India and Islamophobia

بھارت اوراسلام فوبیا

:Share

انڈیاکی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنمانوپورشرماکے پیغمبراسلام سے متعلق متنازعہ بیان کامعاملہ بین الاقوامی سطح پربھی اٹھ رہاہے اوراسلامی ممالک کے بڑھتے ہوئے غصے کودیکھ کرانڈیااسلامی دنیامیں اپنے دوست ممالک کووضاحتیں دینے پر مجبورہوگیاہے۔اتوارکواس معاملے پراپنی ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے قطرکی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیاکے سفیردیپک متل کوطلب کرکے باقاعدہ سرکاری نوٹ حوالے کیاجس میں انڈیاسے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےمعافی مانگنے کامطالبہ کیاہے جبکہ کویت اورسعودی عرب نے بھی اس معاملے پرشدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انڈین سفیر کو طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔انڈیا کی حکمراں جماعت(بی جے پی)کے دورہنماؤں نوپورشرمااور نوین جندل جو جو پارٹی کے میڈیاونگ کے سربراہ بھی تھے کی طرف سے پیغمبراسلام ﷺ سے متعلق متنازع اوربیہودی بیانات کے بعدتمام عالم اسلام میں سخت غصہ پایاجارہاہے۔بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات ملک میں گذشتہ چندبرسوں سے موجودگہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔

دراصل مغربی دنیاسے شروع ہونے والی سلام فوبیاکی اس لہرنےپوری دنیا میں اسلام دشمنی کے متعلق جوزہریلاپروپیگنڈہ کیاہے، اسی کایہ بھی شاخسانہ ہے اورہم سب جانتے ہیں کہ جب سے مودی جنتاآئی ہے وہاں مسلمانوں کیلئےعرصۂ حیات تنگ کیاجارہاہے۔ گاہے بگاہے ان پربلاوجہ الزامات لگاکران پربیجا تشدد کیاجاتاہے اورکئی مواقع پرتومسلمانوں کوجان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ بے قصورنوجوانوں سے جیلیں بھری جارہی ہیں۔یہ سب کچھ اسلاموفوبیاکے زیر اثرہورہاہے۔اسلاموفوبیایہ دولفظ اسلام اورفوبیاکا مرکب ہے جس کامعنی اسلام اورمسلمانوں سے خواہ مخواہ خوفزدہ ہوناہے جولوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے۔یہ لفظ اسلام کے ساتھ مل کرپچھلی کئی دہائیوں سے استعمال ہورہاہے البتہ اس کاعام استعمال 11/9کے بعدسے کثرت سے ہونے لگاہے۔لیکن اسلامی تہذیب سے ڈرنا،مسلم گروہوں سے ہراساں ہونا،اسلام کے خلاف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی ذہن سازی کرنا،ان کے قلوب واذہان میں ایساڈرپیداکرناجولوگوں کومسلمانوں سے نفرت وعداوت پرابھارے،مسلمانوں پغلط الزامات لگاکراشتعال پیداکرنا،اس پروپیگنڈہ کواسلام فوبیا کہا جاتاہے۔

اسلام کے روزاول سے چراغ مصطفوی سے شراربولہبی کی کشمکش جاری رہی ہے۔چاہے وہ دارالندوہ کی میٹنگ ہو،صلیبی جنگیں ہوں،برمامیں مسلمانوں کی نسل کشی اوربھارت میں ماب لنچنگ،تمام کی بنیادی وجہ مسلمانوں کااللہ کی وحدانیت پراقرارہے۔جب تک مسلمان اسلام پرقائم رہیں گے ان سے کسی نہ کسی صورت میں دنیابرسرِپیکاررہے گی۔مسلمانوں سے شدیددرجہ کی دشمنی کرتی رہے گی۔الّایہ کہ یہ ان کی تہذیب وثقافت میں ضم ہوجائیں۔اس طرزعمل کو چاہے کوئی بھی نام دے دیاجائے۔اسے اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کاردِّعمل کہاجائے،یامسلمانوں کی تاریخی غلطیوں کانتیجہ سمجھاجائے یااسلاموفوبیاکا مظہر تصورکرلیاجائے۔بہرکیف مسلمانوں کونفسیاتی طورپرمغلوب کرنے اوران کی تعدادکوکم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

ہندوستان شروع سے ہی ذات پات کے طبقاتی نظام سے جکڑاہواتھا۔جس میں اعلی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کوغلام سمجھتے تھے۔ان پرظلم وستم کرنااوربغض وعداوت عام بات تھی۔وہ چاہ کربھی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔عبادت یامذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کیلئےممنوع تھا۔ویدوں کے مطابق انسان پورے ایک جسم کی مانندہے۔اس کاسربرہمن ہے،اس کے بازوکھشتری ہیں۔اس کے ران ویشواورپاؤں شودرہیں۔اسی ترتیب کے لحاظ سے ان کا معاشرے میں مقام ومرتبہ تھااس لیے ہندوستان کے لوگ قدیم دورسے آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔اعلیٰ ذات والے اپنے سے کمترلوگوں سے اورنچلی ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں پسندنہیں کرتے تھے۔

جب ہندوستان میں اسلام آیااوراس کے نظام عدل میں سب کیلئےیکساں مقام ومرتبہ دیکھ کر ہندوستانیوں کویہ انوکھی چیزمعلوم ہوئی۔ جس کے بعدبہت سارے لوگ مشرف بہ اسلام ہوکراس کی ٹھنڈی چھاؤں میں آکرسکون محسوس کرنے لگے۔ایک بڑی تعداد کے تبدیلئ مذہب سے”مہابھارتی”آگ بگولہ ہوگئے اوران نچلی ذات سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی اسی نوعیت کی عداوت رکھنے لگے۔یہیں سے ہندوستان میں اسلاموفوبیاکی شروعات ہوتی ہے۔یعنی جب سے مسلمانوں نےہندوستان میں قدم رکھاہے اسی وقت سے ان سے نفرت وعداوت کی فضاءبن گئی تھی۔

میں ان لوگوں سے ہرگزمتفق نہیں ہوں جواسلاموفوبیا کاسرا2014سے جوڑتے ہیں۔ایسے لوگ سیاسی جانبداری کے شکارہیں۔ انڈیاکی اونچی ذاتوں کی فطرت میں اپنے علاوہ دوسروں سے نفرت کرناتھا۔گاندھی جیساشخص بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکاالبتہ 1915سے بتدریج اسلاموفوبیا بڑھا ہے۔ 1915 میں ہندو سبھا کاقیام،1923میں ساورکرکی ہندوتونامی کتاب کی اشاعت،1925میں آرایس ایس کاگٹھن،1939 میں گولوالکر کی تصنیف”وئی آر اور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ”(ہم یا ہماری قومیت کی تعریف) سے مسلم دشمنی ایک نئے رنگ وروپ میں شروع ہوئی۔

جس میں قومیت اورحب الوطنی کاپیمانہ صرف ہندومت سے وابستگی ہے اورہندونہ ہوناملک سے غداری کی علامت ہے۔گولوالکر لکھتاہے”صرف وہی قوم پرست محب وطن ہیں،جوہندونسل اورقوم سے ہیں۔ باقی سب یاتوغداراورقومی مقصدکے دشمن ہیں یاپھر خیراتی نظریہ رکھنے والے احمق ہیں۔اس کے مطابق ہندوستان میں ہندوؤں کے علاوہ اگرکوئی رہناچاہتاہے تووہ صرف ہندوؤں کے رحم وکرم پررہ سکتاہے جب تک یہ اسےحقوق ِشہریت سے محروم رکھ کرغلام کی طرح رکھناچاہیں یاپھردوسری صورت یہ کہ وہ اپنی تہذیب وثقافت کوہندوؤں کی تہذیب و ثقافت میں ضم کرلے۔ گولوالکروہ شخص ہے جس سےمودی بڑا متاثر ہے۔مودی نےگجراتی زبان میں ایک کتاب “جیُوتی پنج” نامی ان سولہ اشخاص کے بارےلکھی جن سے وہ متاثرتھااوراس میں گولوالکرکی سوانح عمری کوسب سے زیادہ تفصیل سےذکرکیاہے۔جوشخص ایسے آدمی سے متاثرہواس کے اسلاموفوبیا کے معیار کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

مودی یاپورے ہندوستان کی ہندوآبادی یوں ہی اچانک”ریڈیکلائز”(متعصب)نہیں ہوگئی بلکہ مختلف شعبوں میں سالوں سے نفرت کی اس کھیتی میں تعصب کابیج بویاگیاجواب کانٹوں سے بھری فصل بن چکی ہے۔زندگی کے ہرشعبے میں مختلف النوع لوگوں کی الگ الگ اندازمیں مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی گئی ہے۔اگرآپ صرف آرایس ایس کی قائم کردہ 30 کے قریب تنظیموں کی لسٹ اوران میں دی جا رہی تعلیم و تربیت پرنظرڈالیں گے تودنگ رہ جائیں گے۔ بی جے پی کے لیڈروں کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کی اہانت کے بارے میں بیانات اسی تعصب کانتیجہ ہیں۔اس کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ فوری طور پر اوآئی سی کااجلاس بلاکربھارت کی اس متعصب حکومت پرکڑی معاشی پابندیاں لگائی جائیں اورآئندہ کیلئے ایسا بے ہودہ فعل اور بھارت میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی حفاظت کیلئے ٹھوس ضمانتیں طلب کی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں