India's trade Setback In The Region

خطے میں بھارت کی تجارتی پسپائی

:Share

بھارت عالمی تجارت میں ایک بڑاشراکت دارضرورہے لیکن اسے اب پاکستان اورچین جیسی بڑی طاقت سے گھیراؤکے خطرات لاحق ہیں۔چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبےمیں بھارت کے پانچ پڑوسی ممالک پاکستان،بنگلادیش،سری لنکا،نیپال اورمالدیپ شامل ہیں۔مودی کوتشویش ہے کہ اس منصوبے سے اس کے پڑوسی ممالک میں چین کااثرورسوخ حدسے زیادہ بڑھ جائے گااورنئی بننے والی بندر گاہیں اورسڑکیں چین کوعسکری معاونت بھی فراہم کرسکتی ہیں۔اس وجہ سے بھارت جنوبی ایشیامیں چین سے ایک قدم آگے نہیں تو برابررہنے کیلئےکوششیں کررہاہے۔اب تک بھارتی سازشی ذہنیت نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں جوسرمایہ کاری کی تھی،وہ بھی بھرے میدان میں غرق ہوگئی لیکن پھربھی اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک میں اپنااثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کررہاہے۔ان کوششوں میں بھارت کو کچھ کامیابیاں ضرورحاصل ہوئی ہیں لیکن خطے کے چھوٹے ممالک پرچین کی نوازشات کو دیکھتے ہوئے جنوبی ایشیا پرتسلط قائم کرنے کا بھارتی منصوبہ بری طرح ناکام دکھائی دے رہاہے۔

بھارت اورچین دونوں ہی بحرہندکے تجارتی راستوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاناچاہتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے درمیان مالدیپ اور سری لنکاپراپنااثرورسوخ قائم رکھنے کی جنگ شدت اختیارکرجائے گی۔مالدیپ کے اس وقت کے صدرعبداللہ یامین نے ملک میں ایمرجنسی نافذکردی، بھارت نے ملک میں جمہوریت بحال کرنے کی اپیل کی،جسے عبداللہ یامین نے نظراندازکردیا۔اس وقت سے بھارت اورمالدیپ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ ستمبر2018ءمیں ہونے والے انتخابات میں عبداللہ یامین کوہراکرابراہیم محمدصدر بن گئے۔بھارت نے اس موقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے مالدیپ کو 4ء1؍ارب ڈالرکاامدادی پیکج دیا۔ابراہیم محمدنے عبداللہ یامین کے دورِحکومت میں ملک پرچڑھنے والے قرضوں کی تحقیقات کابھی اعلان کردیا۔ان قرضوں میں بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کے تحت بننے والے چین مالدیپ دوستی پُل کے اخراجات بھی شامل ہیں۔لیکن چین سے حاصل ہونے والے فوائدکودیکھتے ہوئے ابراہیم محمدنے بھی اعلان کردیاہے کہ مالدیپ چین سے تعلقات ختم نہیں کرے گا۔

دوسری جانب سری لنکامیں بھی بھارت کواپنے لیے ایک موقع ملاہے۔سری لنکااپنے ساحلی شہرہامبانتوتامیں ایک آئل ریفائنری تعمیر کرناچاہتاہے۔اس ریفائنری کی تعمیرمیں ایک بھارتی کمپنی بھی کئی ارب ڈالرکی حصہ دارہے۔اس ریفائنری کی تعمیرہامبانتوتاکی بندر گاہ کے نزدیک ہی ہورہی ہے۔یہ بندرگاہ بھی چین کے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کاحصہ ہے اوربھارت کواس پرتحفظات ہیں۔بھارت سمجھتا ہے کہ بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کے تحت دیے جانے والے قرضوں کے ذریعے چین سری لنکاپراپنااثرورسوخ قائم کرناچاہتاہے۔سری لنکا نے بھی خاطرخواہ سرمایہ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے قرضوں میں کمی کے عوض ہامبانتوتاکی بندرگاہ ایک چینی کمپنی کو99سال کی لیزپردے دی ہے۔سری لنکاکی حکومت نے چینی سرمایہ کاری سے مطمئن نہ ہونے کے باوجودبینک آف چائناسے ایک ارب ڈالر ادھارلیاہے تاکہ وہ اپنے پرانے قرض اتارسکے۔سری لنکاکی’’بھارت کے ساتھ برابری‘‘کی خواہش اسے معاشی خطرات کے باوجود چینی امدادحاصل کرتے رہنے پرمجبورکرے گی۔

بھارت اورچین کے درمیان ہمالیہ کامتنازع علاقہ بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔اس وجہ سے ان بڑی طاقتوں کے درمیان نیپال اوربھوٹان جیسی چھوٹی ریاستوں پردبدبے کی جنگ شدت اختیارکرے گی۔2017ء میں نیپالی وزیراعظم کھڑگاپرساداولی کے اقتدارمیں آنے کے بعدسے چین کے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے میں نیپال کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔شروع میں نیپال نے35منصوبوں کی خواہش ظاہرکی تھی جسے چین کے کہنے پرکم کرکے9کردیاگیاتھا۔

