There is no hope for fate from its desolate ship.

اقبالؒ اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ — ملتِ اسلامیہ کی بیداری کے تناظر میں بلوچستان کے موجودہ حالات

:Share

(اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔)
محترم صدرِ محفل، معزز اساتذہ کرام، صاحبانِ علم و دانش، اور دنیائے اقبالیات کے جلیل القدر محققین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ لمحہ فکری مسرت کا ہے کہ آج بلوچستان کی علمی فضا میں — جہاں پہاڑوں کی سنگینی دلوں کی غیرت سے ہم آہنگ ہے — ہم اس مفکرِ ملت کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جس نے غلام ذہنوں میں آزادی کے خواب جگائے، اور جس کی صدائے دروں آج بھی ملتِ اسلامیہ کے قافلے کو منزل کی طرف بلاتی ہے۔ اپنی گفتگوکے آغاز میں سورہ الاحزاب کی آیت نمبر70 پڑھنے کی جو توفیق ملی، یہ آیت دراصل اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کی قرآنی اساس ہے۔ وہ اسی پیغام کو اپنی پوری فکر کا محور بناتے ہیں۔ آج جب ہم اقبالؒ کی یاد منانے کو جمع ہیں، تو یہ محض تعظیمِ ماضی نہیں بلکہ احیائے حال کا عہد ہے۔
اقبالؒ وہ چراغ ہیں جنہوں نے قرآن کو فکر کا منبع اور ایمان کو انسان کا سرمایہ قرار دیا۔اقبال کا فکری جہان، ان کا فلسفہ دراصل قرآن ہی کی تفسیرِ جدید ہے۔ وہ کہتے ہیں
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
اقبالؒ کی شخصیت ایک فرد نہیں، ایک عہد ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں اور صاحبِ وحی کی تعلیمات کے نقیب بھی۔ فلسفہ بھی ان کا میدان ہے اور فقہِ حیات بھی ان کی میراث۔ ان کی فکر میں قرآن کا نور، تاریخ کا شعور، اور عمل کا زور یکجا ہے۔ ان کا کلام حقیقت میں قرآنِ حکیم کی ترجمانی ہے، اور وہ خود اپنی شاعری کو دعوتِ عمل سمجھتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی ذات کثیرالجہات تھی۔ وہ شاعر بھی تھے، فلسفی بھی، مفسرِ قرآن بھی اور سیاسی مدبّر بھی۔ ان کی فکر کا منبع قرآن تھا اور ان کا نصب العین انسانِ کامل کی تخلیق۔ان کی نظر میں مومن وہ ہے جو زمین پر خدا کی حجت بن کر جیتا ہے، جو بندگی میں آزادی تلاش کرتا ہے، اور جو خودی کے آئینے میں اپنا خالق پہچانتا ہے۔ اقبالؒ نے انسانی فکر کو بندگی کے دائرے میں آزادیِ شعور عطا کی۔ ان کا پیغام صرف شاعری نہیں بلکہ ایک تہذیبی انقلاب کی صدا تھا۔ یہ آیت دراصل قرآنِ حکیم کی فکری اساس کا خلاصہ ہے۔ جوہمیں اقبالؒ کے کلام، فلسفے اور سوانح میں جا بہ جا ملتی ہے۔
اقبالؒ نے یہی پیغام اپنے عہد کی مردہ روحوں میں پھونکا کہ ایمان جمود نہیں، حرکت ہے؛ اور امت کی بیداری خوفِ خدا اورراستبازی میں پنہاں ہے ،اور علم و عمل کی آمیزش سے ممکن ہے۔

علامہ محمد اقبالؒ وہ نادر روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے قرآن کے پیغام کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے انسانی شعور کے نئے دور میں منتقل کیا۔وہ مفکّر بھی تھے، مفسّرِ قرآن بھی؛ فلسفی بھی تھے اور مدبّرِ ملت بھی؛ادیب بھی، شاعر بھی، اور رہنما بھی۔ ان کی ذات میں مذہب، فلسفہ، سیاست اور ادب کا ایسا حسین امتزاج ملتا ہے جو اسلامی تہذیب کے کسی دوسرے مفکر میں نظر نہیں آتا۔ اقبالؒ کا کہنا تھا:
میری نوائے دو رنگی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ خانہ
یعنی وہ اپنی شاعری کو محض فن نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ایک فکری جہاد، ایک دعوتِ عمل اور قرآنی تفہیم کا تسلسل تصور کرتے تھے۔اقبال کاپیغام جہاں انسان، مومن اور ملت کے لیے ہے وہاں اقبالؒ کی تعلیمات انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ انسان کے باطن میں جو چراغِ خودی جلتا ہے، اقبالؒ نے اسی کو ملت کی روشنی قرار دیا۔ وہ مردِ مومن کو قرآن کا عملی پیکر سمجھتے ہیں جس کی نگاہ خود شناس ہو، جس کا عمل خالص ہو،اور جو اپنے خالق سے براہِ راست رشتہ رکھتا ہو۔
