امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو مذاکرات کی دعوت پر مبنی خط لکھے جانے کے بعد چین، روس اور ایران نے چابہار کے قریب محافظِ امن2024 نامی مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ مشقیں عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان مشقوں میں آذربائیجان، جنوبی افریقہ، پاکستان، قطر، عراق اور یو اے ای بطور مبصر شریک ہوں گے۔
ان فوجی مشقوں کا وقت نہایت اہم ہے، کیونکہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور اسرائیل بارہا ایران کو دھمکا چکے ہیں کہ اگر اس کا جوہری پروگرام روکا نہ گیا تو اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں میں سختی اور سفارتی دباؤ میں اضافہ بھی اس تناؤ کا عکاس ہے۔ تاہم، ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے چین اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا ہے تاکہ مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔ تاہم، ایران کی قیادت نے اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے سخت ردعمل دیا۔
اگرچہ امریکا نے ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی ہیں، لیکن ٹرمپ کا لہجہ نرم نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکا ایران کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے، لیکن ایران مزاحمتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ چین اور روس کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، جو اس خطے میں امریکا کے اثر و رسوخ کے لیے ایک چیلنج ہے۔
خطے میں چابہار بندرگاہ کی ایک خاص اور اہم اہمیت یہ ہے کہ یہ چین کے بین الاقوامی پراجیکٹ “بیلٹ اینڈ روڈ” جو مشرقِ وسطیٰ اور بحریہ ہند میں جہاں امریکی اثر و رسوخ کو متوازن کرتا ہے وہاں چین کی معاشی ترقی کا ایک اہم ستون ہے۔ اس لئے چابہار کے قریب مشترکہ فوجی مشقوں کا پیغام جہاں ٹرمپ کے خط کا جواب دکھائی دیتا ہے وہاں فوجی مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط پوزیشن میں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ٹرمپ کی ایران کو جوہری مذاکرات کی طرف لانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں 15 جون 2024ء کو ایرانی وزارتِ دفاع نے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں وضاحتی بیان دیکر اپنے ملکی مفادات پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور چابہار کے قریب فوجی مشقوں پر چینی میڈیا گلوبل ٹائمز کا تجزیہ بھی ساامنے آ گیا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ مہینے ایران کے جوہری سائٹس پر فوری حملے کی دہمکی دی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل کو ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بھی کہا تھا۔ جبکہ امریکا نے ایران کے تیل کی فروخت پر نئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان مشقوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ وہ روس اور چین کی حمایت سے محفوظ ہے اور خاص طور اپنے بحری راستوں ہرمز آبنائے اور چابہار جیسے اہم پوائنٹس کی حفاظت کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
ان جاری صورتحال میں ٹرمپ نے اپنے مخفی ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای کو جوہری معاہدہ 2015 “جے سی پی اواے” کی طرف واپس لانے کیلئے خط لکھا ہے جس پر ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای نے اپنا ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس خط کو امریکا کی نئی چال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید براں خامنہ ای نے یورپ کو بے شرم ، اندھا اور امریکی گماشتہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے خوف سے اپنے جوہری معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا اور ایران پر تجارتی پابندیاں لگاتے ہوئے ایران کو بے تحاشہ معاشی نقصانات پہنچایا ہے۔یاد رہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ایران پر تیل اور بینکنگ شعبہ سمیت 50 سے زائد نئی پابندیاں عائد ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے معاشی مراعات دینے کی پیشکش کی وضاحت کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ خطے میں ایران کو جوہری طاقت بننے سے روک کر خطے کو مزید جنگی صورتحال سے بچایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ایسا ہی مطالبہ اسرائیل سے کیوں نہیں کرتا اور ایک ہی وقت میں دونوں ملکوں کے ساتھ یہ دہرا اور منافقانہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
دراصل امریکا یہ سمجھتا ہے کہ برسوں ایرنی مزاحمت کے محور پر کام کرنے والی قوتیں سابقہ صدر بشارالاسد شام سے فرار ہو کر روس میں پناہ لے چکا ہے ،ایران کی شامی صدر بشار الاسد کو دی گئی فوجی مدد کے باوجود، شام معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اب نئی حکومت مکمل طور پر ایرانی اثر و رسوخ سے نکل کر دیگر عرب ممالک کے علاوہ ترکی کے ساتھ اچھے مراسم قائم کر چکی ہے اور اس طرح لبنان میں حزب اللہ کی پسپائی کے بعد اسرائیل کسی حد تک محفوظ ہو چکا ہے لیکن امریکا اور اسرائیل کو اب بھی یہ خوف ہے کہ ایران یمن کے حوثیوں، لبنان کے حزب اللہ، اور عراقی شیعہ ملیشیاؤں کے ذریعے اب بھی اپنا اثر بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایران شام میں عسکری ناکامی کے بعد ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، جس میں مزاحمت کا محور دوبارہ مستحکم کرنا شامل ہے۔ ان مشقوں کا انعقاد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، تاکہ ایران کو خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس سے ایران کو عالمی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
15 جون 2024 کو ایران کے دفاعی وزارت نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں ان فوجی مشقوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بحرِ ہند اور خلیجِ عمان میں بحری قذاقی اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ ردعمل کی صلاحیت کو جانچنا مقصود ہے۔ اب ان مشقوں میں ایران، روس اور چین کے بحری جہازوں اور ہوائی فوجی دستوں نے حصہ لیا اور ایران نے اپنے ذوالفقار اور قادر میزائل سسٹم کا بھی مظاہرہ کیا۔ ایرانی دفاعی وزیر بریگیڈیر جنرل محمد رضا آشتیانی نے کہا کہ یہ مشقیں خطے میں استعماری قوتوں (امریکا) کی مداخلت کوناکام بنانے کا پیغام ہیں ۔ ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شاہرام ایران نے زور دیا کہ چابہار بندرگاہ کی حفاظت ہماری قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ایک بیان میں امریکا کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خارجی فوجی اڈوں کی تعمیر ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔
جبکہ چین کی سرکاری میڈیا آرگنائزیشن گلوبل ٹائمز چین نے جون 2024 ان مشقوں کی اہمیت کو ایک تجزیاتی مضمون کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے واضح کیا کہ چابہار بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا اہم حصہ ہے جو چین کو مشرقِ وسطیٰ، افریقا اور یورپ سے جوڑتا ہے۔چین ان مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ جیسے اہم اقتصاداتی منصوبہ کے تحفط کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ تجزیہ نگار وانگ ژیو نے لکھا کہ یہ مشقیں چین کی ’غیرجنگی سلامتی‘ پالیسی کا عکاس ہیں۔ مضمون میں امریکا پر الزام لگایا گیا کہ امریکی بحری بیڑہ علاقائی امن کیلئے خطرہ ہے جو آبنائے ہرمز میں غیر مستحکم صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ چینی ماہرِ دفاع لی جو نے کہا کہ روس-چین تعلقات اور فوجی تعاون کو مغربی پابندیوں کے خلاف جوابی اقدام ہیں اور یہ مشقیں ہماری مشترکہ سلامتی‘ کی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔
جبکہ ایران ان مشقوں کو امریکی ممکنہ مداخلت کے خلاف اپنی قومی سلامتی کیلئے ضروری سمجھتا ہے تاکہ ایران بروقت اپنی مقامی طاقت کے کردار کو اچھی طرح اجاگر کر دے کہ وہ اپنی سلامتی کیلئے کہاں تک جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے روس کی طرف جھکاؤ کو عالمی سیاست میں مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد چین اور روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا ہے، تاکہ امریکا کو ایک سفارتی برتری حاصل ہو سکے۔
روس اور چین گزشتہ دہائی میں اقتصادی اور عسکری تعاون میں اضافہ کر چکے ہیں، جسے امریکا اپنی عالمی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کی روس کے لیے نرم پالیسی، جیسے کہ نیٹو اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا اور روس پر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی کرنا، اسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے۔دوسری جانب، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی روایتی امریکی حکمت عملی سے ہٹ کر ہے، اور وہ امریکا کی پرانی دشمنیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے، جو عالمی سیاست کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی ‘پوتن جیسی سوچ’ اور ان کی یکطرفہ خارجہ پالیسی سے مغربی عالمی نظام کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور یورپ نے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا تھا جس میں نیٹو، اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور آئی ایم ایف جیسے ادارے شامل تھے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان اداروں کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔یورپی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج، نیٹو میں اختلافات، اور کثیر القومی معاہدوں سے علیحدگی (جیسے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ اور ایران جوہری معاہدہ) یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا مغربی عالمی نظام سے خود کو الگ کر رہا ہے۔ اس سے چین اور روس جیسے ممالک کو اپنی عالمی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا، تو مغربی عالمی نظام کمزور ہو سکتا ہے، اور ایک نیا عالمی سیاسی و اقتصادی توازن جنم لے سکتا ہے جس میں امریکا کی طاقت محدود ہو جائے گی۔
ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے دوران پیدا ہونے والی تکرار نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ یوکرین کے ساتھ امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔یوکرین کی جنگ میں امریکا اور روس کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات اہم پیش رفت ہے۔ یہ مذاکرات اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں فریق تنازعات کے حل کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے نتائج غیر یقینی ہیں۔
چین، روس اور ایران کی فوجی مشقیں نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کے لیے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ ایران خطے میں کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کی یکطرفہ پابندیوں اور عسکری دباؤ کے باوجود ایران، چین اور روس کا اتحاد ایک نئی جغرافیائی حقیقت بن کر ابھر رہا ہے۔
ان اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران، روس اور چین کی باہم فوجی مشقیں امریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت اور خطے میں اتحادکو مضبوط کرنے کے لیے ہیں۔ مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ کی کامیابی اور غیرمغربی اتحاد (روس-چین-ایران) کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔لہندا یہ مشقیں خطے کے تمام ممالک کی طرف سے امریکا اور نیٹو کی یک قطبی دنیا کے خاتمے کیلئے ایک مشترکہ پیغام ہے کہ آئندہ کسی بھی قسم کی مداخلت کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