دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی توہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں توہو
اورجذبۂ عشق رسول اکرمﷺکااصل تقاضہ یہی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے فکروعمل کاپوری طرح احاطہ کرلے۔یہ بات ایمان کی ہے اورایمان کاثبوت اعمال صالح کی صورت ہی میں فراہم کیاجاسکتاہے۔سیرت پاک کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی ہمارا جزو ایمان ہونی چاہئے کہ دوررسالتِ مآبﷺتاریخ کاحصہ نہیں ہے بلکہ ساری نسلِ انسانی کیلئے قیامت تک ہدائت جاریہ ہے۔
ہمارے رسول کریم ﷺنے اسلام کوایک مکمل معاشرتی نظام بناکرنسلِ انسانی کوعطافرمایاہےاورانسانی تاریخ کاحقیقی انقلاب وہی دورسعا دت آثارہے۔رسول کریمﷺ کے وسیلے ہی سے انسانیت کودنیاکے ساتھ ساتھ حیات وکائنات کی وسعتوں کاشعور اورنسلِ انسانی کی عالمگیرمساوات کاپیغام ملا۔انسان انفرادی طورپرجس طرح مختلف مرحلوں سے گزرکرباشعورہونے کی منزل تک پہنچتاہے،نسلِ انسانی بھی مجموعی طورپرانہی مرحلوں سے گزری ہے۔ختم نبوت کااعلان پوری نسلِ انسانی کے باشعورہونے کااعلان بھی ہے،اسی لئے ہمارے حضورﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں ساری نسل انسانی کومخاطب فرمایا۔
اس طرح پوری نسل انسانی کیلئے اللہ کی ہدائت حرفاًحرفاًمحفوظ ہوگئی اوراس کے مطابق پوری معاشرتی زندگی بسرکرنے کا ایک مکمل عملی نمونہ سامنے آگیا۔”آئیڈیل”کومعاشرتی زندگی کی حقیقت بناکرپیش کردیاگیا،زندگی عملی نمونے میں ڈھل گئی۔ انسان پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ کائنات کے نظام اورانسان کی انفرادی،اجتماعی زندگی اورسماجی زندگی سب اللہ کے قانون کی گرفت میں ہیں۔کائنات کے نظام میں اللہ کی حاکمیت براہِ راست ہے لیکن ارادے اوراختیارکی صفت کی وجہ سے انسانی زندگی پراللہ تعالیٰ کی حاکمیت کانفاذانسانی ایمان واعمال کے وسیلے سے ہوتاہے۔ کائنات کانظام حیرت انگیزنظم وضبط کے تحت چل رہاہے۔وہاں کسی نوعیت کاکوئی فساد ممکن ہی نہیں،کیونکہ فسادشرک سے پیداہوتاہے اور کائنات میں شرک ممکن نہیں ۔سورة الانبیاءمیں ارشاد ہواہے:
زمین اورآسمانوں میں ایک سے زائد الہٰ ہوتے توفسادبرپاہوجاتا۔(الانبیاء:22)
فساد شرک سے پیداہوتاہے،شرک ناقابل معافی گناہ اسی لئے ہے کہ اس سے احترامِ آدمیت کی نفی ہوجاتی ہے۔انسان کے مشرکانہ افکارواعمال سے اللہ کی ذات پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ساری دنیاکے انسان بھی اگرمشرک ہوجائیں تواللہ اپنی ذات میں آپ محمودہے۔شرک سے انسانی فکرمیں، انسانی عمل میں اورانسانی معاشرے میں فسادپیداہوجاتاہے اورجہاں فسادہوتاہے وہاں امن وانصاف برقرارنہیں رہ سکتا۔انسانی معاشرے میں خیروفلاح کیلئے اورہمہ جہت ارتقاءکیلئے امن وانصاف قائم رہناضروری ہے۔
حریت،مساوات،اخوت،امانت،دیانت،صداقت اورعدالت،یہ صفات جنہیں ہم اخلاقی قدریں کہتے ہیں،یہ قدریں درحقیقت وہ قوانین قدرت ہیں جن کے نفاذسے انسانی معاشرے میں امن وانصاف کی ضمانت مہیاہوجاتی ہے۔جس فردمیں جس حدتک یہ صفات زندہ وبیداراورمتحرک ہوں گی،وہ فرداسی نسبت سے خیروفلاح قائم کرنے کاباعث ہوگااورجس معاشرے میں ایسے صالح اعمال والے افرادکی کثرت ہوگی وہ معاشرہ امن وسلامتی اورانصاف کاگہوارہ بن جائے گا۔
بیج کوکھلی فضاملے توپوری طرح پھلتاپھولتاہے۔اس پرکوئی دباؤآجائے یاوہ کسی پتھرکے نیچے آجائے تووہ نشوونماسے محروم ہوجاتاہے۔سرکاردو عالم ﷺاس اوّلین اسلامی معاشرے سے انسانی جذبات،مفادات،خواہشات اورتعصبات کے سارے پتھر سمیٹ لئے تھے چنانچہ انسانی معاشرت کاوہ باغ ایسا لہلہایا،ایسے پھل پھول لایاکہ انسانی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اس اعتبارسے دیکھئے توسیرت سرکاردوعالم ﷺکی مثال واقعی بے مثال ہے۔حضوراکرمﷺ سب سے زیادہ بااختیارتھے اورسب سے زیادہ قانون کے پابندتھے۔حضوراکرمﷺکے تصرف میں ہرشئے آسکتی تھی لیکن حضوراکرمﷺنے سب سے زیادہ سادہ زندگی بسرفرمائی۔حضوراکرمﷺکاہرفرمان قانون تھا،حضور اکرم ﷺنے سب سے زیادہ خود احتسابی کی زندگی بسرفرمائی۔ اس اعتبار سے اسلامی معاشرے کی خصوصیات بڑی منفردہیں۔اسلامی معاشرے میں تکریم کاواحدمعیارشخصی کردارہے۔
اسلامی معاشرے میں دشمن اقوم کے افرادسے بھی انصاف کیاجائے گا۔غلطی اورجرم کرنے والاسب سے پہلے خودہی اپنے جرم کااعتراف کرے گا۔اسلامی نظام میں انسانوں کی انسانوں پرحکومت کاکوئی تصورنہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں معاملات اوراشیاءکاانتظام کرنے والاہروقت ہرشخص کے سامنے اپنے اعمال اورطرزِانتظام کیلئے جوابدہ رہے گااورایسےنظام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ خود انسان کی اپنی خواہشات نفسانی بن جاتی ہیں۔سورة فرقان میں ارشادہے:تم نے اس شخص کو بھی دیکھاجس نے اپنی خواہشات نفسانی کواپناالہٰ بنالیاہے ،اب ایسے شخص کوتم راہِ راست پرکیسے لاسکتے ہو(الفرقان:43)۔یہی خواہشاتِ نفسانی معاشرتی امن وانصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداکرتی ہیں۔
معاشرتی زندگی میں انصاف سے محرومی سے فتنہ وفسادپیدا ہوتاہے اورفتنہ وفساد کی کیفیت لوگوں کے جذبات اورتعصبات کومسلسل ابھارتی رہتی ہے۔جبرکے ذریعے لوگوں کووقتی طورپرخاموش رکھاجاسکتاہے لیکن جبرکی خاموشی پھربغاوت کا طوفان بن کرنمایاں ہوتی ہے۔انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ فانی نہیں ہے۔انسانی وجودکو،انسانی ذات کو موت کے بعدبھی باقی رہناہے انسان کیلئے آنے والی زندگی ناگزیر ہے اوراس آنے والی دائمی زندگی میں کامیابی یاناکامی کی بنیاداس دنیامیں ایمانی شعورکے تحت اختیاری عمل ہوگے۔آخرت پرایمان انسان میں خود احتسابی کی صفت پیداکرتاہے۔انسانی معاشرت کے تعمیری اورتخریبی دونوں پہلونسلوں،علاقوں یاملکوں تک محدودنہیں رہتے۔
گزشتہ14صدیوں سے زائدعالمگیرسطح پرجتنی بھی مثبت تبدیلیاں ہوئی ہیں،انسانی حقوق کاجتناشعوربھی بیدارہواہے،قوموں کو اعلیٰ انسانی اقدار کے مطابق اپنانظام مرتب کرنے پرراغب کرنے کیلئے بین الاقوامی تنظیموں کے قیام کی جوکوششیں بھی ہوئی ہیں،ان ساری کوششوں کاحقیقی محور مرکزسرکاردوعالمﷺکادورسعادت آثارہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ توحیدپرایمان سازی نسل انسانی کیلئے خیروفلاح کی راہیں کشادہ کرتاہے۔
یہ پہلاسبق تھاکتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خداکا
لیکن نسل انسانی کی وحدت اوراس کی فلاح وخیرکی راہ میں رکاوٹیں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں اورحق وباطل اورخیروشر کے درمیان یہ آویزش انسانی معاشرے کی امتیازی صفت ہے چنانچہ امن وانصاف کی فضاکوفتنہ وفسادپیداکرنے والی طاقتیں برابرمکدرکرتی رہتی ہیں اورطرفہ تماشہ یہ کہ فسادپھیلانے والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کرنے والے ہیں۔ فتنہ وفسادکی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔قرآن پاک میں فتنہ پردازی کوانسانی قتل سے بھی زیادہ بڑاگناہ قراردیاگیاہے۔فرعون کو مفسدکہاگیاہے اورفسادکی شدت کوانسانی بداعمالیوں کانتیجہ بتایاگیا ہے۔تاریخ قوموں کاحافظہ اورواقعات کی ریاضی ہے۔تاریخ اپنے آپ کودہراتی رہتی ہے اوراس طرح ہم پریہ حقیقت واضح ہو تی رہتی ہے کہ اللہ کاقانون بدلانہیں کرتا۔حیات وکائنات کا نظام انسانی معاشرے کے مختلف اجزاءپرمشتمل ہے،ان میں منقسم نہیں ہے،ہم نےعملًاًاسے منقسم کردیاہے ۔
عبادات الگ،معاملات زندگی الگ اورہم اس ارشادِقرآنی کوبھول جاتے ہیں کہ ایک سے زیادہ الہٰ ہوں گے توفسادہوگا۔ہمارے ہادی برحق ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں ہم اہل ایمان پریہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ جووہاں موجودتھے وہ اس پیغام کوان لوگوں تک پہنچائیں جووہاں موجود نہیں تھے۔یہ ایک عالمگیرذمہ داری تھی۔اس کے ساتھ قرآنِ کریم نے ہم پراجتماعی طورپر”خیر امت”اور”امتِ وسط”ہونے کی ذمہ داری بھی ڈالی ہے۔اللہ کا ارشادہواہے: حق کی منکرقوتیں ایک دوسرے کاساتھ دعوت دیتی ہیں،تم اگرایسانہیں کروگے توبڑافسادبرپاہو جائے گا”۔ (سورة انفال :73)
” علامہ اقبال نے امت مسلمہ کویہی ذمہ داری یاددلائی ہے:
دنیاکوہے پھرمعرکۂ روح وبدن پیش
تہذیب نے پھراپنے درندوں کوہے ابھارا
اللہ کوپامردیٔ مومن پربھروسہ
ابلیس کویورپ کی مشینوں پربھروسہ
تقدیرِامم کیاہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہوتوکافی ہے اشارہ
ایمان کی توانائی فردمیں اورقوم میں،دونوں میں خوداحتسابی کی صفت پیداکرتی ہے۔ہم اس صفت سے ایک طویل عرصے سے عالمگیرسطح پرمحروم ہیں اوراس محرومی نے ہمیں اس توانائی سے بھی محروم کردیاہے جسے اقبال نے مومن کی فراست کی اصطلاح سے تعبیرکیاہے،اس کے باوجودعالمی سطح پرامن وانصاف کے قیام کیلئے ہماراملی کردارکلیدی اہمیت رکھتاہے۔ جب تک وہ کرداراداکرنے کے قابل نہیں ہوں گے،عالمگیرسطح پرامن وانصاف قائم نہیں ہوسکتااوراپنی اس بے بسی کیلئے ہم اللہ کے حضورجوابدہ بھی ہوں گے اوراس کردارکی ادائیگی کی راہ جذبہ حب رسولﷺسے ہی منورہوسکتی ہے کیونکہ نبی اکرمﷺکی ذات ہی حاصلِ حیات وکائنات ہے۔
ہونہ یہ پھول توبلبل کاترنم بھی نہ ہو
چمن دہرمیں کلیوں کاتبسم بھی نہ ہو
نہ یہ ساقی ہوتوپھرمے بھی نہ ہوخم بھی
نہ ہوبزمِ توحیدبھی دنیامیں نہ ہوتم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کااستادہ اسی نام سے ہے
بزمِ ہستی تپش آمادۂ اسی نام سے ہے
رہے نام میرے رب کاجس نے میرے نبیﷺکوسب جہانوں کیلئے رحمت بناکرمبعوث فرمایا!