From Darkness to Light: The Story of a Region

اندھیروں سے روشنی تک: ایک خطے کی داستان

:Share

آج یہ محفلِ فکراس لیے آبادہے کہ زمانہ اپنے اوراق بدل رہاہے،دنیاطاقت کی نئی کروٹ لے رہی ہے،اورممالک کے فیصلے اب صرف ایوانوں میں نہیں، بلکہ عالمی دباؤ،اقتصادی چابک اورسیاسی جبرکی بھٹی میں تپ کرسامنے آتے ہیں۔قوموں کی تقدیرکبھی کبھی ایک قطرہ تیل سے بندھ جاتی ہے،اورکبھی ایک غلط فیصلہ انہیں صدیوں پیچھے دھکیل دیتاہے۔آج ہم جس منظرنامے پرنگاہ ڈال رہے ہیں،اس کے خطوط صرف بھارت کی سیاست تک محدودنہیں،یہ پوری خطّے کی صبح وشام سے تعلق رکھتاہے۔

دنیانے دیکھاکہ جب مغرب کے ابرِگماں نے دہلی کے آسمان کوڈھانپا،جب واشنگٹن کی آنکھوں میں شک کی چمک پیداہوئی،توبھارت نے روسی تیل کی شاہراہ پراپنے قدم ڈگمگاتے محسوس کیے۔وہ خریداری جوکبھی بہتے دریاکی مانندتھی،اب قطرہ قطرہ کم ہوتی چلی گئی۔بلوم برگ کی رپورٹ نے گویاوہ آئینہ دنیاکے سامنے رکھ دیاجس میں دہلی کی نئی مجبوری صاف جھلک رہی تھی۔یوں بھارت اور روسی تیل—ایک بجھتی شمع کی داستان کوساری دنیانے سن لیا۔

جب مغربی دنیاکی آنکھوں میں شک کی سرخی اورواشنگٹن کے ایوانوں میں پابندیوں کی سرگوشیاں بڑھنے لگیں توبھارت کی سیاسی نبض بے ترتیبی سے دھڑکنے لگی۔مغربی دنیاکے دبیز بادل،پابندیوں کے خدشات اورواشنگٹن کی سردآہنی نگاہ نے جب دہلی کے صحن پرسایہ کیاتوبھارت نے روسی تیل کی ندی میں اپناچراغ گل کرناہی مناسب سمجھا۔

روسی تیل،جوکل تک بھارت کی اقتصادی روح کی مانندتھا،اب کسی گناہ کی طرح محسوس ہونے لگا۔وہ خریداری،جوکبھی یوں رواں تھی جیسے گنگا کناروں پر شام کی پوجا،اچانک مدھم پڑگئی اوردنیانے محسوس کیاکہ دہلی اب ماسکوکے نغموں سے نیم جان ہوتاجارہا ہے۔اپنے ہی فیصلوں کی الجھن میں بھارت نے ماسکو کی راہ سے قدم سمیٹناشروع کیے،اوروہ خریداری جوکبھی دریاکی طرح بہتی تھی،اب نالی کی دھاربن کررہ گئی۔یہ صرف تجارت نہیں تھی،بلکہ طاقت کی شاعری تھی جوخاموشی سے اپناوزن بدل رہی تھی۔

امریکی جریدہ بلوم برگ نے وہ خبرلکھی جس نے دہلی کے ایوانوں میں برپامعاشی زلزلے کاپردہ چاک کردیااورمودی جنتالاکھ کوشش کے باوجودچھپانے میں ناکام رہی۔بلوم برگ اپنی روایت کے مطابق شفاف آئینے کی مانندخبرلایاکہ دسمبر کیلئے روسی خام تیل کے سودوں میں بھارت نے نمایاں کمی کردی ہے۔ گویا بازارِسیاست میں کوئی پوشیدہ لرزش بھارتی قدموں میں درآئی ہو۔دسمبرکی روسی خریداری،جسے بھارت نے ہمیشہ ترجیح دی،اب ہاتھ سے یوں پھسل رہی ہے جیسے کوئی خوف زدہ انسان جلتی ہوئی لکڑی چھوڑدیتا ہے۔دنیانے سمجھ لیاکہ دہلی کے فیصلے اب خودمختارنہیں رہے؛کوئی اورہاتھ اس کے قلم کوچلارہاہے۔

