یہ مضمون تاریخ کے ایک ایسے لمحے کا تذکرہ کرتاہے جہاں دوعظیم تہذیبیں—مشرق اورمغرب—ایک دوسرے سے آمنے سامنے تھیں۔طاقت کی گرج پس منظرمیں گرگئی،صبر، حکمت،اورتہذیب کے وزن نے دنیاکے محورکونئی شکل دی۔یہاں تاریخ محض گواہ نہیں ہے،یہ راوی بن جاتاہے،اورہرخاموش لمحہ گہرے مقصد کے ساتھ بولتاہے۔یہ وہ دورہے جہاں سلطنتیں بارودسے نہیں بلکہ تدبر اورصبرسے بنتی ہیں اورجہاں وقت کے دھارے تاریخ کاحتمی فیصلہ بنتے ہیں۔
یہ مضمون اس لمحے کوبھی اپنی گرفت میں لے رہاہے جب دوعظیم تہذیبیں—مشرقی صبراورمغربی رفتار—ایک دوسرے کاسامنا کررہے تھے،اور خاموشی نے تاریخ کے دھارے کونئی شکل دی۔جب سلطنتوں کے عروج وزوال کی کہانی تلوارسے نہیں بلکہ حکمت عملی سے لکھی گئی توکیسے سلطنتیں برداشت اورزوال صرف طاقت سے نہیں بلکہ تدبر،صبراوردوراندیشی سے ہوتی ہیں جبکہ تاریخ خاموشی سے نتائج کا فیصلہ کرتی ہے۔یہ ٹکڑاؤاس لمحے کی گواہی دیتاہے جب دوعالمی طاقتیں—چین اورریاستہائے متحدہ—ایک دوسرے سے ملے،ڈریگن اور ایگل،نہ صرف سیاست یاطاقت میں،بلکہ تہذیبوں، فلسفوں اوروقت کی پیمائش کے مکالمے میں ایک دوسرے کے مدمقابل آن پہنچے۔
تاریخ کے سینے میں کبھی کبھارایسے لمحے جنم لیتے ہیں جومحض سیاسی ملاقاتیں نہیں رہتیں بلکہ تہذیبوں کے چھپے ہوئے ورق کھول دیتی ہیں۔ ایسے لمحے شاذو نادرہی ثبت ہوتے ہیں جومحض دوریاستوں کی کشمکش نہ ہوں بلکہ دوتہذیبوں کے باطنی مکالمے کی صورت اختیارکرلیں۔یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جووقت کی رفتار کادھارابدل دیتے ہیں،جہاں طاقت اپنی صورت بدلتی ہے،اورتہذیب اپنے معنی۔زمانہ جیسے اپنے پرانے پیمانے توڑکرنئے ترازووضع کرتاہے؛وہ ترازوجن پرکبھی خون تولے جاتے تھے،آج شعور،حکمت اور اقتصادی بردباری کاوزن رکھاجاتاہے ۔یہ وہی لمحے ہیں جنہوں نے کبھی سکندرکوگنگاکے کنارے سوچ میں ڈال دیاتھا،جنہوں نے رومی سفیروں کوچین کی شاہراہِ ریشم کے درباروں میں خاموش کردیاتھا،اورجنہوں نے منگول گھوڑوں کی دھڑکنوں کوبھی حکمت کے سامنے جھکادیاتھا۔اسی طرح آج چین اورامریکاکی باہمی کشمکش بھی دوریاستوں کانہیں بلکہ دوزمانوں،دوفلسفوں اوردوتاریخی دھاروں کامکالمہ بن چکی ہے —ایک طرف وہ تہذیب جورفتارمیں دنیاکوپیچھے چھوڑناچاہتی ہے،اوردوسری طرف وہ جوصبرو حکمت سے وقت کواپنے تابع کرتی آئی ہے۔
ایساہی ایک لمحہ اُس وقت تاریخ کے افق پرنمودارہواجب دومتضاددنیائیں—رفتارکی امریکن دنیااورصبر کی چینی دنیا—ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں۔یہ ملاقات محض ایک سیاسی واقعہ نہیں تھی،بلکہ تاریخ کاوہ آئینہ تھاجس میں مستقبل کی بناوٹ جھلکنے لگی۔
امریکاکی کم عمرمگربےپناہ طاقت کے مقابل چین کی وہ تہذیب کھڑی ہے جسے نہ صرف پانچ ہزاربرس کاشعورمیسرہے بلکہ ہان درباروں کی پختگی،سن تزوکی جنگی بصیرت،اورکنفیوشس کی اخلاقی حکمت بھی ورثے میں ملی ہے۔یہ تصادم سردجنگ کے کسی دھماکے جیسانہیں؛یہ قرونِ وسطیٰ کی اُن ملاقاتوں جیسا ہے جب یورپ مشرق کے سامنے نظریں جھکائے سوال کرتاتھااورمشرق جواب سکوت میں دیتاتھا۔
ٹرمپ کی گرج میں وہی لرزش تھی جوکبھی برطانوی سامراج نے1857میں محسوس کی تھی،یاوہ اضطراب جوروم کواُس وقت درپیش ہواتھاجب بازنطینی حکمت نے اُس کی سپرپوزیشن کوچیلنج کیا۔اورجب وہی ٹرمپ تعریف اورنرمی کے پردے میں سرجھکاتانظرآیاتو یہ منظرتاریخ کے اُن اوراق سے مشابہ ہوگیاجہاں فاتحین کی زبان بدل جاتی ہے،مگرصاحبِ حکمت کالہجہ نہیں۔چین کی قیادت کا سکوت،بالکل ویساہی تھاجیساچواین لائی نے جنیوامیں دکھایاتھا یا جیساڈینگ شیاوپنگ نے اصلاحات کے آغازپراختیارکیاتھا—ایک ایسی خاموشی جس میں مستقبل کی دھڑکن گونجتی ہے۔
دنیاکی طاقت اب گولیوں کے زورپرنہیں بلکہ اُن معدنی ذخیروں پرگردش کرتی ہے جنہیں چین صدیوں کی طرح اپنے صبرسے سنبھالے بیٹھاہے۔جب امریکاٹیکنالوجی کابادشاہ ہوتے ہوئے بھی اسی مشرقی تہذیب کے دروازے پرآکرخام مال مانگتاہے،تویہ منظر تاریخ کے اس پل کی یاددلاتاہے جب مغرب کے جہازپہلی بارچینی بندرگاہوں میں داخل ہوئے تھے مگرحکم دینے نہیں—سیکھنے آئے تھے۔
یہ مضمون اسی سفرکامکالمہ ہے—جس میں سیاست کردارہے مگرتہذیب راوی۔ جہاں شورتھک کربیٹھ جاتاہے،اورخاموشی بتانے لگتی ہے کہ اصل طاقت وقت کی لچک میں ہے،نہ کہ لمحوں کی چمک میں۔امریکاکی ڈھائی صدیوں پرمشتمل تیزرفتار،پُرغروراورطاقتور روایت ایک ایسی تہذیب کے سامنے آن کھڑی ہوئی جسے پانچ ہزاربرس کے تجربوں نے مٹی کی طرح گوندھا ہے،جس نے وقت کو دشمن نہیں استادسمجھ کرقبول کیاہے،اورجس کافلسفہ گردشِ ایام میں نہیں بلکہ نسلوں کے تسلسل میں سانس لیتاہے۔یہ وہی تصادم تھا جوہمیشہ رفتاراورگہرائی کے درمیان برپاہوتاآیاہے—ایک طرف وہ قوم جس کے بازوطاقت کے گھمنڈسے اکڑے ہوئے تھے،دوسری طرف وہ تہذیب جس کی خاموشی میں ہزاروں برس کی دانائی پنہاں تھی۔
اس منظرمیں تاریخ صرف تماشائی نہیں تھی بلکہ منصف بھی؛وہ دیکھ رہی تھی کہ اب طاقت کی گرج کمزورپڑرہی ہے اورحکمت کی ٹھہری ہوئی سانسیں پوری دنیاکے مزاج کوبدل رہی ہیں۔امریکاکی بلند آہنگ دھمکیوں کے مقابل چین کی صدیوں پرانی خاموشی نے وہ حقیقت آشکارکردی کہ طاقت کاسب سے کاری وارشورسے نہیں،سکوت سے نکلتاہے۔یہ مقابلہ دواقتصادی ماڈلزکانہیں تھا،دوسیاسی نظریات کابھی نہیں تھا؛یہ دووقتوں کاٹکراؤتھا—امریکا کا تیزرفتار،بے صبروقت،اورچین کاگہرا،وسعت پذیروقت۔
یہی پس منظراس مضمون کاتناظرفراہم کرتاہے۔یہ وہ داستان ہے جس میں سیاست کردارہے،مگرتہذیب راوی۔یہ وہ کہانی ہے جس میں طاقت کامطلب بدل گیاہے،اورجہاں مستقبل کی بنیادگولی نہیں،حکمت ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ کون سپرپاورہے؛سوال یہ ہے کہ کون وقت کے ساتھ چلنے کی قوت رکھتاہے۔اوروقت ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتاہے جوانتظارکرناجانتے ہیں۔یہ مضمون انہی تغیرات،انہی رک رک کربدلتے زاویوں،انہی تہذیبی سانسوں اورانہی تاریخی اشاروں کااحاطہ کرتاہے—جہاں چین خاموش ہے،مگردنیابول رہی ہے؛اور امریکابول رہا ہے،مگرتاریخ خاموشی سے اُس کے کندھوں پراپناہاتھ رکھ چکی ہے۔
