جدیدعقلیت نے کسی بھی چیزکے درست ہونے کامعیاریہ رکھاہے کہ وہ انسانی عقل میں آجائے اوراس کا تجربہ بھی ممکن ہو۔اس لاجک کے تحت مذہبی عقائدکو بھی ہدف تنقیدبنانے کارواج عام ہوتاجارہاہے چنانچہ جہاں عقیدہ توحید،رسالت،آخرت پرعقلی سوالات اٹھائے گئے ہیں وہاں اس زدمیں انبیاءکے معجزات بھی آئے ہیں۔جدیدذہن ان کی عقلی وسائنسی توجیہہ کامطالبہ رکھتاہے۔اس کوجانتے ہوئے بھی کہ سائنس کچھ ڈائمنشنز،مشاہدات وتجربات تک محدودہے،ہرحتمی سچائی،رازاورعلم سے واقف نہیں ،کئی مسلم نوجوان ان عقائدکے بارے میں شکوک وشبہات کاشکارہوگئے اورکچھ مخلص مسلمانوں نے جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پرہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کرلئے۔
جب سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس مادی دنیاکوسمجھنے پرزوردیااوراس کواپنے فوائدکیلئے استعمال کرناشروع کیاتومذاہب پر بہت سارے نئے اعتراضات نے کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کے ساتھ حملے کرنے شروع کردیئے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اس کے نتیجے میں کچھ مسلمانوں کوجوابات دینے میں کچھ زیادہ ہی دقتیں پیش آئیں اورکچھ مخلص مسلمانوں نے تو جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پرہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کرلئے۔اس کی اصل وجہ مسلمانوں کاان جدیدعلوم کی حقیقت سے نابلدہونااورخوداعتمادی کی شدیدکمی تھی جبکہ سائنسی علوم کوپیش کرنے والے اپنی علمیت پربہت پراعتمادتھے۔اگرچہ بعدکے ادوارمیں شکوک وشبہات کابخوبی جواب دے دیاگیالیکن ہماراایک طبقہ ابھی بھی شکوک وشبہات میں ہی جی رہاہے۔چونکہ باطل ایک ہی حالت میں نہیں رہتا،بھیس بدل بدل کراورمختلف وسائل کواستعمال کرکے آتاہے،اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ جوپرانے سوالات نئی نسل کے سامنے بالکل نئے انداز میں سوشیل میڈیاکے ذریعے سے سامنے آرہے ہیں ان کا اسی طرح جواب دیاجائے۔عقائدکی سائنسی تفاسیرکے حق میں جائے بغیرجدید مسلم ذہن کی اس تشکیک کودیکھتے ہوئے ان معاملات کی ایسی معقول وممکن سائنسی توجیہہ وتشریح کی ضرورت ہے جس سے ان کے خلاف عقل ہونے کے دعوے کی حقیقت واضح ہوجائے۔
معجزہ وہ خلاف عادت چیزہے جوسوال اوردعویٰ(نبوت)کے بعدظاہرہوجوہرحیثیت سے محال نہ ہواورلوگ باوجود کوشش اورتدبیرکے اس قسم کے معاملات میں پوری فہیم وبصیرت رکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ سے عاجزہوں۔معجزہ کے ذریعہ چونکہ ایساواقعہ ظہور میں آتاہے جوقوانین فطرت کی عام روش سے ہٹاہواہوتا ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ مدعی نبوت رب العالمین کانمائندہ ہے جس نے اس کی صداقت ثابت کرنے کیلئےاپنی براہ راست مداخلت سے وہ واقعہ نشانی کے طور پرصادرکیاہے اگرچہ رسول کی سیرت،اخلاق،طبعی سلامت روی اوررسول کاسنایاہواپیغام خودسے دلیل ہوتاتھالیکن ہرذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتاتھا اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایساخرق عادت واقعہ پیش کیاجاتاجوکہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔یہ خرق عادت واقعات اللہ کے وجودکوثابت کرنے کیلئےپیش نہیں کئے گئے،بلکہ اصلاًرسول کورسول ہونے کی دلیل کے طورپراورضمناًرسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طورپرپیش کئے گئے۔
