— عالمی کانفرنس برائے فکرِ اقبال میں پیش کردہ لیکچر —
خواتین و حضرات، معزز اہلِ دانش، اربابِ فکر و فن، اور افکارِ اقبال کے والہانۂ طالب علموں
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
آج ہمارا موضوع نہ صرف فکری ہے، بلکہ عملی عملیّت کا محور بھی ہے۔ مجھے اپنی آج کی گفتگومیں “آج کے دور میں بلوچستان کی خواتین کے لیے علامہ اقبال کا پیغام، اور ان کا پاکستان-بلوچستان کی ترقی میں حصہ کی بابت اپنی معروضات پیش کرنے کاحکم دیاگیاہے۔میں صرف اقبالِ فکر کی روشنی میں ایک مفصل تحقیقی جائزہ پیش کروں گا کہ بلوچستان کی معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی حقیقتوں کی روشنی میں پاکستانی عورت، خصوصاً بلوچ عورت، اقبال کے تصور خودی اور تعمیرِ ملت میں کیسے فعالیت اختیار کر سکتی ہے۔
آج ہم ایک ایسے موضوع پر جمع ہیں جو بظاہر محض فکری نہ سہی، بلکہ ایک پوری تہذیب کی تشکیل اور ایک اُمّت کے دستِ ہنر کی آزمائش رکھتا ہے۔ اس موضوع پرگفتگو کرنا گویا تاریخ کے دروازوں پر دستک دینا، ادب کی رفعتوں میں سانس لینا، اور تہذیبی شعور کے آئینے میں اپنے آج کا جائزہ لینا ہے۔
اقبال، جنہیں’’برِصغیر کی دھڑکن‘‘ اور ملتِ اسلامیہ کے ’’دیدۂ بینا‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے، محض شاعر نہیں—ایک تہذیبی محرّک، ایک فکری معمار، اور ایک خودی کی شمع ہیں جو زمانوں تک اپنے نور سے نسلوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔صورتِ اقبال میں عورت صرف گھر کی زینت نہیں، بلکہ خودی کی وہ شمع ہے جو قوم کی تقدیر روشن کرتی ہے۔ اقبال نے عورت میں خودی کی وہ قوت دیکھی ہے جو نہ صرف اس کی ذاتی شناخت کو مستحکم کرتی ہے بلکہ اس کے ذریعے گھر، اجتماع، اور ملت کی تعمیر ممکن ہوتی ہے۔ وہ عورت کو تربیت کا واسطہ سمجھتے ہیں ، چاہے دینی تربیت ہو، اخلاقی ہو یا فکری ،تاکہ وہ ایک زندہ، باشعور اور باوقار شخصیت بن کر سامنے آئے۔
اگر تمثیلات کی زبان اپنائیں تو ایسے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال عورت کو “ذات ِ مطہرکے باغ میں کھلنے والا مہتاب” سمجھتے ہیں ،وہ روشنی ہے، نرم ہے مگر محیط ہے، نہ صرف گھر کی محافل کو سنوارتی ہے بلکہ اجتماعی فضا کو معطر کرتی ہے۔اسی طرح فکری و ادبی اسلوب میں، عورت کا تصور وہ “آفتابِ استعارہ” ہے جو روشنی پھیلاتا ہے اور خودی کی کرن بن کر قوم کے اندر امید جگاتا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری میں عورت کوئی حاشیہ نہیں، بلکہ پوری تمہید ہے؛ وہ ’’نورِ بصیرت‘‘ بھی ہے اور ’’تابندہ ستارہ‘‘ بھی — کبھی فاطمہ الزہراؑ کی صورت میں عفت و وقار کا مینار، تو کبھی بہادر خواتینِ اسلام کی مثال میں عزم و یقین کا استعارہ۔ اقبال نے عورت کو وہ مرتبہ دیا ہے جس میں تخلیق بھی ہے، تربیت بھی، اور تمدّن کی بنیاد بھی۔ وہ فرماتے ہیں:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
یہ ایک جملے میں تہذیبی و سماجی حقیقت کا وہ خلاصہ ہے جسے فہم کی آنکھ نہ سمجھے تو زمانہ تاریک ہو جائے۔ عورت وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے گھر، معاشرہ، قوم، سب جگمگاتے ہیں۔ لیکن اقبال کا عورت کا تصور محض گھریلو ذمہ داریوں کا بیان نہیں بلکہ شعورِ خودی کے ساتھ فعال، تعلیم یافتہ اور عزّت نفس سے سرشار کردار کا نام ہے۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی قومیں اٹھیں ہیں، ان کے پیچھےایک تربیت یافتہ، باوقار اور روشن فکر نسلِ نسواں کھڑی رہی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب عورت کا دامن بلند ہو، تو قوم کی پیشانی بھی اُجلی ہو جاتی ہے۔اقبال بھی انہی تاریخی معنویتوں کے علمبردار ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ خواتین محض گھر کی زینت نہیں، قوم کی اُمید ہیں؛ محض فرد نہیں، ملت کا کردارہیں۔اسی لیے اقبال نے عورت کے مقام کو نبویؐ تعلیمات کی روشنی میں دیکھا، وہ تعلیم جو عورت کو عزت دیتی ہے، شعور بخشتی ہے، اور اسے وہ ’’خودی‘‘ عطا کرتی ہے جس کے بغیر نہ فرد بنتا ہے اور نہ قوم۔
پاکستان محض ایک جغرافیہ نہ تھا—یہ ایک نظریہ تھا۔ اور اس نظریے کا معمار جسے ہم اقبال کے نام سے جانتے ہیں، عورت کو قومی تعمیر کی پہچان سمجھتے تھے۔ وہ ’’ملتِ بیضا‘‘ کی جس تصویر کا ذکر کرتے ہیں، اس میں خواتین کا کردار محوری ہے، حاشیہ نہیں۔ اسلام کا تصورِ عورت دراصل ’’خاندانی نظام کی حفاظت‘‘ اور ’’سماجی ذمہ داریوں کے توازن‘‘ کا نام ہے۔ عورت کو پابند کرنے کے لیے نہیں، باعزّت بنانے کے لیے۔پاکستان بھی اسی توزان کانام ہے جہاں عورت تعلیم یافتہ ہو، بااخلاق ہو، باوقار ہو، اور معاشرتی تعمیر میں بھرپور معاون ہو۔
عصرِ حاضر کی پاکستانی عورت کئی محاذوں پر آزمائش سے دوچار ہے۔ ٹیکنالوجی کی برق رفتار یلغار، روایات کی بدلتی ہوئی قدریں، اقتصادی مشکلات، سماجی دباؤ، غلط فہمیاں، کمزور تعلیمی ڈھانچہ، یہ سب ہیں۔ مگر اقبال ان سب کا جواب ایک جملے میں دیتے ہیں: اندازِ فکر بدل دو، تقدیر بدل جائے گی۔اقبال کا پیغام یہ ہے کہ عورت ہمت سے کام لے، خود کو پہچانے،اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اپنی منزل کو اپنی محنت سے تراشے یہ پیغام محض شاعرانہ نہیں، عملی خاکہ ہے۔
اقبال نے عورت کے لیے سب سے پہلے ’’تعلیم‘‘ کی بات کی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر عورت پڑھ جائے تو نسل تعلیم یافتہ ہو جاتی ہے۔تعلیم عورت کو خود اعتماد بناتی ہے، باشعور کرتی ہے، اور گھر سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر فیصلہ سازی میں اس کا کردار بڑھاتی ہے۔تعلیم صرف دنیاوی نہیں، دینی بھی ہو۔ اقبال کے نزدیک عورت وہ ہے جو ایمان، حیا، وقار اور خودی کی امین ہو۔یہ وہ قوت ہے جو معاشرے کو اخلاقی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں معاشی دباؤ موجود ہے، وہاں عورت کا معاشی کردار اہم ہو گیا ہے۔ اقبال معاشی سرگرمیوں کی مخالفت نہیں کرتےبلکہ وہ چاہتے ہیں کہ عورت کا کردار باوقار ہو، اس کی نسوانیت محفوظ رہے، اور اس کا عمل معاشرے کو سنوارتا چلے۔اقبال نے عورت کو تربیتِ اولاد میں مرکزی کردار دیا۔ وہ جانتے تھے کہ بچے ماں کی گود میں وہی رنگ جذب کرتے ہیں جو قوم کی شخصیت بن جاتے ہیں۔یہ وہ قیادت ہے جو قوموں کی تقدیریں رقم کرتی ہے۔
جدید ریاستیں نصف آبادی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال چاہتے تھے کہ عورت سیاست، پارلیمان، خارجہ پالیسی، سماجی اصلاح، اور قومی فلاح کے ہر میدان میں اپنی قابلیت دکھائے مگر اسلامی تہذیبی رہنمائی کے ساتھ۔ یہ توازن ہماری تاریخ کی شان بھی ہے اور ہمارا مستقبل بھی۔
اقبال کی شاعری میں ’’خودی‘‘ وہ چراغ ہے جو ظلمت کو ختم کرتی ہے۔ جب خودی عورت کے دل میں اترتی ہے تو وہ باوقار بنتی ہے،صاحبِ نظر بنتی ہے، صاحبِ کردار بنتی ہے،اور صاحبِ منزل بنتی ہے۔ آج کی پاکستانی عورت کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ خود کو معمولی نہ سمجھے۔بلکہ وہ ایک ایسی مضبوط قوت ہے جو ہماری بنیاد کااہم حصہ ہے اور وہ آئندہ نسلوں کی محافظ اور معمارہے۔
