یوں تومرکزمیں پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعتیں ہیں لیکن صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی اورصوبہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں اقتدارمیں بھی ہیں اوردونوں جماعتوں میں ایک دوسرے کے روّیے اور طرزحکمرانی پرسخت اختلاف بھی ہے اورعمران خان نے اپنی تقریروں میں جس طرح آصف زرداری اور دوسرے لیڈروں کے خلاف اہانت آمیززبان استعمال کی ہے ،اس کی کم ازکم کوئی نظیربھی نہیں ملتی۔دونوں کوایک دوسرے کے خلاف شدید ترین تحفظات بھی ہیں لیکن وہاں نئی تنظیم سازی کے مرحلے سے گزرنے کی وجہ سے داخلی انتشار،خلفشاراوراختلاف کابھی شدیدشکارہیں۔ہرکوئی اہم عہدہ چاہتاہے اورتنظیم پراپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے علی الاعلان تبرہ بازی سے بھی گریزنہیں کررہا،یہاں تک کہ شاہ محمودقریشی نے تواپنی ہی جماعت کے دوسرے رہنماؤں کے سرعام کپڑے تارتارکئے ہیں اس کے بعدعمران خان کوبنی گالہ میں ایک ایسے ڈرامے کوبھی بخوبی دیکھنے کاموقع ملاجب شاہ محمودقریشی نے اپنی طرف اشارہ کرکے سرورچوہدری کوانتہائی حقارت سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اسے پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔بعدازاں عمران خان کوفریقین کے درمیان نہ صرف منت سماجت سے کام لیناپڑابلکہ خودکوجماعت سے الگ ہونے کی دہمکی کاسہارالینا پڑا، تب جاکرسرورچوہدری نے اپنی برطانیہ روانگی کومؤخرکیا لیکن اب بھی اختلافات کی خلیج بدستورموجود ہے لیکن اس وقت پانامالیکس کی وجہ سے اندرکی خبروں کوباہرآنے سے روکا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات سے قبل پارٹی کے داخلی انتخابات کرانے کااعلان کیاتھااورعمران خان نے دعویٰ کیاتھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی میں اوپرسے نیچے کی سطح پر جمہوریت کوعملاًقائم کرنے کی مثال قائم کی جبکہ دیگرجماعتیں پی پی اور مسلم لیگ نوازجیسی جماعتیں آمرانہ طور پرچلائی جارہی ہیں مگرعملاًہوایہ کہ پارٹی میں تنظیم سازی کاعمل ہی آگے نہ بڑھ سکا ۔ عام انتخابات کے بعدانتہائی نامور،ایمانداراورصاف گو جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں انتخابی عمل شروع ہوا،جیسے تیسے تنظیم سازی توہوئی تومگرہرشہرمیں کئی گروہ ایک دوسرے کے سامنے آگئے اورمتوازی تنظیمیں قائم ہوگئیں ۔پارٹی کے الیکشن کمیشن نے بڑی تعدادمیں شکایات موصول ہونے پرباقاعدہ تحقیق کرنے کے بعداس رائے کا اظہار کیاکہ کئی بااثرامیدواروں نے پیسے کے ذریعے ووٹروں کوخریدااورکامیابی حاصل کی۔نیچے سے اعلیٰ سطح تک یہی شکایات رہیں اورداخلی کشاکش بڑھتی چلی گئی۔
سیاسی ماہرین کاخیال ہے کہ عمران خان داخلی خلفشارپرقابوپانے کیلئے ہی ”ہائے ہو،گوگواوردھرنے ”کی سیاست کرنے پر مجبور ہیں تاکہ کسی بیرونی ہدف کے خلاف احتجاج کے ذریعے کارکنوں کومتحدرکھاجاسکے۔طویل دھرنے کے دوران تحریک انصاف میں داخلی خلفشارکافی حدتک کم ہوگیاتھااورساری توجہ نوازشریف حکومت گرانے پرمرکوزتھی حالانکہ اس دوران جسٹس وجیہہ الدین پارٹی کے کئی مرکزی شخصیات کوپیسے سے ووٹ خریدنے کے الزام میں پارٹی سے خارج کرنے اورپارٹی کے نئے انتخابات کرانے کافیصلہ دے چکے تھے مگرجمہوریت کے چمپئن عمران خان نے اس اصولی فیصلے کوقبول کرنے کی بجائے غیر جمہوری اورآمرانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین اوردیگرکئی شخصیات کوپارٹی سے خارج کردیااورساتھ ہی یہ دعویٰ کیاکہ پارٹی میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے مگرعملاًانتخابی عمل کوٹالاجاتارہا۔
