آج اس مقروض پاکستان کاہربے بس اورمجبورشہری یہ پوچھنے پرمجبورہوگیاہے کہ وہ جوپیٹ کاٹ کرکروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کاٹیکس سرسے پیرتک احتساب کرنے والے ادارے ”نیب”نے پاکستان کوکیادیاہے اوراس کے سابقہ سربراہ جاویداقبال جوسپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس بھی رہے ہیں،ہردوسرے دن ٹی وی چینلزپراپنے ادارے اورافرادکی تعریفوں کے قلابے ملاتے ہوئے دم بھرکیلئے سانس بھی نہیں لیتے تھے بلکہ ان کی بیانات سے تویہ ظاہرہوتاتھاکہ ملک میں کی گئی کرپشن،لوٹی ہوئی قومی دولت کودوبارہ قومی خزانے میں جمع کرواکے ارض پاکستان کے باسیوں کیلئے مستقبل کاپاکستان انتہائی قابل تعریف اوردنیاکی نظروں میں قابل تحسین بناکراپنانام کمائیں گے،خودالزامات کی غلیظ پوٹلی اپنے سرپراٹھائے رخصت ہوگئے ہیں۔کیاہماری عدلیہ جس کی آزادی وحرمت کیلئے یہی پاکستانی عوام مہینوں سڑکوں کی نہ صرف خاک چھانتی رہی بلکہ جان ومال کی قربانی دیکراس مقام تک پہنچایا،اس نے نیب کے سابقہ سربراہ کوکیوں ان گھناؤنے الزامات میں طلب نہیں کیایاپھراپناسابقہ”باس یابیلی”سمجھ کرچشم پوشی کے مرتکب ہورہے ہیں؟
یادرہے کہ پچھلے دنوں سینکڑوں پاکستانی عوام سے بھری عدالت میں عالیہ کے ایک معززجج قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں جب سوال پوچھاتوانہیں ماسوائے شرمندگی کے اورکچھ نہ مل سکا۔انصاف کاتقاضہ تویہ تھاکہ اسی وقت تمام موجودجج صاحبان عوام کی طرف سے عدلیہ پرسو فیصدبے اطمینانی کادیکھ کراپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیتے کہ اسی عوام نے ہمیں اس آزادعدلیہ کے اس عظیم منصب پربٹھایاہے اوراگر آج ان کواپنی عدالتوں پر یقین نہیں ہے توہمیں بھی اس منصب پربیٹھنے کاکوئی حق نہیں، لیکن افسوس کہ ایسانہ ہوسکا۔
بات نیب کی کارکردگی کی ہورہی تھی،اس ادارے کے بارے میں عام آدمی کے دامن سے لپٹے سوالات کوچھوڑدیجیے،کم ازکم ان سوالات کا جواب تو دیجیے جوسپریم کورٹ نے مختلف اوقات میں نیب کی کارکردگی،دیانت،شفافیت اوراہلیت کے بارے میں اٹھا رکھے ہیں۔نیب پرقومی خزانے سے اتنی بھاری رقم خرچ ہوتی ہے لیکن اس کی کارکردگی کیاہے؟ جب کسی فردکی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے تواس پرملکی دولت اورقومی خزانے کونقصان پہنچانے والے الزامات کی فہرست پڑھنے کوملتی ہے تویوں محسوس ہوتاہے کہ اس قومی مجرم سے ریکوری کے بعدتوملک کے سارے قرضوں کی ادائیگی ہوجائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس ادارینے آج تک کتنی ریکوری کی؟پلی بار گین کے علاوہ اس نے کچھ کیاہوتوبتا دیں؟ کوئی ایک کیس بتادیں جس میں اس نے ریکوری کی ہو۔یادرہے کہ یہ سوالات میرے نہیں،سپریم کورٹ کے ہیں اورسابق چیف جسٹس جناب گلزاراحمدخان نے دوران سماعت اٹھائے تھے۔
اس سے متصل ضمنی سوالات البتہ یہ ہوسکتے ہیں کہ آج تک نیب پرقومی خزانے سے کتنے اخراجات اٹھے۔ان کے افسران کی تنخواہیں اورمراعات قوم کو کتنے میں پڑتی ہیں اوراس نے کتنی لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کروائی؟اس کی ریکوری اس کے معاوضے اورمراعات سے زیادہ ہے یاکم ہے؟کیاہی اچھاہوتاکہ خودنیب کے سابقہ سربراہ خوداپنی تنخواہ اور مراعات اوراپنے عملے کی تنخواہوں اورمراعات کے بارے میں ایک وائٹ پیپرشائع کرکے قوم کو یہ بتاتے کہ آخراس ادارے نے قوم پرکیاکیا احسانات کئے ہیں یاپھریہ بھی سفید ہاتھی بن کرعوام کواپنے بھاری بھرکم پاؤں تلے کچلنے کاکام سرانجام دیتارہا تاہم اس سے توکوئی بھی انکارنہیں کرسکتاکہ ہرحکومت نے اسے اپنے مخالفین کوسزادینے اورانہیں بدنام کرنے کیلئے اس خوب استعمال کیااوراپنے تمام مقدمات کواسی نیب کے ذریعے ختم کرانے کی سعادت حاصل کرنے یاپھردبیزقالین کے نیچے دباکراپنے اقتدارکی مدت پوری کی ہے۔
دوسراسوال یہ کہ نیب کے قائم کردہ مقدمات میں آج تک کتنے طاقت ورلوگوں کوسزاہوئی؟کیاوجہ ہے کہ شہرت بھی نیب کے مقدمات کوملتی ہے ، میڈیا پر زیادہ شوراسی کے مقدمات کاہوتاہے،قومی سیاسی بیانیہ انہی مقدمات کے گردگھومتاہے لیکن سزانہیں ہو پاتی؟نیت کامعاملہ یااہلیت کا؟یادرہے کہ نیت، اہلیت اورخلوص کاسوال میں نہیں اٹھارہا،یہ سوال سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر صاحب نے اٹھایا تھا۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ نیب کاوہ قانون جس کے تحت یہ ادارہ قائم ہوا،ہمارے آئین سے کس حد تک مطابقت رکھتاہے اورکس حدتک متصادم؟الزام کی بنیادپر ایک آدمی کواٹھالینا اور اس کوضمانت کاحق بھی نہ دیناکیاآئین کی نظرمیں درست قانون سازی ہے؟جس فرد کوان تمام مبینہ جرائم کاذمہ دارسمجھ کر اٹھایاجاتاہے، مہینوں نہیں بلکہ برسوں اسے جیل کی صعوبتوں سے گزارنے کے بعدکچھ ثابت نہ ہونے کے بعداسے جیل سے رہائی صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے کہ وہ اس ادارے کوتحریری طورپریہ اقرارنامہ لکھ کردے کہ وہ اس ادارے کے اس زیادتی پرکسی عدالت کادروازہ نہیں کھٹکھٹائے گا چاہے اس ساری مدت میں اس کاسارا کاروبار،اس کاخاندانی نظام بھلے سے مکمل تباہ ہوجائے۔یاد رہے کہ یہ سوال بھی میرا نہیں۔یہ سوال سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کاہے اوراس کاجواب بھی اسفندیارولی کیس میں سپریم کورٹ دے چکی ہے۔
چوتھا سوال نیب کے قانون اوراس کے طریقہ نفاذکے بارے میں ہے کہ اس ساری مشق کامقصدکیاہے اورنیب کے کرنے کااصل کام کیا ہے؟کرپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرنایاسیاسی انجینیئرنگ کرنا،سیاسی مخالفین کے بازومروڑنا،سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانااورسیاسی جماعتوں کو توڑنا اوربونوں کوچن چن کرجمع کرنا،ان کی سرپرستی کرنااور انہیں اقتدارمیں لانا؟نیزان قوانین اوران کے اطلاق سے نیب نے قانون کی حکمرانی کومستحکم کیایامعاشرے میں افراتفری پیداکی ہے؟یہ سوال بھی میرا نہیں،سپریم کورٹ کاہے، بلکہ سوال کی شکل تومیں نے دی ہے سپریم کورٹ نے توسعدرفیق کیس میں اسے امرواقع کے طورپر بیان کیاہے اوراس بیان کے بعد یہ سوال اٹھایاہے کہ:
ظلم رہے اورامن بھی ہو
کیاممکن ہے تم ہی کہو
پانچواں سوال یہ کہ نیب کرپشن کے ہرملزم پرگرفت کرتی ہے یااس کے ہاں ایک اہتمام موجودہے کہ سیاسی تقسیم کیلئے کھینچی گئی لکیرکے ایک جانب کھڑے لوگوں کی کرپشن کے بڑے بڑے معاملات سے صرف نظرکرلیاجاتاہے اورلکیرکی دوسری جانب کھڑے لوگوں کوگرفتاربھی کرلیاجاتاہے اور انہیں طویل عرصے کیلئے قیدمیں بھی ڈال دیاجاتاہے؟جب تک وہ اپنی وفاداریاں مقتدر حلقوں کے پلڑے میں نہیں ڈال دیتایاپھراپنی پارٹی سے بالکل ختم نہیں کرلیتا،اس وقت تک اس کونیب کے عذاب ناگہانی سے نجات نہیں مل سکتی۔بعض اوقات توخودان کی اپنی فیملی کے افرادان کواس بات پرمجبور کرتے ہیں کہ جان چھڑانے کیلئے نیب کے سامنے دستبردارہونے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہیں۔یادرہے کہ اسی نیب کے حصے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اوردیگر اساتذہ کے ساتھ نارواسلوک بھی ان کے سیاہ کارناموں میں سرفہرست لکھاجاناچاہئے۔کہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سوال میں اٹھا رہا ہوں بلکہ یہ سوال بھی سپریم کورٹ کاہے۔
چھٹاسوال نیب کے قیدیوں کی حالت زارسے متعلق ہے۔برطانوی نوآبادیاتی دورکے بنائے گئے قانون میں گرفتارشخص کیلئے جسمانی ریمانڈ کی کل مدت 15دن تھی لیکن نیب کے قانون میں یہ مدت90دن قراردی گئی(یہ حالیہ ترامیم سے پہلے کی بات ہے،یعنی نیب کسی کوبھی گرفتارکرلیتی ہے اوروہ شخص محض الزام پر 90 دن کیلئے اپنی آزادیوں سے محروم ہو جاتاہے۔ضمانت کا حق تودستیاب نہیں۔یہ حق بھی اعلی عدالتوں نے آئینی درخواست پرایک متبادل کی صورت میں دیا۔نیب گرفتاری پہلے کرلیتی ہے، ریفرنس کاعمل بعدمیں شروع ہوتاہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ نیب لوگوں کوگرفتارکرکے بھول جاتی ہے جیسے صدیق الفاروق کے مقدمے میں پراسیکیوٹرجنرل فاروق آدم نے عدالت کوبتایاکہ ہم نے صدیق الفاروق کوڈمپ کیااورہم انہیں بھول گئے۔اب سوال یہ ہے کہ ریفرنس سے پہلے گرفتاری کی کیا جلدی ہوتی ہے اورریفرنس سے پہلے لوگوں سے ان کی آزادی کیوں چھین لی جاتی ہے؟ مکرر عرض ہے کہ یہ سوال بھی میرا نہیں، سپریم کورٹ کے جسٹس مشرعالم صاحب کاہے۔
ساتواں سوال نیب کی ابتدائی پھرتیوں اوربعدکی تاخیرسے متعلق ہے۔گرفتاری تویہ فوری کرلیتی ہے،اس کے بعداس کاکام سست روی کاشکارہوجاتاہے۔ نیب کے مقدمات میں اتنی تاخیرکیوں ہوتی ہے؟کیایہ ضروری نہیں کہ نیب کسی فردکوگرفتاری سے پہلے اس کے خلاف مقدمے کے تمام شواہدجمع کرکے اسے عدالت کے سامنے رکھے اورعدالت سے اس فردکی گرفتاری کیلئے درخواست کرے لیکن آج تک اس کالے قانون کے خلاف کسی کونہ صرف لکھنے کی اجازت دی گئی بلکہ اس کے خلاف منہ کھولنابھی گویااس مقدس گائے کی توہین سمجھاجاتاہے۔یہ سوال سابق چیف جسٹس گلزاراحمد خان اورجسٹس مشر عالم کاہے۔
آٹھواں سوال یہ ہے کہ بعض مقدمات میں نیب بہت متحرک نظر آتی ہے اور کچھ مقدمات میں وہ کچھ بھی پروانہیں کرتی،اس آمرانہ اورظالمانہ طریق کار کی کیا وجوہات ہیں اورانہیں ایساکرنے کی کس نے اجازت دی ہے؟ایک شہری کے بنیادی حقوق کااس بری طرح پامال کرنے کاحق نیب کوکس نے دیاہے ؟ آج تک اس ادارے کے ان افرادکوعدالت کے کٹہرے میں کیوں کھڑانہیں کیاجاسکا جنہوں نے سینکڑوں خاندانوں کانہ صرف معاشی قتل کیابلکہ اخلاقی طورپربھی ان کوہمیشہ کیلئے معاشرے میں رسواکردیاگیاجبکہ ان سے کچھ ثابت بھی نہ ہوسکا۔یہ سوال بھی میرانہیں بلکہ اس سے ملتاجلتاشکوہ جسٹس قاضی فائزعیسی صاحب کاہے۔
