سلطان محمد فاتح نے29مئی1453ءکوفتح قسطنطنیہ کے بعدمسجدآیاصوفیہ کوبیزنطینوں کے قبضے سے چھڑایااوراناطولیہ کے قلب سے اسلام مخالف طاقتوں کویہ واضح پیغام دیاکہ اسلام اب پوری قوت اورشان وشوکت سے اپنی عظمت رفتہ کوبحال کرے گا۔ اس سے قبل دمشق اوربغدادکئی صدیوں تک اسلامی خلافت کے مراکزتھے۔یکم فروری1925ءکوایک اسلام بیزار ،لبرل،آمرنے اس عظیم مسجد کوعجائب گھرمیں تبدیل کرنے کااعلان کردیا۔ مسجد کی صفوں اورقالینوں کوپھاڑکرپھنک دیا گیا،مسجدسے متصل سلطان فاتح کے قائم کردہ مدرسے کومسمارکردیاگیا،مسجدکوروشن کرنے والی بڑی بڑی قندیلوں کوبجھا دیاگیا،اس مدرسے کوخلافت عثمانیہ کی پہلی جامعہ ہونے کااعزازبھی حاصل ہے۔اتاترک کے کارندوں نے مسجدکے میناروں کو بھی نہیں چھوڑالیکن اس خوف سے کہ کہیں پوری مسجد نہ گرجائے،کچھ میناروں کوباقی رکھا۔
کمال اتاترک کے یہ سارے اقدامات اسلامی تہذیب وثقافت کے آثارکومٹانے اوراسلام کے مقابل قوم پرستی کے رجحان کو پروان چڑھانے کے ناپاک عزائم کاحصہ تھے۔اس نے عثمانی عربی رسم الخط کورومن میں تبدیل کردیا،عربی زبان میں اذان اور حجاب پر پابندی عائدکردی،سیکڑوں مساجدکوبندکردیا ۔ کمال اتاترک نے اناضول(اناطولیہ)پربرطانوی اورفرانسیسی قبضے کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے قانون سازی میں آزادی کافائدہ اٹھاکرعثمانی آثارکے خلاف کھلی جنگ شروع کردی تاکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت،قوم پرستی،لبرل ازم کوفروغ اوراپنی آمریت کومستحکم کرسکے۔تین دہائی بعدعدنان مندریس نے جب ان اسلام مخالف اقدامات کوروکنے کی کوشش کی،عربی زبان میں اذان کوبحال کیاتو فوج نے اسے پھانسی دے کریہ پیغام دیاکہ کسی بھی اسلامی شعائرکوبحال کرنے کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔
ترکی نے بڑے نشیب وفرازدیکھے ہیں،ان حالات میں اسلامی شعائرکومٹانے کی ہرممکن کوشش کے باوجوداسی معاشرے سے ایک بطل جلیل نجم الدین اربکان نے سیاسی جدوجہد اورحکمتِ عملی کے ساتھ مدارس،مساجداورجامعات کے ذریعے اسلام کیلئے فضاکوسازگارکیا۔ستّر،اّسی کی دہائی میں اردوگان اسی جماعت کاحصہ تھے تاہم بعدمیں انہوں نے اپنے استادنجم الدین سے مختلف راستہ اختیارکیا۔بہت سادہ ہے وہ شخص جویہ خیال کرتاہے کہ اردوگان کاآیاصوفیہ کودوبارہ مسجدکے طورپربحال کرنے کافیصلہ مسیحیت اوراسلام،مسجداورکلیساکے درمیان مخاصمت کی بنیادپرہےبلکہ حقیقت میں یہ عمل ترکی کودوبارہ اسلامی شعائر،تہذہب و ثقافت اوراپنی اصل بنیادوں پراستوارکرنے کی دوررس حکمتِ عملی کاحصہ ہے۔
اردوگان ترکی کی عثمانی تاریخ اورعصرحاضرکی سیاسی حرکیات کابخوبی ادراک رکھتے ہیں۔انہیں معلوم کہ ہے کہ ترکی کی بقا اوراستحکام اسلام سے وابستہ ہے اوراس مقصدکودرست حکمتِ عملی اورمتوازن پالیسیوں کے ذریعے حاصل کیاجاسکتاہے ۔امت کے اس عظیم رہنمانے ترکی کواسلامی نہج پرواپس لانے کے عمل کاآغازکردیاہےجس پراتاترک نے پابندی عائدکردی تھی۔ اردوگان کی ماضی کی تقاریرکااگرجائزہ لیاجائے تواس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ آیاصوفیہ کی بحالی کابہت پہلے ہی سے عزم رکھتے تھے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اردوگان کے پہلی مرتبہ جیل جانے کااصل سبب ترکی کے شاعر’’ضیا مو قلب‘‘کے درج ذیل اشعارکواپنی تقریرمیں پڑھناتھا:
مینارہماراہتھیارہیں
گنبدہماراحفاظتی حصارہے
مسجدیں ہماری فوجی بیرکس ہیں
مومنین ہمارے سپاہی ہیں
اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اردوگان نیاعثمانی خلیفہ ہے جوماضی کی طرف ہرحال میں لوٹناچاہتاہے بلکہ وہ جدیدجمہوری ترکی کا ہی حصہ ہے،اس کے پیش نظرترکوں کوبیدارکرنااوردنیاکے سامنے ایک موثرطاقت کے طورپرپیش کرناہے۔وہ نہ صرف ایک مدرسہ کاطالبعلم ہے بلکہ جامعہ سرمرۃ کے اکنامکس اینڈ مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ کاگریجویٹ اورترکی میں اسلامائزیشن کےاحیاءکے بانی اربکان کاطالب علم بھی ہے۔اردوگان آیاصوفیہ کومسجدکے طورپربحال کرنے کے اس عمل کومساوات کااظہار سمجھتے ہیں جس کوانہوں نے اپنے منصوبے کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچایا۔وہ ایک عملیت پسندسیاستدان ہیں،وہ طاقت کے توازن اورسیاست کی رکاوٹوں سے بخوبی واقف ہیں جس نے ان کے استاداربکان کاراستہ روکا،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام سیکولرازم پرقائم ہے۔یہی وجہ ہے انہوں نے اپنی جدوجہدکامرکزآمرانہ اورفوجی بالادستی کوکمزورکرنے اوراسےغیرجانبدار، جمہوری اورعوامی رائے کے احترام پرمبنی نظام کی تشکیل کی طرف مبذول کیاجہاں عقیدے،عبادات اور اظہارکی آزادی حاصل ہو۔
آیاصوفیہ کی بحالی نے عالم اسلام میں قانون کی حکمرانی کے بیانیہ کونئی روح دی۔ وسیع پیمانے پراسلامی دنیانے اس تاریخی فیصلے کوبڑی دلچسپی سے پڑھااور سوشل وڈیجیٹل میڈیاپربڑے شوق سے اسے دیکھا۔اس خبرکوعالمی سطح پربڑی اہمیت دی گئی۔شایدیہی وجہ ہے جس نے قاہرہ،ریاض،ابوظہبی اوردیگر عرب دارالحکومتوں میں صف ماتم برپاکردیا۔سعودیہ جو کبھی سلفی نظریہ، عدم رواداری کاداعی تھا،اب مذہبی رواداری کاداعی بن گیاہے۔ان دونوں ممالک کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ کہیں کوئی ان دونوں سے اسلامی دنیاکی سیاسی سیادت اور چودراہٹ نہ چھین لے اوران کی پوزیشن کوچیلنج نہ کر دے ۔ایسالگتاہے کہ ترکی اورسعودیہ دونوں مخالف راستوں پرچل پڑے ہیں،ایک اسلامی تاریخ سے اپنے منقطع رشتے کو استوارکرناچاہتاہے،دوسراحرمین شریفین کوعلامتی طورپرباقی رکھ کراسلامی شعائر،تہذیب وثقافت اور اسلامی اقدارسے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہےگویاکہ وہ کوئی بوجھ ہیں۔سعودی معاشرے پرمغرب کی اخلاق باختہ کلچراورروایات کوبزور مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دوسری جانب اردوگان آیاصوفیہ کے گنبدوں سے اذان کی صدابلندکروارہے ہیں۔ سعودیہ جوپہلے ہی کوروناسے متاثرہے ایک انگریزی میگزین کیلئے عریاں اورفحش ماڈلوں کے فوٹوسیشن کاانعقاد مدینہ منورہ اور مزاررسولﷺسےچندکلومیٹرکی دوری پرکررہاہے۔
دوسری جانب ترکی اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اوراسلامی خلافت کے قیام کیلئےجدوجہدکررہاہےجبکہ عرب ممالک اپنے مفادات کیلئے نیتن یاہوسے خفیہ اورعلانیہ اتحادکررکھاہے۔امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی،بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں پرمجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اورجب اردوگان نے بیت المقدس کے نام سے اجلاس بلایاتو ابنِ سلمان ابن زیداورسیسی اس اجلاس میں نہ صرف غیرحاضررہے بلکہ دوسروں کوبائیکاٹ کرنے کیلئے ورغلایا۔ان ممالک نے اپناروحانی،سیاسی اوردینی وقارکھوکرترکی کیلئے اسلام کے مرکزکے طورپرابھرنے کاموقع فراہم کیاہے ۔ یہ عرب ممالک ہرقسم کے دینی رجحان کودبانے میں مصروف ہیں۔
ان کامقصدصرف مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقتوں کودباناہےلہٰذایہ اس مقصدکے حصول کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔یہ ممالک انتشار اوربگاڑپیداکرنے کے منصوبے پرعمل پیراہیں جیساکہ لیبیا،یمن، عراق، ملائیشیا،پاکستان اور صومالیہ وغیرہ میں کیاجارہاہے۔دوسری جانب امریکا، یورپ اورہندوانتہاپسندوں سے دوستی کی جارہی ہے۔یہ ممالک مسلمانوں کیخلاف نسلی،علاقائی اورمذہبی تفریق پیداکرنے کی کوشش کررہے ہیں،مسلمانوں کوانتہاپسند،دہشتگرد، اور نجانے کیاکیانام دے رہے ہیں۔بہرحال فطرت اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے،موجودہ خلاکوپُرکرنے کیلئے کوئی آگے بڑھ رہا ہے۔عرب دنیاکی ٹوٹ پھوٹ، انتشاراوراسلامی اقدارسے دوری کے اس موقع پرترکی اسلامی قیادت کے صف میں آگے بڑھ رہا ہے اوربھرپورقوت سے اپنی اسلامی شناخت حاصل کررہاہے اورپوری دنیاکے مسلمانوں کے مفادکیلئے کام کررہاہے۔اردوگان کے ترکی کی جھلک ملاحظہ فرمائیں:
2013ءمیں ترکی کی کل ملکی پیداوارایک ٹریلین سوملین ڈالرتھی جوکہ مشرق وسطیٰ کی مضبوط ترین تین اقتصادی قوتوں یعنی ایران،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مجموعی پیداوارکے برابرہے۔اردگان نے سالانہ تقریبا 10پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو111نمبرسے 16 نمبرپرپہنچادیاجس کامطلب ہے کہ دنیاکی20بڑی طاقتوں جی ٹوئنٹی کے کلب میں شامل ہوگیاہے۔ اردگان نے47/ ارب کابجٹ خسارہ پورا کیااوراس کے ساتھ ساتھ گذشتہ جون میں بدنام زمانہ ورلڈ بینک کے قرضے کی 300 ملین ڈالرکی آخری قسط بھی اداکردی۔صرف یہی نہیں بلکہ ترکی نے ورلڈ بینک کو5 /ارب ڈالرقرضہ دیا۔مزید برآں ملکی خزانے میں 100/ارب ڈالرکااضافہ کیاجبکہ اس دوران بڑے بڑے یورپی ممالک اورامریکا جیسے ملک قرضوں،سود اورافلاس کی وادی میں حیران وسرگرداں ہیں۔ اردگان نے ترکی کودنیاکی مضبوط ترین اقتصادی اورسیاسی قوت بنانے کیلئے 2023 کا ہدف طے کیاہے۔
استنبول اب یورپ کاسب سے بڑاایئرپورٹ ہے۔اس میں یومیہ 1260پروازیں آتی ہیں۔مقامی ایئرپورٹ کی صبح کی630 فلائٹس اس کے علاوہ ہیں۔ترک ایئرلائن مسلسل تین سال سے دنیاکے بہترین فضائی سروس ہونے کااعزازحاصل کررہی ہے۔ 6سے10سالوں کے دوران ترکی نے2 بلین 770 ملین درخت جنگلات اورپھل داردرختوں کی شکل میں لگائے ہیں۔اپنے دور حکومت میں ترکی نےپہلابکتر بندٹینک، پہلاایئر کرافٹ، پہلا ڈرون اورپہلاسیٹلائٹ بنایاہے۔یہ سیٹلائٹ عسکری اور بہت سے دیگرامورسرانجام دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔اردگان نے10سالوں کے دوران 125 نئی یونیورسٹیاں،189 سکول ،510 ہسپتال اور1لاکھ 69 ہزارنئی کلاسیں بنوائیں تاکہ طلبہ کی تعدادفی کلاس21سے زیادہ نہ ہو۔گزشتہ مالی بحران کے دوران جب امریکااوریورپ کی یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھادی تھیں مگراردگان نے حکم نامہ جاری کیاکہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم مفت ہوگی اورسارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ترکی کی بھرپورکوشش ہے کہ 2023تک علمی تحقیقات کیلئے3لاکھ سکالرزتیار کیے جائیں۔ترکی میں تعلیم اورصحت کابجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ ہے۔یہاں استادکی تنخواہ ڈاکٹرکے برابرہے۔10سال پہلے ترکی میں فی کس آمدن 3500ڈالرسالانہ تھی جوبڑھ کر11ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح فرانس کی فی کس شرح آمدن سے زیادہ ہے۔اس دوران ترکی کرنسی کی قیمت میں 30 گنا اضافہ ہوا۔ ترکی میں تنخواہوں اوراجرتوں میں300 فیصداضافہ ہواہے۔مزدورکی کم ازکم تنخواہ 340 لیرہ سے بڑھ کر 957 لیرہ ہوگئی ہے۔ کام کی تلاش میں پھرنے والوں کی شرح 38فیصد سے گھٹ کر2فیصدہوگئی ہے۔
ترکی حکومت نے توانائی اوربجلی کی پیداوارکیلئےکوڑے کی ریسائکلنگ کاایساطریقہ اختیارکیاجس سے ترکی کی ایک تہائی آبادی مستفید ہورہی ہے۔ترکی کے شہری اوردیہی علاقوں کے98فیصدگھروں میں بجلی پہنچ چکی ہے۔ ترکی میں35 ہزار ٹیکنالوجی لیب بنائی گئی ہیں جہاں لاکھوں ترک نوجوان عالمی معیار کے مطابق تربیت حاصل کرکے ملک کے اندر اوربیرون ملک زرمبادلہ کمارہے ہیں۔ ترکی کی برآمدات میں پہلے نمبر پر گاڑیاں اوردوسرے نمبر پر الیکٹرانک کا سامان آتا ہے۔یورپ میں بکنے والی الیکٹرانک اشیاء میں ہرتین میں سے ایک ترکی کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔10سال قبل ترکی کی برآمدات 23/ ارب ڈالرتھیں،اب اس کی برآمدات153/ارب ڈالرہیں۔ کوروناوبا کے دوران یورپ نے ریکارڈتعدادمیں وینٹی لیٹر اوردیگرمیڈیکل سپلائی سامان ترکی سے خریداجس کی ترسیل اب بھی جاری ہے۔
اہم ترین سیاسی کامیابیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اردوگان نے قبرص کے دونوں حصوں میں امن قائم کیااورکردکارکنوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے ذریعے خون خرابے کوروکا۔آرمینیاکے ساتھ مسائل کوسلجھایا۔یہ وہ مسائل ہیں جن کی فائلیں گذشتہ 9 دہائیوں سے رکی ہوئی تھیں۔ عرب سیکولرزکی جانب سے اسرائیل کے ساتھ ترکی کی دوستی کاجوشوشہ چھوڑا جاتاہےاس کاعالم یہ کہ غزہ جانے والے جہاز پرجب اسرائیلیوں نے حملہ کیاتوترکی نے اسرائیل کوبھرپورطمانچہ رسیدکیا اورنہ صرف اسے معافی مانگنے پرمجبورکیابلکہ غزہ سے محاصرہ ختم کرنے کی شرط بھی عائدکی۔2009ءمیں ہونے والی ڈیوس اقتصادی کانفرنس میں جب اسرائیلی صدرپیریز نے غزہ پرحملے کاجوازپیش کیااورلوگوں نے اس پرتالیاں بجائیں تویہ اردوگان ہی تھاجس نے تالیاں بجانے والوں پرشدیدتنقیدکی اوریہ کہہ کراس کانفرنس سے اٹھ گئے کہ” تمہیں شرم آنی چاہیے کہ ایسی گفتگوپرتالیاں بجاتے ہوحالانکہ اسرائیل نے غزہ میں ہزاروں بچوں اورعورتوں کی جانیں لی ہیں۔
جہاں تک عرب تنظیموں اوراداروں کاحال ہے توان کی ندامت کیلئے ان کی اپنی کوتاہیاں،کمزوریاں اوربداعمالیاں ہی کافی ہیں۔کیا پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کادعویٰ کرنے والوں نے کبھی سوچاکہ کوالمپورملائشیاکانفرنس امت مسلمہ کے دو رہنمائوں سے وعدہ کرنے کے باوجود میں شرکت نہ کرکے پاکستان کیلئے کس قدرشرمندگی کاسامان مہیاکیا۔اردوگان نے تو آیا صوفیہ کومسجد میں تبدیل کرکے اسلام کی عظمت رفتہ کوبحال کرنے کاعزم کیالیکن آپ نے اسلام آبادمیں شرک کرنے کیلئے مندربنانے کی مددکا اعلان کیا۔وعدہ خلافی کرکے عرش سے فرش پرآگرے۔