ایک دفعہ پھرنئے انتخابات کے ذریعے تنظیم سازی کااعلان کیاگیامگرخلفشاربڑھنے کی وجہ سے پارٹی رہنماء پریشان ہیں اور اوپر سے نیچے تک گروہ بندی سامنے آرہی ہے،اس لئے عمران خان ایک مرتبہ پھرانتخابات سے فرارکابہانہ ڈھونڈتے ہوئے چاہتے ہیں کہ مرکزی انتخابات نہ ہوں اوراوروہ اپنی پسندکے مطابق نامزدگیاں کردیں جن کے ذریعے سب کو خوش کردیا جائے لیکن انہی وجوہات کی بناء پرایک انتہائی وضع دارسابقہ بیوریوکریٹ تسنیم نورانی نے بھی عمران خان اوراس کے انتہائی دوقریبی ساتھیوں کے رویے سے تنگ آکر استعفیٰ دینے میں اپنی عافیت جانی۔ عمران خان اوردیگرسیاسی جماعتوں کی قیادت کو غیرمنتخب قراردیتے ہوئے جوتضحیک آمیززبان استعمال کرتے ہوئے تنقیدکرتے ہیں مگرخود تحریک انصاف میں آمرانہ مزاج اتنا حاوی ہے کہ عمران خان کویقین ہے کہ انتخابی عمل میں کوئی انہیں چیلنج نہیں کرے گااوروہی پارٹی کے قائدہوں گے مگروہ متکبرانہ مزاج کی وجہ سے یہ برداشت کرنے کیلئے تیارہی نہیں کہ ان پربھی انتخابی عمل میں شرکت کی پابندی لگائی جائے کیونکہ وہ مافوق الفطرت شخصیت ہیں اوران کی قیادت توہرصورت میں اٹل ہے۔
عمران خان کے اس مزاج کاعکس نیچے بھی مختلف سطح پرآرہاہے اوراسی سے گروہ بندی نے جنم لیاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کے پیروکاروں اوران کوپسندکرنے والوں کی ایک کثیر تعدادہرصوبے میں موجودہے مگران کوایک تنظیم میں پروناکارِمحال ہے کیونکہ ان میں ایسے آزادخیال کھلنڈرے نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادموجودہے جوکہ مراعات یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں،وہ ہلاگلاتوبہت کرسکتے ہیں مگر تنظیم میں شامل ہوکرضابطے کی پابندی نہیں کرسکتے۔حال ہی میں لاہورکے جلسے میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے بعد سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔عمران خان نہ صرف خودمراعات یافتہ بڑے دولت مندطبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان کارہن سہن بھی سرمایہ دار،جاگیردارطبقے کے لوگوں جیساہے اورمزاج اور لب ولہجہ کااکھڑپن ان سے بھی کہیں گنازیادہ ہے ۔جوزبان بولتے ہیں وہ کسی سیاستدان کی نہیں ،متکبرجاگیردارجیسی ہوتی ہے اوراس سے بہت سی ایسی خرابیاں پیداہوتی ہیں جوخودان کیلئے بھی مشکلات کا سبب بنتی ہیں۔
طویل دھرنے کی ناکامی اورجوڈیشنل کمیشن کے فیصلے سے مایوس عمران خان کسی پنجابی فلم کے ولن کی طرح بھڑکیں توبہت ماررہے ہیں لیکن ایک خوف میں بھی مبتلاہیں کہ ایسی کوئی ایک بڑی ناکامی ان کی سیاست کیلئے مہلک ثابت ہوگئی ہے ،اس لئے نوازشریف کی رہائش گاہ رائے ونڈکے گھیراؤ اوردھرنے کاباربارذکرکرنے کے باوجودانہوں نے اسلام آباد میں پارٹی کے یومِ تاسیس میں اس کاحتمی اعلان نہیں کیا،پھرانہیں یہ بھی احساس ہے کہ پانامالیکس سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں اپنے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرناچاہتی ہیں اوررعایات لیناچاہتی ہیں مگرکوئی بھی گھیراؤ اوردھرنے میں ساتھ دینے پرآمادہ نہیں۔جماعت اسلامی کے پی کے میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے مگراس اتحادمیں تحریک انصاف کے اندر سے گروہی مفادات کی وجہ سے دراڑیں پڑرہی ہیں اورامیرجماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق دوٹوک اندازمیں کہہ بھی چکے ہیں کہ کہ وہ گھیراؤجلاؤ کی سیاست پریقین نہیں رکھتے ، کرپشن فری پاکستان تحریک کیلئے جلسے جلوس ،مظاہرے ریلیاں اورسیمینار،سب کچھ جماعت اسلامی کرے گی مگریہ آئین اورقانون کے دائرے میں انتہائی پرامن ہوگا۔
اسلام آبادکے جلسے میں عمران خان نے اپنی تقریرمیں پانامالیکس کرپشن کے حوالے سے صرف نوازشریف اوران کے خاندان کوہدفِ تنقیدبنایا اورپیپلزپارٹی اورآصف زرداری کانام تک نہیں لیاجن کی کرپشن کے بارے میں خودموصوف جس زبان میں اس کاتذکرہ کرتے رہے ہیں،وہ ابھی عوام اورپارٹی کارکنوں کے ذہنوں سے محونہیں ہوا۔اب محض ان کوخوش رکھنے اوران کا تعاون حاصل کرنے کیلئے سندھ بھرمیں جلسے جلوس اور ریلیوں کاانعقادتوکیاگیالیکن اس سے قبل شاہ محمدوقریشی کو اس اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ کے پاس بھیجا جس کی کردارکشی اورکرپشن میں زمین آسمان کے قلابے ملایاکرتے تھے۔شاہ محمودقریشی نے عمران خان کی طرف سے پی پی کومکمل یقین دلایاکہ سندھ کے دورے میں آصف زرداری اور سندھ حکومت کی کرپشن کا کوئی ذکرنہیں کریں گے اوراصل ہدف پانامالیکس کے حوالے سے صرف نوازشریف ہی ہوں گے اورآصف زرداری جس کوملک کی سب سے بڑی بیماری کہہ کرمخاطب ہواکرتے تھے،ایک بھی لفظ ان کے بارے میں نہیں کہاگیاجبکہ پانامالیکس میں توپی پی کی بے نظیربھٹواوررحمان ملک کانام بھی لیاگیاہے۔
عمران خان اس پالیسی کے ساتھ سندھ کے عوام کی ہمدردیاں کیسے حاصل کریں گے؟یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ شہری ہی نہیں دیہی عوام کی بھاری اکثریت بھی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی کرپشن سے بری طرح تنگ ہے۔کاشتکاروں کی جانب سے وہ بڑی تعدادجس نے پی پی کوووٹ دیا،آج سراپااحتجاج ہے کہ حکومت دانستہ اومنی گروپ دیگرمخصوص کاروباری گروپوں اورسیاستدانوں کے مالی مفادات کیلئے انہیں بربادکرکے رکھ دیاگیاہے اورگزشتہ آٹھ سالوں سے ہرفصل پران کاخون چوساجارہاہے۔ہرترقیاتی پروجیکٹ میں لوٹ مارکی جارہی ہے جس کے نتیجے میں ناقص کام ہورہے ہیں۔زرعی معیشت بربادہوکررہ گئی ہے ۔سندھ میں کوئی سیاسی جماعت ،سماجی ،زرعی وکاروباری تنظیم سندھ حکومت اور پی پی کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے تیارنہیں اوراس وقت سب سراپااحتجاج ہیں۔ایسے میں جب عمران خان ،آصف زرداری اورپیپلزپارٹی کی کرپشن ، ظلم وجبرپرمہربہ لب ہیں تو اس کاتاثرعوامی سطح پریہی لیاجارہاہے کہ عمران خان کوآصف زرداری اورپی پی کی کرپشن ،لوٹ ماراوراس سے تباہی و بربادی سے کوئی پریشانی نہیں بلکہ ان کااصل ہدف صرف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی ہے،وہ ہرطرح کے حربے استعمال کرکے بھی ملے اوراس تک پہنچنے میں وہ صرف نوازشریف کواپنے لئے رکاوٹ سمجھتے ہیں،اس لئے باقی سب کی کرپشن پر سمجھوتہ کرنے میں انہیں کوئی عارنہیں ہے اور وزارتِ عظمیٰ کے حصول کیلئے اسی لئے انہوں نے اپنے دائیں طرف قبضہ مافیااوردائیں طرف شوگرملزمافیاکے گارڈکھڑے کررکھے ہیں جن کے بارے میں آج کل ہرخاص وعام کی زبان پریہ صداہے کہ عمران خان اب اپنی ”اے ٹی ایم”کے بغیرکوئی فیصلہ کرنے سے قاصرہیں۔
اب وقت آگیاہے کہ عمران خان پاکستانی عوام کے ان سوالوں کاجواب بھی دیں کہ۷۵۰کنال پرمحیط بنی گالہ کے محل کی تعمیر،تزئین وآرائش، ملحقہ جنگلات کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا اوران کاایساکون ساکاروبارہے جوان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ اور تعیشات کامتحمل ہے جبکہ وہ سالانہ صرف ایک لاکھ روپے ٹیکس دے رہے ہیں۔ہروقت بنی گالہ میں قیمتی گاڑیوں کے ایک اسکواڈ کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر بھی پارک رہتاہے اوراندرونِ ملک کے علاوہ بھارت اورسعودی عرب کے سفرکیلئے ذاتی جہازکی سہولت مہیاکرنے والے کے آخرکیاذاتی مفادات ہیں؟ پانامالیکس کے انکشافات کے بعدعمران خان کانوازشریف کو اخلاقی جوازکے تحت مستعفی ہونے کاکیاجوازباقی رہ جاتاہے؟دراصل اپنے مفادپرستوں کے کہنے پرعمران خان کی سیاسی خودکشی کا جسٹس وجیہہ الدین جیسے بااصول سے کنارہ کشی سے بڑاگہراتعلق ہے ۔
Load/Hide Comments