عورت کےتہذیبی کردارکاذکرکیاجائے تو تو عورت کی شخصیت میں ’’آفتابِ معرفت‘‘ اور ’’مہتابِ محبت‘‘ یکساں جھلکتا ہے۔وہ گھر کی خاموش عبادت گاہ بھی ہے اور معاشرت کی روشن منڈیروں پر جلتا ہوا چراغ بھی۔ عورت قوم کی وہ آنکھ ہے۔ جو کھلی رہے تو قوم جاگتی رہتی ہے۔اقبال کے نزدیک بھی عورت قوم کی ’’بصیرت‘‘ ہے — اس کی تربیت، اس کا وقار، اس کا تہذیبی شعور، سب اسی سے وابستہ ہے۔اورجہاں تک شائستگی عورت کی ادبی شناخت کاتعلق ہے توعورت کی تحریر، اس کے کردار اور اس کی ادبی فطانت کازمانہ معترف ہے۔اوریہی باحیاعورت زبان کی پاکیزگی کی نگہبان ہے۔ اقبال اسی زبان کی لطافت میں عورت کو علمی اور تہذیبی وقار عطا کرتے ہیں۔پاکستانی عورت کے لیے اقبال کا پیغام یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنے فکری ورثے کی محافظ ہو کہ یہی اس کی اصل طاقت ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں عورت ’’خاندان کی امین‘‘ اور ’’معاشرتی توازن‘‘ کی روح ہے۔ عورت اگر سنور جائے تو معاشرہ سنور جاتا ہے۔ اقبال کا بھی یہی زاویہ ہے لیکن وہ عورت کی شخصیت میں ’’تحرک‘‘ اور ’’فعال کردار‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔یوں سمجھئے کہ عورت تہذیب کی روشنی،زبان کی پاکیزگی،اخلاقی مرکزیت کادرجہ رکھتی ہے اوراقبال تو عورت کو خودی کا آفتاب عطا کرتے ہیں۔یہ چاروں زاویے مل کر پاکستانی عورت کے مستقبل کا نقشہ کھینچتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آج کی بالعموم پاکستانی اوربالخصوص بلوچستان کی عورت اقبال سے کیسے رہنمائی لے؟
جب ہم افغانستان سے ملحق و سرزمینِ بلوچستان کی زمینی ٹھوس حقیقت کی طرف دیکھتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں عورت کے لیے فکری اور فزیکلی دونوں سطح پر چیلنجز کم نہیں ہیں۔ بلوچستان کم خواندگی کی شرح والے صوبوں میں ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق، صوبے میں خواتین کا خواندگی تناسب بہت کم ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبے کی خواتین میں مجموعی خواندگی صرف ۲۶٪ کے قریب ہے اور دیہی علاقوں میں بہت سی خواتین تعلیم سے محروم ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق ۷۰٪ لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ وہ بنیاد ہے جہاں اقبال کا پیغام خودی اور باادبِ فکر اہمیت اختیار کرتا ہے — کیونکہ فکری شعور اور خودی کی وہ قوت ہے جو تعلیم کے راستے کو نہ صرف کھول سکتی ہے بلکہ اس سے ایک مستقل پیمانہ قائم کر سکتی ہے۔
اسی طرح بلوچستان میں ملک کے اورصوبوں کی طرح ماں، بچے جیسے سماجی مسائل بھی ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ بچوں کی ولادت کے موقع پر 298 مائیں خالقِ حقیقی سےجا ملتی ہیں۔اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنٹرول برائے ولادت ضروریات کا ۳۸٪ حصہ پورا نہیں ہوا۔سماجی ساخت میں اب بھی روایتی طاقتوں کا اثر ہے، اور عورتوں کو انصاف حاصل کرنے میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ رپورٹ سےیہ بھی پتہ چلاہے کہ گھریلو تشدد اور صنفی بنیاد پر تشدد کا مسئلہ نمایاں ہے۔یہ وہ حقیقتیں ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اقبال کی خودی صرف فکری نعرہ نہیں، بلکہ عملی شعور کی بنیاد ہے عورت کو خود ادراک اور خود وقار دیا جائے تاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کو تحفظ فراہم کرے۔
تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں عورتوں کی سیاسی شمولیت اورشرکت نہ صرف محدود ہے بلکہ بہت کم نمائندگی پائی جاتی ہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ خواتین کی سرکاری ملازمت اور بااثر عہدوں پر نمائندگی بہت کم ہے۔
BCSWرپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں خواتین کے ووٹر ٹرن آؤٹ نسبتاً کم ہے (مثلاً ۳۷.۴٪) اور ان کی سیاسی سرگرمی محدود ہے۔ تاہم، صوبائی حکومت کی جانب سے کچھ مثبت اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں حال ہی میں “ویمن اکنامک ایمپاورمنٹ فنڈ” قائم کیا گیا ہے تاکہ ہنر مند خواتین کو قرضے دیے جائیں اور کاروبار کا موقع ملے۔ قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے لیگل ایڈ ڈیسک اور جینڈر ڈیسک قائم کیے گئے ہیں۔ یہ تمام پہلو یہ واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان کی عورت ترقی کی راہ میں ایک اہم ستون ہے، لیکن اسے رکاوٹوں کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی راہ بھی درکار ہے۔
اگر ہم علامہ اقبالؒ کے ادبی اسلوب کی بات کریں تو وہ ہمیں سبق ملتاہے کہ عورت کو وہ عزت اور مقام دینا چاہیے جس سے اس کی شخصیت نکھرے اور اس کی خودی مستحکم ہو۔ ان کے کلام میں ہمیں فکری تمکنت اور تہذیبی آہنگ ملتی ہے، جو تصورِ خودی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اگرمیں امتیازی لفاظی اور تمثیلات کا ذکرکروں تو عورت کا مقام صرف مادی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی ہے۔ اقبالؒ عورت کی کردار سازی اور خدمات کو اسلامی اخلاق اور سماجی عدل کی رو سے دیکھنا چاہتے ہیں۔اقبال کے فکری امتزاج میں وہ روح ہے جو بلوچستان کی عورت کو نہ صرف ایک مقام دیتی ہے بلکہ اقبالؒ عورت کوایک عظیمالشأن ذمہ داری کاحق دیتاہے اور تہذیبی بیداری، خودی کی قوت، اور تعمیرِ ملت میں شرکت کی دعوت دیتاہے۔
ان مشکلات کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ہماری خواتین اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ تعلیم کو زیور نہیں، سرمایہ سمجھیں۔اپنی خودی کو پہچانیں—وہی آپ کی اصل طاقت ہے۔ اپنی صلاحیتیں قوم کی خدمت کے لیے بروئے کار لائیں۔اپنی نسوانی عظمت کا تحفظ کریں، اسے کمزوری نہ سمجھیں۔ ٹیکنالوجی، سائنس اور نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھیں۔گھر، معاشرہ اور قوم تینوں محاذوں پر توازن قائم رکھیں۔
خواتین و حضرات!
اقبال کا پیغام ہمیں صرف ماضی کی شاعری کا خوبصورت گوشہ نہیں دیتا، بلکہ آج کے بلوچستان کو روشنی کی راہ دکھاتا ہے۔ بلوچستان کی عورت، اگر وہ خودی کی روشنی کو سمجھ لے، تعلیم سے مزین ہو، اور پیش رفت کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈالے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ پورے صوبے اور پورے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔یہ ہمارا مشترکہ فریضہ ہے — پالیسی سازوں، اہلِ علم، مذہبی رہنماؤں اور عوامِ عام کا — کہ ہم اقبال کے اس پیغام کو حقیقت میں تبدیل کریں۔ بلوچ خواتین وہ نہ ختم ہونے والی روشنی ہیں جن کی خودی اور عزت ہمیں ایک بہتر، منصف اور ترقی پسند بلوچستان کی ضمانت دے سکتی ہے۔ پاکستان کا مستقبل صرف مردوں کے ہاتھ میں نہیں، یہ ماؤں کی گودوں میں، بیٹیوں کی امیدوں میں اور بہنوں کی دعاؤں میں بھی پوشیدہ ہے۔
اقبال کا پیغام یہ ہے کہ پاکستانی عورت باوقارہو،باشعورہو،بیدارہو اور تعمیرِ ملت کی راہ میں اپنا کردار نبھائے۔ قوموں کی تعمیر میں عورت کی شرکت محض ایک سماجی تقاضا نہیں یہ تاریخ کا اصول ہے۔اقبال نے کہا تھا:
اگر ہو عشق تو ہے کافر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
آج ہماری پاکستانی عورت کو اسی عشق — عشقِ وطن، عشقِ دین، عشقِ کردار اور عشقِ خودی — کی ضرورت ہے۔ تبھی پاکستان وہ بن سکے گا جو اقبال کا خواب تھا ، روشن، مضبوط، وقار سے بھرپور، اور اپنی تہذیب کا امین۔
اللہ کرے کہ ہماری نسلِ نو کی خواتین اقبال کے پیغام کو سمجھیں، اسے اپنائیں، اور پاکستان کی پیشانی پر وہ روشن صبح لکھیں جس کا وعدہ تاریخِ امتِ مسلمہ نے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس راہ پر اور مزید بیداری کی توفیق دے، تاکہ ہم نہ صرف خواب دیکھیں بلکہ انہیں حقیقت میں ڈھال سکیں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