تاریخ کے افق پرکبھی کبھی ایسے لمحے ابھرتے ہیں جومحض دوانسانوں کی ملاقات نہیں ہوتے،بلکہ دوتہذیبوں کامکالمہ بن جاتے ہیں۔ یہ لمحے وقت کی دھڑکن کوبدل دیتے ہیں،اورصدیوں کی محنت ایک پل میں نئے معانی اختیارکرلیتی ہے۔چین اورامریکاکی حالیہ آویزش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،ایک جانب وہ قوم جورفتارپرفخرکرتی ہے،اوردوسری جانب وہ جو صبر سے جیتی ہے۔ایک طرف صنعتی شورکی تہذیب،دوسری جانب سکوتِ حکمت کاتمدن۔
249سالہ امریکی تاریخ نے جب 5ہزارسالہ چینی شعورکوللکارا،تویہ صرف طاقت کاامتحان نہ تھا،بلکہ فلسفۂ وقت کاٹکراؤتھا۔یہ وہ مقام تھاجہاں مغرب کے تاجدارنے مشرق کے دربارمیں قدم رکھا،اوروقت نے اپنی پرانی عدالت میں نیامقدمہ کھول دیا۔دنیا نے دیکھا”عقاب نے اپنے پرسمیٹے،اوراژدہابغیرگرج کے اُٹھا۔تاریخ کے صفحے نے ایک بارپھروہی منظردہرایا:کہ طاقت کاجادوختم ہوتاہے،مگرتہذیب کی گونج باقی رہتی ہے۔یہ مضمون اسی مکالمے کی داستان ہے جہاں الفاظ میں سفارت نہیں،تہذیبوں کی دھڑکن ہے؛جہاں الفاظ میں سفارت نہیں،تہذیبوں کی دھڑکن ہے؛جہاں خاموشی بھی بولتی ہے،اور مسکراہٹ بھی تاریخ لکھتی ہے۔
جب دو صدیوں کی کم سن تہذیب پانچ ہزاربرس کی مشرقی دانائی سے آنکھیں ملانے کی جسارت کرتی ہے،توتاریخ محض مشاہدہ نہیں کرتی،مسکراتی بھی ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتاہے جب وقت کاترازومتوازن نہیں رہتا،ایک طرف تیزرفتارمگرتھکاہوامغرب،دوسری جانب خاموش مگرگہرامشرق۔اورسوال یہ نہیں رہتاکہ کون غالب ہے؛سوال یہ رہ جاتاہے کہ کون باقی ہے۔
دنیاکی جدیدتاریخ میں شایدہی کبھی ایسالمحہ آیاہوکہ ایک کم عمرتہذیب امریکا،جو بمشکل ڈھائی صدیوں کی تاریخ رکھتاہے،ایک ایسی قوم کے مقابل کھڑی ہوجوپانچ ہزاربرس کی تہذیبی روایات کی امین ہے۔یہ وہی تصادم ہے جورفتاراورگہرائی کے درمیان ہوتاہے؛ایک طرف جدیدیت کی چمک،دوسری طرف حکمت کی جڑیں۔یہ محض طاقت کی کشمکش نہیں بلکہ زمانوں کامکالمہ ہے۔مغرب کاغرور، مشرق کی صبرآزمافراست کے سامنے۔چین کی تہذیب، جوکنفیوشس کی تعلیمات،ہان دورکے نظم وضبط،اورصدیوں کی اجتماعی عقل کا مظہرہے،کسی عارضی معاشی بحران سے گھبراتی نہیں۔یہ تمدن تاریخ کووقت کے پیمانے پرنہیں بلکہ نسلوں کے تسلسل پرپرکھتاہے۔اوریہی وہ مقام ہے جہاں امریکاکاغرورجوصنعتی انقلاب اورنوآبادیاتی ورثے سے پروان چڑھا،پہلی باروقت کی گہرائی سے خائف ہوا۔
