Hazrat Usman Ghani ………… Oppressed of Madinah

حضرت عثمان غنی …………مظلومِ مدینہ

:Share

میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا، اگر تاریخ کہے کہ حضرت حسینؓ اوران کے خاندان کا پانی 10 دن بند رہا، تب بھی ٹھیک، اگرکوئی کہے کہ حضرت حسینؓ کا پانی 7دن بند رہا، تب بھی ٹھیک۔ میرانظریہ ہے کہ حضرت حسینؓ کا پانی بند نہ بھی کیا گیا ہو تب بھی نواسہ رسولؐ مظلوم ہے لیکن تاریخ کو چھیڑنے کی بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظرآتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شہادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شہادت بھی دکھائی دیتی ہے جس میں شہید ہونے والے کا نام حضرت عثمانؓ ہے، جی ہاں! وہی حضرت عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں، وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں، وہی عثمانؓ جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں، وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں، وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں، وہی عثمانؓ جس کی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں، وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول االلہ ﷺ کادوہرا داماد اور لقب ”ذوالنورین“ ہونے کا شرف حاصل ہے۔

یہی نہیں بلکہ خلیفۂ سوم سیدناعثمانؓ غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے۔ سیدنا عثمانؓ ذوالنورین کی نانی نبیﷺ کی پھوپھی تھیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ”السابقون الاولون“ کی فہرست میں شامل تھے۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر حضورﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمانؓ غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر مکہ کی سخت ترین جھلسا دینے والی دھوپ میں ڈال کر کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند کرکے نئے مذہب (اسلام ) کو چھوڑنے پر آزاد کرنے کی شرط رکھی تو آپ نے جواب میں انتہائی شجاعت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: چچا! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار ہوں گا۔

سیدنا عثمانؓ غنی اعلیٰ سیرت و کردارکے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے، میرا ساتھی عثمانؓ ہو گا۔ سیدنا عثمانؓ کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ رقیہؓ کا نکاح آپؓ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آ کرمسلمانوں نے حکم الٰہی اور نبی کریم ﷺ کی اجازت سے ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمانؓ بھی اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیؓہ کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثومؓ کو آپ کی زوجیت میں دیکر ”ذوالنورین “ کا لقب بھی عطا فرما دیا۔ مدینہ منورہ میں پانی کی قلت پر سیدنا عثمانؓ نے اپنے آقا ﷺ کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا اور اسی طرح غزوہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمانؓ غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔ جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نےآپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبیﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمانؓ غنی کا قصاص لیا جائے گا۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ”بیعت رضوان“ کے نام سے معروف ہے۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمانؓ غنی واپس آ گئے۔

خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓصدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر ؓ کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمانؓ غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا ۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظررکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمانؓ کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کیلئےفراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔ان کادورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف ِ عالم تک پھیل گئیں اور انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی حکومتیں روم ، فارس ، مصر کے بیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت وہیبت اور رعب ودبدبے کو برقرار اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط مستحکم اورعظیم الشان اسلامی مملکت کواستوار کیا ۔

لیکن آج ہمارے ہاں حضرت حضرت عثمانؓ کی شان اورسیرت تو بیان کی جاتی ہے،حضرت عثمانؓ کی شرم وحیا کے تذکرے کئے جاتے ہیں ان کے قبل ازاسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کی دردناک شہادت اور المناک مظلومیت کے قصہ کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔ یہی وہ سب سے بڑا ظلم ہے جو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے ۔میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ تاریخ کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں اور سیدنا حضرت عثمانؓ کی مظلومیت کا ذکر سنتے ہی “ہائے عثمانؓ” پکار اٹھتی ہے۔ میں اُس وقت دل تھام کر بیٹھ جاتا ہوں جب مجھے پتہ چلتا ہے کہ عثمان وہ مظلوم تھا جس کا 40 دن پانی بند رکھا گیا، میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے جب چشمِ تصورمیں دیکھتا ہوں کہ وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہا ہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتا تھا۔ سانس بند ہوتی محسوس ہوتی ہے جب یہ پڑھتا ہوں کہ جب حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی “ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے؟ حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو مشکیزہ لیکرعلیؓ، عثمانؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آ رہے ہیں! آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا۔باغیوں نےحضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو حضرت علیؓ نےاپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑے اور کل قیامت کے روزعثمانؓ اللہ کو شکایت نہ لگا سکیں کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہ آیا۔ کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباسؓ تھا تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھے۔

