خروشچیف جب سوویت یونین کا صدر بنا تو اس نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں اسٹالن اوراس کی پالیسیوں پر تنقید شروع کر دی۔اس کا کہنا تھاکہ اسٹالن میں برداشت نہیں تھی، وہ ایک آمرتھا،ظالم تھا،اختلاف کرنےوالےساتھیوں تک کودشمن سمجھ لیتاتھا۔اس کے خوشحالی اورمعاشی استحکام کےدعوے بھی جھوٹےتھے اورسوویت یونین کو جتنا نقصان اسٹالن نے پہنچایا، اتنا ساراسرمایہ داردنیامل کرنہیں پہنچاسکی۔خروشچیف جب ان خیالات کا اظہار کر رہا تھا تو معزز ارکان میں سے کسی نے چٹ پرکچھ لکھا اوران تک پہنچا دیا۔خروشچیف نے ایک لمحے کیلئے رک کرچٹ پڑھی ،لکھاتھا” آپ کو اسٹالن کے قریب رہنے کا موقع ملا، جب وہ سوویت یونین کو نقصان پہنچا رہا تھا توآپ نے اس کو روکا کیوں نہیں؟” خروشچیف کا چہرہ سرخ ہو گیا، اس نے وہ چٹ ایوان کی طرف لہرائی اور سخت غصے میں چیخا “یہ کس گستاخ نےلکھا؟” ایوان میں پن ڈراپ سائی لینس ہو گیا۔ تمام ارکان خوف سےخاموش اور سرجھکائےبیٹھے رہے، خروشچیف دوبارہ چلایا ” میں پوچھ رہا ہوں یہ کس گستاخ نےلکھاہے؟” ایوان میں خاموشی رہی تو خروشچیف نے قہقہہ لگایا، چٹ پھاڑی اور اس کےپرزے ہوا میں اچھال کر بولا “جب اسٹالن سوویت یونین کو نقصان پہنچا رہاتھا تو ہم بھی اس وقت ایسی ہی چٹیں لکھا کرتےتھے اور خاموش رہتےتھے۔”
یہ اقتدارکی ٹریجڈی ہے، شاہوں کی قربت میں بڑے سے بڑاعالم ،بڑے سے بڑا فلاسفر، بڑے سے بڑا دانشورجب حلقہ بگوش شاہ ہو جاتا ہے تو پھروہ اختلاف کی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔ بادشاہوں کی صحبت میں تو کلمہ حق کہنے کیلئے بھی شاہ کی اجازت درکار ہوتی ہے، لہنداجب تک اقتدارکا سورج سوا نیزے پر رہتا ہے، بڑے سے بڑاحق گوبھی فقط چٹیں لکھنے اور جلالِ شاہی کے وقت سر جھکا کر چپ چاپ بیٹھے رہنے پر اکتفا کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے اِس وقت سر اٹھانے کی جرأت کی تو جان سے جاؤں گا، اگرجان بچ گئی تو قربتِ شاہی سے ضرورہاتھ دھونا پڑیں گے اورظاہر ہے ایوانِ اقتدارسے باہر کھڑے سیاستدانوں اور دریا کے خشک کناروں پر پڑی مچھلیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
قربتِ شاہی میں زندگی بسرکرنے والے لوگ اس ماحول اوراس ماحول کے پروٹوکول سے اتنے آشنا ہوتے ہیں کہ اگر کبھی بادشاہ سلامت انہیں خودبھی اختلاف کا حق عنائت کر دیں توبھی وہ چٹ لکھنے تک ہی محدود رہتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اختلاف کا یہ حق کسی وقت بھی گستاخی میں تبدیل ہوسکتا ہے اوراقتدار کے ایوانوں میں گستاخی کی سزا موت ہوتی ہے،جسمانی یا سیاسی موت!اللہ کا شکر ہے کہ پچھلے چار عشروں سے زائد میں یہ گستاخی کا عمل برملا اپنے نام اور تصویر کے ساتھ کررہا ہوں اور اخبارات بھی دلیری کے ساتھ من و عن میرے اس گستاخ عمل کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ مجھے ان مشکلات کا سامنا نہیں اٹھانا پڑا بلکہ نہ صرف عمل کے کڑے احتساب سے بھی کئی مرتبہ گزرا ہوں بلکہ اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے لیکن ہمیشہ اللہ اور اپنے آقا ﷺ کے دامن میں عافیت کا سہارانصیب ہوجاتاہے۔
وہ کہتے ہیں ڈاکوؤں کے کسی سردارنے ڈاکے کا ایک منصوبہ بنایا، اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھا اور آخرمیں پوچھا، کسی کو اعتراض ہو تو کھڑا ہو جائے، میں بڑا لبرل سردار ہوں، میں اختلافِ رائے کو ہمیشہ پسند کرتا ہوں۔ سردار کا اعلان سن کر پورے یقین کے ساتھ ایک نوجوان ڈاکو ہمت کرکے کھڑا ہوا اور جرأت سے بولا “یہ ایک بالکل خام منصوبہ ہے”۔ سردار نے جیب سے اپنا پستول نکالا، نوجوان ڈاکو کے سر کا نشانہ لیا اور ساری گولیاں اس کے بھیجے میں اتار دیں، نوجوان پیچھے کی طرف گرا، سردار نے پستول کی نالی میں پھونک ماری اور پسینہ پونچھتے ہوئے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولا “کسی اور کو اعتراض ہو تو وہ بھی کھڑا ہو جائے۔”