اقبالؒ کا مردِ کامل، کسی فرقے یا خطّے کا نمائندہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا معمار ہے۔وہ انسان کو غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ اسلام ایک زندہ اور متحرک دین ہے، جو ہر دور میں نشاۃِ ثانیہ یعنی تجدیدِ حیات کا مطالبہ کرتا ہے۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے فیصلہ کن دور تھا۔ انگریز سامراج نے سیاسی غلامی کی زنجیر ڈالی،ہندو اکثریت نے اکثریتی جبر کی دیوار کھڑی کی، اور مسلمان مایوسی و خوف کے اندھیروں میں گم ہوگئے۔ علم کے مراکز ویران، قیادت منتشر، اور ملت کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔ایسے میں اقبالؒ کی آواز بجلی کی کڑک کی مانند ابھری۔ انہوں نے غلامی کے سناٹے میں خودی کا نعرہ بلند کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر وہ اپنی اصل پہچان بھول گئے،تو نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ پوری دنیا میں امتِ مسلمہ کے وجود پر سوال اٹھ جائے گا۔
اقبالؒ نے اندلس کے زوال، ہسپانیہ کے المیے، اور مسلمانوں کی تاریخ سے عبرت دلاتے ہوئے کہا کہ اگر قومیں خودی کھو دیں تو سلطنتیں بھی ریت کا محل بن جاتی ہیں۔
اقبالؒ نے سب سے پہلے قومیت کے خول کو توڑا۔اس دورمیں وطنیت کابت مسلمانوں کے ذہنوں پر مسلط کیا جا رہا تھا.اقبالؒ کا فکری انقلاب وطنیت کا بت شکنی پرمبنی تھا۔ اقبالؒ نے اعلان کیا کہ مسلمان کی شناخت وطن سے نہیں، ایمان سے ہے۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سبب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ وہ آواز تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اقبالؒ نے ان کے اندر نئی روح پھونکی،ان میں فکری خود اعتمادی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔
ان کی شاعری نے مسلمانوں کے دلوں میں زندگی کی تڑپ اور حرکت کی آرزو جگائی۔
شاعرِ مشرق بطور مصلحِ قوم ،اقبالؒ کی شاعری میں ایک ایسی روحانی توانائی ہے جو دلوں میں یقینِ محکم، عملِ پیہم، اور محبتِ فاتحِ عالم پیدا کرتی ہے۔
ایک بلبل ہے کہ محوِ ترنّم ہے اب تک
اس کے سینے میں نغموں کا تلاطم ہے اب تک
اقبالؒ کی آواز وقت کی گرد میں بھی زندہ ہے، کیونکہ ان کی فکر قرآن سے جڑی اور عمل سے بندھی ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایمان محض عقیدہ نہیں،بلکہ عمل کا محرّک اور قوتِ تخلیق کا سرچشمہ ہے۔جب ملتِ اسلامیہ کے سیاسی قائدین انتشار کا شکار تھے، جب کانگریسی مسلمان وطنیت کے فریب میں مبتلا تھے،تب اقبالؒ نے مسلم لیگ کے فکری محور کو درست سمت دکھائی۔ انہوں نے نہرو فارمولے اور مخلوط انتخابات کی مخالفت کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سیاسی موت ہے۔
قائدِ اعظمؒ نے اقبالؒ کے بارے میں کہا تھا وہ میرے دوست، میرے رہنما اور میرے فلسفی ہیں۔مسلم لیگ کے تاریک ترین ادوار میں وہ چٹان کی طرح استقامت سے ڈٹے رہے،یہی استقامت دراصل اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی روح ہے کہ جب باطل ہرسمت سے حملہ کرے تومومن اپنے نظریے سےایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔
پھرسب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اقبالؒ کا خواب تھا۔ نشاۃِ ثانیہ محض مذہبی بیداری نہیں،بلکہ ایک عالمی فکری انقلاب کا عنوان ہے۔اقبالؒ نے اس تصور کو اسلامی فکر کی تجدید کے طور پر پیش کیا ،ایسی تجدید جو قرآن کے بنیادی اصولوں پر استوار ہو،لیکن زمانے کے تقاضوں کو بھی نظرانداز نہ کرے۔ ان کی نظر میں اسلام کوئی ماضی کی یاد نہیں، بلکہ مستقبل کی قوتِ محرکہ ہے۔اسی لئے اقبالؒ نے کہا:اسلام ایکپیغامِ عمل ہے، مذہب نہیں بلکہ ایک انقلابی تحریک ہے۔
اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے اقبالؒ نے تین بنیادیں بیان کیں جو حقیقت میں سورہ العصر کی تشریح ہے۔
خودی کی بیداری ۔۔انسان اپنی ذات کو پہچانے
عملِ صالح۔۔ایمان کوحرکت میں بدلے
اجتماعی عدل۔۔۔امت کے نظامِ حیات کو عدل پر استوار کرے۔
یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر مستقبل کا اسلامی معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔
اقبالؒ کا خواب صرف برصغیر تک محدود نہ تھا۔ اقبالؒ کا عالمی وژن — ایران، افغانستان، اور عالمِ اسلام تک محوپروازتھا۔ان کی نگاہیں افغانستان کے پہاڑوں، ایران کے افکار،اور ترک و عرب کے میدانوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر مسلمان اپنی فکری خودی نہ پہچانیں تو وہ نہ صرف سیاسی بلکہ روحانی غلامی کے شکنجے میں جکڑ جائیں گے۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری سے وطنیت کے بت توڑے اور امت کے تصور کو زندہ کیا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
یہ محض شعر نہیں، ایک قرآنی صدا ہے کہ امت ایک جسم ہے، جس کا دکھ اور سکون ایک ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر مسلمان اپنی قومی خودی برقرار رکھیں ، تو کوئی طاقت انہیں محکوم نہیں بنا سکتی۔ اقبالؒ کے سیاسی نظریے کی بنیاد قرآن کی مساوات، عدل اور خودی کے اصولوں پر تھی۔1908ء سے 1938 تک وہ مسلسل قوم کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کی فکر کا عروج 1930ء کے الٰہ آباد خطبے میں ظاہر ہوا۔ یہ خطبہ محض سیاسی تقریر نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کی تفسیر تھی کہ ایک ایسی ملت جو ایمان کی بنیاد پر بنی ہو، وہ کسی دوسری اکثریت کی مرہونِ منت نہیں، جہاں انہوں نے فرمایامیں چاہتا ہوں کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان ایک آزاد ریاست میں اپنی زندگی قرآن کے مطابق بسر کریں۔ یہ اعلان دراصل ایک قرآنی تصورِ امت کی تجدید تھا۔
اقبالؒ نے اسلام کو وحدتِ انسانی کی بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک مسلمان اپنے مابین تفرقے اور قومیت کے بت نہیں توڑیں گے،انہوں نےکہا کہ جب تک مسلمان اپنے مابین تفرقے اور قومیت کے بت نہیں توڑیں گے، تب تک نشاۃِ ثانیہ کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا۔اقبالؒ نے جب چاروں طرف سے مخالفت دیکھی، انگریز، ہندو، اور بعض نام نہاد مسلمان رہنما سب نے انہیں دبانے کی کوشش کی،تب بھی وہ اپنے نظریے سے پیچھے نہ ہٹے۔ مگر اقبالؒ قرآنی مردِ مومن کی تصویر بن گئے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْجَمَعُوْ الَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَقَالُوْاحَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ: لوگوں نے کہا، سب تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں، ان سے ڈرو۔مگران کا ایمان اور بڑھ گیا اور کہا ہمیں اللہ کافی ہے، وہ بہترین کارساز ہے۔
اسی استقامت پر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا: اقبالؒ میرے رہنما اور میرے فلسفی ہیں۔ وہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ علامہ اقبالؒ اتحاد و اتفاق کو امت کا اثاثہ سمجھتے تھے۔اقبالؒ کے خواب کو قائدِ اعظمؒ نےتعبیر دی۔ جب جناح لندن میں گوشہ نشین تھے، اقبالؒ کے خطوط ان کے دل میں ذمہ داری اور قیادت کا شعلہ دوبارہ روشن کرتے رہے۔ اقبالؒ نے جناحؒ کو مخاطب کر کے لکھا: مسلمانوں کی نجات صرف اسی میں ہے کہ وہ اپنی سیاست کو دینی اصولوں پر قائم کریں۔یوں ایک مفکر اور ایک قائد — دونوں مل کر امت کے دو بازو بنے۔ ایک نے خواب دیکھا، دوسرے نے حقیقت میں ڈھالا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملت نے اپنی شناخت حاصل کی، اور برصغیر کے مسلمانوں نے قرآن کی روشنی میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ آج جب ہم بلوچستان کے اس علمی و فکری اجتماع میں جمع ہیں، تو اقبالؒ کے اس پیغام کی گونج ہمیں جھنجھوڑتی ہے:
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارہ
بلوچستان کی سرزمین، جس نے ہمیشہ علم، غیرت اور اخوت کو سینے سے لگائے رکھا، آج اسی پیغامِ اتحاد کی محتاج ہے۔ فرقہ واریت، لسانی تقسیم، اور سیاسی انتشار اسی وقت مٹ سکتا ہے جب ہم اقبالؒ کے اس اصول کو سینے سے لگائیں۔ اقبالؒ نے فرمایا:
تو رازِ کُن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
اے مرد مسلماں ! تیری حیثیت اس عالم رنگ و بو میں قدرت کے ایک راز کی سی ہے ۔ تیرے لیے یہ امر لازم ہے کہ اپنی حقیقت و تشخص سے آگہی حاصل کر لے اور خدائے ذوالجلال کے احکامات کی ترجمانی کرتے ہوئے خودی کی حکمت سے آشنائی حاصل کر لے۔
آج جب ہم بلوچستان کی سرزمین پر یہ کانفرنس منعقد کر رہے ہیں — وہ خطہ جہاں غیرت، علم اور ایثار کی روایات ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں — ہمیں اقبالؒ کی تعلیمات کو اپنے موجودہ حالات پر منطبق کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے سیاسی اور سماجی مسائل کا حل کسی بیرونی طاقت کے ایجنڈے میں نہیں، بلکہ اقبالؒ کی اس تعلیم میں ہے جو قرآن سے پھوٹی ہے۔اگرہم قرآن اور اقبالؒ کی فکر کو اپنی اجتماعی زندگی میں نافذ کریں تو بکھرے ہوئے دل جُڑ سکتے ہیں، محرومی خوشحالی میں بدل سکتی ہے، اور بلوچستان علم و عمل کا محور بن سکتا ہے۔ یہ اقبالؒ کا ہی پیغام ہے کہ سیاسی اختلاف کو فکری وحدت میں ڈھالا جائے، اور ملت کے رشتے کو جغرافیے کے نہیں بلکہ ایمان اور قرآن کے رشتے سے جوڑا جائے۔

آج جب ہم بلوچستان کی طرف دیکھتے ہیں جہاں سیاسی بےچینی، سماجی اضطراب، اور محرومی کی فضا چھائی ہوئی ہے تو اقبالؒ کی آواز ایک نئی تازگی کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ اقبالؒ کا پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ اصلاح قوم کے اندر سے شروع ہوتی ہے،نہ کہ بیرونی نظاموں سے۔ جب تک دلوں میں خودی کی شمع نہیں جلتی،تب تک سیاست میں استقامت پیدا نہیں ہوتی۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے اقبالؒ کا پیغام یہ ہے کہ تعلیم کو ہتھیار بناؤ، عمل کو عادت بناؤ، اور وحدت کو شعار بناؤ۔اقبالؒ کے نزدیک انقلاب بندوق سے نہیں، بلکہ فکر، علم اور کردار سے آتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اگر بلوچستان کے فرزند اپنی ذات میں خودی کی آگ روشن کر لیں، تو یہی خاک زرخیز نئی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز بن سکتی ہے۔اقبالؒ کی فکر محض ماضی کا سرمایہ نہیں، بلکہ حال کی راہ اور مستقبل کا نقشہ ہے۔ان کی تعلیمات میں امت کے اتحاد کا پیغام ہے، ان کے فلسفے میں انسان کی آزادی کا جلال ہے،اور ان کے خواب میں اسلامی تہذیب کی تجدید کا جمال ہے۔ آج جب ہم اپنے گرد فکری زوال،سماجی انحطاط اور اخلاقی انتشار دیکھتے ہیں،تو محسوس ہوتا ہے کہ اقبالؒ کی نشاۃِ ثانیہ اب بھی ہم سے عمل، عزم، اور ایمان کی التجا کر رہی ہے۔
اے خالقِ ارض و سما، اے ربِ محمدِ مصطفیٰ ﷺ
ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تُو نے ہمیں اقبالؒ کی فکر سے فیضیاب کیا، جس نے ہمیں خودی کی پہچان اور امت کی وحدت کا درس دیا۔
اے اللہ ہمیں وہ نگاہ عطا کر جو اقبالؒ کو عطا فرمائی تھی، ہمیں وہ دل دے جو ایمان سے روشن ہو، اور وہ ہاتھ دے جو عملِ صالح سے معمور ہو۔
اے ربِ کائنات بلوچستان اور پاکستان کے ہر گوشے کوامن، علم، عدل اور وحدت کا گہوارہ بنا دے۔ ہمیں اختلاف کی بجائے اتحاد کی راہ دکھا،
اور ہمیں اپنے دین کی سربلندی کے لیے فکرِ اقبال اور عملِ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی کی توفیق دے۔
آمین، ثم آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں