چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارانتہائی سنجیدگی سے پاکستان میں پانی کی قلت کے سدباب کیلئے جہاں بھاشااوردیامیرڈیم کی تعمیرکیلئے شب وروز تگ ودو کررہے ہیں وہاں پانی کی قلت کودورکرنے کیلئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کےانعقادبھی ان کی سنجیدگی کامظہرہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وطن عزیزمیں پانی کی شدید قلت کااب تک کسی بھی حکومت نے اس قدرسنجیدگی نہ دکھاکرمجرمانہ فعل کاارتکاب کیاہے۔اس ضمن میں اگر کچھ کام نظرآتاہے تووہ سابق صدرمحمدایوب خان کے دورمیں ہواجب تربیلا،وارسک اورمنگلاڈیم تعمیرکیے گئے۔اس زمانے میں کالاباغ ڈیم کامنصوبہ بھی بنایاگیا،اس کی فیزیبلٹی رپورٹ بھی تیارکرلی گئی تھی لیکن عین انہی دنوں میں سیاسی حالات اس قدر خراب ہوگئے جس کی بناء پرجنرل یحییٰ خان نے اسی طرح ایوب خان کورخصت کردیاجس طرح ایوب خان نے سول حکومت پرقبضہ کیاتھا۔یحییٰ خان بھی دوسال کے عنانِ اقتدارمیں اپنی غلط پالیسیوں اورعالمی سازش کاشکارہوکرتاریخی روسیاہی کاشکارہوکربالآخر وطن عزیزکے دولخت ہونے کے بعداقتدارذوالفقارعلی بھٹوکے سپردکرکے باقی عمراپنے گھرمیں شدیدخطرناک بیماری میں مبتلااورتنہائی کاشکاررہنے کے بعداس دنیاسے رخصت ہوگئے،لیکن ذوالفقارعلی بھٹونے بھی کالاباغ ڈیم پرقطعاً کوئی توجہ نہ د ی ۔اس طرح کالاباغ ڈیم کی فائل دیگر فائلوں کے نیچے دب کرگردآلودہوگئی اوراس کے بعدآج تک کالاباغ ڈیم کی تعمیرکا خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہوسکا۔
بعدازاں آنے والے حکمرانوںنے جب اس کی تعمیرکاارادہ ظاہرکیامگربھارت نے اپنے ایجنٹوں کے توسط سے اس کی تعمیررکوانے کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے اور بھارتی ایجنٹوں نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے لی ہوئی رقوم کوحلال کرنے کیلئے کالاباغ کی ڈیم کی اس حد تک مخالفت کی کہ اس کی تعمیرکیلئے لاشوں کاڈھیرلگانے کی دہمکیوں کے ساتھ ساتھ اس کوبم مارکراڑانے کابھی اعلان کردیا۔ان مخالفین میں وہ گروہ بھی شامل تھے جو اپنے آپ کوقوم پرست کی حیثیت سے متعارف کرواتے تھے۔عام ذہن یہ سوچتارہاکہ قوم پرست یہی ہے کہ اپنی قوم کا مستقبل بنجربناکردشمن کے ارادوں کاکامیاب بنایاجائے۔بہرحال حکمرانوں نے یہ صوررتحال دیکھ کرکالاباغ ڈیم کاارادہ ترک کردیابلکہ زرداری حکومت نے توباقاعدہ اس منصوبے کومکمل ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کوہمیشہ کیلئے داخل دفترکردیاحالانکہ اس وقت کالاباغ ڈیم انتہائی ارزاں اخراجات سے تعمیر کیاجاسکتاتھا کیونکہ اس کے تین اطراف پہاڑوں کی صورت میں قدرتی دیواریں پہلے سے ہی موجودہیں،صرف ایک جانب دیوارتعمیرکرناتھی اور جہاں تک اس ڈیم کے معترضین کااعتراض تھاکہ پنجاب ،سندھ کاپانی لے جائے گاتوپہلی بات تویہ ہے کہ جیسے آجکل ہمارے دریابہہ رہے ہیں اور ان میں آنے والااضافی پانی سیلاب کی صورت میں ہماری قیمتی فصلوں اورزمینوں کوتباہ اورگھروں،محلوں اورڈھورڈنگروں حتیٰ کہ انسانوں کوبہالے جاتا ہے،اس پانی کوکالاباغ ڈیم میں ڈال کرسندھ کی زمینوں،فصلوں،ڈھورڈنگروں اور سندھی بھائیوں کی جانوں کوسیلاب کے خطرے سے تحفظ مل جائے گا۔
فرض کرلیں اگریہ فاضل پانی پنجاب استعمال کرتاہے توکیاپنجاب پاکستان کاحصہ نہیں اورپنجاب کے مزیدزمینوں کازرخیزہوناسندھ اورپاکستان کے مفادمیں نہیں،کیایہاں پیداہونے والاغلّہ اورفصلیں صرف اہل پنجاب کے حصے میں نہیں آتیں؟؟ظاہرہے کہ اب تک پنجاب پورے پاکستان کو گندم، چاول اوردیگراجناس فراہم کررہاہے اوراگریہ تمام فصلیں زیادہ ہوں گی توکیاتمام پاکستانیوں کوفائدہ نہ ہوگاکہ خوراک کم قیمت پرملے گی۔ اجناس اگربرآمدہوگی توملنے والے زرمبادلہ سے ملکی معاشی حالت مزیدمضبوط ہوگی جس سے پاکستان اورپاکستانیوں کوفائدہ پہنچے گا۔اس میں صوبائیت کو کیوں سامنے لایاجاتاہے اورستم بالائے ستم کہ اب بھارتی ایجنٹوں نے بھاشاڈیم کی بھی مخالفت شروع کردی ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ مٹھی بھربھارتی ایجنٹ قوم پرستی کے نام پر سندھ کے ناخواندہ یاکم علم عوام کوجھوٹے اوربے بنیادپروپیگنڈہ سے بہلاپھسلاکروطن دشمنی پر اکساتے ہیں اور صوبائیت کے نام پر مخالفت پراکساناشروع کردیتے ہیں۔اگرہم ڈیم بناکرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائیں گے توبھارت کی چیرہ دستیوں سے نہ صرف خودکوبلکہ اپنی آنے والی نسلوں کوبھی محفوظ کرسکتے ہیں لیکن قوم پرستوں کانام استعمال کرتے ہوئے بھارتی ایجنٹ اب ہراس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے پرتیار بیٹھے ہیں جس سے قوم کے مستقبل کوغیرمحفوظ اور تباہ کرکے اس خطے میں بھارتی بالادستی کویقینی بنایاجاسکے جس کیلئے اب انہوں نے بھاشادیم کی مخالفت بھی شروع کردی ہے۔
خبروں کے مطابق بھارتی ایجنٹوں نے خودکوقوم پرستوں کانام دیکرکالاباغ ڈیم اوربھاشاڈیم کے خلاف احتجاج شروع کرتے ہوئے کراچی میں تین روزہ سوگ ہڑتال کااعلان کیا اوراس کے علاوہ سندھ بھرمیں بھی مظاہروں کااعلان کردیاگیا جبکہ دوسری طرف بھارتی کی آبی جارحیت پر نظر ڈالیں کہ ابھی چندروزقبل اس نے پنجاب میں تین دریاؤں میں پیشگی اطلاع دیئے بغیرپانی چھوڑدیا جس سے یہاں سیلاب کی سی صورت پیداہوگئی جبکہ مون سون موسم کے بعدخشک موسم آتاہے توبھارت ہماراپانی روک کردریاؤں سے اپنے ڈیم بھرنا شروع کردیتاہے۔یادرہے کہ بھارت نے ایک دونہیں بلکہ سینکڑوں کی تعدادمیں ڈیم بنائے ہوئے ہیں اورڈیموں کی تعمیرکیلئے غیرقانونی اقدام سے گریزنہیں کرتااورہمارے حق پرڈاکہ ڈالتےہوئے اس نے ہمارے دریاؤں پربھی ڈیم تعمیرکرلئے ہیں جس سے مستقبل میں ہماراپانی بھارت کے کنٹرول میں چلاجائے گا۔پھرجب بھی بھارت پانی چھوڑے گا تب یہاں پانی آئے گا،جب وہ پانی روکے گاتوہم پانی کی ایک ایک بوندکوترسیں گے،یہی وجہ ہے کہ بھارتی انتہاء پسندوں نے میڈیاپر برملاکہناشروع کردیاہے کہ وہ دن دورنہیں جب ہم سارے پاکستان کوصحرامیں تبدیل کردیں گے(خدانخواستہ)۔
ان حالات میں پاکستان میں کسی بھی ڈیم کی تعمیرسے اختلاف میں اس امرکاثبوت نہیں کہ یہ اختلاف کرنے والے ایجنٹ ہیںجومستوجب سزاہیں۔ اس ضمن میں عوام کوہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھ لیناچاہئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہم نے ہزاروں لاکھوں جانوں عصمتوں، خوابوں اورنسلوں کی قربانیوں کے بعدحاصل ہواہے اور27رمضان المبارک کوپاکستان کی تشکیل میں بھی ربّ ِ کریم کی خاص رضامضمرہے۔ پاکستان میں برصغیرکے مسلمانوں کیلئے اللہ کاانعام ہے اوراس خداوندی انعام کی حفاظت ہم سب کو نہ صرف وطن پرستی کے لحاظ سے بلکہ دینی فریضہ بھی ہے کہ ہم اللہ کے منعم ہیں اوردیئے گئے انعام کی حفاطت ہمارادینی فریضہ ہے،لہنداکم ازکم قومی منصوبوں یعنی ڈیموں کی تعمیرپر کسی اختلاف سے نہ صرف خودبازرہیں بلکہ ان سے اختلاف کرنے والوں کوسمجھائیں ۔ڈیموں کی تعمیرنہ تولسانی مسئلہ ہے نہ ہی صوبائی کیونکہ ڈیم تعمیرہوں گے توپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اورپانی جمع ہوگاتونہ صرف پاکستان بھرکے عوام استعمال کریں گے بلکہ ہمارے جانوراور پالتو ڈھورڈنگربھی پئیں گے۔
اگراس حقیقت سے آگہی ہوجائے اورہمیں پانی کی اہمیت اورقدروقیمت کااحساس ہوجائے توہمارے ناخواندہ سادہ لوح عوام جوملک دشمنوں اور بھارتی جاسوسوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں ،وہ بھی ان کی زبان بندکرنے لگیں گے۔سادہ لوح اورناخواندہ عوام یادرکھیں گے کہ بھارتی جاسوس اورملک دشمنوں کی ایک شناخت ہے کہ وہ ہراس منصوبے کی مخالفت کریں گے جوتعمیروطن کیلئے ہوگاجس سے پاکستانی عوام،اللہ کے نام لیوااور رسول اکرمۖ کاکلمہ پڑھنے والوں کی زندگی کی سہولت مل سکتی ہویاان کامستقبل محفوط ہوسکتاہو۔تمام سندھی،بلوچ،پشتون اورپنجابی بھائی یاد رکھیں کہ ڈیموں کی تعمیرسے کوئی محب وطن فرد،گروہ یاجماعت اختلاف نہیں کرسکتی اورجو بھی اختلاف کرے گاوہ اصلاًغدارِوطن ہی ہوگا۔یہ بات ظاہرہوگئی ہے کہ اگرہم نے ڈیم تعمیرنہ کئےتو2025 ءتک پاکستان میں خشک سالی شروع ہوجائے گی۔
ہم نے صرف خشک سالی کانام سناہے،اس کی تباہی وبربادی نہیں دیکھی۔جب زمین بنجرہوجاتی ہے ،ملک قحط کاشکارہوجاتاہے،کھیت کھلیان سوکھ جاتے ہیں، زمین گندم ،چاول اوردیگرغذائی اجناس اگانے سے انکارکردیتی ہے،ملک میں روٹی اوردیگرکھانے کی چیزیں ناپیدہوجاتی ہیں،پینے کیلئے پانی تک میسر نہیں ہوتا،ذراغورکریں ہم موسم گرمامیں تین تین بارغسل لیتے ہیں اوراگرہمیں کئی کئی ماہ بعدغسل لیناپڑے اوراتناپانی بھی نہ ہوکہ ہم اپنامنہ تک دھوسکیں بلکہ تھوڑے سے پانی میں کپڑاترکرکے اس سے چہرہ رگڑکرصاف کیاجائے توہماری کیفیت کیاہوگی؟ جب صومالیہ اور افریقاکی طرزپر بھوک کی حالت میں ہم زمینوں پرگھاس پھونس تلاش کرتے پھریں اورجانوروں کی طرح جہاں سے جوبھی کھانے کوملے اسی کوکھا کرآتش ِشکم بجھانے کی ناکام کوشش کریں ،توکیاان حالات میں ہم زندگی گزارناچاہتے ہیں؟
اگرڈیموں کی تعمیرکی مخالفت جاری رہی توانہی حالات سے دوچارہوناپڑے گا(خدانخواستہ)اوریہ چندمٹھے بھربھارتی ایجنٹ قوم پرستوں کی آڑمیں جس طرح ڈیموں کی مخالفت کر رہے ہیں ،اس کاصاف مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں کوئی ڈیم بنناہی نہیں چاہئے اوربنانے کی کوشش کی گئی تو قوم پرستی کے نام پرمخالفت شروع ہوجائے گی لیکن قوم پرستی آخرہے کیا ؟ کیاتمام پاکستانی ایک متحدقوم نہیں؟قوم پرستی کی لعنت کوتوہم کئی بارپہلے ہی مستردکرچکے ہیں لیکن یہ چندمٹھی بھر عناصر جوپاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ایجنڈے پراس کے وظائف پرپلنے والے اپنے مفادات کی خاطر علاقائی سیاست کاجھنڈااٹھائے شورمچاناشروع کردیتے ہیں ۔قوم پرستی کے سب سے بڑے دعویدارجی ایم سیدتھے جن کی پارٹی کو کبھی بھی کسی بھی انتخابات میںقوم کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی۔جی ایم سیدنے اپنے افکاراورنظریات میں پاکستان دشمنی کاظہارکیاتوانہوں نے اپنی ناکامیوں کا انتقام لینے کیلئے ایک کتاب بعنوان”اب پاکستان ٹوٹ جاناچاہئے”بھی لکھ دی تھی۔ اب جی ایم سیدکابیٹاجلال محمودشاہ سندھ کے قوم پرستوں کی نمائندگی کررہاہے۔ سندھ ایکشن کمیٹی کے کنوینیراورسندھ یونائیٹڈپارٹی کے سربراہ جلال محمودشاہ کافرمان ہے کہ:دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم سمیت کوئی بھی ڈیم بناناسندھ کے خلاف سازش ہے۔ڈیم بنانے کے قومی اخوت کے عزائم رکھنے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی کیاحب الوطنی قراردی جاسکتی ہے؟؟؟
پچھلے دوماہ کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی ذاتی کوششوں سے ڈیم فنڈزمیں دوارب روپے سے کچھ زائدجمع ہوئے ہیں لیکن یہ رقم فی الحال اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے کیونکہ اس منصوبے پرآنے والی لاگت کاتخمینہ1400ارب ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم ساڑھے چارہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ یہاں لوگوں میں اس منصوبے کے بارے میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔یہ ڈیم گلگت بلتستان کے ضلع دیامراورضلع کوہستان میں بنے گا جہاں دریائے سندھ کشمیر کے راستے گلگت بلتستان میں داخل ہوتاہے۔ڈیم کی جگہ چلاس شہر سے 40کلومیٹرکے فاصلے پر ہے،پچھلی تین دہائیوں سے یہ منصوبہ التواکاشکاررہااس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہاں کے مقامی لوگ اپنی زمینیں اورگھرچھوڑنے پرآمادہ نہیں تھے۔پچھلے دس سال میں اس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے اوراس منصوبے پرتعمیراتی کام اگلے سال سے بھرپوراندازمیں شروع ہوسکتاہے۔
دیامربھاشاڈیم منصوبے کا سنگ بنیاد 2006 میں جنرل مشرف نے رکھا لیکن کوئی خاص کام نہ ہوسکا، دوسراسنگ بنیاد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے2011میں رکھا اس دور میں ڈیم کیلئے مقامی لوگوں سے زمین خریدنے کاسلسلہ شروع ہوا،اس کام میں مبینہ طورپربڑے گھپلے ہوئے۔ مقامی انتظامیہ پربھاری رقوم خوردبردکرنے کے الزام لگے،بعدمیں نوازشریف دورمیں شکایات کے ازالے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے۔آج ڈیم کی تعمیر کیلئے زمین حاصل کرنے کا کام تقریباً مکمل ہے۔مقامی لوگوں کو معاوضے کی مد میں55ارب روپے دیئے جاچکے ہیں۔بھاشاڈیم کوبنانے کیلئے 12ارب ڈالر چاہئیں۔ اس ڈیم کی تعمیر نہ صرف پانی وبجلی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ یہ تربیلا اوربعد میں بننے والے دیگرڈیمزکوبھی سہولت فراہم کرے گا۔دیامربھاشاڈیم کے حوالے سے چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل(ر)مزمل حسین نے کہا کہ چیف جسٹس اوروزیر اعظم فنڈ سے500 ارب روپے مل جائیں تو ڈیم کی تعمیر بہت آسا ن ہوجائے گی اوربھاشاڈیم نوسال میں تعمیرہوجائے گا۔
Load/Hide Comments