ٹرمپ نے ایک دن غرورکے بام پرکھڑے ہوکراعلان کیاتھا،”میں چین کی معیشت کوتباہ کردوں گا،یہ کبھی نہیں اٹھے گی۔یہ وہی لہجہ تھاجس میں کبھی نوآبادیاتی حکمران بات کیاکرتے تھے۔ایک گرج جویقین سے زیادہ خوف کی علامت ہوتی ہے۔تاہم یہ جملہ تاریخ کے کانوں میں ایک بازگشت کی طرح گونجا،جیسے روم نے کارتیج کے خلاف، یا برطانیہ نے متحدہ ہندستان کے خلاف اعلان کیاتھامگریہ عزم دراصل خوف کی آوازتھی،کیونکہ طاقتورکبھی للکارتا نہیں ، مطمئن رہتاہے۔ٹرمپ کالہجہ اُس امریکی خوداعتمادی کاآخری مظہرتھا جودوسری عالمی جنگ کے بعددنیاپرمسلط ہوئی مگریہ بھی یادرہے کہ ہرطاقت جب عروج پرپہنچتی ہے توزوال کابیج بھی اسی میں پنپتاہے۔
مگروقت نے کروٹ لی،اوروہی شخص جودھمکیوں کامیناربن کرکھڑاتھا،اب نرمی کے لفظوں میں پناہ ڈھونڈرہاتھا۔وہی ٹرمپ،جوکل دھمکیاں دیتاتھا،آج تعریف کے لہجے میں پناہ ڈھونڈرہاتھا ۔یہ منظرمحض ایک ملاقات نہیں تھابلکہ طاقت کی نفسیات کاعکاس تھا۔یہ وہی کیفیت تھی جونیپولین کوروس کے دروازے پر،یابرطانوی سامراج کو1947میں برصغیرسے رخصت ہوتے وقت پیش آئی تھی۔تعریف دراصل عجزکاپہلااظہارہوتی ہے۔یہ سفارت نہیں ،سرِتسلیم خم کرنے کی شائستہ صورت تھی۔ٹرمپ نےمسکراتے ہوئے،ہچکچاتے ہوئے کہا” آپ عظیم ہیں،آپ ایک وژنری ہیں“۔یہ الفاظ سفارت کے نہ تھے بلکہ سرِ تسلیم خم کرنے والے کی خاموش آہ تھے۔یہ شرافت نہیں، شکست کامہذب روپ تھا۔
شی جن پنگ کی خاموشی کسی کمزوری کی نہیں بلکہ تہذیبی بلوغت کی علامت تھی۔چین کی قیادت نے صدیوں سے یہ سیکھاہے کہ جوقوم صبرجانتی ہے،وہ وقت کواپناغلام بنالیتی ہے۔یہ سکون وہی ہے جوچواین لائی کی مسکراہٹ میں تھاجب مغرب نے طنزکیا،یا ڈینگ شیاوپنگ کے تحمل میں جب انہوں نے کہا “بلی کارنگ اہم نہیں،چوہاپکڑتی ہے یانہیں،یہی اصل بات ہے”۔دوسری جانب ژی، جیسے کسی مرقعِ صبرکاپیکرہو۔چہرے پرسکون،آنکھوں میں وقت کااعتماد۔اُسے کچھ کہنے،کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہ تھی— کیونکہ تاریخ خوداُس کے لہجے میں بول رہی تھی۔
کبھی امریکاخوراک کابادشاہ تھا؛مارشل پلان سے یورپ کوسنبھالا،عالمی بینک کوقابومیں رکھامگراب وہی سپرطاقت کادعویٰ کرنے والاٹرمپ ہاتھ پھیلائے چین سے کہہ رہا تھا”ہمیں سویابین دوتاکہ ہمارے کسان زندہ رہیں”۔اورٹیرف میں نرمی کی التجاکی۔یہ وہی امریکاتھاجوکبھی دنیاکے معاشی منبرپربادشاہت کرتاتھا،اورآج چین سےریلیف کی درخواست کررہاتھا۔یہ محض تجارتی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی منظرنامے کی تبدیلی تھی۔ژی نے محض کہاہم دیکھیں گے کہ آپ کیسابرتاؤکرتے ہیں۔تاریخ کی سب سے مؤدب مگرانتہائی گہری تنبیہ تھی۔یہ جملہ نہیں،ایک تہذیب کی برتری کااقرارتھا۔ یہ وہ لمحہ تھاجب احمدندیم قاسمی کی یہ بات یادآتی ہے:
میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی توبیان مدعاہے
یہ وہی امریکاتھاجوکبھی دنیاکے معاشی منبرپربادشاہت کرتاتھا،اورآج چین سے ریلیف کی درخواست کررہاتھا۔امریکاجس نے ٹیکنالوجی کی بالادستی کواپنی میراث سمجھا،نایاب زمینی معدنیات،جو جدید دنیا کی رگِ حیات ہے یہی وہ مادّے ہیں جن سے موبائل، جنگی طیارے،سیمی کنڈکٹرز،اورمصنوعی ذہانت کے آلات بنتے ہیں،آج چین سے وہی مانگ رہاتھااوریہ سب چین کے پاس ہیں۔
تاریخ نے یہاں فیصلہ لکھ دیاطاقت اب بارودسے نہیں،مٹی سے نکلتی ہے۔پھروہ موڑآیاجب طاقت کے ترازونے فیصلہ لکھ دیا۔ٹرمپ نے چین سے کہا “ہمیں نایاب زمینی معدنیات دوتاکہ ہم اپنے جہازاڑاسکیں، اپنے کارخانے چلا سکیں۔یہ اعتراف تھاکہ مغرب کی صنعت کا دل اب مشرق کی مٹی میں دھڑکتاہے۔
یہ چارالفاظ،شایدپچھلی دوصدیوں کی مغربی سامراجی گفتگوکاسب سے مختصرجواب تھے۔جہاں مغرب”حکم دیتا”تھا،وہاں اب مشرق “سوچنے”لگا۔یہی لمحہ تھاجب دنیانے محسوس کیاکہ فیصلہ اب نیویارک یالندن میں نہیں،بیجنگ میں ہوتاہے۔ژی نے سکون سے کہا،”ہم اس پرغورکریں گے”۔یہ وہ لمحہ تھاجب دنیانے جان لیاکہ اب فیصلہ کرنے والاکون ہے۔طاقت نے زبان بدل لی تھی — گرج سے نہیں، خاموشی سے۔مغرب نے جب بھی کسی قوم سے بات کی، پابندیوں کی زبان میں کی۔چین نے جواب میں تعاون اورتجارت کی زبان اختیار کی۔ فریقا،لاطینی امریکااورایشیانے یہ فرق محسوس کیااوررفتہ رفتہ عالمی مرکز عقاب کے پنجوں سے نکل کراژدھے کی گرفت میں آنے لگا۔یہ وہی اصول ہے جوسلجوقی دانشوروں نے کہاتھا:جوہاتھ تلوارتھامتاہے،وہ دل نہیں جیتتا۔
مغرب اپنی برتری کے زخم چاٹتا رہا، پابندیوں کے ہتھیار سنبھالتا رہامگرچین نے ہاتھ بڑھایا—شراکت داری کے ساتھ،تجارت کے وعدے کے ساتھ۔ یورپ سننے لگا۔افریقہ پہلے ہی قریب تھا۔اوردنیا، بغیر جشن منائے،خاموشی سے اپنے محوربدلنے لگی۔نیاعالمی نظام ٹوٹا نہیں؛اس نے صرف اپنامحوربدل لیا۔اب پیداوار،معدنیات،اورٹرانسپورٹ کی راہیں مشرق سے گزرتی ہیں۔جیسے کبھی سلک روڈ سے دنیاکی معیشت بہتی تھی،ویسے ہی آج بیلٹ اینڈروڈ انیشی ایٹونے اُس روایت کوجدید قالب میں زندہ کردیا ۔ یہ تاریخ کی واپسی تھی مگرنئے لباس میں ۔یہ عالمی نظام نہیں ٹوٹا،بلکہ ارتقاپذیرہوا۔دنیاکاکششِ ثقل کامرکزمشرق کی سمت کھسک گیا۔اب زمین کے نایاب خزانے،صنعت کے کارخانے،اور لچک کے ستون،سب چین کے ہاتھ میں تھے۔
آزادی”،”جمہوریت”،”قیادت”— یہ وہ الفاظ ہیں جوکبھی صدرولسن،روزویلٹ،اورکینیڈی کے زمانے میں معانی رکھتے تھے۔آج یہ الفاظ سرمایہ دارانہ نظام کی پراپیگنڈامشینری کی گونج بن چکے ہیں۔دنیااب نعرے نہیں،رسداورپیداوارکے توازن کودیکھتی ہے۔ یہ وہ دورہے جہاں فلسفہ نہیں،فیکٹریاں فیصلہ کرتی ہیں۔امریکااب بھی آزادی، قیادت،اورجمہوریت کے ترانے گاتاہے،مگریہ وہ نغمے ہیں جوگزرے عہدکے ریڈیوپربجتے ہیں۔نیادورنعروں سے نہیں، سپلائی چین سے چلتاہے۔
ٹرمپ اس ملاقات سے فاتح نہیں بلکہ مشاہدبن کرلوٹا۔اس کے چہرے پروہی تاثرتھاجوکبھی رومن سفیرنے مشرق کے درباروں میں دیکھاتھاکہ یہاں جنگ نہیں جیتی جاتی،وقت جیتاجاتا ہے۔ٹرمپ اس ملاقات سے فاتح نہیں،شاہدبن کرلوٹا۔اس تہذیب کے عروج کاشاہد جونظم وضبط سے جیتتی ہے،نہ کہ غلبے سے۔چین کی قیادت کی سب سے بڑی طاقت اس کا غیرجذباتی طرزِعمل ہے۔یہ قوم بولتی کم،کرتی زیادہ ہے۔یہ وہی اصول ہے جوچینی فلسفے”تاؤازم میں صدیوں سے لکھاہے”جوسب سے خاموش ہے،وہی سب سے گہرا ہے”۔یہی سکوت طاقت کی زبان بن چکا ہے۔
ژی کومسکرانے کی حاجت نہ تھی،اس کاسکوت ہی فتح کی مہرتھاکیونکہ اصل طاقت قدم نہیں جماتی،فضامیں تحلیل ہوجاتی ہے۔یہ وہ خاموش قوت ہے جو چلتی نہیں،مگردنیااُس کے بغیر رک جاتی ہے۔چین نے غصے سے نہیں بلکہ مہارت سے عروج پایا۔ عقاب—امریکا —ابھی تک پروازپرنازاں ہے،مگرفضاکی سمت بدل چکی ہے۔یہ منظرتاریخ کے اس موڑکی یاد دلاتاہے جب روم اپنی شان میں مدہوش تھااوربازنطینی مشرق نئی بصیرت کے ساتھ ابھررہاتھا۔
اژدہاغصے سے نہیں،مہارت سے اٹھاہےاورعقاب،جوکبھی آسمانوں کابادشاہ تھا اب دھندلکے میں بے سمت منڈلارہاہے،نہ دشمن سامنے،نہ اعتمادپیچھے۔یہ ملاقات کسی شکست کی کہانی نہیں بلکہ عالمی شعورکے تغیرکی علامت تھی۔امریکانے شایدپہلی بارجاناکہ طاقت صرف بارودمیں نہیں،بردباری میں بھی ہوتی ہے۔چین نے جیتنے کیلئےنہیں، قائم رہنے کیلئےکھیل کھیلا اوریہی حکمت اس کی فتح بن گئی۔تاریخ اس لمحے کو یاد رکھے گی نہ شکست کے طور پر،بلکہ ادراک کے موڑکے طورپر۔امریکاجھکانہیں،سمجھ گیا۔چین جیتانہیں،کیونکہ وہ کھیل ہی نہیں رہا تھا ۔
تاریخ گواہ ہے روم،سپین،برطانیہ—سب تلوار سے نہیں،تھکن سے گرے۔سلطنتوں کا زوال کبھی دھماکے سے نہیں آتا،بلکہ خاموشی سے،جیسے خزاں کے پتّے شورنہیں کرتے،صرف گرجاتے ہیں،یوں سلطنتیں مٹتی نہیں،دھیرے سے بدل جاتی ہیں۔یہ زوال جنگ سے نہیں، دانائی سے آتاہے۔طاقت سے نہیں،صبرسے۔آگ سے نہیں، خاموشی سے۔ڈریگن نے عقاب کوشکست نہیں دی؛اُس نے محض وقت کے کنارے پراُس کاعکس مٹادیا۔طاقت کاکھیل ختم نہیں ہوا،بس کھیل کامیدان بدل گیا۔اورانجام یہی ہوا،ڈریگن نے ایگل کوشکست نہیں دی،بس اس کے خواب سے حقیقت کابوجھ ہٹادیا۔
یہ وہ داستان ہے جہاں تاریخ نے اپنی تلوارنیام میں رکھی اورقلم اُٹھالیاجہاں تہذیب کی فتح،جنگ کے میدان میں نہیں،دانائی کے مکالمے میں لکھی گئی۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں مشرق نے بولنابندکیا،اوردنیاسننے لگی۔اس کے نتیجے میں تاریخ کانیاچہرہ سامنے آگیا۔یہ کہانی طاقت کے تصادم کی نہیں،دانائی کی فتح کی ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب مغرب کی آنکھیں حیرت میں کھلیں، اورمشرق نے بغیرتلواراٹھائے دنیا کا مرکز بدل دیا۔
جب اژدہابولا،دنیاخاموش ہوئی،تاریخ کے پردے پراب جومنظرہے،وہ فتوحات اورجنگوں کانہیں بلکہ ادراک اوربلوغت کاہے۔یہ وہ دورہے جہاں بندوقیں خاموش اور کتابیں بیدار ہیں؛جہاں طاقت کے معیاربدل گئے ہیں۔اب سلطنتیں بارودسے نہیں،دانائی سے بنتی ہیں۔چین نے دنیاکویہ سبق دیاہے کہ فتح اُس کی نہیں ہوتی جوزورلگاتاہے،بلکہ اُس کی جوانتظار کرنا جانتاہے۔یہی وہ رازہے جوہان دربارسے لے کربیجنگ کے ایوانوں تک گونجتارہاہے اورامریکا ؟وہ اب بھی”آزادی”اور”قیادت”کے نعرے دہرارہاہے،مگرصدیوں کی سیاست اب نعرے نہیں سنتی،صرف نتیجے دیکھتی ہے۔
اژدہا نے عقاب کوشکست نہیں دی،بس اس کے آسمان کی وسعت کوناپ لیا۔یہ زوال نہیں،ادب کے ساتھ مقام کی تبدیلی ہے۔جیسے سورج مغرب میں نہیں ڈوبتابلکہ مشرق میں دوبارہ طلوع ہوتا ہے۔دنیاکانقشہ اب نہیں بدلے گا،مگراس کے معنی بدل گئے ہیں۔طاقت کامرکز وہاں جاپہنچاہے جہاں صبر عبادت اورخاموشی تدبیرسمجھی جاتی ہےاورشایدیہی تاریخ کاانصاف ہے کہ جب شورتھم جائے،تب خاموشی بولتی ہے۔جب عقاب تھک جائے،تب اژدہااُبھرتاہے اورجب دنیاتھک کررک جائے،تب مشرق چلناشروع کرتاہے۔
تاریخ کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ مستقبل کافیصلہ ایک دن یاایک جنگ میں نہیں لکھتی بلکہ وقت کے صبر،تہذیب کے وقاراوراقوام کے کردارسے اخذ کرتی ہے۔تاریخ ہمیشہ اُن لمحوں پربھی فیصلہ نہیں لکھتی جن میں گرج سنائی دے؛وہ اُن سانسوں میں لکھتی ہے جو اقوام کے مزاج کوبدل دیتی ہیں۔ امریکا اورچین کی یہ آویزش بھی ویسی ہی ایک خاموش تبدیلی تھی جیسے کبھی اباسینیہ کے دربارمیں نجاشی کے فیصلے نے عرب وعجم کے توازن بدل دیے تھے،یاجیسے خلافتِ عثمانیہ کے زوال نے یورپی طاقتوں کی سمت بدل دی تھی۔چین اورامریکا کی یہ مخاصمت بھی کسی میدان جنگ میں نہیں جیتی یاہاری گئی؛یہ وہ مقابلہ تھا جو نظریات سے نہیں،رویّوں سے طے ہوا۔یہاں بھی فیصلہ بارودنے نہیں،بصیرت نے کیا۔امریکاکی گرجتے ہوئے لہجے اورچین کی خاموش مگرمضبوط سفارت نے دنیا کویہ احساس دلایاکہ طاقت اب توپوں کے دھویں میں نہیں،عالمی رسدکے بہاؤمیں،خاموش فیصلوں میں،اورصنعتی تسلسل میں پوشیدہ ہے۔
امریکاکی سیاسی خطابت کی گونج کے مقابل چین کی تہذیبی خاموشی نے وہی منظرپیش کیاجوکبھی چنگیزخان نے بھی محسوس کیاتھا کہ ہرخطہ تلوارسے نہیں جیتاجاسکتا—بعض خطے صبرسے مسخر ہوتے ہیں۔
ٹرمپ اس ملاقات سے کوئی فاتح یاسیزربن کرنہیں لوٹا؛وہ ایک ایسے ناظراورمسافرکی طرح پلٹاجس نے پہلی بارجاناہوکہ مشرق کی تاریخ تخت وتاج سے نہیں، کرداروتدبیرسے بنتی ہے۔تہذیبی وزن،صبرکی قوت اورخاموشی کی حکمت کوپہلی بارسمجھ کر۔یہ وہی کیفیت تھی جوکبھی رومن سفیروں پربیتتی تھی جب وہ مشرق کے درباروں میں کھڑے ہوکرمحسوس کرتے تھے کہ یہاں طاقت تلوار سے نہیں،وقت سے ماپی جاتی ہے۔اوروقت ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے جواُس کے ساتھ سفرکرناجانتے ہیں۔
چین نے نہ توگرج کرجواب دیا،نہ دنیاکودھمکیوں کے شورمیں لپیٹا۔اس نے اپنے اصولوں،اپنی قدیم روایت،اپنے صنعتی عروج اوراپنی اقتصادی حکمت کے بل پردنیاکے میدان کو خاموشی سے بدل دیا۔یہ وہی سکوت ہے جوزمانہ جیت لیتاہے؛وہی ٹھہراؤجوسلطنتوں کی بنیادہلاتاہے۔چین نے اُس روایت کودہرایا جو کبھی سلجوقی دانشوروں نے کہی تھی:طاقت اُس کی نہیں جوللکارے،اُس کی ہے جسے للکارنے کی ضرورت نہ ہو۔
امریکاآج بھی آزادی،جمہوریت اورقیادت کے نغمے دہرارہاہے مگردنیاکے کان اب اس موسیقی کے آہنگ سے مانوس نہیں رہے۔اب نظریات نہیں، نتائج دیکھے جاتے ہیں۔اب عالمی سیاست کارخ نعرے نہیں بدلتے،رسدکے راستے بدلتے ہیں۔امریکاکے’’قیادت‘‘اور ’’آزادی‘‘کے ترانے اب ویسے ہی لگتے ہیں جیسے زوال پذیرسلطنتیں اپنے آخری دنوں میں اپناماضی دہراتی رہتی ہیں۔دنیااب ولسن کے اصول نہیں پڑھتی؛وہ بیجنگ کی بندرگاہوں سے اٹھنے والے کنٹینروں کودیکھتی ہے۔بیلٹ اینڈروڈمحض ایک معاشی منصوبہ نہیں رہا—یہ ویساہی تاریخی لمحہ بن چکاہے جیساکبھی شاہراہ ریشم تھی جس نے قرونِ وسطیٰ کی دنیاکارخ بدل دیاتھا۔
عقاب کی پروازاب بھی بلندہے مگراس کے سامنے اُبھرتے سورج کی روشنی تیزہوچکی ہے۔ڈریگن نے عقاب کوشکست نہیں دی؛اس نے محض آسمان کانقشہ بدل دیاہے۔یہ تبدیلی اتنی خاموش تھی کہ دنیانے پہلے اسے محسوس کیااوربعدمیں سمجھا۔طاقت کامرکزاب شور سے نہیں بدلتا؛ٹھہراؤسے، تدبیرسے، اور اُس صبرسے بدلتاہے جوتہذیبوں کے اندردھڑکتاہے۔
یہ داستان شکست کی نہیں بلکہ شعورکے بیدارہونے کی ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب تاریخ نے اپنی تلوارنیام میں رکھ کرقلم اٹھایا،اورجنگ کے ڈھول خاموش ہوکرحکمت کی آہٹ سننے لگے۔آج مشرق کی صدیوں پرانی خاموشی ایک نئے دورکی آوازبن رہی ہے،اورمغرب اپنی تھکی ہوئی گونج کوسنوارنے میں مصروف ہے۔
دنیاکانقشہ شاید نہ بدلے—لیکن اس کے معنی بدل چکے ہیں۔اب سلطنتیں بارودسے نہیں،دانائی سے بنتی ہیں؛اب فیصلہ اُن کاہوتاہے جن کے پاس صبرکی دولت اوروسائل کی کنجی ہو۔یہ دورشورکانہیں،شعورکاہے۔اورجب وقت کاپلڑابدل جاتاہے توتلواریں نہیں،خاموشیاں تاریخ لکھتی ہیں۔
یہ کہانی زوال کی نہیں،ادراک کی ہے۔مشرق نے بغیرتلواراٹھائے دنیاکامرکزبدل دیا،اورمغرب نے بغیرشکست کھائے اپنامقام تبدیل ہوتے دیکھا۔اب سلطنتیں خنجرسے نہیں،حکمت سے بنتی ہیں۔اورجب وقت کے پنڈولم کی سمت بدلتی ہے تونہ فتوحات شورکرتی ہیں نہ زوال؛بس خاموشی سے پردے کھلتے جاتے ہیں۔
چین نے دنیاکویہ سبق دیاہے کہ طاقت اُس کی نہیں جوچیخے؛ اُس کی ہوتی ہے جو سنبھل کر، سوچ کر، اور صبر سے آگے بڑھے۔ اور امریکا؟ وہ اب بھی اپنے قدیم نعروں کی مالاجپنے اور نغموں کی گونج تیزکرنے کی کوشش میں ہے،مگرصدیوں کی دانش اب نعرے نہیں سنتی—صرف نتائج دیکھتی ہے۔تاریخ اب نغمے نہیں سنتی—صرف نتائج پڑھتی ہے۔
اژدہاابھرانہیں،جاگاہے۔عقاب گرانہیں،تھکاہے۔اژدہانے عقاب کوشکست نہیں دی؛اس نے صرف یہ بتادیاکہ آسمان کس کے اوپرکھلاہے۔ اوروقت؟ وہ پھرمشرق کی سمت بہہ رہاہے،جیسے بہاؤہمیشہ وہیں جاتاہے جہاں سکوت میں صدیوں کی حکمت بسی ہواورتاریخ نے فیصلہ نہیں سنایا—اک اشارہ کیاہے کہ عصرِنواب اُس سمت جارہاہے جہاں شورتھم چکاہے، اورخاموشی بول رہی ہے۔چین کاسکوت، وہی سکوت ہے جوسن تزونے’’آرٹ آف وار‘‘میں طاقت کی اصل تعریف بتاتے ہوئے لکھاتھا:’’اصل فتح وہ ہے جوجنگ کے بغیر حاصل ہو۔‘‘آج دنیااسی اصول کے تحت بدل رہی ہے۔عقاب کی پروازکم نہیں ہوئی، مگراس کے نیچے سے آسمان کی وسعت بدل گئی ہے۔ اژدہاحملہ آورنہیں ہوا؛وہ صرف بیدارہواہے۔اوربیداری کاخوف ہمیشہ حملے سے زیادہ گہراہوتاہے۔