پال اے نٹل تاریخ دان ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف اورسیاستدان بھی رہ چکے ہیں،2009سے2019تک وہ یورپی پارلیمان کے رکن رہے اور بریگزٹ کی تحریک چلانے والوں میں شامل رہے ہیں۔یورپین عدالت کاورک پلیس پرحجاب پرپابندی لگانے کامتنازع فیصلہ تنگ نظرسوچ اورپسماندگی کی علامت ہے،یہ فیصلہ آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب پربھیانک اثرات ڈالے گا،یورپ کی اعلی عدالت،یورپی عدالت برائے انصاف نے یہ فیصلہ دیاہے کہ حجاب والی خواتین کوملازمت سے برطرف کرسکتے ہیں،جب وہ آجروں سے معاملات کررہی ہوں یاگاہکوں سے گفتگوکررہی ہوں یااگر اس حجاب کی وجہ سے ملازمت کی جگہ پرکوئی تنازع کھڑاہو۔اس مقدمے کودوحجاب پہننے والی نومسلم جرمن خواتین نے فائل کیاتھاجنہیں حجاب کی وجہ سے نوکری سے برطرف کیا گیا،جن میں سے ایک خاتون فارمیسی میں ملازمت کرتی تھیں اورایک کاتعلق اسپیشل کیئرکے محکمے سے تھا۔دونوں خواتین کے کام کے بارے میں انتہائی مثبت رپورٹس بھی عدالت کوپیش کی گئیں اوراب تک کسی نے ان کے حجاب کوان کے پیشہ وارانہ کام میں مخل نہیں دیکھالیکن اس کے باوجودمقدمے کی سماعت میں عدالتی ٹریبونل نے بیان دیاکہ کسی بھی ایسی حرکت یاایسے لباس کی قانونی ممانعت کی ضرورت ہے جوعوامی مقامات پرکسی طرح بھی سیاسی یامذہبی اظہارکاباعث بنے تاکہ ملازمت پیشہ افراد لوگوں کے سامنے اپناغیرجانبدارانہ رویہ اختیارکرکے سوسائٹی کوتنازعے سے محفوظ رکھ سکیں۔
عدالت کافلسفہ ہرذی شعورکی سمجھ سے بالاترہے،کیاواقعی یہ عدالتی بیان کمیونٹی تعلقات کوبہتربنانے میں مددکرسکے گا؟مذہبی لباس پرتنازعات پرغور کیلئے کئی عشرے پیچھے جاکرتاریخ کودیکھناپڑے گا،یہ مقدمہ رجعت پسندی کی ایک علامت ہے جو میرے ذہن کو اس زمانے میں لے گیاجب1967میں وولورہیمپٹن مڈلینڈکابدترین واقعہ پیش آیا،جب ایک سکھ ترسیم سنگھ سندھو کو صرف اس وجہ سے نوکری سے نکال دیاگیاتھاکہ وہ داڑھی رکھتاتھااور سکھوں کی طرح سرپرپگڑی پہنتاتھا۔سکھوں کااپنے بالوں کوپگڑی میں لپیٹناان کے پانچ اہم عقائدکاحصہ ہے۔جب سندھونے پگڑی اتارنے سے انکارکیا تواس کے حق میں6000سکھ احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکل آئے،بس کمپنی کواپنے متعصبانہ فیصلے سے دستبردارہوناپڑااوردوسال بعدبس کمپنی نے اپنا مؤقف تبدیل کیا ،یہ بہت دانشمندانہ اور مذہب کے حوالے سے قوت برداشت کامظاہرہ تھا۔وولورہمپٹن میں وقوع پذیرہونے والاواقعہ یہ بتاتاہے کہ اس وقت ایک بس ڈرائیورکیلئے بھی مذہبی حوالے سے اس دورمیں بھی زیادہ قوت برداشت موجودتھی،جوکہ تاحال یعنی اکیسویں صدی کے جدیددورمیں ناپیدہوچکی ہے۔
بالکل اسی طرح مجھے وہ حیران کن واقعہ یادہے جب2006میں برطانیہ کی فضائی کمپنی کی ملازمہ نادیہ ایوداکوعیسائیوں کا مذہبی صلیب کانشان گلے سے نہ اتارنے کی وجہ سے ملازمت سے برخواست کردیاگیاتھااگرچہ اس کی ٹریبونل اپیل کامیاب نہیں ہوئی لیکن جب وہ اپنامقدمہ یورپی عدالت برائے حقوق انسانی میں لیکرگئی تووہ اپنامقدمہ جیت گئی اور فیصلے میں یہ کہاگیا کہ ان کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کیس کویورپی عدالت لیکرجانا ہی خودایک اسکینڈل تھالیکن عقل اورمذہبی رواداری بالآخرجیت گئی۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ یورپی عدالتِ انصا ف کاحجاب پر دیے گئے متنازع فیصلے سے کہیں بہترفیصلہ2006میں دیاگیایورپی عدالت برائے انسانی حقوق کافیصلہ تھا۔
یہاں پرکچھ پڑھنے والے راقم کے خیالات پڑھ کرغیریقینی کی کیفیت میں ہوں گے کہ بیشترافرادجو2020 میں برقع پرپابندی کے حق میں یہ دلیل دیتےتھے کہ ایک صحت مند معاشرے کالطف اٹھانے کیلئے ہرانسان اپنے چہرے کے ساتھ گفتگوکرسکے اوراس کے علاوہ برقع پوش خواتین کوسیکورٹی کےحوالے سے بھی خطرات کااندیشہ رہتاہے،مگروہ بھی حجاب کی حقیقت سے آگاہی کے بعداپنی مخالفت کوختم کرچکے ہیں۔
یہاں برقع اورحجاب میں اک واضح فرق موجودہے،جوخواتین حجاب کرتی ہیں ان کاچہرہ نظرآسکتاہے۔حجاب کسی بھی طرح کسی عورت کیلئے اس کے پسندیدہ پیشہ کے انتخاب میں رکاوٹ نہیں بن سکتا،حجاب عقیدے کاایک حصہ ہے اور عورت کااپنے عقیدے سے ایک اظہارہے اوراسے برداشت کیا جانا چاہیے۔لبرل مغربی یورپ مستقل طورپرمشرقی ممالک کوایل جی بی ٹی کیوکیلئے عدم برداشت کے رویے پرلعن طعن کرتارہتاہے کیاآپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یورپی عدالت برائے انصاف کااس مقدمے پر فیصلہ بدترین منافقت ہے۔
حجاب کے بارے میں یہ فیصلہ آنے کے بعدوہ عیسائی کیاکریں گے،جوکام کے دوران صلیب کانشان پہنے رہتے ہیں حقیقت میں کیا ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اب ایک آجرکسی بھی سکھ کوایک بارپھرپگڑی اتارنے اورداڑھی صاف کرنے کاحکم دے سکتاہے۔کیاجو چیزراج ہنس کیلئے اچھی ہے وہ مادہ ہنس کیلئے اچھی نہیں ہوسکتی؟مثال کے طورپرکیاایک یہودی مخالف جذبات رکھنے والاکسی یہودی سے یہ کہہ سکتاہے کہ وہ کیفہ(یہودیوں کی مذہبی علامت)نہیں پہن سکتاکیونکہ اس کوپہننے سے کام کی جگہ پرتنازع پیدا ہونے اورگاہکوں کے متنفرہونے کاڈرہے۔مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی شخص کسی یہودی کویہ بات کہنے کی ہمت نہیں کرسکے گالیکن اس مقدمے کے فیصلے نے کچھ لوگوں کیلئے سوسائٹی میں مسئلے کھڑے کرنے کاراستہ آسان کردیاہے اورآگے جاکریہ مختلف مذاہب کیلئے دردسربن جائے گا۔
میرے لیے یہ فیصلہ بالکل ایساہی ہے جیسے ہم ماضی میں عدم برداشت کی طرف پلٹ رہے ہیں لیکن اب یہ سیکولرعدم برداشت کا مظاہرہ ہے،میرایہ ماننا ہے کہ لوگوں کومذہبی آزادی دی جانی چاہیے۔اپنے مذہب کے لحاظ سے وہ اپنے لباس کاانتخاب کرنے میں اس وقت تک آزاد ہوں جب تک کہ سوسائٹی میں اس وجہ سے کوئی مسئلہ پیدانہیں ہواورراقم یہ جانتا ہے کہ معاشرے میں اب تک حجاب پہننے،سکھ پگڑی پہننے،صلیب کی علامت پہننے یا یہودیوں کاکیفہ پہننے میں کوئی مسئلہ پیدانہیں ہواہے۔ جن یورپ ممالک میں حجاب پرپابندی عائدکی جاچکی ہے،کیااس قانون کے نفاذکے بعدمسلمانوں کے خلاف تعصب میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے تو اس کاجواب نفی میں ہوگالیکن یہ حقیقت ہے کہ حجاب پرپابندی کے بعد یہاں کی مقامی آبادی کی خواتین میں اسلام کی حقیقت سمجھنے کیلئے اشتیاق بڑھتاجارہاہے۔مقامی مساجدمیں ان خواتین کی اسلامی لٹریچرمیں دلچسپی میں روزبروزاضافہ ہوتاجارہاہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کے رجعت پسند ادارے اس کامقابلہ کیسے کریں گے؟