سائنس کے مزعومہ دریافت کردہ قوانین سے مرعوبیت کی بناپرہمارے ہاں ایسے مفسرین قرآن نے بھی جنم لیاجنہوں نے قرآن کومعلوم سائنسی قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے جوش میں یاتومعجزات کاسرے سے انکارہی کردیااوریاپھران کی ایسی بے سروپاتاویلات کیں کہ وہ معجزہ ہی نہ رہے۔سائنسی معلومات و قوانین کی بنیادپر معجزات کاانکارکرنے والے شخص کی ذہنی کیفیت اس ایلین کی سی ہے جو کہیں سے ہماری زمین پرآگیاہے اورٹریفک سگنل کے سامنے کھڑامشاہدہ کررہاہےکہ لال رنگ کی بتی جلنے پرگاڑیاں رک جاتی ہیں اور سبز بتی پرچلنے لگتی ہیں۔فرض کریں متعدددفعہ یہی مشاہدہ کرنے پراس کے ذہن میں یہ مفروضہ جنم لیتاہے کہ لال رنگ کی بتی گاڑی رکنے کاسبب ہے اورسبزرنگ کی بتی ان کی حرکت کا سبب۔اپنے مفروضے کی مزیدتحقیق کیلئے وہ شہربھرکے سگنلزکاچکرلگاتاہے اورہرجگہ واقعات کی اسی ترتیب کامشاہدہ کرنے کے بعدوہ اپنے درج بالامفروضے کودنیاکااٹل قانون مان لیتاہے۔اب فرض کریں سڑک پراس کی ملاقات ہماری دنیاکے کسی شخص(آپ)سے ہوتی ہے اوروہ آپ کودنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ قانون سے آگاہ کرتاہے یعنی لال بتی ہمیشہ گاڑی روک دے گی اورسبز بتی اسے چلادے گی۔آپ مسکراکراسے کہتے ہیں کہ جناب لال اورسبزمیں ایساکچھ نہیں ہے جوگاڑیوں کوروکتایاچلاتاہے بلکہ ان رنگوں میں یہ معنی وتاثیرہم انسانوں نے خودرکھے ہیں،جب تک ہم چاہتے ہیں یہ ترتیب نظر آتی رہتی ہے اورجب ہم نہیں چاہتے توہم اسے معطل کردیتے ہیں،جیسے کہ ایمبو لنس کوہم نے اس قانون سے مستثی کررکھاہے مگروہ ایلین اپنی تحقیق پربضدرہتاہے،آپ کی بات پریقین نہیں کرتابلکہ الٹاآپ کوجاہل اورنادان سمجھنے لگتاہے اوردعویٰ کرتاہے کہ دنیاکے قانون فطرت کے مطابق ہوہی نہیں سکتاکہ ایمبولینس لال بتی پرنہ رکے۔
یہی حالت ہراس شخص کی ہے جوسائنسی مشاہدات کی بنیادپردریافت شدہ روابط کوحتمی سمجھتے ہوئے معجزات کاانکارکرتاہے۔اللہ کا نبی کہتاہے کہ یہ اشیاءبذات خود مؤ ثرنہیں بلکہ ان کی یہ بظاہردکھائی دینے والی تاثیراورمعنی حکم خداوندی کی بناپرہیں، جب تک وہ چاہتاہے یہ ربط تمہیں دکھائی دیتاہے اورجب اس کااذ ن نہ ہوتویہ روابط معطل ہوجاتے ہیں مگرسائنس کاماراہوانادان انسان اللہ کی بنائی ہوئی دنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ ربط کواٹل جانتے ہوئے نبی کاتمسخراڑاتاہے تو سوال یہ ہے کہ آیامعجزات کاصادرہوناسائنس سے مطابقت رکھتاہے؟اس بارے میں پہلے تومعجزات وکرامات اورسائنس کی حقیقت کوپوری طرح سمجھناضروری ہے۔ کلام پاک میں انبیاءکے معجزات کے جوواقعات پیش کئے گئے ہیں ان کووسیع ترمعنوں میں دواقسام میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
اوّل یہ کہ جب رسول اپنی نبوت کادعویٰ پیش کرتے تھے تویہ ایک بہت بڑادعویٰ ہوتاتھا۔ایک انسان جب یہ دعویٰ کرے کہ میں ربّ العالمین کانمائندہ ہوں اور اس کی طرف سے اس کے احکامات سنانے جارہاہوں تویہ سوال پیداہوتاتھاکہ رسول کے اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔اس کیلئے اگرچہ رسول کی سیرت، اخلاق ، طبعی سلامت روی اوررسول کاسنایاہواپیغام خودسے دلیل ہوتاتھالیکن ہرذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتاتھااس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیاجاتا جو کہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔ لیکن اس بات کافیصلہ کہ آیاایسا کوئی خرق عادت واقعہ پیش کرناضروری ہے یانہیں اس کافیصلہ رب العالمین خودکرتا تھااوراس واقعہ کا اصل فاعل اللہ ہی ہوتاتھا۔مثلاًعیسی،صالح اورموسی علیہم السلام سے متعلق قرآن پاک میں ایسے واقعات کاذکرہے لیکن نوح،ہود،لوط علیہ السلام کے معاملے میں ایسے کسی واقعے کاذکرنہیں ہے۔اس ضمن میں ایک اوربات سمجھنے کی ہے کہ یہ خرق عادت واقعات خداکے وجودکو ثابت کرنے کیلئے پیش نہیں کئے گئے بلکہ اصلاًرسول کورسول ہونے کی دلیل کے طورپراورضمناً رسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طورپرپیش کئے گئے۔یہاں پریہ واضح ہوکہ کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیاکہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے خرق عادت کام کرکے دکھاسکتاہے۔
دوسری قسم کے معجزات وہ ہیں جوکہ اللہ کی طرف سے کسی نبی کی مددونصرت کیلئے پیش آئے۔اس مددمیں نبی کوتعلیم دینا،نبی کے دل میں اطمینان وسکینت کا پیدا کرنا،نبی کودشمنوں کی دشمنی سے بچانایانبی کی کسی خاص ضرورت کوخرق عادت طریقے سے پورا کرناوغیرہ بھی شامل ہیں(مثلاواقعہ معراج ،بدروثورمیں نصرت) ۔ اس قسم کامعجزہ بھی کسی انسان کی مرضی پرمنحصرنہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس کوپبلک مقامات پریالیباریٹری میں اس کامظاہرہ کرکے دکھائے۔کچھ معجزات ان دونوں قسموں پرمحیط ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پرآگ کاٹھنڈاہونا۔کرامات ان خرق عادت چیزوں کوکہاجاتاہے جوکہ کسی غیرنبی کے ذریعے سے پیش آئے۔ چونکہ کسی غیر نبی کےلئے پہلی قسم کی خرق عادت چیزکی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے کرامات کی شکل میں صرف دوسری قسم باقی رہ جاتی ہے۔
جدیدسائنس علمیت کی ایک شاخ ہے جوکہ مشاہدات اورتجربات پرمبنی ہے۔کسی چیزکے سائنس ہونے کیلئے ضروری ہے کہ علم کی بنیادمشاہدات اورتجربات پر ہو اوران مشاہدات اورتجربات کاصرف ایک بارہوناکافی نہیں ہے بلکہ بقدرضرورت اس کودہرانابھی ضروری ہے اورمزیدیہ کہ ان مشاہدات اورتجربات سے جوعلمی نتائج اخذکئے جاتے ہیں اس کی بنیادپرآگے کی پیشن گوئی بھی ممکن ہو۔علم و تحقیق میں سہولت کیلئےسائنس کچھ بنیادی اصول بھی طے کرتاہے مثلاًیہ دعویٰ کہ مادہ اور قوت پیداکی جاسکتی ہے اورنہ ختم کی جا سکتی ہے۔اس کائنات کے اندرجوبھی مادہ اورقوّت ہے وہی چیزاپنی شکلیں تبدیل کرتی رہتی ہے۔سائنس کایہ بھی دعویٰ ہے کہ کائنات ایک بندنظام ہے یعنی سائنس کادعویٰ ہے کہ اس کائنات کے اندرجوبھی ہوتاہے اس کی علت اسی کائنات کے اندرموجودہے۔واضح ہوکہ یہ دونوں نکات یعنی مادہ اورقوت کاکائنات کے اندرمحدودہونااورکائنات کاایک بندنظام ہونا،وہ بنیادی مفروضات ہیں جن پرسائنسی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
سائنس کے یہ دونوں اصول سائنسی تحقیق کیلئے بہت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔اگرسائنسی تحقیق کیلئےپہلے ہی سے یہ اصول نہ گھڑے ہوتے تواتنی سائنسی ترقی ممکن نہ ہوتی۔اگرانسان ہرواقعے کوکائنات سے باہرکی کسی باارادہ ہستی سے منسوب کرتاتوپھروہ قواعداور قوانین جن کے تحت کائنات چلتی ہے کادریافت کیاجانا انتہائی مشکل ہوتا۔پھرانسان کسی قانون کی دریافت کی بجائے اس بیرونی قوت کے ارادے کومعلوم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا۔سائنسی تحقیق میں تجربہ ومشاہدہ بنیادی اہمیت رکھتاہے اس لئے سائنس کابہت بڑاحصہ استقرائی منطق پرمبنی ہے یعنی سائنسدان ایک نتیجے کواخذکرنے کیلئے مختلف تجربات کرکے اس کودہراتے ہیں اور جب تمام تجربات اس نتیجے کی تائیدکرتے ہیں تواس نتیجے کی توثیق کردیتے ہیں کہ ہمیشہ اس تجربے کالازمی طورپریہی نتیجہ نکلے گا۔اس طرزتحقیق میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ محدودتجربے کوبنیادبناکرلامحدودنتائج اخذکئے جاتے ہیں۔
اس طرزتحقیق کے ساتھ دوسرامسئلہ یہ ہے کہ ایک نتیجے کی وجہ معلوم ہوئے بغیرصرف تجربے کی بنیادپراس نتیجے کوقبول کرلیا جاتا ہے۔مثلاجب نیوٹن نے یہ دیکھاکہ درخت سے سیب ہمیشہ نیچے گرتاہے،اونچائی پرچڑھنے کیلئےزیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔سیارے سورج کے گردگھومتے ہوئے اپنے مدارسے باہرنہیں نکل پاتے اگرچہ عام طورپرچیزیں خط مستقیم میں ہی سفرکرتی ہیں تویہ نتیجہ اخذ کیاکہ مادہ اپنی کمیت کے مطابق دوسرے مادے کوکھینچتاہے۔اس کھینچنے کی خصوصیت کوکشش ثقل کہتے ہیں اوراسی بنیادپرہم علم ریاضی کے فارمولے کواستعمال کرتے ہوئے کسی جسم کی حرکت کے بارے میں پہلے ہی سے بتاسکتے ہیں اس کی حرکت کیسی ہوگی لیکن اس تحقیق سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مادہ کیوں دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔
بہت سارے معاملات ایسے ہیں جوکہ ہمارے شعورسے گہراتعلق رکھتے ہیں لیکن اوپربیان کئے گئے سائنسی علوم کے دائرے میں اس کی تشریح نہیں کرپاتے۔ مثلاًیہ سوال کہ کائنات ہمیشہ سے وجودرکھتی ہے یاکسی محدودوقت سے پہلے بنی،کائنات کاکوئی خالق ہے یا نہیں،انسانی شعورکی کیاحقیقت ہے؟آیایہ ہمارے حیاتیاتی دماغ کاہی حصہ ہے یااس سے خارج میں کوئی چیز۔اس طرح کے معاملے میں اپنی عقل کواستعمال کرکے غوروفکرکیاجاتاہے اوراستخراجی منطق کواستعمال کرکے نتائج اخذکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کی وجہ ہمارے مشاہدے اورتجربے کابہت محدودہوناہے۔اس کومعقولات کہتے ہیں۔
علم فلسفہ کی ایک بنیادی بحث یہ ہے کہ علم کامنبع تجربات ہیں یامعقولات۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن یہاں پراس بات کی وضاحت کرنے کامقصدیہ بتاناہے کہ سائنسی علوم کی کچھ حدودہیں۔سائنس فی نفسہ تمام علوم کااحاطہ نہیں کرتی چونکہ سائنس اوپربیان کردہ کچھ بنیادی مفروضات رکھتی ہے اس لئے ہم کبھی یقینی طورپرنہیں کہہ سکتے کہ سائنسی دریافت سے جوعلم حاصل ہواوہ حتمی ہے۔چونکہ سائنس محدودتجربات سے لاحدودنتائج اخذکرتی ہے اس کی وجہ سے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اگرحالات یادئیے گئے پیرامیٹرمیں کوئی جوہری تبدیلی آگئی تونتیجہ ہمارے علم کے مطابق ہی نکلے گایانہیں چونکہ سائنس کسی نتیجہ کی وجہ بتانے سے قاصرہے اس لئے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ جوچیزسائنس کے نزدیک آج حتمی کل بھی حتمی ہی رہے گی۔سائنس کسی ظاہرے کی وجہ بتاتی ہے توپھراس کے
جواب میں ایک اور“کیوں”چھپاہواہوتاہے۔جب اس نئے کیوں کاجواب ملتاہے تواس کے پیچھے ایک اورکیوں ضرور ہوتاہے۔
گویایہ ثابت ہوگیاکہ سائنس انسانی علوم کی صرف ایک جہت ہے۔ انسانی علوم کے کچھ پہلو سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس لئے معجزات کی سائنسی تشریح غیر ضروری ہے ۔اسلامی عقیدے کے مطابق معجزات اور کرامات کو کوئی انسان اپنی مرضی سے تجربہ کر کے اس کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے معجزے کو سائنسی تجربہ کر کے ثابت کرنے کوشش عبث ہے۔ جب دعویٰ ہی موجود نہیں تو ثبوت کی طلب بے معنی ہے۔