خطیب شہرہے برہم میرے سوالوں سے

:Share

نئی حکومت نے چندہفتے ملک پرقرضوں کاافسانہ سنانے کے بعداب نئے قرضے لینے اوراسے ملک کے بہترین مفاد میں قراردینے کے اسی کارنامہ عظیم کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے،جس پرملک کی ہرسابقہ حکومت اور لیڈرجستہ جستہ یاتیزی سے قدم بڑھاتارہاہے۔تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے دورمیں غیرملکی قرضوں میں خطرناک اضافہ اورملک کی معیشت پراس کے مہلک اثرات کاطویل مگرناقابل فہم قصہ سنانے کے بعدنویددی کہ سعودی عرب کوسی پیک منصوبہ میں شریک ہونے، تزویراتی شراکت داربننے اورسرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے اوراگلے چنددنوں میں سعودی عرب سے اعلیٰ سطحی وفدبھاری سرمایہ کاری کیلئے پاکستان آرہاہے۔وزیراطلاعات فوادچوہدری وزیراعظم عمران خان کے پہلے دورہ سعودی عرب سے واپسی پراس دورہ کی شاندار کامیابی کے سیاسی فوائدحاصل کرنے کیلئے اوربھی بہت پرجوش باتیں کیں مگرچنددنوں کے بعدمجوزہ سعودی پیکج موصول نہ ہونے کے بعداپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں اس بات کااعتراف کیاکہ ”کوئی بھی ملک فری لنچ کی پیشکش نہیں کرتا،سعودی عرب کی پیشکش کے جواب میں ان کی سخت ترین شرائط پرعملدرآمدہمارے لئے ممکن نہیں تھا”۔
نئی حکومت کے ایسے کئی مذاق بھرے بیانات کواب کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتالیکن فواد چوہدری تویقیناًتیزترین یوٹرن کاریکارڈقائم کرچکے ہیں لیکن پاکستان جوواحداسلامی جوہری ملک ہے،اربابِ اقتدارکوبیانات دینے سے پہلے سوبارسوچناہوگاکہ اس خطے میں ایسے بیانات پر سعودی عرب کاکیاردعمل ہے اورچین اس بارے میں کس طرح سوچتاہے۔امریکی وزیرخارجہ پومپیوکا فون پر عمران خان سے”ڈومور”کامطالبہ،حکومت کااس سے انکاراوربعدازاں وائٹ ہاؤس کے ترجمان کافون پرہونے والی گفتگوکاباقاعدہ متن جاری کرنااورپاکستانی وزارتِ خارجہ کومکمل خاموشی کا اشارہ کردیاگیاکیونکہ اس سے اگلے ہفتے بھارت جاتے ہوئے پومپیوایک اعلیٰ فوجی وسیاسی وفد کے ساتھ چارگھنٹوں کیلئے اسلام آبادآرہے تھے۔امریکی وزیرخارجہ پومپیوکی اسلام آباددورے کے فوری بعدشاہ محمودقریشی عجلت میں ایک دن کے دورے پرافغانستان پہنچ گئے کیونکہ اگلے چند دنوں کے بعدانہیں امریکامیں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے جاناتھاجہاں سے وہ خصوصی طورپرپومپیوسے ملنے کیلئے واشنگٹن بھی گئے لیکن یہاں بتانا ضروری ہے کہ پومپیو کے اسلام آبادکے دورے کے فوری بعد چین کے وزیرخارجہ6ستمبرکو”وانگ ژی” پہلے سے طے شدہ تین دن کے دورۂ اسلام آباد پہنچے تووہاں وزارتِ خارجہ کا ایک عام اہلکاران کے استقبال کیلئے موجودتھا جس پرمسلم لیگ ن کے سینیٹرمشاہدحسین نے حکومتی روّیے کے اس عمل پرجہاں شدید تنقیدکی وہاں عمران خان کی حکومت کے مشیربرائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا9ستمبرکے فنانشل ٹائمزمیں سی پیک پردوبارہ غورکرنے کیلئے دوسال تک مؤخرکرنے کے بارے میں بیان نے ہلچل مچادی۔ہم سب جانتے ہیں کہ سی پیک پرمجوزہ سرمایہ کاری بڑھ کر62 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس میں30بلین ڈالرریل لنکس اوربجلی کے کارخانوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔
چین کے وزیرخارجہ نے اپنے تین دن کے دورے کے درمیان وزیرخارجہ شاہ محمدوقریشی، وزیر اعظم پاکستان عمران خان،مشیرامورتجارت رزاق داؤد کے ساتھ ملاقاتیں کیں لیکن آرمی چیف جنرل باجوہ سے ان تین دنوں میں دودفعہ ملاقات کی۔قیاس یہی کیاجارہاہے کہ سی پیک کے بارے میں نئی حکومت کے خدشات کودورکرنے کیلئے انہیں یہ بیان بھی دینا پڑاکہ چین پاکستان کی نئی حکومت کے تحفظات دورکرنے کیلئے تیارہے اوراسی دورۂ کے دوران اغلباً پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کوچین کے دورے کی دعوت بھی دی گئی۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے دوران سی پیک منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سابق وزیرِمنصوبہ بندی احسن اقبال نے اس پیش رفت کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ چین سے مشاورت کے بغیریہ اقدام نہیں کیاجاسکتا۔ احسن اقبال کے یہ اندیشے شاید بے جا ہوں کیونکہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ بیجنگ کے دورہ پرگئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے اوراس ملاقات میں چینی صدرنے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پرزوردیاہے اورسی پیک کی تکمیل کے بارے میں امید ظاہر کی ہے۔
سعودی عرب کو دی جانے والی پیشکش چونکہ وزیراعظم عمران خان کے سرکاری دورہ کے دوران سعودی فرماں روا کوپہنچائی گئی ہے،اس لیے یہ باورکرناچاہیے کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے چینی صدراوردیگررہنماوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اس بارے میں معلومات فراہم کی ہوں گی ۔چین کوسی پیک منصوبوں میں کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری سے اس وقت تک اعتراض نہیں ہوگاجب تک اس منصوبہ سے متعلق اس کے اپنے مفادات کوزک نہ پہنچے۔ چین کی قیادت ون روڈون بیلٹ کے سی پیک کے نام سے جانے والے اورپاکستان میں تکمیل پانے والے منصوبے میں دوسرے ملکوں کی معاونت،شرکت اورسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ یہ صدرژی جن پنگ کی معاشی پالیسی کاحصہ ہے کہ دنیاکے تمام ملکوں کے ساتھ تجارتی لین دین کی راہیں کھلی رکھی جائیں۔اسی لیے چین اگرپاکستان کے ساتھ دوستی اورتعاون کے اہم منصوبے میں شراکت دارہے توبھارت،افغانستان اوردیگرعلاقائی ملکوں میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے اوراپنی مالی قوت کومعاشی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرتاہے۔یادرہے کہ چین بھارت مخاصمت کے باوجودچین بھارت کاتجارتی حجم ڈیڑھ سوارب ڈالرسالانہ کے قریب ہے جبکہ چین 100/ارب ڈالرکی مصنوعات بھارت کوبرآمدکرتاہے اوریہ ہماری خام خیالی ہے کہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی دوستی کیلئے اس قدرخطیرتجارت سے دستبردار ہوجائے گا۔
سی پیک میں سعودی عرب کی شراکت کامنصوبہ سوفیصدپاکستانی حکومت کاتصورہے اوراس کی کڑیاں پاکستانی معیشت،امریکاکے ساتھ تعلقات،عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت اوراس حوالے سے حائل مشکلات سے ملتی دکھائی دیتی ہیں۔عمران خان کی حکومت کے وزیرخزانہ نے اقتدارسنبھالنے سے پہلے آئی ایم ایف سے12ارب ڈالرنیاقرض لینے کااشارہ دیا تھا۔گزشتہ ہفتہ پارلیمنٹ میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے بھی اسدعمرنے بچت،آمدنی میں اضافہ اور ٹیکسوں میں ردوبدل کاذکرکرتے ہوئے کہاتھاکہ ملکی معیشت کی اصلاح کیلئےہوسکتا ہے نئے قرض لینا پڑیں لیکن ہمیں اپنی حالت بھی بدلناہوگی۔ یہ گفتگوعالمی مالیاتی اداروں کی حکمت عملی کے مطابق تھی،جس کے تحت غریب اور معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے ملکوں کوقرض دیتے ہوئے سخت اقتصادی منصوبہ پرعمل کیلئے کہاجاتاہے۔اس منصوبہ میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ اوراخراجات میں کمی کااصول بنیادی ہوتاہے۔پاکستان جیسے ملک میں اس کے اطلاق کا مطلب غریب آبادی پرمحاصل کے بوجھ میں اضافہ ہوتاہے۔پاکستان کی نئی حکومت نے گوکہ آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکیج لینے کاراستہ کھلارکھاہواہے لیکن وہ اس انتہائی اقدام سے پہلے چین اور سعودی عرب جیسے دوست ملکوں سے عبوری قرضے یاامدادحاصل کرنے کی خواہش مندہے۔ سی پیک میں سرمایہ کاری کی دعوت اس پالیسی کاحصہ ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف سے نیاقرض لینے کی راہ میں البتہ یہ مشکل بھی حائل ہوگی کہ امریکااس حوالے سے روڑے اٹکانے کااعلان کرچکاہے۔دوہفتے قبل پاکستا ن کادورہ کرنے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے نئے پیکیج کی مخالفت کا عندیہ دیاتھا۔ انہوں نے یہ شبہ ظاہرکیاتھاکہ پاکستان یہ سرمایہ چین سے ملنے والے قرضوں کی ادائیگی پرصرف کرے گالیکن امریکا چین کے قرضوں کیلئے پاکستان کوریلیف دلوانے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ناطے امریکاکی مرضی کے بغیرآئی ایم ایف بھی کسی ملک کوامدادفراہم کرنے کافیصلہ نہیں کرسکتا۔حکومت پاکستان کے پیش نظریہ حقائق بھی ہوں گے،اسی لیے آئی ایم ایف کے آپشن پرپیش قدمی سے پہلے چین،سعودی عرب اوردیگردوست ممالک سے قرض یادیگرمعاشی مراعات حاصل کرنے کیلئے کوشش کی جارہی ہے۔چین اگرچہ بہرصورت سی پیک منصوبہ کو مکمل کرنے کاارادہ رکھتاہے لیکن وہ بھی پاکستان کی معیشت میں کوئی نئی سرمایہ کاری کسی واضح معاشی اورسیاسی ضمانت کے بغیرنہیں کرے گا۔ ماہرین کاخیال ہے کہ چینی قرضے مہنگے اورمشکل شرائط کے حامل ہوسکتے ہیں کیونکہ چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں میں رازداری کی دبیزتہ بہرصورت موجود رہتی ہےاس لیے عام لوگوں یاماہرین کو ایسے تعاون کی اصل شرائط کاعلم نہیں ہوتا۔ سی پیک کے بارے میں بھی ایسے شبہ کااظہارہوتارہا ہے لیکن پاکستان میں چین کے نائب سفیرنے بالآخراس مفروضہ کوغلط قراردیتے ہوئے اسے ان دشمنوں کاپروپیگنڈہ قراردیاہے جوشروع دن سے اس خطے میں سی پیک کی محض اس لئے مخالفت کررہے ہیں کہ انہیں مستقبل میں اقوام عالم کی معاشی منڈیوں سے محروم ہونا پڑجائے گااور یہ بات طے ہے کہ آئندہ دنیاکی سربراہی کاتاج اسی کے سر پر سجے گاجس کی اقوام عالم کی معاشی منڈیوں پراجارہ داری ہو گی ۔
چین کی طرح سعودی عرب بھی اپنے معاشی اوراسٹریجک مفادات کیلئے چوکنااورہوشیارہے۔اگرچہ سعودی عرب کو پاکستان کابہترین دوست ملک قراردیتے ہوئے برادرملک کا درجہ دیاجاتاہے لیکن سفارتی زبان میں جوبھی اسمائے صفت استعمال کیے جائیں،یہ بات طے ہے کہ کوئی ملک اپنامفاد دیکھے بغیرامداد فراہم نہیں کرتا۔عمران خان کے پہلے دورۂ سعودی عرب تک یمن جنگ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی، اس لیے پاکستان کے بارے میں سعودی عرب کی سرد مہری بھی کم نہیں ہوئی تھی بلکہ متحدہ امارات کے وزیرخارجہ نے توپاکستان کے اس عمل پرباقاعدہ انتہائی سخت بیان دیتے ہوئے مستقبل میں سخت نتائج کی دہمکی بھی دے ڈالی تھی لیکن صرف دوہفتے کے بعداچانک کیاتبدیلی واقع ہوگئی کہ سعودی عرب سے سالانہ تین ارب ڈالرپاکستانی خزانے میں جمع کرانے اوراگلے تین سال کیلئے 9/ ارب ڈالر کا ادھارپٹرول کے معاہدے پردستخط بھی ہوگئے اورسعودی عرب میں مقیم کام کرنے والے چھ لاکھ پاکستانیوں کی سالانہ تجدیدویزہ فیس دوہزارریال سے کم کرکے دوسوریال کر دی گئی ۔یادرہے سعودی عرب کی انہی نارواپالیسیوں کی بناء پرڈیڑھ لاکھ پاکستانی پہلے ہی اپنے روزگار سے محروم ہوکرواپس پاکستان پہنچ چکے ہیں تاہم ان دنوں عمران خان کی حکومت شب وروزسعودی عرب کے کامیاب دورے کے بعدایک مرتبہ پھرآئی ایم ایف سے رابطے کی بھی نویدسنا رہے ہیں اورمہنگائی کاجن بھی بدستوربوتل سے نکل کرعوام کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں اوراسی مہنگائی اورناقص کارکردگی کی بناء پرموجودہ حکومت پہلے دوماہ میں ہی ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں بھی کھوچکی ہے اورمقبولیت کاگراف تیزی سے نیچے جارہاہے اور دوسری طرف آنے والے دنوں میں اپوزیشن متحدہوکراے پی سی بلاکربراہ راست حکومت کوسخت آزمائش میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے جبکہ پارلیمنٹ میں صرف چارافرادکی برتری سے موجودہ حکومت قائم ہے اورسینیٹ میں اگرپیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن ہاتھ ملالیتے ہیں توکسی بھی لمحے حکومت کادھڑن تختہ ہوسکتاہے۔
یادرکھیں ایک تو سعودی سرمایہ کاری بھی امداد یا منصوبوں میں سرمایہ لگانے کے نام پر قرض ہی ہوگا جسے پاکستان کو واپس بھی کرناہوگا اور اس پرسود بھی اداکرناپڑے گالیکن آئی ایم ایف جیسے اداروں کے برعکس چین یاسعودی عرب سے طے پانے والے مالی منصوبوں کی اصل لاگت کا کبھی اعلان نہیں ہوتا تاکہ ان ملکوں کو براہ راست نکتہ چینی کا سامنانہ کرنا پڑے۔ اب سی پیک کو وسعت دیتے ہوئے اگر سعودی سرمایہ کا انتظارکیاجارہاہے توپارلیمنٹ اورقوم کواعتماد میں لیکرسعودی عرب کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرنابھی ضروری ہے اوربقول فوادچوہدری کہ سرمایہ کاری کے اجتماع کے فوری بعدسعودی ولی عہدذاتی طورپرعمران خان کواپنی کارمیں بٹھاکرچالیس منٹ تک خودڈرائیوکرتے ہوئے کہیں نکل گئے اور اکیلے میں کچھ اہم باتیں بھی ہوئیں۔جہاں اس ملاقات کے بارے میں طے پانے والی ان تمام خفیہ شرائط کو بتانابھی ضروری ہے وہاں سعودی عرب کے اس مالی پیکج کوخیراورخوشحالی کاپیغام سمجھنے سے پہلے بوجھ قراردیناضروری ہے۔حکومت کو پاکستانی عوام کواس کی ضرورت، وسعت اورشرائط سے آگاہ کرناچاہیے۔ اگراس سرمایہ کاری کوآج سعودی عرب کے پاکستان پر احسان یاعمران خان کی سفارتی کامیابی کے طورپرپیش کرتے ہوئے اصل حقائق کو پس پردہ رکھا گیاتویہ وزیراعظم کے اس وعدے کی خلاف ورزی ہوگی کہ عوام کوہر قسم کے معاملات میں صرف سچ بتایاجائے گا۔امیدکی جاتی ہے کہ یہ وعدہ صرف سابقہ حکومت کی غلط کاریوں سے پردہ اٹھانے تک محدود نہیں رہے گابلکہ سعودی عرب یاچین کے ساتھ طے کیے جانے والے معاملات کے بارے میں بھی عوام کو باخبر رکھا جائے گا۔
سی پیک کا منصوبہ شروع ہونے کے دن سے ہی یہ بات بھی واضح ہونا شروع ہوگئی تھی کہ اس منصوبے میں پاک فوج بڑی حد تک دلچسپی رکھتی ہے۔ اسی لیے سابق آرمی چیف جنرل(ر)راحیل شریف اورفوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ کی طرف سے بہرصورت سی پیک کی ضمانت کےاعلانات تواترسے سامنے آتے رہے ہیں۔ ملک کے ایک اقتصادی منصوبہ کے بارے میں فوج کی یہ دلچسپی معنی خیزہونے کے علاوہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو،فوج سی پیک کی تکمیل کی براہ راست ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے تحریک انصاف کی حکومت کونوازشریف کی حکومت کے ہر کام میں عیب اوربدنیتی دکھائی دیتی ہے لیکن سی پیک جیسے بھاری بھرکم اقتصادی اور اسٹریجک منصوبہ کے بارے میں حرف زنی سے گریزکیاگیابلکہ اب اس کی ملکیت لینے کااعلان بھی ہورہاہے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شراکت کے اعلان کے موقع پرچین میں جنرل قمرجاوید باجوہ کی موجودگی اس بات کاکھلم کھلا اظہارہے کہ ملک کے تحفظ کیلئے شب وروزجانیں قربان کرنے والوں کوسی پیک کی دفاعی اور معاشی اہمیت کانہ صرف بخوبی احساس ہے بلکہ سی پیک کی تکمیل کی ضمانت بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں سول ملٹری ہم آہنگی کوانتہائی اہمیت دی جا رہی ہے لیکن کسی بھی موقع پرملک کے سیاسی انتظام میں سی پیک کی تعمیرمیں رخنہ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کے دوررس مضراثرات سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
چین پاک اقتصادی منصوبے کے حوالے سے روز اول سے شبہات اور اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔ سابقہ دورمیں خیبر پختون خوامیں تحریک انصاف کی حکومت بھی اعتراض کرنے والوں میں پیش پیش تھی تاہم مختلف منصوبوں پرعمل درآمد اورمقام وجگہ پرحرف زنی کے علاوہ سی پیک معاہدہ پر وسیع اتفاق رائے موجودرہاہے۔اس منصوبے کواپنے سرکاسہرابنانے والی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بہترہوگا کہ وہ سی پیک کے معاملات کیلئے چینی حکومت کی طرف سے تمام معاملات پرنئی حکومت کوایک مرتبہ پھراعتمامیں لینے کے تازہ ترین بیان کاخیرمقدم کرتے ہوئے جلداز جلد معاملات کوطے کرے اور پاکستان کے عوام کوسابقہ اورحالیہ خدوخال،مالی،سیاسی اور بین الملکی خدشات کوسامنے لاتے ہوئے یہ بھی کھل کر بتایا جائے کہ اس منصوبے کااصل مقصد کیاہےاورپاکستان کے عوام کواس سے کب اورکیامالی فائدہ پہنچنے کی امیدکرنی چاہیے۔سی پیک کےحوالے سے امریکااوربھارت کی مخالفت اورچین کے ساتھ امریکاکی نئی اقتصادی جنگ کے تناظرمیں بننے والی تصویر کے خد وخال سے بھی عوام کو آگاہ کرنا اہم ہوگا۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے ترجمان اوروزیراطلاعات فوادچوہدری جوصرف ایک ہفتہ پیشترٹی وی پرپاکستانی عوام کوبتاچکے ہیں کہ کوئی بھی ملک فری لنچ نہیں دیتاتوپھروہ کون سے وجوہات ہیں جن کی بناء پرسعودی عرب نے پاکستان کوبڑی فراخدلی کے ساتھ ”فری لنچ ”فراہم کردیااورپاکستان میں ایک بہت بڑی آئل ریفائنری کے قیام کابھی وعدہ کیاگیا ہے۔وہ متحدہ امارات جس کے وزیرخارجہ کی دہمکی آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے،آج انہوں نے بھی پاکستان میں ایک آئل ریفائنری کی تعمیرکااعلان کیاہے اوران دنوں ایک اعلیٰ سطحی حکومتی اور تاجروں کاایک وفدپاکستان میں موجودہے۔شنیدیہ ہے کہ ان تمام مہربانیوں،کرم فرمائیوں اورفری لنچ کیلئے صرف حرمین کی حفاظت کے وعدہ کے ساتھ ساتھ یمن جنگ میں شمولیت کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے اوردورے کے دوسرے دن پاک فضائیہ کے سربراہ کے سعودی عرب کے دورہ کواسی تناظر میں دیکھاجارہاہے۔اب اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی پامالی کیلئے یمن میں سعودی عرب پرجوقراردادپیش کی جارہی ہے،اس پرپاکستان کی غیر جانبداری قبول نہیں ہوگی بلکہ سعودی عرب کی دوستی کاحق اداکرناہوگا۔
اہل پاکستان اورمقتدرحلقوں کو یکساں طورسے یہ بات سمجھنے اور پلے باندھنے کی ضرورت ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشفجی کے سفاکانہ قتل اوریمن کی جنگ کے بڑھتے ہوئے بے پناہ اخراجات کے بعدسعودی عرب جوان دنوں سخت مشکلات میں پھنس چکاہے، پاکستان کا مربی اور دوست ہونے سے پہلے امریکا سے مکمل وفاداری اس کی مجبوری بن گئی ہے اوراسے اب ان مشکل حالت سے نکلنے کیلئے ہرحال امریکاکی خوشنودی درکار ہے۔سعودی عرب کسی ایسے منصوبہ میں شامل نہیں ہوگاجس کی وجہ سے اس کے امریکاکے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہوں۔ کیاسی پیک میں سعودی سرمایہ کاری چین کے ساتھ شروع ہونے والے ایک قومی معاشی اور اسٹریجک منصوبے میں امریکاکی نگرانی قبول کرنے کااشارہ ہے؟
ہے ترش رومیری باتوں سے صاحب منبر
خطیب شہرہے برہم میرے سوالوں سے

اپنا تبصرہ بھیجیں