پانچ بڑی ریفائنریوں کی خاموشی،جوہمیشہ کی طرح ماسکوکی طرف اپنے آرڈرروانہ کرتی تھیں،اس بار رک گئی۔یہ خاموشی سیاست کی چیخ تھی؛مودی کاتکبریہ خوفناک شوردنیابھرکی سماعتوں سے جاٹکرایاکہ بھارت کے فیصلے اب آزادنہیں رہے۔اسی شفاف آئینے کے ایک اوررخ پریہ انکشاف بھی جھلملایاکہ بھارت کی پانچ بڑی آئل ریفائنریاں،جوہرماہ کی دسویں تاریخ سے قبل روس کواپنے آرڈر بھیجنے میں دیرنہیں لگاتیں تھیں،اس بارموت کی خاموشی میں گم ہوگئیں، جیسے کسی نے ان کے ہاتھوں سے قلم چھین لیاہو،متحرک زندگی کوموت نے آدبوچاہویا حالات نے انہیں نئے فیصلوں پرمجبورکردیاہو۔یہ خاموشی محض کاروباری مصلحت نہیں تھی؛یہ خوف اورمجبوری کی گواہی بھی تھی۔سیاست کی زبان میں بعض اوقات خاموشی سب سے بلندچیخ ہوتی ہے۔

ادھرہندوستان کی سرکاری ریفائنری آئی اوسی نے اعلاناًدہلی کی سیاست کانیارخ واضح کیاکہ اب وہ صرف وہی روسی تیل خریدے گی جوپابندیوں کے دائرے سے باہرہو۔گویاسیاسی بھنورمیں تیرتی ایک کشتی نے اپنارخ بدل لیاہو،محض اس خوف سے کہ سمندری طوفان کہیں اس کے توازن کوتہہ وبالانہ کردے۔

یہ اعلان نہیں،اعتراف تھا۔یہ وہ لمحہ تھاجب ایک بڑی ریاست نے اپنے فیصلوں پرباہرکے ہاتھوں کاسایہ محسوس کیااوراوپرسے امریکی ٹیرف،وہ بھی پچاس فیصدگویااقتصادی کوڑے کی ایسی ضرب،جس نے دہلی کے نہ صرف پیرہلادیے بلکہ جلاکررکھ دیئے۔ اس پس منظرمیں صدرٹرمپ کے کلمات کسی آندھی کی گرج کی مانندتھے۔انہوں نے کہاکہ بھارت اچھاتجارتی شریک نہیں،اورماسکو سے اس کی تیل کی خریداریاں یوکرین کے میدانِ جنگ کوایندھن فراہم کرنے کے مترادف ہیں۔

اس پس منظرمیں ٹرمپ کے جملے دہلی کے کان میں نہیں،اس کی سیاست کے رگ وپے میں اترگئے۔یہ گویاایک اخلاقی وسیاسی فردِ جرم تھی جس پردنیاکی نظریں جم گئیں۔یہ جملہ نہیں تھا،ایک سفارتی فیصلہ تھا،اورفیصلہ بھی وہ جوقوموں کوپابندِسیاست بنادیتاہے۔یاد رہے کہ روس سے تیل خریدنے پرامریکا نے بھارت پرپچاس فیصد ٹیرف عائد کرکے یہ پیغام دیاتھاکہ اقتصادی دنیامیں دوکشتیوں پر سواررہناممکن نہیں۔ایک طرف واشنگٹن کی لوہے کی صورت فشار،دوسری جانب ماسکوکی توانائی کادریا—بھارت ان دونوں کے درمیان پھنسانظرآیا۔

آئی او سی کی طرف سے یہ بیان کہ ہم صرف غیرپابندی یافتہ سپلائرزسے روسی تیل لیں گے،درحقیقت ایک سیاسی اعتراف تھا۔یہ انکارنہیں تھا؛یہ نیم قبولیت تھی کہ مودی بھیڑیاجوشیر کی کھال پہن کرخطے کے ممالک پرگرج رہاتھا،ٹرمپ کے بیانئے کے سامنے گیدڑکی طرح دم دباکرعالمی دباؤکے سامنے نہ صرف جھکنے پرمجبوربلکہ اوندھے منہ گرکرخاک چاٹنے پرمضبورہوگیا ہے جیسےکوئی سپاہی ڈھال تورکھے مگرتلوارمقابل کے قدموں میں گرادے۔

امریکاکابھارت پر50فیصد ٹیرف لگاناگویااس معاشی داستان کاسب سے سخت باب تھا۔یہ اعلان نہیں،بلکہ چابک تھااوروہ بھی ایسے وقت پرجب بھارت خود کوعالمی منڈیوں میں ابھرتی طاقت سمجھنے لگاتھا۔یوں محسوس ہوتاہے کہ واشنگٹن نے دہلی کے کان میں وہ جملہ پھونکاجوغلامی کے عہدمیں بھی حکمران سنایا کرتے تھے”فیصلہ ہماراچلے گا،تم صرف حکم کی تعمیل کروگے”۔امریکی ٹیرف کی ضرب نے بھارت کے ایوانوں میں ہلچل مچادی،اوربالآخرمودی نے واشنگٹن کویقین دہانی کرائی کہ روسی تیل کی راہیں اب رفتہ رفتہ بندکی جائیں گی۔جیسے کسی بڑے حلیف کے سامنے چھوٹے شریک کواپنادامن صاف دکھاناپڑتا ہو۔ٹرمپ کے کلمات نہ صرف ایک تنبیہ تھے بلکہ بھارت کی پالیسیوں پرایک تیشہ بھی جوپوری دنیانے سنااوریہ جملے بھارت کی سفارتی کتاب کے حاشیے اور مودی کے متکبر چہرے پرسیاہ داغ کی طرح ثبت ہوگئے۔

یہاں سوال یہ اٹھتاہے کہ کیامودی سرکارکی پالیسیوں کے نشیب وفرازنے خودبھارت کومعاشی بھونچال کے دہانے پرلاکھڑاکیاہے؟ دانشورحلقوں میں یہ آوازسنائی دیتی ہے کہ غلط فیصلے، سفارتی بے تدبیری اورحماقت سے لبریزجارحانہ بیانیہ کسی بھی قوم کی اقتصادی بساط الٹنے کی سکت رکھتاہے۔

بھاری ٹیرف کے دباؤکے بعدبھارت نے وہی کیاجوکسی کمزورریاست کیلئےناگزیرہوتاہے یعنی یقین دہانی دے دی کہ روس سے تیل کے دروازے بندکیے جارہے ہیں۔یہ وہ مقام تھا جہاں بھارت نے اپنی خودمختاری کے بجائے مجبوری کواپنامشیربنالیا۔انہی پالیسیوں کے بطن سے وہ ہولناک صورتِ حال بھی جنم لیتی ہے جس کاحوالہ مئی2025ءکے عسکری تناؤمیں بھی کھل کرسامنے آگیا۔جنگی تصادم، چاہے مختصرہویاطویل،کسی بھی ریاست کے سیاسی پنداراور عسکری اعتمادپرگہری ضرب لگاتاہے۔بھارتی طیاروں کی تباہی اوراس پرعالمی سطح پرہونے والے تبصرے،خواہ کسی بھی زاویے سے دیکھے جائیں،دہلی کے عسکری منصوبہ سازوں کیلئےسوالیہ نشان چھوڑگئے۔اس کے باوجودپاکستان کے خلاف دوبارہ کشیدگی کی فضاقائم کرنااس امر کی غمازی کرتاہے کہ شایدمودی جیسامتعصب اور اس کے جنگی مافیاہندی سیاست دان تاریخ کے مکتب سے وہ سبق سیکھنے کوتیارنہیں جوشکست اورشرمندگی رقم کرچکی ہے۔

یہ سوال آج دہلی کے ہرمحقق اورہراقتصادی مبصرکے ذہن میں گردش کررہاہے۔مودی سرکارکی پالیسیوں میں جارحیت زیادہ اور حکمت کم ہے اوریہ سوال بھی آج ہردانشورکے ذہن میں بجلی کی مانندلپکتاہے کہ کیاخودمودی حکومت کی نادانیاں بھارت کی معاشی تپش کی ذمہ داراورگراوٹ کاسبب ہیں؟کیامودی پالیسیوں نے خودبھارت کومعاشی دلدل میں دھکیل دیاہے؟بازاروں میں بے چینی، سرمایہ کاروں میں بے اعتمادی،اورسیاسی دباؤکے سامنے باربارجھکنا—یہ سب کچھ کسی بڑے معاشی طوفان کی آمدکاپتہ دیتاہے۔ جارحیت کانشہ،سفارت کی کمزوری،اورپڑوسیوں کے خلاف مسلسل محاذ کھولنے کی روش—یہ وہ راہ ہے جس پرچلنے والے آخرکار تھک بھی جاتے ہیں اورڈوب بھی جاتے ہیں۔یہی وہ طرزِعمل ہے جس کے ثمرات آج دہلی کوشک،خوف اوراقتصادی بے بسی کی شکل میں بھگتنے پڑرہے ہیں۔قومیں تباہی سے تب دوچارہوتی ہیں جب ان کے رہنماحقیقت کے بجائے خوابوں پرحکومت کرنے لگیں۔

ان حالات میں مودی حکومت کاجنگی مافیااگردوبارہ حماقت کرنے پرآمادہ ہوتویہ محض سیاسی نادانی نہیں،بلکہ قومی خودکشی کے مترادف ہوگی۔خودبھارتی ریٹائرڈ جرنیلوں کااعتراف کہ’’اگر بھارت نے نئی جنگ چھیڑی توٹوٹ بھی جائے گااوربربادبھی ہوگا‘‘۔ دراصل دہلی کے ایوانِ اقتدارکیلئےوہ آئینہ ہے جس میں مستقبل کی شکست کاعکس صاف دکھائی دیتاہے مگرافسوس کہ بعض حکمران آئینہ دیکھنے کی بجائے اسے پردے سے ڈھانپ کرمطمئن ہوجاتے ہیں۔

دنیاکی سیاست کبھی جامدنہیں رہی۔کبھی طاقت کے ایوانوں میں ایک پھونک پڑتی ہے توبراعظموں کے نقشے بدل جاتے ہیں،اورکبھی کسی صدرکے ایک جملے سے پوری معیشتیں کانپ اٹھتی ہیں۔انہی گردابوں کے بیچ آج بھارت کی سیاسی بساط بھی ایسے الٹ پھیر سے گزررہی ہے جس نے دہلی کے چانکیائی ذہن کو بھی متحیربلکہ انتہائی مشکل میں مبتلا کر دیا ہے۔

جنگ—تاریخ کی وہ کتاب جس کاہرصفحہ خون سے لکھاجاتاہے۔ہمارے سامنے وہ تجزیات اوربیانات بھی ہیں جن میں بعض مبصرین نے مستقبل کے ممکنہ تصادمات کونمایاں کیا۔جنگ کاباب ہمیشہ تلخ ہوتاہے—چاہے کسی بھی ملک کیلئےہواورعسکری شکستوں یا ناکامیوں کی خبریں،خواہ مبالغہ ہوں یاتحقیق کا نتیجہ،دلوں میں وہ لرزہ پیداکرتی ہیں جوقوموں کوسوچنے پرمجبورکردیتا ہے۔جنگ کاہر باب تلخ ہوتاہے۔مئی2025ءکاعسکری تصادم—تاریخ کاچبھتا ہواوہ شرمناک سبق ہے جس نے بھارت کی عسکری قیادت کاوہ ساراپردہ چاک کردیاجووہ برسوں سے چھپائے بیٹھی تھی۔طیاروں کی تباہی،عالمی سطح پر ہونے والی جگ ہنسائی،اورطاقتورحلیفوں کی ملامت — سب کچھ دہلی کی عسکری منصوبہ بندی کی کمزوریوں کوبے نقاب کرگیالیکن حیرت یہ ہے کہ شکست کے باوجودبھارت کی سیاسی قیادت نے وہ عاجزی نہیں اپنائی جوہوش منداقوام کوبچالیتی ہے۔

کیامودی حکومت دوبارہ جنگ کی حماقت کرسکتی ہے؟یہ سوال آج سب سے اہم ہے۔یہ سوال آج نہ صرف پاکستان بلکہ خودبھارت کے سنجیدہ حلقوں میں گردش کررہاہے۔جوقیادت داخلی کمزوری،بیرونی دباؤاورمعاشی بے چینی کاشکارہو،وہ کبھی کبھاراپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئےجنگ کاسہارالیتی ہے۔ تاریخ میں یہی قوموں کی تباہی کاآغازرہاہے۔اگرکسی بھی ریاست میں جنگی مافیاسیاست پرغالب آجائے توسمجھ لیجیے کہ تباہی دستک دے رہی ہے۔اوراگر عقل ودانش سیاست سے رخصت ہوجائیں،توپھر جذبات قوموں کیلئے پچھتاوے کےآنسوؤں سے آگے کچھ نہیں چھوڑتے۔

دنیاکے عسکری مبصرین نے بارہاکہاہے کہ جنوبی ایشیامیں جنگ کبھی حل نہیں،ہمیشہ مسئلہ ہی بنتی ہے اورخودبھارت کے ریٹائرڈ جرنیلوں نے اس پرمہرثبت کردی ہے کہ اب بھارت کاباپ بھی پاکستان سے جنگ نہیں جیت سکتا بلکہ اگر نئی جنگ چھیڑی گئی تو ریاست ٹوٹ بھی سکتی ہے اوربربادبھی اوریوں محسوس ہوتاہے کہ بھارت میں 32سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں مودی کے ہاتھوں انڈیا کم ازکم دودرجن حصوں میں تقسیم ہوکررہے گااوریہ تمام علیحدگی کی تحریکیں اپنی منزل مرادپالیں گی اور جس طرح دنیاکی ایک سپرطاقت سوویت یونین نصف درجن حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اس کے مقابلے میں ہندوستان کی حقیقت کیا ہے اوریہ محض الفاظ نہیں؛ یہ تاریخ کامنعکس شدہ عکس ہے۔جنگیں ملکوں کوبڑانہیں کرتیں—صرف قبریں بڑی کرتی ہیں۔بھارتی ریٹائرڈ جرنیلوں کاواضح اعتراف محض رائے نہیں،ایک عسکری حقیقت ہے۔جنگیں نعروں سے نہیں جیتی جاتیں؛عقل،حکمت اورتدبرسے جیتی جاتی ہیں۔اوریہ تینوں آج بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت سے کوسوں دوردکھائی دیتے ہیں۔مودی حکومت کاجنگی مافیااگردوبارہ سراٹھانے کی کوشش کرتاہے تویہ سیاسی حماقت ہی نہیں مودی کے ہاتھوں یہ ایسی خود کشی ہوگی جس کے اثرات نسلوں تک رقم ہوں گے۔

قوموں کاراستہ جنگ کے دھوئیں نہیں،امن کی روشنی سے بنتاہے۔ہم اس خطّے کے رہنے والے ہیں جس نے پہلے ہی بہت دکھ سہے، بہت زخم اٹھائے۔یہ سرزمین امن،حکمت، صلح اورترقی کی متقاضی ہے۔جنگیں وہ لکیرہیں جوقوموں کودوحصوں میں بانٹ دیتی ہیں مگرامن وہ دریاہے جوسب کوایک پل میں جوڑدیتاہے۔قائدین آتے رہتے ہیں،حکومتیں بدلتی رہتی ہیں،مگرقوموں کی زندگی اس روشنی سے بنتی ہے جوحکمت،انصاف اورامن کے آسمان سے اترتی ہے اوریہی پیغام آج بھی ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔

یادرکھیں،قیادت اگرتدبرسے خالی ہو،عقل سے دورہو،طاقت کے نشے میں بدمست ہو،جنگ کوکھیل سمجھ لے یااپنے عوام کوجنگ کی آگ میں دھکیل کر اپنے اقتدارکیلئے اس مکروہ عمل کیلئے جنگ میں دھکیل دے توایسی قیادت قوم کاسرمایہ نہیں—قہرہوتی ہے۔اور تاریخ یہ کہتی ہے کہ جنگیں لیڈرنہیں جیتتے… قومیں ہارتی ہیں۔سرحدیں نہیں جلتی…گھرجلتے ہیں۔آج وقت ہمیں پکاررہاہے،تاریخ ہمارے دروازے پردستک دے رہی ہے،اورخطّے کامستقبل ہماری عقل،تحمل،اوربصیرت کے فیصلوں پرقائم ہے۔جنگیں راستے نہیں بناتیں،جنگیں راستے بندکرتی ہیں۔امن راستے کھولتا ہے۔حکمت قومیں بناتی ہے اور عقل قوموں کوبچاتی ہے۔آج ہم میں سے ہرشخص پر فرض ہے کہ جنگ کے دھویں میں مستقبل نہ تلاش کرے؛بلکہ امن کی روشنی میں راستہ دیکھے۔یہ خطّہ جنگ کامتحمل نہیں،بلکہ یہ خطّہ امن کامستحق ہے۔

آج دنیاکاہردانشور،ہرجرنیل،ہرمبصریہ کہہ رہاہے کہ جنگ نئی بساط نہیں بچھاتی،پرانی بساط الٹ دیتی ہے۔جنگ کافیصلہ بندکمروں میں نہیں،قوموں کے ضمیرمیں ہوتاہے اورضمیرکہتاہے ، عقل کواپناؤ،فتنوں کی آگ نہ بھڑکاؤ۔

اب میں براہِ راست مودی کے جنگی مافیاسے اورہندوستان میں بسنے والے لوگوں کومخاطب کرناچاہتاہوں کہ تاریخ تم سے وعدہ مانگتی ہے اورمستقبل تمہارے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔فیصلہ آج دومیں سے ایک ہے،یاتوطاقت کے گھمنڈمیں آگ بھڑکائی جائے یاعزت،حکمت اورامن کے ساتھ دنیامیں سراٹھا کرچلاجائے۔قومیں جنگ سے نہیں…اتحادسے بنتی ہیں،سرزمینیں توپوں سے نہیں…

