اسلامی تہذ یب وثقافت سے جدیددورتک

:Share

عہد وسطیٰ میں اسلام کے تابناک عروج کے بعد مسلمانوں میں فکری اورعلمی زوال شروع ہوگیاتھا۔ایک طرف فلسفی اور کلامی مُشگافیاں تودوسری طرف تقلید پسندی کی روش مسلمانوں میں عام ہورہی تھی۔ امام غزالیؒ اورعلامہ ابن تیمیہ نے اگرچہ اپنے اپنے ادوار میں مسلمانوں میں علمی و فکری بیداری کی موثر تحریکیں شروع کی تھیں، مگر پھر بھی مسلمانوں میں وہ قرونِ اولیٰ جیسی علمی تڑپ اور فکری عظمت پوری طرح بحال نہ ہوسکی۔ اگرچہ زوال بغداد اور منگولی حملوں کے باوجود بھی مسلمانوں میں سیاسی اقتدار قائم رہا، مگر مسلمانوں نے علوم و فنون میں جو کارنامے انجام دیے تھے وہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ جبکہ دوسری طرف مغرب جو اوائل عہد وسطیٰ تک گھپ اندھیرے میں تھا، وہاں پر عیسائیوں میں فکری نشاۃ ثانیہ کا آغاز 16 ویں صدی عیسوی کے اوائل سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ جب مغرب اپنی مذہبی اور فکری نشاۃ ثانیہ میں آگے بڑھ رہا تھا تب اگرچہ مسلم دنیا میں تین بڑی سلطنتیں قائم تھیں، جن کو اپنی عسکری برتری کی وجہ سے (The Gun Power Empires) کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا تھا، جن میں سب سے بڑی طاقت تو خلافتِ عثمانیہ تھی، جو دنیا کے تین بڑے براعظموں، ایشیا، افریقا اور یورپ میں برسر اقتدار تھی، ایران میں بھی صفویوں کی طاقتور حکومت قائم تھی اور برصغیر میں دہلی سلطنت کے بعد مغلیہ سلطنت بھی اپنے عروج پر تھی، اس سیاسی اور عسکری برتری کے باوجود بھی مسلمانوں میں فکری اور علمی جمود قائم ہوگیا تھا۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں کی اخلاقی و سماجی اور فکری حالت کی پسماندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی زوال بھی شروع ہو چکا تھا تو عالم اسلام کے مختلف خطّوں میں کئی عبقری شخصیات سامنے آئیں، جنہوں نے مسلمانوں میں نہ صرف فکری اصلاح کی تحریک کو شروع کیا بلکہ انہوں نے مسلمانوں میں سیاسی اور اقتصادی بہبودی کا شعور بھی پیدا کرنے کی پُرزور کوشش کی، ان شخصیات میں ایک طرف عرب دنیا میں شیخ محمّد بن عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک شروع ہوئی، تو دوسری طرف برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے نابغہ عصر شخصیات سامنے آئی، جنہوں نے تمام علومِ اسلامی میں بے بہا خدمات کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی رہنمائی فرمائی۔
مگر ان بیشتر اصلاحی تحریکوں کے مرکوزِ نظر صرف مسلمانوں کے داخلی تشویشناک حالات تھے اور وہ اُسی کا سدِباب کرنے میں لگے رہے، جبکہ دوسری طرف اس وقت تک یورپ میں اصلاحی تحریک (Reformation)، نشاۃ ثانیہ، صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی ایجادات بھی اپنے عروج پر تھیں، اس بڑھتی ہوئی مغربی طاقت کا اندازہ نہ تو عوام الناس کو تھا اور نہ ہی مسلم مفکِرین اور مصلحین کو تھا۔ انیسویں صدی میں یورپ نے باقاعدہ طور پر مسلم علاقوں کو اپنے استعمار کا نشانہ بنایا، دیکھتے ہی دیکھتے مسلم دنیا کے بیشتر علاقوں اور مراکز کو یورپی طاقت نے باآسانی اپنی نوآبادی (Colonies) میں تبدیل کر دیا۔ اس فکری جمود اور مغربی استعمار کے خلاف پوری مسلم دنیا میں کئی احیائی تحریکیں اٹھیں، جنھوں نے مسلمانوں میں علمی اور فکری بیداری اجاگر کرنے کے لیے تحریکیں شروع کیں، اس دور میں اگرچہ عرب دنیا میں سیّد جمال الدین، محمد عبدہ، سید رشید رضا کی تحریک اٹھی، برصغیر میں سید احمد بریلوی کی تحریکِ جہاد، سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک، علما ئے ہند کی دیوبند تحریک اٹھی، اسی دور میں دوسری طرف وسطِ ایشیا جو کہ اوائل قرونِ وسطیٰ میں مسلم دنیا کا ثقافتی اور علمی مرکز رہا تھا، وہ بھی ایک طرف علمی اور فکری ابتری کا شکار تھا تو دوسری طرف انیسویں صدی کے اختتا م تک پورا وسط ایشیا روسی سامراج کا شکار ہو چکا تھا
اوراپنی تمام خودمختاری کھوچکاتھا،اسی روسی استعمارکے خلاف اورمسلمانوں میں بڑھتے فکری اورعلمی جمودکے خلاف وسطِ ایشیا میں مفکرین اور دانشوروں نے جو علمی بیداری کی تحریک شروع کی، اس تحریک کو تحریکِ جدید کے نام سے جانا جاتا ہے۔
روسی سامراج نے اگرچہ سولہویں صدی سے ہی وسطِ ایشیا پر دست درازی شروع کی تھی مگر ۱۸ویں صدی عیسوی تک وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہورہے تھے، چنانچہ اٹھارویں صدی ترکستان کے لیے انتشار و افتراق کا پیغام لے کر آئی، تاتاری خوانین (Khanates) کی آپس کی خانہ جنگیوں سے روسی سامراج نے فائدہ اٹھایا اور ۱۸۸۵ء تک روس پورے مغربی ترکستان پر قابض ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کی روسی سامراج کے ہاتھوں شکست کے اسباب کے متعلق مشہور مؤرخ، آباد شاہ پوری اپنی کتاب ’’روس میں مسلمان قومیں‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’جس زمانے میں روس کا سامراجی اژدھا اپنی کنڈلی کا دائرہ وسیع کر رہا تھا قازقستان سے ترکستان تک پھیلے ہوئے مسلمان علاقے علمی و فکری لحاظ سے جمود کا شکار ہو چکے تھے۔ منگولوں کے سیلاب اور اس کے بعد آئے دن کے طالع آزما فاتحین کے لائے ہوئے آتش و خوں کے طوفانوں سے بچنے کے لیے طبقہ اشراف اور طبقہ اوسط کے لاتعداد افراد ترکِ وطن کرکے دوسرے مسلمان ملکوں میں چلے گئے۔ اس طرح یہ علاقے اعلیٰ فکری و ذہنی صلاحیتوں کے حامل دماغوں سے بڑی حد تک محروم ہوگئے۔ باقی ماندہ لوگ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ اذہان کی اعلیٰ تربیت اور ان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے اور جلا دینے کے لیے اعلیٰ طرز کے فکری و علمی اور تربیتی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان علاقوں میں بہت کم باقی رہ گئے تھے۔ علمی و فکری جمود نے تہذیبی و معاشرتی زندگی کو متاثر کیا اور پھر رفتہ رفتہ سیاسی زندگی بھی اس کی لپیٹ میں آگئی، جسے مختلف خانوادوں کے طالع آزماؤں نے اور بھی سنگین بنادیا۔ ان جنگوں میں رہا سہا جوہر بھی تیغ و سناں کا شکار ہوگیا‘‘۔
روسی زار کے قبضے کے بعد کچھ ہی دہائیوں میں وسطِ ایشیا میں مسلمان جوکہ اب تک بیشتر علاقوں میں غالب اکثریت رکھتے تھے، نہ صرف ان کی اکثریت متاثر ہونے لگی بلکہ مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی حقوق پامال ہونے لگے، اس کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریوں کے ذریعہ مسلمانوں میں ارتداد کو فروغ دیا گیا، ٹھیک اسی زمانہ میں جب روسی کلیسا تاتاری مشنریوں کے ذریعے تاتاری مسلمانوں کے دینی افکار پر شب خون مار رہا تھا، تاتاریوں میں احیائے اسلام کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔
انیسویں صدی کے اوائل میں ہی مسلما نانِ وسطِ ایشیا میں چند گراں قدر ہستیاں جوکہ مصلح اور طبیبِ قوم بن کر ابھرے اور اپنی مسلسل کوششوں سے تحریکِ جدید کی فکری بنیاد رکھی، جس کے تحت مسلمانوں کے زوال کی وجوہات پر غور کیا گیا اور ایسے اقدامات کرنے کا منصوبہ بنایاگیا جوکہ مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ کی طرف بلائے۔ تحریک جدید کی فکری اور علمی کاوشوں سے پتا چلتا ہے کہ تحریکِ جدید کے مندرجہ ذیل بنیادی مقاصد تھے:
۱۔ مسلمانانِ روس کو ذلت کی پستیوں سے نکالنا اور ان میں اپنی ذات، اپنے تمدن کا اعتماد بحال کرنا۔
۲۔ ایک جدید نظامِ تعلیم متعارف کروانا، جس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم مثلاً حساب، جغرافیہ، سائنس اور روسی زبان کی تدریس کا اہتمام ہو۔
۳۔ جدید طرز پر مبنی مدارس کا قیام عمل میں لانا، جن میں مسلمانوں کی فکری اور علمی بنیاد پرتربیت کی جائے۔
۴۔ روس کے اندر رہنے والے تمام مسلمانوں خصوصاً ترکوں میں اتحاد کی فضا قائم کرنا۔
۵۔ ایک ایسی زبان رائج کرنا جو روس میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی مشترکہ زبان کا کردار ادا کرے۔
۶۔ جدید مسائل کا اسلامی حل نکالنے کے لیے اجتہاد کا استعمال کرنا۔
اگرچہ تحریک ِ جد ید کی عملی شکل انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں (۱۹۰۰۔۱۸۸۰) میں منظرعام پر آئی، جب عملی طورپر ’اصولِ جدید‘ کے نام سے نئے اسکول کھولے گئے، مگر فکری اور علمی طور پر تحریکِ جدید کی بنیاد انیسویں صدی
کے آغاز سے ہی شروع ہوچکی تھی۔ تحریکِ جدید کے ابتدائی رہنماؤں میں سرفہرست ابونصرالقرضاوی (۱۸۱۴۔۱۷۸۳) اور شیخ شہاب الدین المرجانی (۱۸۸۹۔۱۸۱۸)کو مانا جاتا ہے۔ ابونصرالقرضاوی فکرِ جدید کے پہلے مصلح تھے جنہوں نے سب سے پہلے اندھی تقلید، علم الکلام کی بہ وجہ مُشگافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اجتہاد و آزادیِ رائے کی حمایت کی۔ چونکہ ابو انصرالقرضاوی کو روایت پسند علما کی مخالفت کا سامنا تھا، اس لیے انہوں نے صرف مسلمانوں میں بیداریِ فکر کا شعور پیدا کیا، جو تقلید پسندی اور جمود پسندی کے خلاف پہلا اعلان تھا۔ القرضاوی کے بعد شیخ شہاب الدین المرجانی تحریکِ جدید کے فکری معمار بن کر سامنے آئے۔ المرجانی کودورانِ طالب علمی ہی سے اپنے اساتذہ اور علما کے فکری و ذہنی جمود کا شدت سے احساس ہو گیا تھا، انہوں نے جب صورتحال پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس فکری جمود اور شکستِ حالی کی اصل ذمہ دار اس پرانے طرزِ تعلیم پر عائد ہوتی ہے، جو مدارس میں رائج تھا۔ چنا نچہ وہ بخارا سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دینی درسگاہوں میں اصلاح کا عزم لیے واپس اپنے وطن لوٹے، انہوں نے علما کے فکری جمود اور تنگ نظری پر سخت تنقید کی۔ المرجانی کی اصلاحی فکر کا مرکز مندرذیل نکات تھے:
۱۔ ہر مسلمان مذہب سے متعلق اپنے سوالات کے جواب خود قرآن سے حل کرنے کی کوشش کرے۔
۲۔ اندھی تقلید کی روایت کو ختم کیا جائے۔
۳۔ قدیم روایتی نصابِ تعلیم کو نظامِ تعلیم سے خارج کرنا۔
۴۔ مدارس میں قرآن، حدیث اور تاریخِ اسلام کے مضامین کی تدریس کو جدید
انداز میں متعارف کروانا۔
۵۔ مسلمانوں کو اپنی ابتدائی پرانی ثقافت کی طرف بلانا۔
۶۔ المرجانی کو جس انقلابی شخصیت کے نظریات اور زندگی نے متاثر کیا تھا، وہ امام غزالیؒ تھے، انہوں نے اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں گزاری کہ اسلام کو مخصوص علما کے روایتی چنگل سے آزاد کرایا جائے۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ اسلام آج بھی دور ِ جدید کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے اور دورِ جدید کی سائنس کا تسلی بخش جواب مذہب سے دینے کی اہلیت رکھتا ہے اور ان کا یقین تھا کہ اسلام کے آفاقی اصولوں کی مدد سے آج بھی اسلام کی عظمتِ رفتہ کو واپس لایا جاسکتا ہے۔ چنا نچہ المرجانی نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور ۱۸۶۶ء میں اپنے تعلیمی نظریات کے مطابق ایک نیا دینی مدرسہ قائم کیا، بعدازاں تاتاری علاقوں میں اس قسم کے مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان نئے طرز کے مدارس کو کریما کے اسماعیل گسپرالی (۱۹۱۴۔۱۸۵۱ء) نے ایک نیا رنگ دیا، گسپرالی کو ترکستان کی تحریک جدید کا اصل معمار مانا جاتا ہے۔ اسماعیل گسپرالی نے جن نئے مدارس کی بنیاد رکھی، انہیں ’اصولِ جدید‘ کا نام دیا گیا، بعدازاں اسی ’اصولِ جدید‘ کی مناسبت سے اس فکری تحریک کو ’جدیدازم‘ یا تحریکِ جدید کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
۷۔ اسماعیل گسپرالی کے ان قائم شدہ مدارس میں اسلامی مضامین کے علاوہ دور جدید سے متعلق مضامین کی تدریس کا اہتمام کیا گیا۔ مدارس میں روسی زبان سیکھنے پر خصوصی زور دیا گیا، یہ تمام اصلاحات اس مقصدکے تحت تھیں کہ مسلمان تعلیمی میدان میں دوسری قوموں سے کٹ کر نہ رہ جائیں۔
ابتدائی طور پر اسماعیل گسپرالی نے اپنے مقاصد کے حصول کے وقت سیاست سے پرہیز کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر روسی اقتدار کے خلاف جدوجہد کی گئی تو مسلمان کچل دیے جائیں گے۔ چنانچہ گسپرالی نے اس وقت کے حالات کے تحت روس نواز موقف ضرور اختیار کیا لیکن وہ سلطنتِ روس کے اسلامی علاقوں کو روسیانے کی پالیسی کے سخت خلاف تھے۔ دراصل وہ اسلام میں جدیدیت اور تورانیت کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے، گسپرالی کا نظریہ تھا کہ اسلام ترکوں اور تاتاریوں کے کلچر کا لازمی جزو ہے۔ اسماعیل گسپرالی فکری طور پر اپنے دور کے متعدد علمی اور فکری تحریکوں سے متاثر تھے، ایک طرف دورانِ قیام پیرس وہ کسی حد تک لبرل ازم کی تحریک سے متاثر ہوگئے تو دوسری طرف قیامِ مصر میں وہ سید جمال الدین افغانی کی تحریکِ اخوتِ اسلامی سے بھی متاثر ہوئے، اس کے علاوہ وہ ترکی کی نوجوان تحریک سے بھی کافی متاثر تھے، یہ سب اثرات گسپرالی کی سیاسی، سماجی، اصلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں میں پوری طرح کار فرما رہے۔ وہ بیک وقت اسلامی اتحاد کے علمبردار بھی تھے، عربی زبان کو اہمیت بھی دیتے مگر ساتھ ساتھ بعض مغربی اصلاحات کو اپنانے کے خواہش مند بھی تھے۔اپنے مقاصد کے حصول کے لیے گسپرالی نے ذرائع ابلاغ اور نئے طرز کے مدارس کا بھرپور استعمال کیا۔ ۱۸۸۳ء میں انہوں نے اپنا اخبار ’ترجمان‘ شائع کیا جو دو دہایوں تک کاشغر سے لے کر کریمیا بلکہ قسطنطنیہ تک مسلمانوں کی فکری اور علمی رہنمائی کرتا رہا۔ اسماعیل گسپرالی نے ’ترجمان‘ کے ذریعے نہ صرف مسلمانانِ روس کو درپیش سیاسی، اقتصادی اور فکری چیلنجوں کاجواب دیا بلکہ ’ترجمان‘ کے ذریعے وہ ایک ایسی زبان کو ترویج دینے کی کوشش کر رہے تھے، جو روس کے ترکی النسل مسلمانوں کی مختلف چھوٹی چھوٹی زبانوں کی جگہ روس کے تمام مسلمانوں کی مشترکہ زبان بنے۔ اس طرح گسپرالی اور ان کے پیروکاروں کی کاوشوں سے روسی مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ ملا، اور ترکی زبان میں کتابوں کی اشاعت اور طباعت کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلمانوں میں علمی اور فکری بیداری کی تحریک دن بہ دن مضبوط ہونے لگی۔
جہاں اصولِ جدید کے مدارس میں روزبہ روز اضافہ ہو رہا تھا اور وہ نئی نسل کے فکر و ذہن کو نئے سانچے میں ڈھال رہے تھے، وہیں وسطِ ایشیا میں قدیم طرز کے مدارس بھی سرگرمِ عمل تھے، جہاں نئے زمانے کی رفتار اور نئے دور کے مسائل کا نہ تو کوئی احساس تھا اور نہ گزر۔ ان روایتی مدارس کی فضا دسویں صدی عیسوی کی تھی، انہیں نصاب میں کسی قسم کا تغیر و تبدل گوارا نہ تھا۔ چنانچہ جب جدیدیوں نے اصولِ جدید مدارس کے ضمن میں اپنی کوشش شروع کیں تو انہیں قدیم علما کی طرف سے سخت تنقید اور مزاحمت کا سامنا کر نا پڑا، اس کے علاوہ روسی حکومت کی مخالفت کا بھی سامنا تھا، جو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے خو فزدہ ہوگئی تھی، اس کے ساتھ ہی ایک اور مخالفت عیسائی مشنریوں کی طرف سے تھی، جو مسلمانوں کو روسی بنانے کے حق میں تھے۔ نظامِ تعلیم میں اصلاحات کے علاوہ تحریک جدید کے مصلحین غیر مسلم حکمرانوں کے زیر تسلط مسلمان کالونیوں میں مغر بی جدیدیت اور اسلامی عقیدے اور ثقافت کے درمیان ٹکراؤ سے پیدا شدہ مسائل کو مناسب انداز میں حل کر نے کے لیے کوشاں رہے، انہوں نے پہلے مسلمانوں میں اندرونی کمزوریاں دور کرنے کی سعی کی اور مسلمانانِ وسطِ ایشیا میں فکری اور لسانی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۰۵ء کے پہلے روسی انقلاب کے بعد تحریک جدید نے باقاعدہ سیاسی جدوجہد شروع کی اور ’اتفاق المسلمین‘ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی، جس نے پہلے ہی عام انتخابات میں حصہ لے کر ۵۳ نشستیں حاصل کیں،مگرچونکہ روس میں یہ سیاسی آزادی کامختصردوررہا، جس کی وجہ سے تحریک جدید کی سیاسی سرگرمیوں کو پوری طرح کچل دیا گیا۔
۱۹۱۷ءکے روسی انقلاب کے بعدجب زارشاہی کے بدلے سویت یونین نے حکومت پر قبضہ جمایا تب مسلمانانِ روس کا سب سے سخت اور مشکل دور شروع ہوا، ایک طرف مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تو دوسری طرف اقتصادی، سیاسی استحصال کو فروغ دیا گیا، ان حالات میں عوام کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ کئی مصلحین نے بھی وسطِ ایشیا سے ہجرت کی، مگر ان حالات میں بھی کئی جدید مفکرین نے مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اگرچہ سوویت یونین کی استحصالی پالیسی کی وجہ سے تحریک جدیدکا سیاسی اور عملی وجود کافی حد تک متاثر ہوا مگر تحریک جدید کے کئی مفکر کسی نہ
کسی طرح اپنا پیغام مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اگرچہ ایک طرف وسطِ ایشیا کے مختلف علاقوں میں تحریک جدید کے نام پر کافی سارے مفکرین ابھرے، مگر دوسری طرف سویت یونین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کی مشکلات میں اور زیادہ اضافہ ہوتا گیا۔ اگرچہ یہ بات ایک طرف مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک جدید کا قیام عمل مسلمانوں کی دینی، علمی اور فکری بیداری کے لیے کیا گیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک جدید کے بہت سے مفکرین مغربی جدیدیت (Western Modernism) اور لبرل ازم (Liberalism) کے تصورات سے متاثر ہونے لگے، تاہم سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کی طرح تحریک جدید نے تعلیمی محاذ پر مسلمانانِ وسط ایشیا کی جو خدمات سر انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
اسماعیل گسپرالی کے بعد تحریک جدید کے جو سرکردہ مصلحین اور مفکرین وسطِ ایشیا کے مختلف خطوں میں اٹھے ان میں، منور قاری (۱۹۳۳ء۔۱۸۸۹ء)، ریاض الدین (۱۹۳۶ء۔ ۱۸۵۹ء)، موسیٰ جارا (۱۹۴۹ء۔۱۸۷۵ء)، جیسی علمی اور فکری شخصیات سرفہرست ہیں۔ تحریکِ جدید کے مدارس اور ان کی فکر پر مغربی تصورات کے اثرات کے متعلق، محقق آباد شاہ پوری تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’چونکہ خود اسمٰعیل گسپرالی فکری یکسوئی سے محروم تھے۔ اس لیے یہ مدارس بھی انتشارِِ فکر کا سرچشمہ بن گئے۔ سیاسی قوم پرستی اور تولانی تحریک نے انہی مدارس میں جنم لیا‘ سوشلزم اور مارکسٹ نظریات نے بھی یہیں فروغ پایا‘ روسی مسلمانوں میں بائیں بازو یا خالص سیکولر ذہن و فکر رکھنے والے جتنے رہنما اور فعال و سرگرم کارکن تھے وہ سب انہی جدید مدارس کے فیض یافتہ تھے۔ اس طرح جس تحریک کا آغاز شہاب الدین المرجانی نے اسلامی تہذ یب و ثقافت کے تحفظ اور اسے دنیا میں موثر طاقت بنانے کے نیک عزائم کے ساتھ کیا تھا‘ اس کے نتائج تباہ کن نکلے‘‘۔ مختصراً تحریک جدید کے اجمالی جائزے اور تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحر یکِ جدید بھی انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کی ان متعدد مسلم اصلاحی، احیائی تحریکوں میں ایک تھی، جنہوں نے مسلمانوں میں بڑھتے علمی فقدان، فکری جمود، تقلید پسندی، جدید علوم سے دوری اور مغربی استعمار کے استحصال کے خلاف آواز اٹھائی، باقی تحریکوں کی طرح اس تحریک میں بھی کافی ساری کمزوریاں تھیں، اس تحریک کے نتیجے میں اگرچہ ایک طرف مسلمانانِ وسطِ ایشیا میں علمی اور فکری شعور بیدار ہوا تو دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ کافی حد تک مغربیت کے زیر اثر آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں