برصغیرکی تقسیم جیسی زمینی حقیقت کے بعداب تاریخ کوجھٹلانے یاان حقیقی خاکوں میں جھوٹ وبد نیتی کارنگ بھرکرتاریخی واقعات کی شکل بگاڑکرنئی نسل کوگمراہ کرکے اقبال سے بد ظن کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے چاندپرتھوکاواپس اپنے منہ پرگرتاہے۔سات دہائیوں کے گزرنے کے بعد اقبال پرپنڈت نہروکے اس بے جاالزام کوکیوں دہرایاجارہاہے کہ”اقبال اپنی زندگی کے آخری دورمیں سوشلزم کے زیرِاثرتصورِپاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔کیاان الزامات سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں کہ دوبارہ ایسااکھنڈ بھارت قائم ہوجائے جہاں ہرروزکشمیر اورگجرات جیسی قیامتیں مسلمانوں پرڈھائی جائیں!اقبال جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کاخواب دیکھا،ان کو اس الزام میں آخرکیوں ملوث کیاجارہاہے؟اورایک ہی وقت میں بھارت اور پاکستان میں ایسابے ڈھنگاراگ کیوں سنائی دے رہاہے؟آئیے تاریخ کے جھروکوں سے حقائق کی دنیامیں جھانکتے ہیں!
نہرواپنی کتاب”دی ڈسکوری آف انڈیا”جوانہوں نے1944ءمیں قلعہ احمدنگرکے زنداں میں بیٹھ کرلکھی تھی،اس کتاب میں انہوں نے بطورشاعر اورمفکراقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگراقبال کوخراجِ تحسین کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال”ایک شاعر،عالم اورفلسفی تھے اورپرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے”۔نہرومزیدلکھتے ہیں کہ اقبال پاکستان کے اوّلین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ انہوں نے اس تجویزکی لغویت اوران خطرات کومحسوس کرلیا تھاجواس تجویزمیں مضمرہیں۔ایڈورڈتھامسن نے لکھاہے کہ ایک ملاقات کے دوران اقبال نے ان سے یہ کہاکہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدرکی حیثیت سے پاکستان کی حمائت کی تھی مگران کویقین تھاکہ یہ تجویزمجموعی طورپر ہندوستان اور خصوصاًمسلمانوں کیلئے مضرہے۔شائدانہوں نے اپناخیال بدل دیاتھایاپہلے اس مسئلے پرزیادہ غورنہیں کیاتھاکیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔ان کاعام نظریہ زندگی پاکستان یاتقسیمِ ہندکے اس تصورکے ساتھ جوبعدمیں پیداہوا،ہم آہنگ نہیں تھا۔آخری عمر میں اقبال کارحجان اشتراکیت کی طرف بڑھتاگیا۔سوویت یونین کی زبردست کامیابی نے ان کوبہت متاثرکیااوران کی شاعری کارخ بدل گیا”۔
نہروکایہ الزام سراسرغلط ہے،ان کایہ الزام لاعلمی پرنہیں بلکہ بد نیتی پرمبنی ہے جن لوگوں نے اقبال کی شاعری،فلسفہ اور سیاست کاسرسری سے بھی کم مطالعہ کیاہے وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ اقبال جاگیرداری نظام کاسب سے بڑا دشمن تھا۔نہروسے سب سے بڑاتاریخی سہویہ ہواکہ وہ بھول گئے کہ ان کی کتاب سے3برس قبل قائداعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہوچکے تھے،یہ انگریزی کتاب یقیناً نہروکی نظرسے گزرچکی ہوگی،اس کتاب میں شامل28مئی 1937ءکاوہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں نہروکی”بے خداسوشلزم”کوبھی زیرِبحث لایا گیاہے اوربتایاگیاہے کہ مسلمان تو رہے ایک طرف،خودہندومعاشرہ بھی”بے خداسوشلزم”کوہرگزقبول نہیں کرے گا۔نہروکے سوشلزم کورد کرتے وقت اقبال نے قائد اعظم کوبتایاکہ اگراسلامی شریعت کی دورِحاضرکے معاشی نظریات کی روشنی میں ازسرِنوتفسیرکی جائے تومسلمان عوام کی روٹی روزگار کامسئلہ بہترطورپرحل ہوسکتاہے ۔مسلمان کوغربت کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون سازاسمبلی ہواوریہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خودمختارمملکت میں ہی قائم کی جاسکتی ہے۔اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکارپکارکرکہہ رہے ہیں کہ:
اوّل:اقبال نہروکی”بے خداسوشلزم”پراسلام کے اقتصادی نظام کوترجیح دیتے ہیں۔
دوم:اسلام کے اقتصادی نظام کوعہدِجدیدکے سیاق وسباق میں نافذکرنے کیلئے جداگانہ مسلمان مملکت کاقیام ضروری ہے۔
سوم:اپنی وفات سے فقط چندماہ پہلے وہ قائداعظم کویہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ قیامِ پاکستان کوکل ہند مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنالیں۔
چہارم:اس خط کے آخرمیں وہ قائداعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیاوہ وقت نہیں آپہنچاجب ہمیں کھل کرقیامِ پاکستان کواپنی منزل قراردے دینا چاہئے؟
نہرودانستہ طورپراقبال کی وفات سے تین ماہ پیشترمیاں افتخارالدین کے ہمراہ جاوید منزل میں علامہ اقبال سےجوملاقات کی تھی،اس ملاقات کی خوشگوار یادوں کایہ واقعہ بیان کرناکیوں مناسب نہیں سمجھالیکن اسے ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب”اقبال کے آخری دوسال”میں بیان کردیاہے۔ محترم بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
نہرواس زمانے میں زورشورسے سوشلزم کاپروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے،انڈین نیشنل کانگرس کے دواجلاسوں کے وہ صدر رہ چکے تھے اوردونوں مرتبہ اپنے خطباتِ صدارت میں انہوں نے کہاتھاکہ ہندوستان کے تمام مصائب کاعلاج سوشلزم ہے لیکن کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہروکامعاون یاہم خیال نہیں تھابلکہ سردارپٹیل،راج گوپال اچاریہ اورستیہ مورتی نے توعلی الاعلان نہروکے اس عقیدے سے اختلاف کااظہارکیاتھا۔دورانِ ملاقات میں ڈاکٹرصاحب نے نہروسے پوچھاکہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟ نہرونے جواب دیا کہ،نصف درجن کے قریب۔ڈاکٹرصاحب نے فرمایا،تعجب ہے،خود آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے،ادھرآپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کوکانگرس میں شامل ہونے کا مشورہ دوں،توکیامیں دس کروڑمسلمانوں کوچھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں؟”اس پرنہروخاموش ہوگئے۔
اسی ملاقات میں ایک اورناگوارواقعہ بھی پیش آیاتھااورنہرونے اس کوبھی قوم کوبتانامناسب نہیں سمجھا،ہاں البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کردیاہے:
“ابھی ان دوعظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکایک میاں افتخارالدین بیچ میں بول اٹھے کہ ڈاکٹرصاحب!آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟مسلمان جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں،اگرآپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تونتیجہ بہترنکلے گا۔ڈاکٹرصاحب لیٹے ہوئے تھے،یہ سنتے ہی غصے میں آگئے اوراٹھ کربیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے،تواچھا،یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلاپھسلاکرمسٹرجناح کے مقابلے میں کھڑاکرناچاہتے ہیں،میں آپ کوبتا دیناچاہتاہوں کہ مسٹرجناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈرہیں اورمیں توان کامعمولی سپاہی ہوں”۔اس کے بعدڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہوگئے اورکمرے میں تکدرآمیزسکوت طاری ہوگیا۔پنڈت نہرونے فوراًمحسوس کرلیاکہ میاں افتخارالدین کے دخل درمعقولات نے ڈاکٹرصاحب کوناراض کردیاہے اوراب مزیدگفتگوجاری رکھنابے سودہے چنانچہ وہ اجازت لیکررخصت ہوگئے۔
حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کوتوآسانی سے فراموش کردیامگرایڈورڈتھامسن کی گپ شپ کوناقابلِ تردید تاریخی صداقت کادرجہ دے دیا۔ایڈورڈتھامسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استادتھے اورتاریخ ہندسے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔وہ دومرتبہ برطانیہ کے اخبار”مانچسٹرگارڈین”کے نامہ نگارکے روپ میں بھی برٹش انڈیاتشریف لائے تھے۔ گاندھی ،رابندرناتھ ٹیگور،راج گوپال اچاری،سردارپٹیل اور نہروکے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے،وہاں کانگرس کی پرجوش وکالت کاکوئی موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
جس روایت کاسہارالیکرنہرونے اقبال پرالزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اورعلامہ اقبال کی زبانی گفتگوپرمبنی ہے۔ایڈورڈ تھامسن موصوف کا یہ بیان قائد اعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالاخطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہروملاقات کے مندرجہ بالااحوال و مقامات کی بنیادپرجھوٹ ثابت ہوتاہے۔اقبال آخردم تک اپنے تصورِپاکستان کوقیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گردیکھنے کی تمنامیں سرشاررہے۔قائداعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اوراسلامیانِ ہندکویہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمد علی جناح کی طویل زندگی کی دعائیں مانگو،صرف جناح ہی قوم کی کشتی کوساحل ِمرادتک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نہ معلوم یہ باتیں نہروکے ذہن سے کیوں محوہوگئی تھیں یا انہوں نے ان باتوں کوناخوشگواراوراپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردیدسمجھ کراپنی کتاب میں درج کرناکیوں مناسب نہیں سمجھا:
نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرِکارواں کیلئے
اس کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ علامہ اقبال ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ میرے نبیﷺکایہ مبارک فرمان ہے کہ تم میں بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔اسی لیے نظریاتی اختلاف کے باوجود علامہ اقبال اورنہروکے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے۔نہرونے 1933ء میں لندن کی گول میزکانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرزِفکر و عمل کوتنقیدکانشانہ بنایاتھا۔ گاندھی جی کے اس رویہ کی حمائت میں نہروکی لب کشائی پراقبال حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگرنہروشریک نہیں تھے۔کانگرس کی نمائندگی گاندھی جی نے کی تھی۔گاندھی جی نے واپسی پرکہاکہ انہوں نے ذاتی طورپر مسلمانوں کے تمام مطالبات کوقبول کرلیاتھامگرسیاسی رجعت پسندی کی بناءپرمسلمانوں نے کانفرنس کوناکام بنادیا۔نہرونے گاندھی جی کی باتوں میں آکرمسلمان مندوبین کے خلاف ایک انتہائی سخت سیاسی بیان داغ دیاچنانچہ علامہ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردید میں نہروکوجوخط تحریرکیااس میں علامہ کا اخلاق ملاحظہ فرمائیں:
“میں پنڈت جواہرلال نہروکے خلوص اورصاف گوئی کی ہمیشہ سے قدرکرتارہاہوں۔مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جوتازہ ترین بیان انہوں نے دیاہے اس سے خلوص ٹپکتاہے اوریہ چیزآج کل کے ہندوستانیوں میں کم یاب ہے لیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ پچھلے3سالوں میں جوگول میزکانفرنسیں لندن میں منعقد ہوئی ہیں ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق نہروکی تحقیق کی بنیاد کسی تعصب پرمبنی ہے”۔اس خوش گمانی کے اظہارکے بعدعلامہ اقبال نے اصل حالات کوبے نقاب کرتے ہوئے بتایاکہ”گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات کوذاتی طورپرماننے کاعندیہ تودیاتھا مگرساتھ ہی یہ بھی واضح کردیاتھاکہ وہ اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کوتسلیم کر لے گی،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیاتھاکہ کانگرس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیار دینے کیلئے کبھی بھی رضامندنہیں ہوگی،گویاعملاًگاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کوردکردیاتھا،گاندھی جی کی دوسری غیرمنصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمائت ترک کردیں مگرمسلمانوں نے اچھوتوں کی حمائت سے دستبرداری سے انکارکرکے گاندھی جی کوناراض کر دیاتھا”۔چنانچہ اپنے اس خط میں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اپنے زبانِ زدِعام سوشلسٹ خیالات کے پیشِ نظرنہرواس انسانیت کش شرط کی کیسے حمائت کریں گے؟کم ازکم انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کوسیاسی معاملات میں رجعت پسندی کاالزام دیں ۔اس صورت میں میں وہ لوگ جوہندوؤں کے فرقہ پرستانہ مقاصدکواچھی طرح سمجھتے ہیں،اس نتیجے پرپہنچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ نہروفرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندومہاسبھاکی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں”۔
مسلمانوں کے خلاف نہروکادوسراالزام یہ تھاکہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا:
“اگرقومیت سے ان کی مرادیہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کوحیاتاتی معنوں میں ملاجلاکرایک کردیاجائے توپھرمیں ہی اس نظریہ قومیت سے انکارکا مجرم ہوں۔میں نہروسے ایک سیدھاسا سوال کرناچاہتاہوں ،جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑکی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کوجنہیں وہ اپنی بقاء کیلئے ضروری سمجھتی ہے،نہ مان لے اورنہ ہی ثالث کافیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحد قومیت کی ایسے رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کااپناہی فائدہ ہے ، ہندوستان کامسئلہ کیسے حل ہوسکتاہے؟اس سے صرف دو صورتیں نکلتی ہیں،یاتو اکثریت والی ہندوستانی قوم کویہ مانناپڑے گاکہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی یاپھرملک کومذہبی،تاریخی اورتمدنی حالات کے پیشِ نظراس طرح تقسیم کرناہوگاکہ موجودہ شکل میں انتخابات اورفرقہ وارانہ مسئلہ کاسوال ہی نہ رہے”۔
نہروکے جواب میں دیاگیاعلامہ اقبال کایہ بیان یقینی طورپرنہروکی نظروں سے گزراہوگا،اس بیان میں روزِاوّل تاآخراقبال کاترقی پسند،وسیع النظراور انسان دوست مسلک نمایاں ہے۔یہ بیان تصورِپاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ایسے میں نہروکایہ کہناکہ1930ءکے بعداقبال اپنے تصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے،دیانت داری پرمبنی نظرنہیں آتا بلکہ تاریخی حقیقت پرتعصب کی چادرڈالنے کے مترادف ہے۔آئیے مستند تاریخی حوالوں سے کچھ اورپوچھتے ہیں:
جب نہرونے”ماڈرن ریویو”(کلکتہ)میں دنیائے اسلام کی صورتحال پرتین مضامین میں وطنیت اورلا دینیت کے فروغ کاخیرمقدم کیا تھاتواس کے جواب میں اقبال نے بھی”ماڈرن ریویو”(کلکتہ)ہی میں نہروکی فکری گمراہی کوراست فکری میں بدلنے کیلئےاپنے طویل مضمون کے آغازمیں برملاکہا: میں اس بات کونہرواورقارئین سے پوشیدہ نہیں رکھناچاہتاکہ نہروکے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کاایک دردناک ہیجان پیداکردیاہے۔ جس اندازمیں انہوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کاپتہ چلتاہے جس کونہرو سے منسوب کرنامیرے لئے دشوارہے۔وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہندکے مذہبی اورسیاسی استحکام پسند نہیں کرتے۔ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے اس بات کوگوارانہیں کرتے کہ شمال مغربی ہندکے مسلمانوں میں احساسِ خودمختاری پیداہو”۔
قارئین!ذراغورفرمائیں کہ اقبال کایہ تجزیہ کہ”نہروکی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے”وقت نے بہت جلدسچ ثابت کردکھایا،جب نہروکے دل میں برصغیر کی زندگی کے ٹھوس حقائق کااحساس جاگ اٹھاتومولاناابوالکلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہیں ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کوقبول کرنے کامشورہ دینے لگے۔مولاناآزادنے اپنی تصنیف”انڈیاونز فریڈم میں اس بات کاذکریوں فرمایاہے:
“کچھ دنوں کے بعدجواہرلال دوبارہ مجھ سے ملنے آئے۔اس نے ایک طویل تمہیدکے ساتھ آغازکیاجس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں خواہش مندانہ سوچ میں مبتلانہیں ہوناچاہئے بلکہ حقیقت کاسامناکرناچاہئے۔بالآخروہ اس بات پرپہنچے اورمجھ سے تقسیم کی مخالفت ترک کرنے کوکہا”۔
اسلامیانِ ہندنے1946ءکے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے نہرواورگاندھی جی کے سیاسی خواب پرستوں کوزندگی کے جن حقائق کااحساس دلایاتھا،اقبال نے برسوں پہلے نہروکوان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ”سیاسی تدبرکاتقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرارکرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کران سے پنجہ آزماہواجائے”۔اپنے زیرِنظرمضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پردوٹوک اندازمیں اظہارِخیال کیاتھا۔اقبال نے اسلامیانِ ہندکے سیاسی مسلک پران الفاظ پرروشنی ڈالی تھی:
“اسلام سے اس وقت تصادم ہوتاہے جبکہ وہ ایک سیاسی تصوربن جاتاہے اوراتحادِانسانی کابنیادی اصول ہونے کادعویٰ کرتاہے اوریہ مطالبہ کرتاہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظرمیں چلاجائے اورقومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصرکی حیثیت سے باقی نہ رہے،جداگانہ مسلمان قومیت کاسوال صرف ان ممالک میں پیداہوتاہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورجہاں قومیت کایہ تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کومٹادیں۔جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں،اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیداکرلیتاہے کیونکہ یہاں اسلام اورقومیت عملاًایک ہی چیز ہے۔میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اسلامیانِ ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کاشکار نہیں بنیں گے جوان کی تہذیبی وحدت کاخاتمہ کردے،اگران کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے توہم اعتمادکرسکتے ہیں کہ وہ مذہب اورحب الوطنی میں ہم آہنگی پیداکرلیں گے”۔
علامہ اقبال کایقین ِکامل بالکل درست نکلا،اسلامیانِ ہندنے بالآخرمتحدہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی تصور کو غلط ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا۔ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوگئی اوریوں پاکستان میں اسلام سے عشق اور وطن سے محبت میں کوئی تضادباقی نہ رہا۔اب ہمارادین اسلام ہے اورہماراوطن دارلسلام ہے اوردوسری طرف آپ نہروکی صداقت کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ ساری دنیاکے سامنے انہوں نے تحریری طورپراس بات کااعتراف کیاکہ وہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت دیں گے لیکن خودہی اپنی تحریرسے منحرف ہوگئے اوراس وعدہ خلافی نے ان کی ساری شخصیت کابھرم طشت ازبام کردیاہے۔علامہ کایہ شعرکتناحسبِ حال ہے:
اپنے بھی خفامجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِہلاہل کوکبھی کہہ نہ سکاقند
رہے نام میرے رب کاجوحق سچ ہے!