انصاف سے بچتی ہیں،خوشحالی خون سے نہیں…عقل سے جنم لیتی ہے۔اس خطے کوجنگ نہیں،امن کی ضرورت ہے،مزیدزخم کی نہیں بلکہ مرہم کی ضرورت ہے،اندھیروں کی نہیں، روشنی کی ضرورت ہے۔یہ وقت جنگ کانہیں،غیرت کے ساتھ امن کاہے۔لیکن اگر مودی کواب بھی سیندورکے سیندورکو بھڑکانے کی خواہش ہے تویادرکھے کہ پاکستانی قوم اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح کھڑی ہے اورجوقوم گرج کراٹھتی ہے،اسے کوئی طوفان شکست نہیں دے سکتا۔

اب میں اسی مضمون کے تناظرمیں غیوربلوچی نوجوانوں سے مخاطب ہوناچاہتاہوں:
اے بلوچستان کی دھرتی کے غیورنوجوانواورنونہالوں:
تم وہ چراغ ہوجن کی لوپہاڑوں کی وسعت سے بھی اونچی اورسمندرکے سینے سے بھی گہری ہے۔تمہاری رگوں میں اس سرزمین کی خنک ہوابھی دوڑتی ہے اوراس کے گرم لہوکی حرارت بھی۔ تمہاری تاریخ صدیوں کے صحرامیں کھڑے اس قدیم درخت کی مانندہے جوطوفانوں میں بھی جھکانہیں،جس کی جڑیں صبر،غیرت اوروقارمیں پیوست ہیں۔دنیاآج کروٹیں بدل رہی ہے۔طاقتیں نئے دائرے کھینچ رہی ہیں،اوروقت کی آندھیاں کبھی کبھی سچ اورفریب کے بیچ لکیردھندلادیتی ہیں۔ایسے میں نوجوان ذہن سب سے زیادہ آزمائے جاتے ہیں۔یہی وہ گھڑی ہے جب شعورتلواربنتاہے،اوربصیرت ڈھال۔یادرکھو—جوقومیں اپنی منزل کاچراغ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں،وہ سفرمیں بھٹک جاتی ہیں۔راستے ہمیشہ وہی دیکھ پاتے ہیں جن کی نگاہ اپنی دھرتی کے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔

بلوچ نوجوانو،
تم وہ نسل ہوجس کے دل میں پہاڑوں جیسی غیرت،سمندرجیسی وسعت اورصحراکی ہواجیسی آزادی بسی ہوئی ہے۔تمہاری تاریخ بہادری،وفاداری اور عزتِ نفس کی وہ عظیم داستان ہے جس نے ہمیشہ اس خطے کووقاربخشامگرآج کازمانہ پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ،تیزرفتاراوربے رحم ہے۔دنیابدل رہی ہے، طاقتیں اپنے رخ تبدیل کررہی ہیں،اورعالمی سیاست ایسے دائرے کھینچ رہی ہے جن کے اثرات دوردرازکے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ایسے میں تمہاری نسل پرپہلے سے بڑھ کرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ تم صرف جذبات نہیں—بلکہ دانش،شعوراور بصیرت سے فیصلے کرو۔

تمہاری دھرتی دولت سے مالامال ہے؛تمہاراکل،تمہاراہنر،تمہاری تعلیم وہ کنجی ہے جوآنے والی نسلوں کے دروازے کھول سکتی ہے۔ تمہاری اصل طاقت تمہاری یکجہتی ہے—وہ یکجہتی جوریگزاروں میں بکھرے ریت کے ذروں کوبھی آندھی بننے کی قوت دیتی ہے۔ تمہاری قوت تمہاری تعمیرہے،تمہاری سوچ تمہاری معراج،اورتمہاری امن پسندی تمہاری پہچان۔یہ سرزمین اب مزیدزخموں نہیں—مرہموں کی طلب گار ہے۔مرہم علم ہے،ہنرہے،محبت ہے، اوروہ اعتمادہے جوقومیں خودپرکرتی ہیں۔تمہارے ان اوصاف کودشمن تباہ کرنے کیلئے اس لئے درپے ہے کہ اسے خوداپنے ملک کی32علیحدگی پسندتحریکوں نے مشکل میں ڈال رکھاہے اور وہ اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے تمہیں جھوٹے خواب دکھارہاہے۔

