بات سنبھالنے والوں سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے اوراسلام آبادجوہمیشہ سے افواہوں کی زدمیں رہتاہے ،اب ہرکس تبدیلی کادعویٰ کرنے والوں کی تبدیلی کادھڑلے سے ذکر کررہاہے۔دوہفتے قبل اپنے انتہائی محترم ومشہور صحافی،اسلام آبادٹائمزکے چیف ایڈیٹراوراے پی پی کے سابق سربراہ کی دعوت پر”ففتھ جنریشن واراورپاکستانی میڈیا ”کے عنوان پرایک لیکچرکااہتمام کیاگیاتھاجہاں ملک کے نامورپریس اورالیکٹرانک میڈیاسے تعلق رکھنے والے صحافیوں،تجزیہ نگاروں ،بیوریوکریٹس،پاک فورسزکے انتہائی سنیئرریٹائرڈ جہاندیدہ افسران کے علاوہ دیگرافرادکی شرکت نے عنوان کے حوالے سے ماحول کی اہمیت کوکافی حساس بنادیاجس کاتذکرہ جناب عبدالباقی صاحب جوکہ پاکستان کے انتہائی حساس ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں اوران دنوں قلم کے شہوارہیں ،اپنے ایک کالم میں اس کا تذکرہ فرماچکے ہیں۔اس حساس موضوع پرگفتگومیں بڑی دلسوزی سے میں نے یہ مطالبہ کیاکہ بالآخراسلام آبادمیں اسلام لانے میں اب مزیدتاخیر نہ کی جائے کہ ملک کوریاست مدینہ بنانے کادعویٰ کرنے والے کب تک اس حقیقت سے چشم پوشی کریں گے ۔اسی دن کراچی میں قومی اخبارات کے ایڈیٹرزکی میٹنگ تھی لیکن مہتاب خان عباسی صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ اوصاف نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اس میٹنگ میں اپنے بیٹے کوروانہ کر دیااورخودملاقات کیلئے رک گئے اوراس طرح ان سے بھی بڑی جاندار ملاقات میں اسلاام آبادکی یخ فضاؤں میں جاری سیاست کے گرم درجہ حرارت کابھی خوب پتہ چلا۔
اسی طرح کے اورکئی حساس موضوعات پرلاہورکے کئی اداروں میں لیکچرزدینے کی سعادت ابھی تک رواں دواں ہے اورعزیزم کامران رفیق جو نوجوان نسل کی تربیت کیلئے خود شب وروز کوشاں ہیں اوران کایہ اخلاص دیکھ کرجہاں ان کی مزیدکامرانیوں کیلئے دعائیں نکل رہی ہیں کہ وہ کس خوبصورت اندازمیں نوجوان نسل میں مسکراہٹیں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کودینی اور اخلاقی اقدارسے جوڑکران کومایوسی کے طوفان سے نکالنے کاکام کررہے ہیں وہاں اس دورکے اقبال کے شاہینوں کی تڑپ اورکچھ کرنے کے جذبے کے ساتھ ساتھ اپنے جاری نظام تعلیم کے خلاف شکوہ کناں اوراپنے تمام سیاستدانوں اور دیگر رہنماؤں سے سخت مایوس نظرآرہے ہیں۔میری خواہش کے مطابق پاکستان میں میراقیام یقینا ًخاموشی سے گزرجاتا اگربرادرعزیزم فاروق بھٹی صاحب اپنی فیس بک اورسوشل میڈیامیں میری آمداورملاقات کے اعلان سے گریزفرماتے جس میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں بہت سے پرانے تحریکی دوستوں سے ملاقات کا بڑاہی خوبصورت اہتمام کررکھاتھاجہاں میرے مشاہدے میں سیکھنے کے کئی مواقع بھی میسرآئے۔
ہرروزایسے کئی پڑھے لکھے نوجوانوں سے ملاقات بھی ہورہی ہے جنہوں نے اس جاری نظام میں تبدیلی کیلئے موجودہ حکومت کواقتدارمیں لانے کیلئے شب وروزکڑی محنت کی لیکن جس تیزی سے ان کے اعتمادکوٹھیس پہنچی ہے اورجس ناامیدی کے ساتھ ان میں بغاوت کی خوفناک لہردیکھ رہاہوں اس سے مجھے یقین ہوگیاہے کہ ”کل شئی یعودالی اصلہ” ہرچیزاپنے اصل کو لوٹتی ہے،کے مصداق اب اس ملک میں اہم تبدیلی کے سیلاب کے سامنے کوئی بندنہیں باند ھ سکتا۔اس پر آشوب حالات میں اسلام آبادمیں ایک ایسے درویش الماس ایوب صابرسے ملاقات ہوئی جوبے شمار مشکلات کے باوجوددن رات اس ملک کے بچوں کومستقبل کے مسلمان معماربنانے میں جان ہلکان کررہے ہیں اورپرائمری سے لیکریونیورسٹی تک کانیٹ ورک چلانے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ بڑے ہی پرعزم ہیں کہ آئندہ اس ملک کے اقتدارکی باگ ڈورسنبھالنے سےلیکرملک کے تمام اداروں کوچلانے کیلئے راسخ العقیدہ مسلمان میسرآجائیں تاکہ اپنے رب سے”اوفوبالعہد”کی ذمہ داری پوری ہوسکے جوہم نے اس معجزاتی ریاست کے حصول کیلئے اپنے رب سے کیاتھا۔
ایک مرتبہ پھرذکراسلام آبادکاہوجائے جہاں اب ایک مرتبہ پھر ملک میں سیاسی استحکام کیلئے تگ ودوکی جارہی ہے اورپارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کی ایک کمیٹی بھی بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن پھرسے متحدہورہی ہے،زرداری، نوازشریف اوراپوزیشن لیڈ ر شہباز شریف بغل گیرہورہے ہیں اورموجودہ حکومت کے خلاف طبل جنگ بجانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔اب جہاں زرداری اورشہباز شریف ایک مرتبہ پھرسر جوڑ کربیٹھے ہیں وہاں پی ٹی آئی کے ارکان بھی اپنے وزراء کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں۔حکومت کے اتحادی مینگل پھرالگ ہونے کیلئے پرتول رہے ہیں توایم کیوایم نے اس ماحول میں اپنے ریٹ بڑھادیئے ہیں اورسیاسی ماحول اسلام آبادکی ٹھٹھرتی سردی میں بھاپ اگل رہا ہے ۔حضرت مولانا فضل الرحمان جو پہلی مرتبہ انتخابات میں مستردہونے کازخم سینے پرسجاکردوبارہ اپنی مقبولیت ریکارڈکروانے کیلئے آئے دن ملک کے چندبڑے شہروں میں ملین مارچ کااہتمام کرنے میں مصروف ہیں،اب سیاسی دنگل کابگل بجنے پربغلیں بجارہے ہیں اورعمران کی حکومت ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم” کی تصویربنی ہوئی ہے۔ اس کی سمجھ میں بات نہیں آرہی جس کے بعد”پالیسی ساز”نظام کی باگ پارلیمنٹری نظام سے صدارتی نظام کے ہاتھ پرپھرغورکرنے لگے ہیں اوریہ آوازاب سنائی دی جا رہی ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت سے بڑھ کرکامیاب صدارتی نظام ہے جو اسلام سے بھی قریب ہے توقائداعظم کی خواہش کی بھی تکمیل ہے۔
صدارتی نظام کیساہو؟سابقہ صدرایوب خان کے بی ڈی سسٹم کامحتاج ہویاجنرل ضیاء الحق کے فارمولے کے تحت،اس کی راہ ریفرنڈم کے ذریعے طے کی جائے یاایمرجنسی کی صورت میں۔ ایک حلقہ کہہ رہاہے کہ جنرل پرویزمشرف کے اپنے دورحکمرانی میں صدارتی نظام کے خدوخال جو2005ء میں ترتیب دیئے گئے تھے،اس پرکام کوآگے بڑھایا جائے جس کے تحت قانون سازی تک پارلیمنٹ کے فرائض محدودہوں۔پارلیمنٹ کے اخراجات میں تخفیف کی جاسکے اوروزراء کی ایک بڑی فوج رکھنے کی حاجت نہ رہے۔ وزیراعظم کے بغیراورایک چھوٹی سی وفاقی کابینہ کے ساتھ مکمل صدارتی نظام بآسانی چلایاجاسکے۔صدارتی نظام کے نفاذکی صورت میں صدرمملکت کومنتخب کرنے کاحق ملک بھرکے کونسلروں،ناظم،نائب ناظم کوہواور صدرکے عہدے کی معیاد پانچ برس ہو،کسی کودومرتبہ سے زائدصدارتی امیدواربننے کااختیارنہ ہواوریہ شرط بھی عائدکی جانے چاہئے کہ کامیاب قرار پانے کیلئے تمام صوبوں سے کم ازکم 33٪ووٹ حاصل کرناضروری ہوں تاکہ صدرکی نمائندہ حیثیت تمام صوبوں کی نظرمیں مسلمہ قرارپائے۔
صدارتی نظام سیاسی استحکام قائم،بلیک میلنگ ختم ہوجائے گی اورحکومت کی تبدیلی میں فوج کا عمل دخل بھی اس طرح ختم ہوجائے گا۔ملک میں سینیٹ کے ممبران کاانتخاب بھی قومی اسمبلی کی طرزپرہوناقرارپائے،اس تبدیلی کیلئے1984ءاور2002ء کی طرزپرریفرنڈم کرانے بارے میں غور ہورہاہے۔انڈونیشیاء کی طرزِ حکومت پرغورہورہاہے جس سے ملتاجلتانظام حکومت ترکی میں بھی کامیابی سے کام کررہاہے۔ ملک کے صداتی نظام کے تحت صدربننے کیلئے باخبرحلقے جون 2019ء کے بعداس تبدیلی نظام حکومت کی بات کررہے ہیں۔انہوں نے دیکھ لیاکہ کس طرح ایک دوسرے کوسڑکوں پرگھسیٹنے کااعلان کرنے اورمخالف کوظالم درندوں سے تشبیہ دینے والے سیاستدان اپنے اپنے دورحکومت میں لوٹ ماراوردھاندلی کا احتساب ہونے پرشیروشکرہوگئے۔صدارتی دورِحکومت معاشی ترقی کاپیش خیمہ ثابت ہوگا،ملکی نظام کی تبدیلی کاکام بلدیاتی نظام کی تبدیلی کے آغازسے ہوگااوربلدیہ کوضلعی ناظم کو36سے زائد سرکاری، نیم سرکاری محکموں کابے تاج بادشاہ بنایاجائے گا۔
Load/Hide Comments