یوں تو ہماری عدلیہ کی تاریخ جسٹس منیراورناظم الدین کے نام سنتے ہی موجودہ تنازع تک کا سفر قوم کیلئے کسی بھی تعجب کا باعث نہیں بلکہ ہماری اسی قوم نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے ہاتھوں ڈوگر کورٹ کو “گوبرکورٹ” قرار دیکر مسترد کر دیا تھا۔ قوم اور وکلاء برادری نےجسٹس افتخار کا جس دلیری کے ساتھ جو تاریخ ساز مظاہرہ کیا،اور چوہدری افتخار اور ان کے ساتھیوں نے جو قوم کو سہانے خواب دکھائے،اس کے بعد قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی تھی کہ اگر خلفائے راشدین کا نہیں تو یقیناً عمربن عبدالعزیز کا دور دیکھنے کو ملے گا لیکن “اَے بَسا آرْزُو کہ خاک شُدَہ”( ہماری تمام آرزوئیں تو مٹی میں مل گئیں)، خود چوہدری افتخار کے بیٹے اور داماد کے ہاتھوں ہی قوم کی ان تمام خواہشات کا بڑی دھوم دھام سے جنازہ پڑھا گیا۔
رہی سہی کسر پاناما کیس میں نکل گئی اورابھی اس ندامت سے نجات نہیں ملی تھی کہ ثاقب نثار جیسا کم ظرف بابا رحمتے کا نقاب پہن کراسی عدلیہ کی دھجیاں اڑاتا چلا گیا اور جہاں اپنے بھائی کی ہم آواز بن کر ملک کے ایک آرٹ ہسپتال کا بیڑہ غرق کرکے بیرون ملک سے وطن کی محبت میں سرشار ڈاکٹروں کا راستہ ہمیشہ کیلئے مسدود کرنے کے جرم عظیم کا مرتکب ہوا وہاں جانبدارانہ انصاف کی ایک تاریخ رقم کر گیا۔اس کی بد عنوانی کا ایک گواہ خود اسلام آباد میں مضبوط ثبوتوں کے ساتھ انصاف کا طلب گار رہا لیکن اس کا منہ دہمکیوں سے بند کرنے کیلئے اپنے اختیارات استعمال کرنے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتا رہا جنہوں نے بعد ازاں اپنی مرضی کے فیصلوں کی شکل میں اپنا معاوضہ وصول کیا۔ آج تک کسی کوتوفیق نہ ملی کہ ان تمام ججز کو عدالت میں کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے ملک کی بربادی کا حساب لیا جاتا بلکہ اب بھی لاکھوں روپے کی ماہانہ مراعات کے ساتھ مزے لوٹ لے رہے ہیں۔
ان کے جانشین بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے عدلیہ جیسے ادارے پر ایک بوجھ بن کر قوم کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔ خودقاضی فائزعیسیٰ کا سارامعاملہ بھی قوم کے سامنے ہے لیکن شوکت صدیقی کی ثابت قدمی کے ساتھ بھی تو یہ سلوک اسی عدالت نے کیا جس عدالت نے برسوں بعد سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو درست تسلیم کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزادینے کے فیصلےمیں ججز پر دباؤ کو تسلیم کیا ۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس عطابندیال اوران کے خاندان کی خواتین کابھی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ میڈیا میں جو چرچا رہا، اس سے بھی قوم واقف ہے کہ قوم کے فیصلے عدالتوں کی بجائے گھرکی خواتین کی مرضی سے انجام پانے لگے۔
پاکستان میں عدالتی امور میں بیرونی مداخلت کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی کی حال ہی میں بحالی کے فیصلے کو مثال بنا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نےآئی ایس آئی کے دباؤ سےمتعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو تفصیلی خط لکھا، جس کے ذریعے آئی ایس آئی سمیت انٹیلی جنس ایجنسیوں اور انتظامیہ کی عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے جوڈیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرنے کو کہا ہے ۔ ججوں کی جانب سے تحریر کردہ اس خط میں عدالتی امورمیں آئی ایس آئی اوردیگر انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس خط نے ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے کہ عدالتوں کے متنازع فیصلے کسی حد تک بیرونی یا اسٹیبلشمنٹ کےدباؤ کےتحت سنائے جاتے ہیں۔
اس خط کے منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کے بعد ہنگامی طور پر جمعرات کو وزیر اعظم شہبازشریف اپنے وزیر قانون کے ہمراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے سپریم کورٹ میں ملاقات کیلئے پہنچ گئے جہاں اس معاملے کی مزید تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر قابو پانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس چائے کی پیالی میں آنے والے طوفان کا انجام کیا ہوتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کی بیٹی اوراس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے خلاف پانامہ کیس سے متعلق جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیزصدیقی کے آئی ایس آئی پرمداخلت کے الزامات ہوں یا “واٹس ایپ” کے ذریعے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی خبریں، ٹرائل کورٹ کے جج سے ملاقات کرکے کیمروں کی نظرمیں آنے والے ایک “کرنل صاحب ” ہوں یا پھرخود چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس، یہ سب وہ واقعات ہیں جن سے عدالتی امورمیں غیر ضروری مداخلت کی بحث کو جنم دیا ہے جس میں نچلی عدالتوں اوراسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز پر دباؤ کے بارے میں چند واقعات کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔ اس خط میں نچلی عدالت کے ایک جج کی شکایت کا بھی قصہ شامل ہے جس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے آئی ایس آئی اہلکاروں کی شکایت لگائی اور پھر بعد میں اس سیشن جج کو “او سی ڈی” بنا دیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک کی دیگر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں دی گئی ہے کہ ایسی صورتحال میں ججز کا کیا ردعمل ہو؟ اور اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ججزاس طرح کی مداخلت کو کیسے ثابت کریں۔
ججزکامطالبہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے ادارہ جاتی “رسپانس”کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس10 مئی 2023 کو بھی ہائیکورٹ ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ آئی ایس آئی والوں کی مداخلت پرتوہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔ اس خط میں اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کوانٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر11اکتوبر 2018 کو عہدے سے برطرف کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا تھا اوراب سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انہیں ریٹائرڈ جج کہتے ہوئے شوکت صدیقی پرعائد کردہ الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمائت کا اعادہ کیا۔
خط میں پوچھا گیا کہ عدلیہ کی آزادی کو “انڈرمائن” کرنے والے کون تھے؟ اوران کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے۔اس کے علاوہ ججزکے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں؟ کہیں کیسزکی سماعت کیلئے مارکنگ اور بینچزکی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں؟ یہ بھی انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی کیسزمیں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں؟ کہیں انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا ہے کہ ملک میں درپردہ ڈکٹیٹر شپ کو من و عن تسلیم کر لیا جائے؟
اس خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا اور جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشرکا شکار ہو کرہسپتال داخل ہوئے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا، جس پر چیف جسٹس کو آئی ایس آئی کے ڈی جی کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ آئی ایس آئی کا کوئی آفیشل ہائیکورٹ کےکسی جج کو “اپروچ” نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔ ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں جج کا نام تو نہیں لکھا گیا تاہم یہ کہا گیاکہ جج کے بیٹے اورفیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی اور بعد ازاں جج کے برادرنسبتی کو مسلح افرادنے اغوا کیا، حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے کے بعد 24 گھنٹوں کے بعد چھوڑا گیا۔
خط میں ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرکے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے توان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈروم میں کیمرے نصب تھےاور کیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا، جو آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کر رہا تھا۔ جج کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی کیمرا لگا تھا، جج اوراس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیواور “یوایس بی” بھی ریکورہوئی۔
سپریم کورٹ سے حال ہی میں دوبارہ بحال ہونے والے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کوئی ایڈوائزری فورم نہیں ہے بلکہ یہاں تو ججزکے کنڈکٹ کے خلاف امور زیرغورلائے جاتے ہیں۔ عدالت میں مداخلت پر جج کو خود پتا ہونا چاہیے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ اب یہ اہم ہو گیا ہے کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل اس پر کیا ردعمل دیتی ہے۔ یاد رہے کہ شوکت عزیزصدیقی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید سمیت آئی ایس آئی کے سینیئر افسران پر یہ الزامات عائد کیے تھے کہ وہ پانامہ مقدمات میں نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ دینے کیلئے ان کے گھر آ کراسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی پیشکش بھی کی تھی۔ یہ وہی فیض حمید ہیں جن پر ملک کے انتہائی سنئیر صحافی ابصار عالم انتہائی خوفناک الزامات لگا چکے ہیں کہ کس طرح اس شخص نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے ایک اہم ڈویلپر کے گھر میں رات کی تاریکی میں حملہ کرکے وہاں مرد خواتین کو اغوا کر لیا گیا اور بعد ازاں اربوں روپے کی پراپرٹی برطانیہ میں بیٹھے اپنی ایک ایجنٹ خاتون کے نام منتقل کروا لی گئی لیکن آج تک ان کے خلاد کسی کو تحقیق تک کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔
لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ اقبال کے مطابق “وہ اور ان کے شوہر جاوید اقبال لاہور ہائیکورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس کبھی کوئی آئی ایس آئی یا خفیہ ایجنسی کا اہلکار نہیں آیا اورنہ کبھی انہوں نے ایسا کوئی واقعہ اپنے شوہر سے سنا ہے۔ جب ججزخود کوئی “فیورز” نہ مانگیں تو دوسری طرف سے بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ جج کو دباؤ میں لائے۔ جب جج پر فیصلے کیلئے کوئی دباؤ ڈالے تو ایسے میں جج کو توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ جب جج یہ ظاہر کریں گے کہ وہ دلیر ہیں اورانہیں کوئی لالچ نہیں ہے تو پھرکوئی ان کے قریب بھی نہیں آئے گا۔ تاہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے ٹھیک راستہ چنا ہے اور اب چیف جسٹس کو اس پر تحقیقات کرنا ہوں گی۔
یہ ذہن نشین رہے کہ جب جج فرمائشیں کرتے ہیں اوراپنے خاندان والوں تک کیلئےبھی پروٹوکول مانگتے ہیں اورمرضی کے تبادلے اورتقرریاں تک کراتے ہیں،جس کے بعددوسری طرف سے بھی فرمائشیں آنے کاسلسلہ توشروع ہو گا۔ سیاسی مقدمات میں خود جـجز کو بھی ایک “گاڈ کمپلیکس” ہے اور انہیں یہ لگتا ہے کہ وہ وزرائے اعظموں کو بھی گھر بھیج سکتے ہیں اور انہوں نے ماضی میں ایسا کیا بھی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے مطابق اس خط میں ججز کا اپنا ذاتی مقصد بھی شامل ہو گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل وہ فورم ہی نہیں جسے یہ خط لکھا جاتا ۔ اب یہ معاملہ سامنے آ گیا ہے اور چیف جسٹس کو اس پر ازخود نوٹس لے لینا چاہیے۔ لاہورہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق سیکریٹری نے بھی کہا ہے کہ ججز نے یہ خط لکھ کر بہت اچھا کیا ہے۔ ان کی رائے میں ہونے والے یہ واقعات بہت واضح تھے مگر اب اس خط نے ان پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ججزعام طور پر ملازمت کے بعد تو انٹرویوز میں ایسے اعتراف کرتے ہیں مگر دوران ملازمت ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے ۔اگر نسین حسن شاہ اپنے دورِ ملازمت میں ہمت کرکے کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرتے تو آج کسی حد تک عدلیہ کے چہرے پر لگے ہوئے ایسے شرمناک داغ نہ ہوتے۔ وہ تو اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ بورڈ کی سربراہی جیسے منصب کی مراعات وصول کرتے رہے اور جب کچھ نہ بچا تو میدان میں اپنی صفائی کیلئے ایسا بیان داغ دیا جو تاریخ میں ان کی بھی بدنامی کا طوق بنا رہے گا۔ اب بال چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی کورٹ میں ہے کہ وہ اس بوجھ سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں یا پھر نمک کی کان میں نمک بن کر وہ بھی تاریخ میں اپنا نام درج کرو کے رخصت ہو جائیں گے۔ اب بارکونسل کو بڑھ کر ججزکی حمایت کرنی چاہیے تاکہ تاریخ کا دھارا درست کرنے میں مدد ملے۔
ایک اور وکیل کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں تو عام طور پرججز کے خلاف لکھا جاتا ہے مگر یہاں ججز نے خود لکھ دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے بار اور بینچ میں بہت خلیج ہے۔ایک طرف جج اپنے گھر کے حصول کیلئے درخواست پر خود ہی سماعت کر رہے ہوتے ہیں تو پھران کے لکھے گئے خط کو بھی زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی۔ جب ہائیکورٹ کے ججز نے اپنی عدالت کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا تو پھراس وقت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بھی دستخط کیے تھے مگر اب جو خط کونسل کو لکھا گیا ہے اس میں وہ شامل نہیں ہیں۔دراصل یہ مہم وکلا کے ذریعے سے چلنی چاہئے۔ اس خط کے ذریعے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف محاذ آرائی نظر آتی ہے کہ یا وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے خلاف لڑیں یا پھراپنے ججز کو ناراض کر دیں۔ ایک جج کےخلاف ریفرنس دائر کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔اب خط کے ذریعے تو معاملہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات تو تحقیق طلب ہے کہ جج کے”لینڈ مافیا” سے تعلقات ہیں یا نہیں ہیں۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ ججز خط سے پیدا صورتحال پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور ججز کے خط میں مذکورہ واقعے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہارکرتی ہے۔عدلیہ اورججوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیئے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ بارعدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرے گی۔ ملک بھر کی دیگر بارایسوسی ایشنز نے بھی مختلف انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جوڈیشنل کونسل کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی طور پر ہماری عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں مختلف عالمی سروے میں کیا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔اب تواس سنگین معاملے کےبعد یقیناً ایک ایسا تاثرابھرے گا جو ملک کی ساکھ کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔ اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کروائی جائے اور جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔قوم اس بات کی منتظر ہے کہ ہماری اسی عدلیہ نے سابقہ آرمی چیف باجوہ اور فیض حمید کو طلب کررکھا ہے، اس پر اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا ان کو بھی سابقہ آرمی چیف مشرف کی طرح ایک مقدس گائے قرار دیکر بچا لیا جائے گا؟
آج کل کیا کیا کرشمے آدمی کے ساتھ ہیں
دل کسی کے ساتھ تلواریں کسی کے ساتھ ہیں
بھیڑ کوئی ہو ،تماشہ کوئی ، ہنگامہ کوئی
خوف کے مارے ہوئے ہیں، ہر کسی کے ساتھ ہیں