آج کانوجوان اگراپنے مستقبل کامعماربنناچاہتاہے تواسے سب سے پہلے یہ جانناہوگاکہ بیرونی دنیاکاہراشارہ خیرکانہیں ہوتا۔قومیں تب کمزورپڑتی ہیں جب ان کے نوجوانوں کے دلوں میں شکوک پیداکردیئے جائیں،اوروہ اپنی راہ خود تلاش کرنے کی بجائے دوسروں کے الفاظ کی گونج میں فیصلہ کریں۔اپنے راستے کاانتخاب تمہیں خودکرناہے—اپنی عقل،اپنے ضمیر اوراپنی اجتماعی بھلائی کو سامنے رکھ کر۔دنیامیں کہیں بھی کوئی قوم تب آگے نہیں بڑھتی جب وہ کسی اورکے اشاروں پرجیے؛ترقی ہمیشہ ان لوگوں کامقدربنتی ہے جواپنے قدم خوداٹھاتے ہیں۔

بلوچ نوجوانو،تمہاری دھرتی وسائل کی امیر،تہذیب کی شانداراورمستقبل کی روشن صلاحیتوں سے بھری ہے۔تمہارے ہاتھ علم سے مزین ہوں،تمہاری سوچ تعمیرسے سرشارہو،اورتمہاری کوششیں اپنی سرزمین کیلئے وہ بنیادرکھیں جوآنے والی نسلوں کومستحکم راستہ دے۔تمہاری طاقت تمہارے اختلاف میں نہیں،بلکہ تمہاری یکجہتی،تمہاری تعلیم اورتمہارے کردارمیں ہے۔

وقت تمہیں آوازدیتاہے کہ اپنے اندرکے اندھیروں کوشکست دو،اپنے حوصلے کوآسمان کاہم قدم بنادو،اوراپنی دھرتی کیلئے وہ سمت تراشوجس پرکل کے چراغ روشن ہوں۔طاقتوروہ نہیں جوتلوار اٹھائے،بلکہ وہ ہے جوآئندہ نسلوں کیلئے امیدکا دروازہ کھولے۔اٹھو،کہ تمہارے قدم اس مٹی کاحوصلہ ہیں۔ اٹھو،کہ تمہاری فکرمستقبل کی بنیادہے۔اٹھو،کہ بلوچستان تم سے روشنی مانگتا ہے اورروشنی ہمیشہ اُنہی دلوں سے پھوٹتی ہے جوخواب دیکھنے اورانہیں تعمیر کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ تمہاری دھرتی تم سے روشنی مانگتی ہے اور روشنی ہمیشہ انہی کے ہاتھ میں پیدا ہوتی ہے جومستقبل کوامیدکی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔یہ خطہ زیادہ تنازعات،نااتفاقی یاغیروں کے کھیل کامتحمل نہیں ہوسکتا۔اس کے پاس پہلے ہی بہت زخم ہیں؛اب اسے مرہم کی ضرورت ہے۔مرہم علم ہے،ہنرہے،مکالمہ ہے، امن ہے،اوروہ عزت ہے جوانسان ایک دوسرے کودیتاہے۔

میرے غیورنوجوان بلوچ بھائیوں!تم وہ نسل ہوجواگرچاہے توبلوچستان کوترقی،امن اورخوداعتمادی کی نئی مثال بناسکتی ہے۔ہردورکا سب سے مضبوط جوان وہ ہوتاہے جودشمنوں کونہیں،اپنے اندرکے خوف،جہالت اورانتشارکوشکست دے۔ وقت تمہیں آوازدے رہاہے کہ دانش کواپناساتھی بناؤ،مستقبل کواپنامیدان بناؤ،اوراپنے لوگوں کیلئے وہ چراغ بنوجوراستے روشن کرتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں