افطاری کی ایک تقریب میں شاہ صاحب سے ملا قات ہوئی،میزبان نے تعارف کروانے کی کو شش کی مگرمیں نے آگے بڑھ کران کاہاتھ تھام لیا،شاہ صاحب نے بڑی گرمجوشی سے مجھے گلے لگالیا۔”آپ توایک دوسرے کوپہلے سے جانتے ہیں۔”میں نے جواباًعرض کیاکہ ”میں شاہ صاحب کونہ صرف جانتا ہوں بلکہ دل سے ان کی قدربھی کرتاہوں۔ان کاتعلق ان چندسیاستدانوں سے ہے جو کبھی اصول پرسمجھوتہ نہیں کرتے،جنہوں نے ہمیشہ ایمانداری،خلوص اور نیک نیتی کوزادِراہ جانا،جنہوں نے ہردورمیں سیاست کوکچھ نہ کچھ دیا،اس سے وصولی کی کوشش نہیں کی۔”شاہ صاحب نے میراشکریہ اداکیااورہم دونوں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔شاہ صاحب اپنا سیاسی اتارچڑھاؤبتانے لگے ،انہوں نے سیاست کیسے شروع کی،الیکشن کیسے لڑا،کیسے وزیربنے، رشوت اورلوٹ کھسوٹ سے بچنے کیلئے انہیں کون کون سے پاپڑ بیلنے پڑے۔انہیں الیکشن میں کیسے ہروایاگیااورآخرمیں انہوں نے پارٹی کیسے چھوڑی،وغیرہ وغیرہ۔
میں نے ایک بارپھران کی ایمانداری کی تعریف کی،انہوں نے تڑپ کرمیری طرف دیکھااورٹھنڈے ٹھارلہجے میں بولے”میں اپنی اس ایمانداری،اس اصول پسندی اوراخلاص پرشرمندہ ہوں۔”میں نے انہیں حیرت سے دیکھا،وہ گویاہوئے”تجربے اوروقت نے ثابت کیااس ملک میں جن لوگوں نے کچھ کمالیاوہی صحیح رہے،جنہوں نے موقع کھودیاوہ پچھتاتے رہے،دیکھ لیں ایمانداری کاصلہ،آج میرے ہاتھ میں سیاست ہے نہ ہی مال” ۔ہم دیرتک اس شرمندگی اورپچھتاوے پرگفتگوکرتے رہے۔ شاہ صاحب نے بیسیویں مثالیں دیں،لوگ کیسے خالی ہاتھ سیاست میں آئے،وقت اورموقع سے فائدہ اٹھایا،فرش سے عرش تک جاپہنچے اورآج عیش کررہے ہیں۔احتساب کے درجنوں محکمے بنے،ان کے خلاف کیس اورریفرنس بھی دائرہوئے لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑا،ان میں سے کچھ نے دے دلا کرجان چھڑالی اورکچھ مک مکاکرکے ایک دفعہ پھرایماندارسیاستدان کاتمغہ حاصل کر چکے۔چند ایک حضرات قانون کے مورچے میں پناہ گزیں ہوئے لیکن بالآخر انہوں نے بھی وفاداریاں تبدیل کرکے جان اور مال بچا لئے اورپیچھے رہ گئے ہم جیسے بے وقوف!جن کادامن خالی تھااورخالی ہے،وہ گھاٹ کے رہے اورنہ ہی انہیں گھرنصیب ہوا۔
میرصاحب ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے۔۴۰سال اقتداراوراختیارکے کوریڈورمیں رہے،کس کس قیمتی پوسٹ اورکیسے کیسے سنہرے عہدے پررہے لیکن کیامجال کہ ایمان اورایمانداری کوہاتھ سے جانے دیاہولہندا جب ریٹائرہوئے توسرچھپانے کیلئے چھت تک نہیں تھی،جوپس اندازتھاوہ کواپریٹوبینک لے اڑا،اورزندگی انہوں نے پنشن اوردکھ میں گزاردی۔ہرصبح بیوی کے طعنوں اور اولادکے شکوؤں سے آنکھ کھلتی اوررات کوحالات کے بوجھ اورضروریات کی گرانی تلے بند ہوتی،میر صاحب نے بھی آخری زندگی پچھتاوے میں گزاری،وہ بھی کہاکرتے تھے”نیکی بندے کو وہاں کرنی چاہئے جہاں نیکی کی کوئی وقعت ہو،جس معاشرے میں ایمانداری کادوسرانام بے وقوفی ہووہاں ایمانداری سے پر ہیزلازم ہے،افسو س مجھے دورانِ ملازمت اس بات کااحساس تک نہ ہوا”۔
یہ شاہ صاحب ہوں یامیرصاحب،ہمارے معاشرے میں ایسے کرداربکھرے پڑے ہیں،ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی شاہ صاحب،کوئی نہ کوئی میرصاحب ضرورہوں گے،یہ لوگ پہلے اکثریت میں ہوتے تھے لیکن اب اقلیت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ہر آنے والا دن ایسے لوگوں کی نعشوں پرطلوع ہورہاہے،وہ لوگ جوکبھی ضمیرکوعدالت سمجھتے تھے،جنہیں محسوس ہوتا تھاسب آنکھیں بند ہو جائیں توبھی ایک آنکھ انہیں مسلسل دیکھتی رہتی ہے،جو یہ سوچتے تھے دنیاعارضی کھیل ہے اوراس کھیل میں سب کچھ ہار دینا بے وقوفی ہے اورجو یہ کہتے تھے اطمینان سے بڑی کوئی دولت اورسچائی سے بڑی کوئی طاقت نہیں،وہ لوگ اس معاشرے سے سمٹتے جارہے ہیں،یہ معاشرہ،یہ ملک ان لوگوں سے خالی ہوتاجارہا ہے،اس ملک میں ایمانداری کی زمین بڑی تیزی سے سیم اورتھورکاشکارہوتی جارہی ہے۔
جاپان میں زمین نہیں لہندا سبزہ اورہریالی بھی نہیں لیکن جاپانیوں نے ایک عجیب عادت پال رکھی ہے،انہیں گھر، دفتریادوکان کاکوئی بھی کنارہ خالی ملتا ہے وہ اس میں بیج بو دیتے ہیں،وہاں پودا لگا دیتے ہیں۔جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آپ کو گملوں میں سبزی ملتی ہے ۔میں نے ایک جاپانی سے وجہ دریافت کی تو اس نے ہنس کر کہا”ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہریالی کم ہے لہندا ہم ہریالی بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہم سبزیاں درآمد کرتے ہیں لہندا ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم ایک ٹماٹر،ایک آلواور مٹر کی چندپھلیاں ہی سہی،کچھ اگائیں،کچھ تو اپنا کھائیں۔”یاد رہے جب جاپانی جوڑوں میں کوئی غلط فہمی پیداہوجائے توصلح کے دن وہ اپنے گھرکی کوئی نہ کوئی چیزدسترخوان پرایک نعمت کے طورپرضرور سجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں این آراواورپاناماکےانکشافات نے ایمانداری،سچائی اورخلوص کا جنازہ نکال کررکھ دیااوراب یہ اوصاف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ این آر او کو اپنے لئے ایک مثال بنا کر ایسی کھلے عام لوٹ مچائی کہ الامان الحفیظ!الزمات اورانکشافات کی ایسی غلیظ تھیلی بیچ چوراہے میں رکھ دی گئی کہ قوم سکتے میں آگئی۔ان الزامات اورانکشافات میں بھی کئی آدھے سچ اور جھوٹ شامل کرکے قوم کی توجہ ان خطرات سے ہٹا دی گئی ہے جس کی آگہی سے عوام کو اپنے وطن کے بارے میں اپنے دوستوں اوردشمنوں کی تمیزہورہی تھی۔ایک ہی وارمیں اپنے تمام مخالفین کوبدنام کرنے کی بڑے زوروشورسے مہم شروع کردی گئی ہے۔حیرت اس بات پرہے کہ پاناما لیکس کاشوروغل بھی دبیزگردکے نیچے دبانے کی کوششیں بارآوردکھائی دے رہی ہیں۔ ان الزامات میں کچھ ایسے سنگین الزامات اورانکشافات بھی سامنے آئے ہیں کہ بڑی مہارت کے ساتھ ان الزامات اورانکشافات کوفی الحال دبالیاگیا ہے۔
ہمارے ملک میں پہلے ہی ایمانداری،وفاداری اورخلوص ختم ہوتاجارہاہے لہنداہمیں بھی گھروں، دوکانوں اوردفتروں میں ان ختم ہونے والی صفات کے بیج بونے چاہئے،گملوں میں اس کی پنیریاں لگانی چاہئیں۔یہ لوگ جو پچھتاوے کی سڑک پر قدم رکھ رہے ہیں ان کیلئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے ۔ہم اگر انہیں کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم ان کا حوصلہ تو ضرور بڑھا سکتے ہیں،ان کو عزت تودے سکتے ہیں،ان کی نیکی اورایمانداری کا اعتراف توکرسکتے ہیں،لوگ بجھتے چراغوں کی پھڑپھڑاتی لوبچانے کیلئے اپنے ہاتھ جلا بیٹھتے ہیں،ہم کیسے لوگ ہیں ہمارے سامنے زندگی کے بھانبھڑمیں برف کاشت کی جارہی ہے لیکن ہم خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔کوئی شخص درخت کاٹ رہاتھا،کسی راہ گیرنے احتجاج کیاتو درخت کاٹنے والے نے کلہاڑی کندھے پررکھ کر پوچھا”یہ سڑک اوردرخت تمہاراہے؟”راہگیرنے جواب دیا”نہیں ،لیکن میں یہاں سے روزگزرتا ہوں، مجھے معلوم ہے دس سال بعد میرا بیٹا بھی یہاں سے گزرے گااگر میں آج احتجاج نہیں کروں گا،اس درخت کو کٹنے سے نہیں بچاؤں گا تو کل میرا بیٹا اس کے سایہ سے محروم ہو جائے گا،یہ سڑک اس کیلئے جہنم بن جائے گی”۔
یادرکھئے!اگر ہم نے بھی ایمان اورنیکی کے ان چراغوں کی حفاظت نہ کی توہماری اولاد نیکی اوراورایمان کے الفاظ تک سے واقف نہیں ہوگی۔یہ معاشرہ یہ ملک”کامیاب”لوگوں کاملک،موقع سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کامعاشرہ ہوگا،یہ سڑک جہنم بن چکی ہوگی۔ہمیں فی الفوران لکڑ ہاروں کا محاسبہ کرناہوگاجوہمارے ملک کے تمام درختوں کوکاٹنے کیلئے کندھے پرکلہاڑیاں لئے تیار کھڑے ہیں!!!
یقین کیجئے!جب کلہاڑا(امریکا)جنگل میں درخت(مسلمانوں)کاٹنے آیا،تودرخت بولے:کلہاڑی کا دستہ (مسلمان لیڈر) ہم میں سے ہے۔
Load/Hide Comments