آج یہ لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے کہ اس عثمانؓ کے گھرکے محاصرے کو 40 دن گزر گئے جنہوں نے مسجدِ نبوی کیلئے جگہ خرید کر اپنے آقاﷺکوہدیہ کردی تھی لیکن آج40 دن گزرگئے اور وہ ذوالنورین کسی سے ملاقات نہیں کر سکتا جس کی محفل میں صحابہ کرام کی جماعت جوق در جوق تشریف لایا کرتے تھے۔ آج نبیﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت عثمانؓ کو 40 دنوں سے کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ نبیؐ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ چشم فلک نے یہ ظلم ہوتے ہوئے بھی دیکھا کہ آج اس عثمانؓ کی ریش مبارک کھینچی جا رہی ہے جس عثمانؓ سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔آج اس عثمانؓ پر جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ ﷺ کا محافظ تھا اور نبی اکرم ﷺ پر برسنے والوں تیروں کے سامنے سینہ سپر تھا، اس پر ظلم کی انتہا کر دی گئی جب آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ سے آپؐ ﷺ کی بیعت کی تھی۔

ہائے عثمانؓ! میں نقطہ دان نہیں، میں عالم اور واعظ نہیں جو تیری شہادت کو بیان کروں، ایسا خوش الحان نہیں جو تیری مدحت بیان کر سکوں، ایسا فصیح الکلام نہیں کہ آپؓ کی شہادت کا نقشہ کھینچ سکوں کہ سننے اور پڑھنے والوں کے دل پھٹ جائیں اور آنکھیں نم ہو جائیں۔ اس حقیقت کو کیسے بیان کروں کہ آج اس عثمانؓ کے جسم پر جس بے رحمی سے شقی القلب جہنمی نے برچھی مار کر لہولہان کر دیا گیا، جس عثمانؓ نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا۔ آج آپؐ ﷺ کی 2بیٹیوں کے شوہرکوبیدردی سےٹھوکریں ماری جارہی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمانؓ اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آ ملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔

آئیے چشم تصورمیں اس سارے معاملے کومحسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ 18ذی الحج35 ھجری ہے،جمعہ کا دن ہے، حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں، باغی دیوارپھلانگ کر آتے ہیں،ان کو برا بھلا کہتے ہوئے ریش مبارک کھینچنا شروع کر دیتے ہیں کہ اچانک ایک ناہنجار باغی پیٹھ پر برچھی مارتا ہے اور دوسرا باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے تو تیسرا ایک تلوار سے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ ک اٹ دیتا ہے۔ وہی ہاتھ جس ہاتھ سے آپؐ کی بیعت کی تھی،سامنے قرآن پر اس ہاتھ کا خون گرتا ہے تو قران بھی عثمانؓ کی شہادت کا گواہ بن گیا۔ عثمانؓ زمین پر گرپڑے تو عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؐ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں۔ حضرت عثمانؓ باغیوں کے اس بہیمانہ ظلم سے شہید ہو کر حضرت علیؓ اور نواسہ رسولؓ سے پہلے اپنے آقا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔

اس میں شک نہیں کہ مختلف فتنوں نے پہلے اموی خلیفہ کے زمانے میں قصرِ خلافت کوبری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ حضرت عثمان نے بھی مسلمانوں کوباہم خانہ جنگی سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کر دی حالانکہ اس وقت مدینے کے وفادار مسلمانوں کی جماعت آپ کے مکان پر موجود تھی اور بنو ہاشم کی تو ایک بڑی جماعت ان کی معاون و مددگار بھی تھی لیکن حضرت عثمان نے ان سب کو قسم دلا کر اپنے مسلمان بھائیوں پرحملہ سے روک رکھا تھا اور اپنے گھر بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔ دراصل وہ بھی شریعت کے حکم کی تعمیل کررہے تھے کہ:اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(بقرہ۔190)
قتال کاراستہ اختیار کرکے،اس کے بعد اگر دوسروں کی طرف سے جارحیت کا آغاز ہو تو دوصورتیں ہیں، جارحیت کا آغاز اگر کفار کی طرف سے ہو تو پھر بھی مخصوص شرائط کے تحت اس کے دفاع کاحکم ہے: لیکن اگرجارحیت کا آغاز اگر مسلمان کی طرف سے ہو تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دفاع کے طور پر بھی اپنے دینی بھائی پر وار نہ کیا جائے۔ ”اگر تو نے مجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ کو بڑھایا تو میں تجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا”(سورة المائدہ۔28)

ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے آنے والے فتنے سے جب ڈرایا تو لوگوں نے پوچھا کہ ہم کو آ پ ﷺ کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس میں اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو،پنی تانت کو کاٹ ڈالو’ اپنی تلواروں کو پتھر پر پٹک دو ،اپنے گھروں کے اندر بیٹھے رہو،اگر تم کو مارنے کیلئے کوئی تمہارے گھرمیں گھس آئے تو تم آدم علیہ السلام کے دو لڑکوں میں سے بہتر لڑکا بنو’ قتل ہو جاؤ مگر قتل نہ کرو”۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے اصول شریعت کی اتنی بڑی عملی مثال قائم کردی اوروہ حضرت آدم علیہ السلام کے بہتر بیٹا بن گئے۔

سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے کی یہ سازش درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ، یہ سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمانؓ کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمانؓ نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔آپ کی شہادت پر مدینہ میں کہرام مچ گیا ۔ حضرت سعید بن زید نے ارشاد فرمایا لوگو واجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے ،حضرت انس نے فرمایا:
حضرت عثمانؓ جب تک زندہ تھے ، تلوار نیام میں تھی ،اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی، حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا :اگر حضرت عثمانؓ کے خون کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے، حضرت علیؓ کو جیسے ہی شہادت عثمانؓ کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمانؓ سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور حافظ ابن کثیرنے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ بھی ان سے جاملیں گئے۔علامہ ذہبی نے حضرت عثمانؓ کے کمالات وخدمات کاذکران الفاظ میں کیاہے ‘ابوعمرعثمانؓ ،ذوالنورین تھے ۔ان سے فرشتوں کو حیا آتی تھی۔ انھوں نے ساری امت کو اختلافات میں پڑجانے کے بعدایک قرآن پرجمع کردیا۔وہ بالکل سچے ،کھرے ،عابدشب زندہ داراورصائم النہارتھے اور اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے تھے،اوران لوگوں میں سے تھے جن کو آنحضرت ﷺنے جنت کی بشارت دی ہے۔

خلیفۂ ثالث سید نا عثمانؓ بن عفان کی مختصر سوانح ، عادت وخصال ، فضائل ومناقب اور کارناموں اورالمناک شہادت کا ذکر یاقیامت امت کیلئے مشعل راہ بنا رہے گا اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے قتل کرنے میں شامل افراد کے جو عبرتناک انجام ہوئے ہیں کہ کس طرح قدرت نے اعدائے دین ، اعدائے صحابہ اوراعدائے سید نا عثمانؓ سے نہایت شدید انتقام لیا ۔سبائی پارٹی کے ایک ایک فرد کو عبرت ناک سزا دی خود عبد اللہ بن سبا اشق الاشقیاء جس نے دین کی تخریب، تفریق میں بین المسلمین اور حضرت عثمانؓ کی خونریزی وخو ن آشامی کا یہ سارا پروگرام بنایا تھا نہایت بری طرح آگ میں جل بھون کر واصل جہنم ہوا۔ اس کی پارٹی کا ایک ایک فرد اور حضرت عثمانؓ کا ایک ایک دشمن پاگل ہوکر ذلت کی موت مرا۔

تاہم یہ محسوس کرکےمیرے دماغ کی نسیں پھول کرپھٹنے کے قریب ہو جاتی ہیں کہ میرے آقا ﷺ کااپنے ذوالنورین حضرت عثمانؓ کا یہ خون ٹپکتا ہوا لاشہ دیکھ کراپنےرب سے کیا فریاد کی ہو گی، حضرت عثمانؓ کو اپنے دونوں بازؤں میں لیتے ہوئے دل پرکیا گزری ہو گی؟ اگر روزِ جزا کے دن سخت پیاس کے موقع پر حوضِ کوثر پر شہادتِ عثمانؓ کا پوچھ لیا گیا کہ تم تو پرسہ دینے والوں میں بھی شامل نہیں تھے تو اس دنیا میں بھلا شہادتِ عثمانؓ کا ذکر چھپانے والے کیا جواب دیں گے؟
اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی
دیا خونِ جگر صحابہؓ نے تو گلشن میں بہار آئی

اپنا تبصرہ بھیجیں