واشنگٹن ڈی سی امریکا کی ایک عدالت میں 106 صفحات پر مشتمل درخواست جمع کروائی گئی ہے۔ دستاویزات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے سعودی خفیہ ایجنسی کے سابق عہدیدار کو قتل کرنے کے لیے لوگ بھجوائے تھے۔ دستاویزات کے مطابق سعد الجبری کو قتل کرنے کا ناکام منصوبہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تھوڑے ہی عرصے بعد کا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں جو ٹائیگر سکواڈ ملوث تھا اسی کے کچھ ارکان سعد الجبری کے قتل کے لیے بھیجے گئے تھے۔ خیال رہے کہ جمال خاشقجی کو 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں مار دیا گیا تھا۔ جبری سعودی حکومت کے سابق عہدیدار تھے اور وہ تین سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ دستاویزات کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کینیڈین سرحد پر موجود ایجنٹس کا شبہ بنی کیونکہ سعد جبری کے قتل کا منصوبہ بنانے والے سکواڈ نے ٹورنٹو پیرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آنے کی کوشش کی تھی۔ الجبری جن کی عمر 61 برس ہے کئی سالوں تک سعودی عرب میں برطانیہ کی ایم آئی سکس اوردیگر مغربی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے میں رہنے والی اہم شخصیت رہے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق کچھ جگہوں پر ڈاکٹر سعد الجبری کے ذہن اور حافظہ سے کہیں زیادہ مدعا علیہ، محمد بن سلمان کے بارے میں حساس، ذلت انگیز اور تنقیدی معلومات ہیں۔ ماسوائے شاید اس ریکارڈنگ کے جو ڈاکٹر سعد نے اپنے قتل کی پیش گوئی کے حوالے سے کی۔ یہ وجہ ہے کہ محمد بن سلمان ان کی موت چاہتے تھے اور وہ گذشتہ تین برسوں سے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔2017میں سعد الجبری براستہ ترکی کینیڈا فرار ہو گئے۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے بہت کوششیں کیں کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے سعد الجبری کو نجی طور پر پیغامات بھی بھجوائے جب میں ایک یہ تھا “ہم یقیناً تم تک پہنچ جائیں گے”۔
الجبری کہتے ہیں کہ پھر خاشقجی کے قتل کے دو ہفتوں سے بھی کم کا وقت بیتا تھا کہ ٹائیگر سکواڈ انہیں قتل کرنے کے ارادے سے کینیڈا روانہ ہوا۔ عدالت میں دائر دستاویز کے مطابق اس گروہ میں و ہ شخص بھی شامل تھا جس پر الزام ہے کہ اس نے خاشقجی کی کھال اتاری تھی۔ اس نے فرانزک کے لیے استعمال ہونے والے آلات کے دو تھیلے اٹھا رکھے تھے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ کینیڈا کے سرحدی ایجنٹس کو بہت جلد ہی اس گروہ کے بارے میں شبہ ہوا اور ان افراد سے گفتگو کرنے کے بعد ان افراد کو کینیڈا میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے سکواڈ کو شمالی امریکا بھجوایا تھا تاکہ ڈاکٹر سعد الجبری کو مارا جائے۔ الجبری محمد بن سلمان پر الزام عائد کرتے ہیں انہوں نے ماورائے عدالت قتل کرنے کی کوشش کی اور وہ بین الاقوامی قانون اور امریکا میں تشدد کا شکار ہونے والوں کی حفاظت سے متعلق ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ردعمل جاننے کے لیے جب سعودی عرب کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔
کینیڈا کے وفاقی وزیر برائے عوامی تحفظ بل بلئیر کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر اس کیس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے تاہم انہوں نے یہ بتایا کہ حکومت ان واقعات کے بارے میں آگاہ ہے جن میں غیر ملکی افراد نے کینیڈین افراد اور وہاں رہنے والے دیگر لوگوں کو دھمکی دینے، خوفزدہ کرنے یا ان کی نگرانی کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور ہم کبھی بھی غیر ملکی عناصر کو کینیڈا کی قومی سلامی اور ہمارے شہریوں اور یہاں بسنے والوں کو دھمکانے کے اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے۔ کینیڈین وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملک کے مکینوں کو اعتماد ہونا چاہیے کہ ان کی سکیورٹی ایجنسیاں اتنی صلاحیت رکھتی ہیں کہ اس قسم کے خطرات کا پتہ لگا سکیں اور ان کی تحقیقات کر سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم کینیڈین شہری اور باہر سے آکر اس سرزمین پر بسنے والوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے اور ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کسی اس قسم کے خطرات کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے حکام اداروں کو آگاہ کریں۔ بین الاقوامی میڈیانےمئی میں الجبری کے بیٹے کے ھوالے سے خبر دی تھی کہ ان کے بہن بھائیوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
سعد الجبری کئی برس تک محمد بن نائف کے دست راست رہے۔ انہیں 2000 کے عرصے میں القاعدہ کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو شکست دینے کا کریڈٹ دیاجاتا ہے۔ سعد الجبری سعودی عرب کے’فائیو آئیز (امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ) کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات کا مرکز بھی تھے انہیں خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ سعودی تعلقات کے حوالے سے کلیدی کردار کی حیثیت حاصل تھی۔ کئی سالوں تک سعد جبری کو شہزادہ محمد بن نائف کا قریبی ترین ساتھی مانا جاتا تھا۔ محمد بن نائف سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور القاعدہ کو ملک میں شکست دینے کے ذمے دار مانے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک سابق مغربی انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کردار 2010 میں سینکڑوں جانیں بچانے میں انتہائی اہم تھا۔ یمن میں القاعدہ نے ایک انتہائی طاقتور بم پرنٹر انک کارٹیریج کے اندر چھپا کر امریکی شہر شکاگو جانے والے ایک کارگو طیارے میں پہنچا دیا تھا۔ مگر سعودی انٹیلی جنس کا ایک جاسوس القاعدہ کے اندر موجود تھا جس نے مخبری کر دی اور سعودی حکام نے یہ معلومات ایم آئی 6 کو دیں یہاں تک کہ یہ بھی بتا دیا کہ کس ڈبے میں بم ہے۔ برطانوی انسدادِ دہشتگردی پولیس نے پھر ایک برطانوی ہوائی اڈے پر اس بم کو ناکارہ بنا دیا۔ اگر وہ بم شکاگو جا کر پھٹتا تو سینکڑوں لوگ مر جاتے۔ ایک اور مغربی انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر الجبری نے سعودی انسدادِ دہشتگردی کاوشوں کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اسے تشدد کے ذریعے اقبالِ جرم پر مبنی پیشے سے بدل کر جدید فورینزکس اور کمپیوٹر کی مدد سے ڈیٹا مائننگ پر منحصر بنا دیا تھا۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والوں میں وہاں بہت سے لوگ ٹھیک نہیں تھے مگر ڈاکٹر الجبری وہاں پر سمجھدار ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
خاموش طبیعت کے حامل جبری نے یونیٹورسٹی آف ایڈنبرا سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ کابینہ کے وزیر اور میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے لیکن 2015میں سب کچھ بدل گیا۔ شاہ عبد اللہ وفات پا گئے اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ سلمان نے تخت سنبھال لیا۔ شاہ سلمان نے اپنے نوجوان ناتجربہ کار بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کووزیردفاع بنادیا۔اس کے بعد محمد بن سلمان نے سعودی فورسز کو یمن میں جانے کے لیے کہا اور اس اقدام کی ڈاکٹر الجبری نے شدیدمخالفت کی۔ آج پانچ سال بعد بھی سعودی عرب یمن سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔2017میں اپنے والد کی حمایت کے ساتھ محمد بن سلمان نے ملک میں طاقتور شخصیات کو پکڑ لیا اور ولی عہد محمد بن نائف کی جگہ لے لی۔ آج محمد بن نائف گرفتار ہیں، ان کے اثاثے منجمد ہیں اور ان کے لیے کام کرنے والوں کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر الجبری کینیڈا بھاگ گئےمگر مغربی انٹیلیجنس کے سابقہ حکام سمجھتے ہیں کہ محمد بن سلمان ابھی بھی اُن کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
مغربی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ کئی سالوں تک سعودی عرب میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 اور دیگر مغربی جاسوس ایجنسیوں کے درمیان پیغامات کا تبادلہ کرنے والے ایک اعلیٰ سعودی اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ کو سعودی حکام نشانہ بنا رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں القاعدہ کا ایک بڑا بم حملہ ناکام بنانے میں مدد کرنے والے ڈاکٹر سعد جبری تین سال قبل کینیڈا فرار ہوگئے تھے۔ یہ ملک کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب میں طاقتور شخصیات کے خلاف آپریشن سے قبل تھا۔ اب ڈاکٹر جبری کے سب سے بڑے بیٹے کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر جبری کے بچوں کو سعودی حکام نے یرغمال بنا لیا ہے۔ خالد جبری کا کہنا ہے کہ 21 سالہ عمر اور 20 سالہ سارہ کو 16 مارچ کو اغوا کیا گیا تھا۔ انہیں علی الصبح 20 گاڑیوں میں 50 سیکیورٹی اہلکار ان کے بستروں سے نکال کر لے گئے تھے۔ اس کے بعد ریاض میں ان کے گھر کی مکمل تلاشی لی گئی، کیمروں کے میموری کارڈ نکالے گئے، اور دونوں بہن بھائی کو ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا۔ ان کے بھائی اور بہن کے خلاف کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی اور ان کے گھر والوں کو گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں دی گئی۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ خالد جبری کا ماننا ہے کہ ان کے بھائی اور بہن کو اس لیے پکڑا گیا ہے تاکہ ان کے والد کو اس بات پر مجبور کیا جا سکے کہ وہ واپس سعودی عرب آئیں جہاں انہیں فوراً گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے گا۔خالد کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے بارے میں جومرضی جھوٹ بنا سکتے ہیں مگر وہ بے قصور ہیں۔ہمیں اس میں دھکیلا گیا۔ہم محبِ وطن ہیں۔ ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ ہم سعودی عرب کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے مگر عمر اور سارہ کو اس طرح اغوا کرنا کھلی غنڈہ گردی ہے۔ خالدجبری کامزیدکہناہے کہ اشارے موجود ہیں کہ ڈاکٹر سعد کو طرح طرح کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور (کینیڈین) حکام اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام سے کسی غیر جانبدار مقام پر ملنے کی ان کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور اب انہوں نے عوام کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے۔یقیناًآنے والےوقت میں ایم بی ایس کے ستارے گردش میں نظرآرہے ہیں۔