وزیراعظم اولی بھارت سے دوری بھی اختیارنہیں کرناچاہتے تھے ، اس وجہ سے گزشتہ سال انہوں نے اپناپہلاغیرملکی دورہ بھی بھارت کاہی کیا۔دوسری طرف بھارت بھی نیپال میں سرمایہ کاری کررہا ہے ، جس میں4ء1؍ ارب ڈالر کا ہائیڈرو پاور منصوبہ بھی شامل ہے۔ لیکن وزیر اعظم اولی کوان کے گزشتہ دور حکومت میں بھارت کی جانب سے سرحد کی بندش کاتلخ تجربہ یادہے۔اس بندش کی وجہ سے ہی نیپال آئل کارپوریشن اورپیٹروچائناکے درمیان پہلی بارایندھن کی خریداری کامعاہدہ ہواتھا۔

نیپال کے برعکس بھوٹان بھارت کاسب سے مضبوط اتحادی ہے۔یہ بھارت کاوہ واحد پڑوسی ملک ہے جواب تک بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کاحصہ نہیں بناہے۔ 2017ءمیں بھارت اورچین کی افواج ڈوکلام کے علاقے میں آمنے سامنے آگئی تھیں(ڈوکلام چین اوربھوٹان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے )یہ کشیدگی کئی ماہ جاری رہی تھی۔اسی لئےبھارت بھوٹان پراپنااثرورسوخ قائم رکھنابہت ضروری سمجھتاہے۔ بھارت کی جانب سے دیگرممالک کودی جانے والی امدادمیں سب سے زیادہ حصہ بھوٹان کوملتاہے۔مودی نے2014ءمیں اپناپہلاغیرملکی دورہ بھی بھوٹان کاہی کیاتھا۔

بنگلادیش بھی بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کاحصہ ہے۔یہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے چین کوبندرگاہوں تک رسائی دے سکتا ہے۔2016ءمیں چینی صدراوربنگلادیشی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد20؍ارب ڈالرسے زیادہ کے منصوبوں پردستخط ہوئے۔ بنگلا دیش میں چین کے منصوبوں کی لمبی فہرست ہے ،جس میں ریلوے لائن،سڑکیں،پٹ سن کی ملیں،بندرگاہیں اوربجلی کے منصوبے شامل ہیں۔بھارت بھی ملک کے شمال مشرقی حصے تک بہتررسائی کیلئے بنگلادیش کے ساتھ خوشگوارتعلقات رکھناچاہتاہے۔ملک میں جاری تعمیراتی اورمعاشی منصوبے بنگلادیش کے چین اوربھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط کریں گے۔

بیلٹ اینڈروڈپروگرام کے تحت پاکستان میں جاری منصوبے بھارت کیلئےپریشانی کاباعث ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے چین کاتجارت کیلئےآبنائے ملاکاپرانحصارکم ہوجائے گا۔بھارت کے ساتھ کسی ممکنہ بحری جھڑپ کی صورت میں گوادرکی بندرگاہ چینی بحریہ کیلئےمعاون ہوسکتی ہے۔دوسری جانب آزادکشمیرسے گزرنے والی سڑک بھی بھارت کیلئےتشویش کاباعث بنی ہوئی ہے۔بھارت کاکہناہے کہ اس طرح چین نے اپنے ہی بنائے ہوئے عدم مداخلت کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری کشمیرکے تنازع کی وجہ سے چین پاکستان اقتصادی راہداری بھارت کوبیلٹ اینڈروڈمنصوبے کا ایک بڑا مخالف کے طورپرسامنے آرہاہے کیونکہ اس کے آقاکوبھی یہی مطلوب ہے۔

بھارت اورچین کے تعلقات خاصے پیچیدہ ہیں۔چین کی پاکستان کے ساتھ شراکت کی بناءپربھارت خاصے دباؤ میں ہے۔بھارت اورچین کے درمیان ریاست” اُروناچل پردیش” اور”آکسائی چن” کے علاقوں کاتنازع بھی موجودہے۔اس کےعلاوہ بحرہنداورجنوبی ایشیامیں چین کے بڑھتے ہوئے قدم بھی خطے میں بھارتی اثرورسوخ کیلئےخطرہ ہیں۔ یقیناًبیلٹ اینڈروڈمنصوبے سے منسلک تمام ممالک میں اس منصوبے سے متعلق بحث ہوتی رہے گی،تاہم بھارت کے بڑھتے ہوئے قدم اورمودی کی غلط پالیسیاں خطے کے چھوٹے ممالک کواس بات پرمجبورکردیاہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کوآگے بڑھائیں اورچین نے اس سنہری موقع کوہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں