افغانستان کو حلوے سے بھری ہوئی پلیٹ سمجھنے والے ممالک کی کمی کبھی نہیں رہی۔برطانوی سامراج نے اِسے ترنوالہ سمجھتے ہوئے ڈکارنے کی کوشش کی مگرناکام رہا۔ سابق سوویت یونین کا انجام ِ بدہمارے سامنے ہے۔ اوراب امریکااچھی خاصی الجھن میں پھنساہواہے۔امریکانے افغانستان سے بوریابسترباندھنے کی تیاری کرلی ہے۔واحدسپرپاورہے توایسے ہی تونہیں نکل سکتاکیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خاصی بھداُڑے گی اور رسوائی الگ،ایسے میں معاملات مرحلہ وارنمٹائے جانے کی کوششوں میں سردھڑکی بازی لگارہاہے۔امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کوافغان سر زمین سے مکمل طور پر نکلنے کی تیاری کرتا ہوا پاکر جن ممالک کی رال ٹپک رہی ہے، اُن میں بھارت بھی شامل ہے، بلکہ سرِفہرست ہے اورآج سے پانچ سال قبل میں نے اپنے کئی آرٹیکلزاورکالمزمیں آگاہ کیاتھاکہ بھارتی بنیاء بھی علاقہ کاتھانیدار بننے کے شوق میں اپنے مربی امریکاجیسے صیادکے جال میں بخوشی اپنا ٹھکانہ بنائے گاکہ امریکاکی تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ اس نے اپنے مفادات کیلئے دوستوں کی قربانی دینے سے لمحہ بھردریغ نہیں کیااوربھارت بھی بالآخراپنے ہاتھوں اوردانتوں سے ویساہی تباہ کن گڑھاکھودے گااورجس میں اس سے قبل برطانیہ،سوویت یونین اورامریکادفن ہوئے اوراغلباً غزوہ ہندکاآغازبھی یہی سے ہوگا۔
بھارت،امریکااوردیگر ممالک ایک زمانے سے پاکستان پرالزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ افغانستان میں زیادہ سے زیادہ (Stratgic Depth) ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘کیلئےناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان چونکہ ہمسائے ہیں اوردونوں کے درمیان سرحد بھی خاصی طویل ہے اس لیے بھارت یاکسی اورکے ایسے الزام کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ دونوں ممالک مذہب، زبان ،ثقافت اورنسل کے اعتبارسے غیرمعمولی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے تک دونوں ممالک کے درمیان آمد ورفت ویزاکی محتاج بھی نہیں رہی۔ان تمام حقائق کویکسرنظراندازکرکے صرف یہ راگ الاپاجاتارہاہے کہ پاکستان نے افغانستان کے حالات خراب کرنے میں کلیدی کردارادا کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں میل دورامریکاکواس حماقت کے ارتکاب سے پہلے خوداس کے کئی دفاعی وسیاسی تجزیہ نگاروں نے سمجھایاتھااورتاریخ سے سبق حاصل کرنے کامشورہ بھی دیاتھا لیکن “ورلڈآرڈر”کے خالق تکبراورنخوت میں مبتلا اسے چندگھنٹوں کاآپریشن قراردیتے ہوئے اپنے اس ناجائزعمل کودنیاکومکمل فتح کرنے کادروازہ قراردے رہے تھے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امریکااپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ اپنے خوفناک مظالم ڈھانے کے باوجودآج مذاکرات کی میزپر بیٹھاانہی طالبان کے سامنے آسان انخلاءکے راستے ڈھونڈرہاہے۔یہ وہی امریکاہے جس نے عرب بہارکے نام پرکئی مسلم ریاستوں کوتاراج کردیااورلاکھوں مسلمانوں کوتہہ تیغ کرنے کے بعداب بھی وہاں دندنارہاہے۔عراق جوخطے میں سب سے بڑی فوج رکھنے والااورتیل جیسے بھرپورقیمتی قدرتی وسائل اوردنیاکی سب سے پرانی تہذیب وتمدن کاامین ملک تھا،اس پرجارحیت کیلئے ایک غلط الزام لگاکراسے تباہ وبربادکرڈالااورچندماہ بعدخودامریکی سابقہ جنرل کولن پاؤل اقوام متحدہ میں اپنی غلطی کوتسلیم کررہاتھااورامریکاکا سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کاوزیراعظم ٹونی بلیئر اپنے اس جرم پردنیاکے سامنے اپنی اس غلطی پرندامت اورمعافی کاخواستگارنظر آرہاتھامگردنیا بھرمیں انسانی حقوق کی علمبرداری کانعرہ لگانے والے ان ممالک نے افغانستان میں توہلاکواور چنگیزخان کوبھی شرمندہ کردیااورتورابورامیں منی ایٹم بم سے لیکردنیاکے سب سے بڑے روایتی بم کواستعمال کرنے کے بعدشکست کی رسوائی کابدنماداغ تاریخ میں رقم کرچکے ہیں۔
اب ایران اوربھارت مل کرافغانستان میں غیرمعمولی وقعت پانے کی بھرپورکوشش اورتیاری کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں پاکستان کیلئےمشکل حالات دیکھ کر بھارت نے افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی بھی بڑھائی اورافغان معاشرت ومعیشت کاحصہ بننے کی اپنی سی کوشش شروع کی۔مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کی روشنی میں کہاجاسکتاہے کہ بھارت نے اب تک افغانستان میں تین ارب ڈالرسے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ افغان معاشرے میں غیرمعمولی اثرونفوذکے ذریعے بھارت اوربھارتیوں کیلئےبھرپور نرم گوشہ پیداکیا جائے۔تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کیلئےبھارتی قیادت نے افغانستان کے طول و عرض میں عوام کورام کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔خاطرخواہ یامطلوب نتائج آسانی سے مل سکیں گے یانہیں یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا۔مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن مکمل طورپر اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں بھارت یا کسی اور ملک کیلئےاپنے مفادات کو پروان چڑھانے کی کتنی گنجائش رہتی ہے یہ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔
اب بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھرپور انداز سے قدم جمانے کی کوشش شروع کی ہے۔ اس حوالے سے بھارت، افغانستان اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان 11ستمبر کو کابل میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات میں بھارت کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ وجے گوکھلے نے کی۔ بھارت چونکہ افغانستان میں وسیع تر کردار چاہتا ہے اس لیے اس نے اقدامات بھی غیر معمولی نوعیت کے کیے ہیں۔ معروف اخبارہندوستان ٹائمز کے ایک اداریے کے مطابق بھارت نے افغانستان کو ہتھیاروں کی فروخت پرعائدازخودپابندی بھی ختم کردی ہے اوراب اسے گن شپ ہیلی کاپٹرفراہم کرنے کی تیاری بھی کررہاہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کے مکمل انخلا کے بعدکے افغانستان میں پاکستان زیادہ آسانی سے قدم نہ جماسکے۔ہندوستان ٹائمز کے مطابق افغانستان میں اسٹریٹجی کے اعتبارسے پاکستان کوبالادستی کے حصول سے روکنااس وقت بھارت کی اولین ترجیح ہے۔اس حوالے سے ایران کوبھی ساتھ ملالیاگیاہے۔ایران کی چاہ بہاربندرگاہ بھارتی زری تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ اس بندر گاہ کے ایک حصے کا کنٹرول بہت جلد بھارت کو دیا جانے والاہے۔اس کے بعدبھارت کیلئےافغانستان تک رسائی کی خاطرپاکستان کوبائی پاس کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔
سفارتی حلقوں میں کہاجارہا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے جو مذاکرات کیے ہیں، ان کے بعد سیاست و سلامتی سے متعلق امور پر بھارت افغان آپریشنل گروپ کی میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کے بعد ایران، افغانستان اور بھارت کے اعلیٰ حکام مل بیٹھے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ و وزیر دفاع سے مذاکرات میں بھارت نے افغانستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات ضرور کی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے ہیں مگر اس حوالے سے متعدد الجھنوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کو کس طور منایا جائے۔ پاکستان سے ملحق افغان صوبوں میں غیر معمولی طور پر متحرک سیاسی جماعتیں اور عسکری گروہ بھی اپنی سرزمین پر بھارت کے وجود کوبرداشت کرنے کیلئےکچھ زیادہ رضامندنہیں۔ان تمام حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی بنیاءاپنے سامراجی دوستوں کی مددسے نئی سازشوں میں مصروف ہے ۔
ضربِ عضب اورردّ الفسادآپریشنزکے نتیجے میں پاکستان کی افواج نے دیدہ دلیری اورجانوں کی قربانیوں کے بعداپنے تمام ملحقہ افغان سرحدی علاقوں سے تمام دہشتگردوں کاصفایاکرنے کے بعد اب پاک افغان سرحدپرباڑلگانے کاعمل تیزی سے جاری ہے جس سے دو طرفہ بارڈرسیکورٹی کے نظام کوفول پروف بنایاجاسکے تاکہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف نہ استعمال کی جا سکے۔اس سارےعمل کوسبوتاژکرنے کیلئے سرحدپاربھارت اپنی ناپاک سازشوں میں مصروف عمل ہے اور افغان سرحدسے چندمیل دورافغان انٹیلی جنس کے تعاون سے حال ہی میں ایک مرتبہ پھرپاکستان کواشتعال دلانے کیلئے اس نے پشاور پولیس سے منسلک ایس پی محمدطاہر داوڑکو 26 اکتوبر کو اسلام آباد سے مبینہ طورپراغواکرلیاگیاجس کے بعد13نومبرکو افغانستان کے صوبہ ننگرہارسے ان کی لاش ملی۔ اس موقعے پر افغان حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ طاہر داوڑ کو قتل کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔محمد طاہر داوڑ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایک نڈر اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر انہیں محکمہ پولیس کے سب سے بڑے اعزازقائداعظم پولیس میڈل سے بھی نوازاگیا تھا۔مقتول طاہرداوڑایک پیشہ ور سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی اور سماجی حلقوں میں بھی کافی مقبول سمجھے جاتے تھے۔
دراصل بھارت اپنی سازشوں میں اس لئے مصروف عمل ہے تاکہ ملحقہ پاک افغان سرحدوں پرباڑ لگانے کے عمل کوختم کرایاجائے تاکہ اپنی مذموم سازشوں پرعمل کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے عمل کوجاری رکھاجاسکے اوراس کی آڑمیں افغانستان میں جہاں امن کے عمل کوسبوتاژ کرکے اپنے آقاامریکاکی عبرتناک شکست سے بچانے کیلئے انخلاء کیلئے آسان شرائط منوائی جا سکیں وہاں مستقبل کے افغانستان میں اپنی موجودگی کے جوازپیداکیاجاسکےلیکن افغانستان کے معاملے میں بھارت جوبے تابی دکھارہا ہے،حالات وواقعات پرنظررکھنے والوں کوحیرت ہورہی ہے۔ ایسی ہی کیفیت کیلئےغالبؔ نے کہا ہے ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ نگر ہونے تک
افغانستان میں قیادت کی سطح پر تو ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے مگر عوام کبھی بھی بھارت کو قبول کرنے پرآمادہ نہیں ہوسکتے۔ نئی دہلی کے بزرجمہریہ نکتہ سمجھنے کیلئےتیارہی نہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اور یورپ کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں اُن کیلئےکوئی رکاوٹ رہے گی ہی نہیں۔ ع………. اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
مہا راج اِتنی سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پارہے کہ ہرچمکیلی چیزسونانہیں ہوتی۔افغانستان سراب ہےگرم ریت ہے جودورسے سونے جیسی دکھائی دے رہی ہے۔اب کون سمجھائے کہ افغانستان کی دلدل میں جودھنساوہ پھرنکل نہیں پایا۔ امریکااوریورپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا اور اب وہ بوریا بستر لپیٹ کر اچھی خاصی ذلت کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ معاملہ محض بڑی طاقتوں کانہیں بلکہ سپر پاورزکارہاہے۔ سوویت یونین بھی سپرپاورتھی اورامریکابھی سپر پاور ہے، مگردونوں کوافغانستان سے بے نیل ومرام لوٹناپڑاہے۔ایسے میں بزدل بھارتی بنیاءکیاکرسکتا ہے اس کا اندازہ کوئی بھی بہت آسانی سے لگاسکتاہے جبکہ بھارت کوخوداپنے ملک میں دودرجن سے زائدعلیحدگی پسندتحریکوں کاسامناہے۔
افغانستان میں اپنے اثرونفوذکادائرہ وسیع کرنے کی دُھن میں بھارت اپنادامن کانٹوں میں پھنسانے کی طرف رواں ہے۔ایران اُس کے ساتھ ہے۔دونوں نے مل کرافغانستان کومیٹھے راگ سُنائے ہیں۔ یہ سب کچھ خطے میں کشیدگی کوہوادینے کاباعث بھی بن سکتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کابڑھتاہوااثرونفوذپاک بھارت تعلقات کشیدگی کاگراف بلندکرے گااوربرف پگھلانے کی تمام کوششیں بے اثرسی ہوکررہ جائیں گی۔بھارت کوبھی یہ بات سمجھناہوگی کہ افغانستان جیسے پاکستانی ہمسائے کے دامن میں سماکروہ سفارتی سطح پرمحض خرابیوں کی راہ ہموار کرے گا۔ اگر یہی عمل چین نے نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ شروع کردیاتوکیاہوگا؟اورپاکستان بھی توبھارت کے ہمسایوں میں دلچسپی کا گراف بلند کرسکتا ہے۔ایسےمعاملات میں پاکستان کاساتھ دینے والی بڑی طاقتوں کی بھی کمی نہیں۔ یہ سب کچھ دونوں ممالک کوایک بار پھرعملی تصادم یعنی جنگ کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔
پاکستان کوایک طرف ہٹاکر،اس کے خلاف فضاتیارکرکے بھارت نے افغانستان میں مستقل قیام کا جوخواب دیکھاہےوہ یقیناً اُسے بھی امریکااورسوویت یونین کی طرح نہ صرف نگل لے گابلکہ اس کاذکرصرف تاریخ کے ماضی کے جھروکوں میں پڑھنے کوملاکرے گا۔مشورے یاتجویز کے طور پرنئی دہلی کے پالیسی سازوں سےصرف اتنا کہا جاسکتاہے ؎
انیسؔ! دم کا بھروسہ نہیں، ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
Load/Hide Comments