مسجداقصیٰ کی تاریخی گواہی

:Share

خانہ کعبہ دنیاکی سب سے پہلی مسجدہے جوحضرت آدم علیہ السلام نے روئے زمین پرتعمیرکی :بیشک پہلا گھر جو انسانوں کیلئے (عبادت کی غرض سے)تعمیرکیا گیاوہ ہے جو مکہ میں ہے۔(آل عمران:96)حضرت آدم علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کوخانہ کعبہ کی تعمیرے40سال بعدتعمیر فرمایا۔خانہ کعبہ سے مسجداقصیٰ1234کلومیٹرکی مسافت پرہے۔بعض مورخین کے مطابق مسجد اقصیٰ حضرت آدم کے زمانے سے حضرت نوح کے زمانے تک مسلسل آبادرہی اورحضرت نوح کے زمانے میں آنے والے طوفان کی وجہ سے وہ بھی منہدم ہوگئی۔حضرت عیسی کی آمد سے تین ہزار سال قبل اس شہرکوکنعان ے لوگوں(یبوسیوں)نے جوعرب سے آکریہاں آبادہوگئے تھے، نے آبادکیا۔اس سرزمین کانام (فلسطین) کنعان کے لوگوں سے شروع ہوااوریہی وہ لوگ ہیں جوصدیوں سے فلسطین میں رہتے آرہے ہیں۔بعض مورخین کایہ بھی مانناہے کہ ان ہی یبوسیوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنے سے پہلے مسجد اقصی کی تعمیرنوبھی کی تھی۔حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے ساتھ خانہ کعبہ اورحضرت اسحاق علیہ اسلام کے ساتھ مسجد الاقصیٰ کی تعمیرنوکی۔

حضرت اسحاق علیہ اسلا م کی اولادبعدمیں یہودی اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد آگے جاکرمسلمان ہلائے گئے جبکہ یہاں اس کی وضاحت کرناضروری ہے کہ ہرنبی نے دینِ اسلام کاپیغام دیا اور خودکومسلمان کہالیکن یہودیوں نے یہودہ قبیلہ کے نام پرخودکویہودی کہناشروع کردیااورحضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں نے اپنے پیغمبرعیسی علیہ السلام کے نام پرخودکوعیسائی کہناشروع کردیا ۔ حضرت اسحق علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مسجد اقصیٰ کاخوب خیال رکھا،آپ کے بیٹے جلیل القدرپیغمبرحضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کالقب اسرائیل تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے تیرہ بیٹے تھے،جن میں سے ایک حضرت یوسف علیہ السلام تھے،جنہیں اللہ نے بہت سے فضائل بخشے اوروہ بہت ہی خوبصورت نوجوان تھے۔اقرآن میں ان کا کافی تفصیل سے ذکرموجودہے جس میں ہم سب کیلئے بہت سبق آموزپندونصائح ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ہی زمانے میں حضرت یعقوب علیہ السلام اوران کی اولاد (یعنی بنی اسرائیل) مصرآ کرآباد ہوئے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے چند سو سالوں بعد اللہ نے اپنے پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بچانے مصر میں بھیجا،آپ کو حضرت یعقوبعلیہ السلام کی اولاد کو بچانے اوربنی اسرائیل کی ہدات کیلئے بھیجا گیا تھا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے واپس فلسطین جانے کیلئے نکلے اوریہ سفرحضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں مکمل ہوا۔حضرت داؤدعلیہ السلام نے پھرسے مسجد اقصیٰ کی تعمیرکو شروع کرایا،جوکھنڈرات میں تبدیل ہوچکی تھی۔حضرت داؤد علیہ السلام اپنی وفات سے قبل یہ کام مکمل نہیں کرپائے اوروفات پاگئے۔ان کے بیٹے پیغمبرخداحضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی تعمیرکو جاری رکھا اوراس تعمیرکوآپ ہی نے مکمل فرمایا۔

587قبل مسیح میں عراق کے بادشاہ بخت نصرنے یروشلم پرحملہ کیااورمسجداقصیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجادی، یہودیوں کے مذہبی صحیفے نذر آتش کردیئے اورایک لاکھ سے زائدیہودی مردوزن اوربچوں وقیدی بناکراپنے ساتھ بابل لے گیا۔پھرکچھ عرصے بعد بخت نصری حکومت کوزوال آ گیا،اورایران کے بادشاہ خورس نے بابل وفتح کرکے تمام بنی اسرائیل کو آزاداوریروشلم واپس جانے کی اجازت دے دی۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے نام سے منسوب منبرآج بھی مسجدکے احاطے میں موجودہے۔حضرت عیسٰی علیہ السلام اوران سے متعلق بہت سے اہم مقامات یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کوآسمان پراٹھایاجانے والا مقام بھی مسجد الاقصیٰ کے ساتھ ہی موجودہے اوراس واقعے کے70سال گزرجانے کے بعد مسجداقصیٰ پرروم ے لوگوں نے حملہ کرکے بہت تباہی اوربربادی پھیلائی۔صرف مسجد اقصیٰ کی چاردیواری کھڑی رہ گئی،اس ے علاوہ مکمل مسجدمنہدم ہوگئی اوریہ بنی اسرائیل پربڑاکڑاوقت تھااورخاتم النبیں ۖکی آمدتک مسجداقصیٰ اسی طرح رہی۔

مسجداقصیٰ کاذکر قرآن کریم میں یوں کیاگیاہے کہ :وہ(ذات)پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کومسجدالحرام یعنی(خانہ کعبہ)سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی(قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والاہے۔ (الاسرا:1)

آپ ۖاورتمام مسلمان12سال تک مسجد اقصیٰ کی طرف ہی منہ کرکے نمازپڑھتے رہے۔حتی کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تب بھی 17ماہ تک مسجد اقصیٰ ہی کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے رہے۔اس کے بعداللہ نے مسلمانوں کواپنامنہ مسجداقصیٰ سے خانہ کعبہ مکہ المکرمہ کی طرف موڑنے کاحکم دیا۔

ایک اورموقع پرربِّ کریم نے یوں فرمایاکہ: احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر(پہلے سے چلے آتے)تھے اب)اس سے کیوں منہ پھیربیٹھے۔تم کہہ دوکہ مشرق اورمغرب سب اللہ ہی کاہے۔وہ جس کوچاہتاہے، سیدھے رستے پرچلاتاہے۔اوراسی طرح ہم نے تم کوامتِ معتدل بنایاہے، تاکہ تم لوگوں پرگواہ بنواورپیغمبر (آخرالزماںۖ)تم پرگواہ بنیں۔اورجس قبلے پرتم(پہلے)تھے،اس کوہم نے اس لیے مقررکیاتھاکہ معلوم کریں،کون (ہمارے) پیغمبرکاتابع رہتاہے، اورکون الٹے پاؤں پھرجاتاہے۔اوریہ بات(یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو)گراں معلوم ہوئی، مگرجن کو اللہ نے ہدایت بخشی(وہ اسے گراں نہیں سمجھتے)اوراللہ ایسانہیں کہ تمہارے ایمان کویونہی کھودے۔اللہ تولوگوں پربڑامہربان(اور)صاحبِ رحمت ہے۔(اے محمدۖﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیرپھیرکردیکھنادیکھ رہے ہیں۔سوہم تم کواسی قبلے کی طرف جس کوتم پسندکرتے ہو، منہ کرنے کاحکم دیں گے تواپنا منہ مسجدحرام (یعنی خانہ کعبہ)کی طرف پھیرلو ۔اورتم لوگ جہاں ہواکرو، (نمازپڑھنے کے وقت)اسی مسجدکی طرف منہ کرلیاکرو۔اورجن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے،وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیاقبلہ) ان کے پروردگارکی طرف سے حق ہے۔اورجوکام یہ لوگ کرتے ہیں،اللہ ان سے بے خبرنہیں۔ اور اگرتم ان اہلِ کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کروآؤ، توبھی یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں۔اورتم بھی ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو۔اوران میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرونہیں۔اوراگرتم باوجوداس کے کہ تمہارے پاس دانش (یعنی وحی خدا)آچکی ہے، ان کی خواہشوں کے پیچھے چلوگے توظالموں میں(داخل)ہوجاؤگے۔ (البقرہ:(142.145)

نبی کریم حضرت محمدﷺکی وفات کے چھ سال بعد مسلمانوں کالشکرمختلف ممالک فتح کرتاہوا یروشلم تک پہنچ گیا۔اس وقت وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔وہ قلعہ بندہوگئے،اورصلح کیلئے یہ شرط رکھی کہ مسلمانوں کے خلیفہ خودآئیں تووہ انہیں شہرکی چابی حوالے کریں گے۔ چنانچہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواس کی اطلاع دی گئی توآپ خودیروشلم گئے اوراس وقت وہاں پرقابض عیسائیوں سے معاہدہ کرکے یروشلم کواسلامی حکومت کے ماتحت لے آئے۔آئیے اب تاریخ ملت سے کچھ اقتباسات سے استفادہ کرتے ہیں:

یہیں اہل قدس کے نمائندے خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں حاضرہوئے اورصلح کی درخواست کی۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہ درخواست منظور کی اورحسب ذیل عہدنامہ اپنے دستخطوں سے لکھ کران کو عطا فرمایا۔
”اللہ کے بندے عمرامیرالمومنین کی طرف سے اہل ایلیا (بیت المقدس) کویہ امان نامہ دیاجاتاہے۔اہل ایلیاکی جان،مال،گرجوں،صلیبوں سب کو امان دی جاتی ہے۔بیماروں، تندرستوں اورسب مذہب کے لوگوں کویہ امان شامل ہے۔وعدہ کیاجاتاہے کہ نہ ان کے عبادت خانوں پرقبضہ کیا جائے گانہ انہیں گرایاجائے گا۔ان کے دینی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کی جائے گی اوریوں بھی کسی کوکوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔ البتہ ان کے پاس یہودی نہ رہنے پائیں گے۔اہل ایلیاکافرض ہے کہ وہ جزیہ اداکرتے رہیں اورمتحارب رومیوں کواپنے شہرسے خارج کردیں ۔ جورومی شہرسے نکلے گااس کی جان ومال سے کوئی تعرض نہ کیاجائے گاحتی کہ وہ اپنے وطن سلامتی کے ساتھ پہنچ جائے۔اگراہلِ ایلیامیں سے کوئی رومیوں کے ساتھ جاناچاہے تووہ بھی جاسکتاہے لیکن اگررومی بھی امن پسندانہ طورپررہناچاہیں توانہیں بھی ان ہی شرائط کے ساتھ رہنے کی اجازت ہے۔اس امان نامہ کی اللہ اوراس کا رسول اورآپ کے خلفااورجملہ مومنین ذمہ داری لیتے ہیں”۔

اس عہد نامہ کی تکمیل کے بعد اہل قدس نے شہرکے دروازے کھول دیے اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کاقصدکیا۔بیت المقدس کے سفر کیلئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک ترکی گھوڑاپیش کیاگیا۔آپ سوارہوئے توگھوڑاالیل کرنے لگا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اترپڑے اورفرمانے لگے:کم بخت! تونے یہ غرورکی چال کہاں سے سیکھی؟اوراپنے گھوڑے کومنگواکراسی پر روانہ ہوئے۔اس واقعہ کے بعدکبھی آپ ترکی گھوڑے پرسوارنہ ہوئے۔حضرت عمررات کے وقت بیت المقدس میں داخل ہوئے۔سب سے پہلے مسجداقصیٰ میں حاضری دی او ر محراب داؤدمیں دورکعت تحیہ المسجداداکی۔

بنوامیہ ے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسی مسجد(جوحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بنوائی تھی)اس کے اوپرایک بڑی مسجدتعمیرکروائی،اس طرح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی مسجدمکمل اس مسجدکے اندرہی آگئی اورابھی بھی یہی تعمیرقائم ہے تاہم بعدمیں مختلف اسلامی بادشاہوں نے اس ی مرمت کاکام جاری رکھا۔اس ے علاوہ انہوں نے ایک اورنہایت وسیع اور عالیشان عمارت تعمیرکی جس کانام قبۃ الصخر اہے، جوابھی بھی انہی بنیادوں پرقائم ہے۔قبة الصخراکااگنبدسنہری رنگ کاہے،اوراس کی چاردیواری نیلے اورخوبصورت پتھروں سے منقش ہے۔

1099میں مشترکہ صلیبی افواج نے پانچ ہفتوں کی مسلسل جنگ کے بعدیروشلم پرقبضہ کرلیا،اس دوران انہوں نے یروشلم میں کافی خون خرابہ کیا اور70ہزارمسلمان مردوں، عورتوں اوربچوں کوقتل کردیا۔جب یروشلم پرصلیبی افواج قابض تھیں،مسلمان ہمیشہ متفکررہتے تھے کہ کس طرح سے یروشلم کوصلیبیوں کے جابرانہ تسلط سے آزادکرایاجائے،اسی فکر کے ساتھ مسلمان بادشاہ نورالدین نے اقصیٰ کیلئے ایک بہترین منبربھی بنوایا تھا، تاکہ یروشلم کی آزادی کے موقع پراسے اقصیٰ میں نصب کیاجائے،تاہم نورالدین بادشاہ اپنے اس مبارک ارادے کی تکمیل سے پہلے اپنی نوعمری میں ہی وفات پاگئے اوریروشلم وصلیبیوں سے آزاد نہ کر اسکے۔اس کے بعدصلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے بادشاہ ہوئے،جوبہت ہی بہادربادشاہ تھے،انہوں نے پھرسے مسلمانوں کوجمع کیااورصلیبی افواج کے خلاف جنگ کی قیادت سنبھالی۔1187 میں صلاح الدین نے صلیبی افواج کو شکست دی،اور یروشلم کوایک بارپھرسے آزاد کروا لیااوراس کے بعدصلاح الدین نے وہ خوب صورت منبربھی مسجد اقصیٰ میں نصب کروادیا جو نورالدین بادشاہ نے مسجد اقصیٰ کیلئے بنوایا تھا۔بدقسمتی سے یہ منبرایک یہودی کے ہاتھوں1969میں نذرآتش ہوگیا۔تاریخ ملت سے ایک اور اقتباس” حروب صلیبیہ” کو بھی نقل کرنابہت ضروری ہے:

سلطان نے حارم پرقبضہ کرنے کے بعدفرنگیوں سے معرکہ آرائی شروع کردی۔579ھ میں فوجیں جمع کرکے فرنگی علاقہ پرحملہ کردیا۔ متواتر چودہ سال تک نصاریٰ سے جہاد کیا ۔ شام کے تمام علاقے نصاری ٰسے بہ قوت لے لیے۔بیت المقدس فتح کیا۔اسلام کے دشمن ریجی نالڈ کوقتل کیا۔دوسرے عیسائی حکمران گامی،بالڈون،والڈ،کورنتی،جوسکن وغیرہ جو گرفتارتھے،ان کی جان بخشی کی۔ اس معرکہ کے حالات تاریخ ملت کی جلدششم میں بیان کیے جاچکے ہیں۔اس زمانہ میں موصل پرحملہ کیا۔عزیزالدین نے اطاعت قبول کرلی۔

لین پول نے لکھا ہے:”جنگ مقدس خاتمہ کوپہنچی،پانچ برس کی مسلسل لڑائیاں ختم ہوئیں،جولائی1187میں مطیق پرمسلمانوں کی فتح سے قبل دریائے اردن کے مغرب میں مسلمانوں کے پاس ایک انچ زمین نہ تھی۔ستمبر1192میں جب رملہ پرصلح ہوئی توصور سے لیکریافہ کے ساحل تک بجز ایک پتلی سی پٹی کے ساراملک مسلمانوں کے قبضہ میں تھا”۔

صلیبیوں نے اپنی فتوحات کے موقعہ پرمسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیے تھے۔بیت المقدس جب نصرانیوں نے لیاہے توصرف مسجد صخرا میں 70 ہزار مسلمان قتل کیے تھے مگر جب بیت المقدس کوصلاح الدین نے فتح کیاتوعیسائیوں کومعمولی فدیہ لیکرعزت واحترام سے نکلنے کاحکم دیااوران کیلئے زیارت کی عام اجازت مرحمت کی۔غرض یہ کہ سلطان نے اپنی فوج کوآرام کرنے کیلئے ان کے وطن واپس کردیا۔چند ماہ بیت المقدس میں قیام کیا۔شہرپناہ کی مرمت کرائی۔خندق کھدوائی،شفاخانہ تعمیرکرایا۔انتظام شہرامیرعزیزالدین جردیک کے سپرد کرکے شوال 588ھ میں حج کے ارادہ سے دمشق چلا گیا۔سلطان کے اہل وعیال دمشق میں موجودتھے،وہیں اس کے بھائی ملک عادل کرک سے آگئے تھے۔ سارا خاندان نہایت امن وآرام کے ساتھ رہنے سہنے لگا۔سلطان کودمشق اس قدرپسندتھاکہ مصرجانے کاخیال بھی نہ کیا ۔

کئی سال سے سلطان کی صحت بگڑ گئی تھی، جہاد کی مساعی میں اس نے کچھ خیال نہ کیا۔ رمضان کے روزے قضا ہوگئے تھے ان کو پورا کرنے لگا جو مزاج کے موافق نہ پڑے۔ طبیب نے روکا کہ صحت کے لیے اس وقت ملتوی کردیجیے۔ سلطان نے کہا: معلوم نہیں آئندہ کیا پیش آئے؟ اور کل روزے پورے کیے۔ جس سے صحت جواب دے گئی۔ وسط صفر 589ھ میں حالت بگڑنے لگی، مرض بڑھ گیا، غشی طاری ہوگئی۔ شیخ ابو جعفر ان کے پاس بیٹھے قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے۔ 27تاریخ دو شنبہ کے دن فجر کے وقت مجاہد اعظم نے داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔

1918میں سب کچھ تبدیل ہوگیاجب ہ برطانوی حکومت نے یروشلم واسلامی حکومت سے چھین کراپنے قبضے میں لے لیااورمکمل فلسطین کواپنے زیرقبضہ لیناشروع کردیا۔برطانوی قبضے کے بعدیہودی دنیابھرسے یروشلم میں آکررہائش پذیرہوناشروع ہوگئے کیونکہ دنیابھرمیں انہیں ظلم واذیت کاسامنا تھا۔چند سالوں بعدہزاروں کی تعداد میں یہودی لوگ فلسطین میں داخل ہوئے اورفلسطین میں انہوں نے اپنے لیے جگہیں خریدناشروع کردیں،جبکہ فلسطینی مسلمان جوکہ اس سرزمین سے پراناتعلق رکھتے تھے،اورسیکڑوں سالوں سے اس جگہ بسے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے اپنی سرزمین کوچھوڑنے سے انکاکردیا۔چنانچہ اس معاملے میں لڑائیاں شروع ہوگئیں،فلسطینی اپنی زمین چھوڑنے پرتیارنہیں تھے جبکہ یہودی ان کی زمین کوزورزبردستی ہتھیاناچاہتے تھے،چونکہ یہودیوں کی فوج مسلمانوں سے بہت زیادہ طاقت ورتھی اس لیے1948میں فلسطین کی زیادہ ترزمین پریہودیوں نے قبضہ کرکے آزاداسرائیل کااعلان کردیا۔1967میں امریکاومغرب کی مددسے بھرپورجنگ کے ذریعے یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پراورمکمل یروشلم کواپنے قبضہ میں لے لیا۔ یہودی طاقت کے زورپریروشلم اورمسجداقصیٰ پر اپناحق جتاتے ہیں اورمسجد اقصیٰ ومنہدم کرکے وہاں اپناعبادت خانہ ہیکل سلیمانی(سولومن ٹیمپل)تعمیرکرناچاہتے ہیں۔ان کاکہناہے کہ ہمارے نبی داؤدعلیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام نے یہاں یہودی عبادت خانہ تعمیرکیاتھالہذاآج بھی ہم ہی اس کے زیادہ حق دارہیں کہ اس جگہ اپناعبادت خانہ تعمیرکریں۔اس وقت وہ اپنی عبادات دیوار براق کے پاس کھڑے ہو کر کر تے ہیں۔

لیکن ان کی یہ بات تاریخی لحاظ سے بھی صریحاًغلط ہے۔فلسطین پرعربوں کاحق ثابت کرنے کیلئے درج ذیل نکات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نکات اس تقریرکاحصہ ہیں جوعالم اسلام کے نیک دل حکمران شاہ فیصل مرحوم نے ایک بین الاقوامی سیمینارمیں کی تھی:یہودی فلسطین ے اصل باشندے نہیں ہیں۔-یہودی یروشلم ے باہرسے آکر یروشلم پرقابض ہوئے تھے جو فلسطین پرطاقت سے مسلط ہونے کے بعدکچھ عرصہ فلسطین میں رہے اور اس کے بعدنکال دیے گئے۔فلسطین میں ان کی ناجائزموجودگی کاعرصہ نہایت مختصررہاہے۔ فلسطین میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے لیکر اب تک بھی خالص یہودی حکومت قائم نہیں ہوئی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کوئی یہودی عبادت خانہ یروشلم میں تعمیر نہیں فرمایاتھابلکہ آپ اورآپ کے والدحضرت داؤدعلیہ السلام نے مل کراسی مسجدکی تعمیرکی تھی جوحضرت آدم علیہ السلام کے دورمیں وہاں تعمیرہوچکی تھی،جسے بعدازاں ابراہیم خلیل اللہ نے بھی واپس اس کی بنیادوں پراستوارکیاتھا۔یہ کوئی نئی تعمیرنہیں تھی بلکہ پرانی تعمیر کو دوبارہ کھڑاکیاتھا۔ فلسطین میں یہودیوں کی کبھی اکثریت نہیں رہی۔جب فلسطین سے یہودیوں کونکال دیاگیاتویہاں صرف اس کے اصل باشندے ہی رہ گئے جوشروع سے لیکرآج تک وہیں رہ رہے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ1600سال کی طویل مدت کے دوران فلسطین میں کبھی کوئی یہودی آباد نہیں رہا۔عربوں کی حکومت تقریباًساتویں صدی سے فلسطین میں رہی۔آج وہاں سینکڑوں تاریخی عمارات موجود ہیں جوعرب طرزتعمیرکانمونہ ہیں لیکن ایک بھی عمارت یہودی طرزتعمیرکی نہیں ہے۔
اس لیے تاریخی حقائق سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے كہ یروشلم یعنی فلسطین پرمسلمانوں ہی كاحق ہے،یہودی لوگ اس پراپناحق جو جتلاتے ہیں وہ سراسر دھوكا اورفریب ہے كیونکہ یروشلم میں حضرت آدم علیہ السلام نے جومسجد صرف اللہ كی عبادت کیلئےتعمیر كی تھی،وہ مسجد آج بھی اسی جگہ موجود ہے اوروہاں صرف اللہ ہی كی عبادت ہوتی رہی اوراب بھی وحدہُ لا شریک کی عبادت ہورہی ہے۔تمام انبیاء دین اسلام ہی لیکر مبعوث فرمائے گئے اوراپنے جدامجدسیدناحضرت آدم علیہ اسلام کی بنائی ہوئی مسجد ہی میں اللہ کے دین کی ترویج کافریضہ اداکرتے رہے،یہ الگ بات ہے كہ مختلف زمانوں میں یہ مسجد گرتی رہی اوراس كی تعمیرنوہوتی رہی۔ پھرسب سے بڑی گواہی تومیرے رب کی ہے جس نے قرآن میں اس کومسجداقصیٰ کہہ کرمہرلگادی ہے، تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والے یہ جانتے ہیں اوران کاایمان بھی ہے کہ رب سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا،کہہ دو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے،اسی لئےاس کو یہودیوں کا معبد (سنی گاگ) یا عیسائیوں کا چرچ نہیں کہا اوریہی دلیل ہم سب کیلئے کافی ہے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں