا۔ ۲۰۰۶ءمیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں راجستھان اسمبلی نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظورکیامگرگورنر نے اس پردستخط کرنے سے انکارکردیا۔ ۱۹۷۸ءمیں اروناچل پردیش میں پیپلز پارٹی آف اروناچل پردیش کی حکومت نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تاہم یہ کبھی نافذ نہیں کیا جاسکا۔ ۲۰۱۷ء میں جھاڑکھنڈمیں بی جے پی کی حکومت کی تحت اسمبلی نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا ہے۔
مذہب کی تبدیلی کے خلاف قوانین بہت سی ریاستوں میں نافذ ہیں تاہم ان ریاستوں میں اس حوالے سے زیادہ سرگرم activismدکھائی دیتی ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس قانون کے تحت کسی کومجرم قراردینے کاعمل توخال خال دکھائی دیتا ہے تاہم ہرماہ چندایک مقدمات ضروردرج کیے جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جولوگ مذہب تبدیل کریں اورکرائیں انہیں ایک خاص قانونی عمل کے ذریعے سزادی جائے تاکہ ایساکرنے کاارادہ رکھنے والے دوسرے پریشان ہوں اوربازرہیں۔ اس وقت اقلیتوں کے خلاف جوفضا پائی جارہی ہے، اس میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق قوانین کومحض اس لیے بروئے کارلایا جارہاہے کہ عیسائی برادری کوزیادہ سے زیادہ خوفزدہ کیاجائے،تبلیغی سرگرمیوں سے روکاجائے اورجہاں تک ممکن ہو،مذہب کی تبدیلی کی طرف مائل ہونے والوں کی راہ مسدود کی جائے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ شدید خوف کی فضا میں کوئی بھی مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں نہ سوچے یعنی کوئی بھی ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف نہ جائے۔ ہاں،کوئی ہندوازم کی طرف آتا ہے توکوئی بات نہیں۔ مذہب کی تبدیلی سے متعلق قوانین کابنیادی مقصد عیسائی برادری کے خلاف زیادہ سے زیادہ مقدمات قائم کرکے انہیں پریشان اور ہراساں کرنا ہے۔ گزشتہ اگست میں جھاڑ کھنڈکی حکومت نے اخبارات میں مکمل صفحے کاایک اشتہارشائع کیا،جس میں وزیراعلیٰ کاپیغام بھی شامل تھا۔اس اشتہار میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق گاندھی جی کاایک بیان غلط سیاق وسباق میں پیش کیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں تین مواقع پرمدھیہ پردیش میں ریلوے پولیس نے کرسچین کیمپس میں جانے والے عیسائی بچوں کو محض اس خدشے کی بنیاد پر حراست میں لیا کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے کیلئے لے جایا جارہا ہے۔ ۲۲؍اور ۲۳ مئی کو ناگپور کے بائبل سمر کیمپ میں شرکت کیلئے جانے والے ۷۳ عیسائی بچوں کو ان کے نگرانوں سمیت تحویل میں لیاگیا۔ ۳جون کوستناریلوے اسٹیشن پرایک راہبہ اورچارلڑکیوں کوتحویل میں لیا گیا۔۲۱؍اکتوبرکوسات بچوں اوران کے دونگرانوں کوتحویل میں لیاگیااوربچوںکوان کےوالدین سےبھی ملنےنہیں دیاگیا۔
سنگھ پریوار کہتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت دونوں ہی بیرونی مذاہب ہیں اور ان کے ماننے والوں کیلئے لازم ہے کہ ہندو ازم اور بھارت دونوں کیلئے وفاداری ثابت کریں۔ سنگھ پریوار کے نزدیک ہندو ازم اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دوسری طرف گاندھی جی کا کہنا تھا کہ اسلام اور عیسائیت بھی اُتنے ہی بھارتی مذاہب ہیں، جتنے ہندوازم، جین ازم، بدھ ازم اور سکھ ازم ہیں۔ہم ہولی، دیوالی اورگرو پورب کی طرح کرسمس اورعید بھی مناتے آئے ہیں۔ تمام مذاہب کااحترام ایک قابل قدرجذبہ ہے۔یہ میراحق ہے اورمجھ سے یہ کسی طور برداشت نہ ہوگاکہ کوئی مجھ سے میراحق چھینے۔
Load/Hide Comments