نویں سوال کا تعلق پلی بارگین سے ہے۔مشتاق رئیسانی سے نیب نے650ملین کیش اورتین کلوسے زیادہ سونابرآمدکیااوربعدمیں ان سے پلی بارگین کرلی۔کیاکبھی ایسابھی ہوا کہ رنگے ہاتھوں جورقم پکڑی جاچکی ہواس پربھی پلی بارگین کرلی جائے؟اس کی تو نیب قانون بھی اجازت نہیں دیتاپھرنیب نے یہ پلی بارگین کیسے کر لی؟یہ سوال بھی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسی صاحب کاہے۔
دسواں سوال یہ کہ نیب نے اس ملک میں کرپشن کے خاتمے میں اہم کرداراداکیاہے یاخوف کے فروغ میں؟اس کی وجہ سے شفافیت پھیلی ہے یااس کے خوف سے سرمایہ ملک سے باہرمنتقل ہوا؟یہ خوف صرف سرمایہ دارمیں ہے یااس خوف کاشکاربیوروکریسی بھی ہے؟کہیں ملکی معیشت کی تباہی میں اس خوف نے بھی بنیادی کردارتوادانہیں کیاجواحتساب کے نام پرپھیلایاگیا؟ کیانیب کے ادارہ ملکی کرپشن کوختم کرنے میں کامیاب ہواہے تو اس کاجواب ہر ذی شعورنفی میں دے گابلکہ کرپشن کاریٹ بڑھ گیاہے۔اگرنیب ملک میں بدعنوان افرادکے خلاف خوف کی فضاپیداکرکے ملک میں کوئی اصلاح کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تواس کابھی دوردور تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔ تاجراور سرمایہ دارکو چھوڑیئے،کیاوجہ ہے کہ بیوروکریسی نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں؟وزیراعظم کوبیوروکریسی کویقین دلاناپڑاکہ نیب سے خوف زدہ نہ ہوں ان کاتحفظ کیاجائے گااورپھرقانون سازی بھی کرنا پڑی؟اس عمومی خوف کی نسبت شفافیت سے ہے یایہ خودکرپشن کی ایک شکل ہے؟کیاواقعی بیوریوکریسی نے وزیراعطم کی یقین دہانی اورقانون سازی کے بعدایمانداری سے کام کرناشروع کر دیاہے؟
کیاموجودہ حکومت کے ان تمام سیاسی اکابرین کے حکومت سنبھالتے ہی نئے سے سے قانون سازی کرکے نیب کے پرکاٹنے کی ایک وجہ یہ تونہیں کہ ایک توان کے مقدمات ختم ہو جائیں اوردوسرانیب کے ان افرادکوسبق سکھانے کاکوئی منصوبہ ہوجنہوں نے سابقہ حکومت کے ایماپران کے خلاف مقدمات قائم کرتے ہوئے تمام اخلاقی حدوں کوپارکیاتھا۔ کیا نیب کی موجودگی ہمارے دیگر تحقیقاتی اداروں کے ماتھے پربدنامی کاکلنک نہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ہر حکومت نے نیب کاہتھیاراپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا۔ کیانیب کے اس طرزعمل نے واقعتاان قومی مجرموں کیلئے عوام میں ہمدردی کاجذبہ پیدانہیں کردیا۔دل تونہیں مانتا لیکن بھاری دل سے لکھنے پرمجبورہوگیاہوں کہ پانامامقدمے میں پاکستان کے کئی سوافرادکے ناموں کی فہرست جاری ہوئی لیکن کیانوازشریف کے کے علاوہ کسی اورپرمقدمہ چلا؟میں نے خوددرجنوں کالمزاورآرٹیکلزپاناماپیپرزپرشواہدکے ساتھ لکھے لیکن باقی افرادکیوں مقدس گائے کاروپ اختیار کرگئے؟کیاان وجوہات کی بناپرنوازشریف پرچلائے گئے مقدمے اوراس کے فیصلے پرایک مرتبہ پھرنوازشریف ہیرو نہیں بن گئے؟کیامریم نوازکی بریت اس بات کی گواہی نہیں کہ ہماری عدلیہ نے ہی اپنے ہی ججزکے فیصلے کوغلط ثابت کردیااورجس کے بعداب نواز شریف کی بھی پاکستان آمدکاراستہ ہموار کرنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہی۔کیاان تمام سوالات اورحقائق کے بعداب بھی نیب کی ضرورت ہے؟
سر سے پاؤں تک سوالات ہی سوالات ہیں۔