انتخابات کاخاصایہ ہے کہ انتخابی عمل میں عوام اپنی پسندکے افراداورسیاسی جماعتوں کے حق میں اپنی رائے دیتے ہیں،بعدازاں انہی افراداورسیاسی جماعتوں میں جسے اکثریت یاکچھ جماعتیں مل کراتحادکرکے برتری حاصل کرلیتی ہیں،وہ مقررہ مدت کیلئے مسنداقتدارسنبھال لیتے ہیں۔یوں انتخابی عمل سے منتخب حکومت کاوجودعمل میں آتاہے اورجوکم اکثریت والی جماعت یااتحادہووہ حزب اختلاف قرارپاتے ہیں۔اس جمہوری ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ان دنوں ملک میں انتخابی عمل بڑے زورشورسے جاری ہے۔اب تک سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں پراورآزادالیکشن لڑنے والے امیدواروں کوانتخابی نشان الاٹ ہوچکے ہیں اوربیلٹ پیپرزکی طباعت کاکام بھی سیکورٹی فورسز کی نگرانی میں جاری ہے۔
۲۵جولائی کوپولنگ کی تاریخ سے ایک دن قبل تک انتخابی مہم جاری رہے گی اورہرسیاسی جماعت کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ آزادامیدواراپنی جیت کیلئے ایڑھی چوٹی کازور لگائیں گے۔ جیساکہ اس وقت بھی ہرکوئی اپنی بساط اوراستطاعت کے مطابق بھاگ دوڑکررہاہے۔سیاستدان اور سیاسی کارکن گھرگھردستک دے رہے ہیں۔
اس مغربی جمہوریت میں غریب اورامیر،عالم پڑھالکھا،پی ایچ ڈی پروفیسراوران پڑھ سبھی کے ووٹ چونکہ ایک جیسی اہمیت رکھتے ہیں لیکن انتخابات میں غریب حصہ لینے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔اس جمہوری نظام میں غریب کاکام نہ صرف ووٹ دیناہوتاہے بلکہ وہ اپنے امیدوارکی گاڑی کے ساتھ بھاگ کراس کے زندہ بادکے نعرے ،گلیوں شاہراہوں پراس کے بینرلگانے اور اس کی خوشامدکوہی اپنامقدرسمجھتاہے لیکن شنیدہے کہ پہلی مرتبہ کئی حلقوں میں امیدواروں کواپنے حلقوں میں ووٹرکی جوابدہی کے سخت عمل سے بھی گزرناپڑاہے۔وہ امیدواربھی جو ماضی میں جیتنے کے بعدووٹرکی دسترس میں کبھی نہ آسکے تھے اورجن امیدواروں نے اب کی بارجیت کرعوام سے دوری کیلئے پھرلمبی ڈاری مارجاناہے وہ سب کم ازکم ان دنوں ہر چوکھٹ پرماتھا ٹیکتے نظرآتے ہیں اورہردروازے ودرگاہ تک نہ صرف سرکے بل بلکہ ان درگاہوں کی دہلیزکو سجدے کی حالت میں چومنے سے بھی دریغ نہیں کررہے لیکن ان انتخابات کی طے شدہ تاریخ سے 25روزقبل سیاسی اورانتخابی منظرنامے پرجونیاپرت کھل گیاہے وہ انتخابی شاہراہ پر ”جیپ”کی اچانک آمدہے۔
بظاہریہ معمول کاواقعہ ہے کہ مسلم لیگ ن کرمرکزی کردارچوہدی نثارعلی خان کوپارٹی ٹکٹ بوجوہ نہ ملنے کے بعدانہوں نے بطورآزادامیدواراپنی پسندکے کے انتخابی نشان کیلئے الیکشن کمیشن کولکھااورالیکشن کمیشن نے بہت سارے آزادامیدواروں کی طرح ایک نشان الاٹ کردیا۔ملک کے دوسرے حصوں سے بطورآزادالیکشن لڑنے والوں میں ایسے بہت سارے ہیں جن کاانتخابی نشان وہی جوان سے سیکڑوں میل دور رہنے بسنے والے آزادامیدواروں کوجاری کیاگیاہے لیکن ان امیدواروں کاباہمی کوئی رابطہ اورتعلق ہے نہ کوئی اوروجہ قربت کہ ان کے درمیان سیاسی و معنوی مماثلت یامشترکہ حکمت عملی اوریکساں ایجنڈے کاامکان تلاش کیاجاسکے تاہم انتخابی نشانوں کی الاٹمنٹ اورپارٹی ٹکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کی مقررہ تاریخ میں ایک دن توسیع کیے جانے کے بعداچانک کئی ن لیگی رہنماؤں کوجیپ کانشان الاٹ کردیاجانابہرحال کئی نئے سوالوں کوجنم دے گیاہے۔
اسی طرح ایک مثال سابق جنرل پرویزمشرف دورمیں بلدیاتی امیدواروں کوایک جیسے انتخابی نشان الاٹ کرنے کی موجودہے۔چاندکے اس انتخابی نشان کے حاملین بظاہراپنے اپنے حلقے میں اپنی حیثیت میں تھے لیکن ان کے درمیان ایک غیرمرئی نوعیت کاتعلق بالکل موجودتھا۔ہاں یہ ضرورتھا کہ بلدیاتی انتخابات کے امیدواروں کی تعدادبہت زیادہ تھی اور اس مرتبہ بھی خلاف توقع آزادامیدواروں کی تعدادبھی قریہ قریہ شہرشہربہت زیادہ ہوگئی ہے شائداسی لئے ان سب کو ”جیپ” کاانتخابی نشان الاٹ کردیاگیاہے اوریوں محسوس ہورہاہے کہ آئندہ ملکی سیاست میں صوبائی اور قومی اسمبلی میں ان آزادامیدواروں کی کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ ہیں اوران کی کامیابی کے بعدملکی سیاست میں امپیکٹ نتائج کے بعدجوکچھ ہونے جارہا ہے ،بین السطورمیں اس کوپڑھا جا سکتاہے اوراس کی ایک اوردلیل یہ بھی ہے کہ جیپ کایہ نشان ایک طرف مسلم لیگ ن کی سردو گرم چشیدہ چوہدری نثارکوملا ہے تودوسری جانب جنوبی پنجاب کے کئی متوقع مضبوط امیدوار اسی جیپ سے نشان مندہوئے ہیں۔
جیپ پرسوارہونے والے ان انتخابی امیدواروں کی تعدادابھی اتنی زیادہ نہیں ہے البتہ آنے والے دنوں میں اس تعدادمیں اضافے کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ممکن ہے الیکشن سے چند دن قبل ایک اور ایسی لہرابھرے اورمزیدامیدواراسی جیپ سواری کاکوئی امکان پیداکرلیں اورنئی چھوٹی جماعتیں اوراتحادجوپہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں ،وہ جماعتیں جہاں پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پی پی کے مقابل اگرسیٹیں جیت نہ بھی سکیں مگر ووٹ بینک میں ایسافرق ضرورڈالنے کی کوشش کریں گی جس کافائدہ بہرحال پی ٹی آئی کے حق میں جائے گا۔اسی طرح پنجاب میں پی ٹی آئی کے حق میں جہاں پرویزمشرف کی باقیات ڈاکٹرامجد عمران خان کے حق میں بیٹھ گئے ہیں وہاں مسلم لیگ ق کے امیدواربھی اپنی وفاداریاں پی ٹی آئی کے حق میں سرنڈرکررہے ہیں گویاوہ تمام جماعتیں اورافرادجوماضی میں پاکستان کولوٹنے میں مصروف رہے ،وہ سب مل کر عمران خان کے نئے پاکستان کی تحریک میں جوق درجوق شامل ہوگئے ہیں اورعمران خان جوبڑے فخر سے اپنے نظریاتی کارکنوں کویقین دلایاکرتے تھے کہ ہم ان تمام کرپٹ افرادکوانصاف کے کٹہرے میں لائیں گے اورکسی بھی صورت میں ان کے ساتھ مل کرحکومت نہیں بنائیں گے بلکہ اپوزیشن میں بیٹھناگوارہ کرلیں گے لیکن وقت آنے پراپنے نظریاتی کارکنوں کی مایوسی اوراحتجاج کو درگزر کرتے ہوئے اپنے اعلان سے منحرف ہوکراس بات کااعلان کررہے ہیں کہ اقتدارکے حصول کیلئے ان افرادکوساتھ ملاناناگزیرہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن سے بغاوت پرمائل ان امیدواروں اورسیاسی رہنماؤں کواس نوبت تک پہنچانے میں مریم نوازکے سیاسی اتالیقوں کا کردار نہائت اہم رہاہے۔ان اتالیقوں نے مریم نوازکے ذریعے میاں نوازشریف کوان کی طاقت وحمائت کے اصل مراکزسے دورکردیااورایک ایسے بیانیے اور نظریے کے ساتھ کھڑاکردیاجس سے میاں نواز شریف کاپس منظرمیل نہیں کھاتاتھا۔ نواز شریف کے ماضی میں جن سیاسی وانتخابی کامیابیوں کاان کاجوبیانیہ اورنظریہ بنتارہاتھا،اپنی صاحبزادی کے سیاسی مربین کی وجہ سے وہ بھی اس کے مقابل آکھڑے ہوئے۔نواز شریف کے حامی ہونے کاالزام سہنے والی عدلیہ بھی نوازشریف کے سخت بیانیے کی زدمیں ہے۔اس صورتحال میں الیکٹیبلزکی سیاسی دانش اوردور اندیشی انہیں نوازشریف سے دورکرنے کاباعث بن رہی ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کئی لیگی امیدواروں نے اپنے بھتیجوں،بھانجوں کوبطورمتبادل امیدوارابھی موجودرکھاہواہے اور بوقت ضرورت وہ جیپ کے نشان پرمیدان میں آسکتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ ایک جانب انتخابات کی شاہراہ پرٹریفک اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھنے میں صرف دشواری محسوس نہیں کررہی بلکہ جیپ کے اچانک سامنے آکرکھڑے ہوجانے سے جام ہوتی نظرآرہی ہے۔اس سے سب سے زیادہ متاثرمسلم لیگ ن کے ہونے کے قوی امکان ہیں کہ اس سے پہلی کھیپ کے طورپرالیکٹیبلزکی ایک بڑی تعدادپی ٹی آئی میں چلی گئی تھی،اب دوسری کھیپ چوہدری نثارعلی کے انتخابی نشان کی طرح جیپ کا نشان لیکر اپنے آئندہ کے رحجانات اور منزلوں کی نشاندہی کررہی ہے۔اتفاق سے جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کے جن روایتی الیکٹیبلز نے جیپ پر سوارہونے کواپنی یقینی جیت کیلئے ضروری سمجھااورانتخابی نشان الاٹ ہونے کے آخری دن شیرکے انتخابی نشان سے برأت کااعلان کیااورجیپ کانشان حاصل کیا،یہ وہی نوازلیگی الیکٹیبلزتھے جنہوں نے نوازلیگ کی اعلیٰ قیادت کوباورکرایاتھاکہ پارٹی نشان شیرپر انہیں اپنے حلقے میں جیت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتی ہے اس لئے بہتر ہوگاکہ انہیں پارٹی ٹکت کی بجائے آزادالیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے لیکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان کی اس درخواست کو ماننے سے انکار کردیاتھا۔بلاشبہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت مزیدکئی امیدواروں کے پارٹی ڈسپلن سے آزادہوکر الیکشن لڑنے کوپارٹی کے سیاسی و انتخابی امیج کیلئے مکمل طورپرخطرناک سمجھ رہی تھی۔اس لئے ان ارکان کی آزادامیدوارکے طورپرجیت کے بعد پارٹی میں واپس آجانے کوبھی کافی نہیں ماناتھا۔
پارٹی لیڈرشپ سمجھتی تھی کہ ان معروف ناموں کاپارٹی ٹکٹ کے بغیرعوام میں جاناپارٹی کی ساکھ کومزیدنقصان پہنچائے گا،اس لئے اس وقت توان شکست سے خوفزدہ الیکٹیبلزکوبظاہرمطمئن کرناممکن ہوگیاتھالیکن حقیقت یہ ہے کہ پارٹی لیڈرشپ کے تحفظات کوان رہنماؤں نے اہمیت نہیں دی اورہفتہ دس دن تک حلقوں کی صورتحال کوجاننے اورسمجھنے کے بعدوہی کرڈالاجس سے پارٹی لیڈرشپ نے منع کیاتھا۔اس پس منظر میں دیکھا جائے نوازلیگ کیلئے یہ خبربڑی ہی تکلیف دہ رہی کہ ایک ایک کرکے نہیں بڑے ٹولوں کی صورت میں الیکٹیبلزہاتھ سے نکل رہے ہیں اور خصوصاً اس جنوبی پنجاب سے جہاں مسلم لیگ ن پہلے ہی اپنی گرفت مضبوط محسوس نہیں کر رہی ہے۔اب ان رہنماؤں کی جیپ پرسوارہوجانے کے بعد فطری طورپریہی گمان کیاجارہاہے کہ یہ لوگ آنے والے دنوں میں نوازشریف کے ساتھ نہیں نثارعلی خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اس صورت میں بعداز انتخابات چوہدری نثارعلی خان ایک باضابطہ سیاسی گروپ کی صورت گری کر سکیں گے یانہیں۔اس سلسلے میں نیب کے ہاتھوں گرفتارمخالف امیدوارراجہ قمرالاسلام کے ننھے سالار کے مقابل انتخابی مہم کامرحلہ بھی ابھی جاری ہے۔
بلاشبہ چوہدری نثارعلی خان کامقام ومرتبہ اورتجربہ ایک کوہِ گراں ہے اس کے مقابلے میں سالار کی سالاری چلناآسان نہیں لیکن اس بچے کے میدان میں اترنے یااتارے جانے کی دادبہرحال دینا پڑے گی۔ دوسری طرف چوہدری نثارعلی خان کے حوالے سے واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ چوہدری نثارعلی خان کی اپنے قریبی افرادکے ساتھ غیررسمی اندازمیں یہ کہنااگردرست ہے کہ میلہ میرے لئے ہی سجایاجارہاہے توصاف مطلب ہے کہ چوہدری نثارعلی خان آنے والے دنوں میں صرف نوازلیگ کیلئے ہی نہیں پی ٹی آئی اوراس کی قیادت کیلئے بھی ایک چیلنج کی شکل میں سامنے ہوں گے۔جیپ گروپ کے قائدبن جانے کے مفروضے نے اگرحقیقت کاروپ دھارلیاتواس میں شبہ نہیں رہناچاہئے کہ اگلے حکومتی سیٹ اپ نے چوہدری نثارعلی اوران کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ تجربے کونظراندازنہیں کیاجاسکے گااگراس کھاتے میں انہیں اکاموڈیٹ کرنے پرپی ٹی آئی اوراس کی قیادت رام نہ ہوئی ،چوہدری نثارعلی ایک بڑے پارلیمانی گروپ کے قائد کے طور پررنگ جمانے میں بہرطورپرکامیاب ہوسکتے ہیں۔اس مشکل میں پڑنے سے بچنے کیلئے پی ٹی آئی یاجوبھی الیکشن جیتااسے کم ازکم پنجاب میں چوہدری نثارعلی خان کو نظراندازکرنادشوار تر رہے گا۔
مسلم لیگ ن کے صدرشہبازشریف کے ریاستی اداروں کے ساتھ نئے عمرانی معاہدے کاعندیہ دیئے جانے کے بعدان کیلئے چوہدری نثارعلی خان کی اہمیت پہلے سے بھی دو چند ہو چکی ہے ۔شہبازشریف نے اپنے بیانیے کوعملاًاپنے قائداورسابق نااہل وزیراعظم کے مزاحمتی بیانیے کے برعکس متبادل بیانیے کے طورپرپیش کیاہے۔اس بارے میں انہیں پارٹی کے اندرمزیدتائیدملنے کا امکان بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔تاہم اصل مسئلہ نواز شریف اوران کی صاحبزادی مریم نوازکاہے کہ وہ پارٹی کے مستقبل کواپنے بیانیے کے ذریعے میں ہی محفوظ دیکھتے ہیں یاپلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ نکلنے کے بعدان کی سوچ میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے جن کے خلاف نیب کیسزمیں سے ایک اہم کیس ایون فیلڈفلیٹس کے حوالے سے فیصلہ سامنے کی بات ہے جس میں نوازشریف،مریم نوازاوران کے شوہرکیپٹن(ر)صفدرکوسزاسنادی گئی ہے جس کے بعدمریم نواز اوران کے شوہر انتخابی عمل سے اگلے کئی برسوں کیلئے نااہل ہوگئے ہیں۔
نوازشریف اورمریم نوازنے نیب عدالت کایہ فیصلہ انہی متنازعہ فلیٹس میں بیٹھ کرسناجن کی بابت یہ فیصلہ سنایاگیالیکن حیرت کی بات تویہ ہے کہ اسی فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی تحریرکیاہے کہ استغاثہ نوازشریف کے خلاف کوی کرپشن ثابت نہیں کرسکا لیکن ذرائع آمدن سے زائدقیمت کی غیرملکی جائیدادکاثبوت ثابت نہ کرسکنے پریہ سزا سنائی گئی ہے۔ نوازشریف کے اس مقدمے کے فیصلے کےدن احتساب عدالت میں ایک عجب صورتحال جاری رہی۔ تین مرتبہ اس فیصلے کے اوقات تبدیل کئے گئے جس سے کئی وسوسوں نے جنم لیااوراس کے بعدسابقہ صدرزرداری نے تویہاں تک کہہ دیاکہ نوازشریف برطانیہ میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں اورپاکستان واپسی کاباب اب بندہو چکا ہے لیکن حیرت انگیزطورپر نوازشریف نے فیصلہ کے دن ہی اپنے فلیٹ میں پریس کانفرنس نے پاکستان واپسی کااعلان کردیااوران افواہوں نے اس وقت عملاً دم توڑدیاجب نوازشریف نے لاہورایئرپورٹ پرخودکومریم کے ساتھ گرفتاری کیلئے پیش کردیاجہاں سے ان کواڈیالہ جیل میں منتقل کردیاگیا ہے۔
ادھرچوہدری نثارانتخابی مہم میں نوازشریف کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اورنوازشریف ،مریم نواز اوران کے سیاسی اتالیقوں کااداروں کے خلاف بیانیے پرکھل کرناپسندیدگی کا اظہارکررہے ہیں جبکہ اب تونوازلیگ کے اندربھی افرادکی کمی نہیں ہے جودبے لفظوں میں اس بیانیے کوملک نہیں توکم ازکم اپنی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے ضرورنقصان دہ سمجھتے ہیں۔اس لئے شہباز شریف کی مصلحت کوشی یاصلح جواوراعتدال پسندی کوپارٹی کے اندرپذیرائی ملنے کابالواسطہ چوہدری نثارعلی کوبھی فائدہ ہوگاکہ ان کی اپروچ کوہی مانناپڑا ہے۔یوں نوازلیگ کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اعلیٰ قائدین بھی اپنے لئے اچھانہیں دیکھ رہے کہ یکایک چوہدری نثارعلی کاپسندکیا جانے والاانتخابی نشان کئی الیکٹیبلزکیلئے بھی جیت کی ضمانت بن رہا ہے گویادونوں متحارب جماعتوں وقیادتوں کیلئے چوہدری نثاراوران کی انتخابی شاہراہ پردوڑنے کیلئے تیارجیپ نے پریشانی بڑھادی ہے۔میاں نواز شریف نے پاکستان واپس آکراپنی اورپارٹی کی سیاسی ساکھ کوبچا لیاہے لیکن آئندہ آنے والے مقدمات کے نتائج کی سختی اورشدت سے کس طرح بچاتے ہیں ،یقیناًیہ سوال شہبازشریف کے مستقبل سے بھی جڑاہواہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ انھیں العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی سماعت سے الگ کر کے یہ ریفرنس دوسری عدالت میں منتقل کر دیے جائیں۔ اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر پر اعتراض کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ چونکہ وہ ایون فیلڈ فلیٹس ریفرنس میں فیصلہ دے چکے ہیں اور باقی دو ریفرنس بھی اسی نوعیت کے ہیں، اس لیے ان کی غیر جانب داری کسی طور ممکن نہیں ہے،اس لئے انہیں خود ہی اس مقدمے کی سماعت سے ہٹ جانا چاہیے جبکہ جج محمد بشیر کا کہنا تھا کہ وہ ازخود اس مقدمے کی سماعت سے دست بردار نہیں ہو سکتے اور اس امر کا فیصلہ کرنے کا اختیار اسلام ہائی کورٹ کوہے۔فی الحال چیف جسٹس نے اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں دیا کیوں کہ وہ ان دنوں چھٹیوں پر ہیں۔واضح رہے کہ نگران حکومت نے ان دونوں ریفرنسز کی سماعت اڈیالہ جیل میں کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
Load/Hide Comments