یوں توارضِ وطن کوچاروں طرف سے یورشوں نے گھیررکھاہے لیکن سب سے زیادہ خطرناک اورخوفناک خبریہ ہے کہ ملک میں ایک مرتبہ پھردہشتگردی کی لہرنےملکی سلامتی کیلئے ایک چیلنج کھڑاکردیاہے۔گزشتہ ماہ باجوڑمیں ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں خودکش حملے میں درجنوں افرادشہیدکردیئے گئے اور ڈیڑھ سوکے قریب زخمی ہوگئے لیکن اب بھی وہاں حالات پرسکون نہیں ہیں۔وزیرستان،ٹانک،میرعلی،میران شاہ ،وانا،بنوں،ہنگو،کرم ایجنسی اوراورکزئی ایجنسی بھی لہولہان ہے۔روزانہ وہاں سے ایسی خبریں آرہی ہیں جس کوسن کردل بہت پریشان ہے۔پھریہ خبریں بھی عام ہیں کہ کے پی کے میں ترقیاتی کام شروع کرنے پہلے ٹی ٹی پی کوان کاخاص بھتہ پہنچایاجاتاہے،تب جاکرکام شروع ہوتاہے اوریہ بات ڈھکی چھپی نہیں۔ٹی ٹی پی نے آئندہ انتخابات کوسبوتاژ کرنے کااعلان کررکھاہے۔اب ان حالات میں وہاں پرامن وامان ایک بڑاچیلنج ہے،تب جاکرانتخابات ممکن ہوسکیں گے۔اس کیلئے یقیناًہمارے سیکورٹی ادارے ملکی دفاع کیلئے ہمیشہ کی طرح قربانیوں کی ایک لازوال مثال بھی قائم کررہے ہیں لیکن یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ دشمن توچاہتاہے کہ آپ کیلئے کئی محاذ کھول دیئے جائیں اورآپ کوبالآخر تھکادیاجائے،اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان مشکل حالات میں انجام پرنظررکھتے ہوئے تدبرکے ساتھ ایسی تدبیرکے ساتھ کام لیں کہ دشمن فورسزکےناپاک ارادوں کوشکستِ فاش ہو۔دشمن توچاہتاہےکہ آپ کے آئندہ لائحہ عمل سے پاکستان کے امن وامان کواس قدر خراب کردیاجائے کہ انتخابات تاخیرکاشکارہوجائیں،جمہوریت کاسفررک جائے،معیشت کوسنوارنے کے تمام پروگرامزمیں رخنہ دڈلاجائے،سی پیک کو ایساٹارگٹ کیاجائے کہ چین سے دوری پیداہوجائے اورغیرملکی سرمایہ کاربھی بھاگ کھڑے ہوں۔ان تمام منفی اثرات کاملک بوجھ برداشت نہ کرپائے گا اور یہی ہمارادشمن چاہتاہے۔
یادرکھیں کہ افغانستان میں فی الحال جنگ ختم ہوئی ہے لیکن جنگجوتوابھی تک موجودہیں۔جنگجو کو تو کوئی بھی جنگ کا میدان چاہیے ، جنگجو اپنے لیے ٹارگٹ تلاش کر لیتا ہے،ٹارگٹ تلاش کرنا تو کوئی مشکل بات نہیں ہے، وہ تو اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے وہ تو کرنا پڑے گا، بنیادی بات یہ ہے کہ باڑ لگائی ہم نے، اس باڑ کے ہوتے ہوئے 40 ، 50 ہزار پاکستانی نوجوان افغانستان کیسے گئے؟ اور جو وہاں پر جنگ ختم ہو گئی تو 40، 50ہزار پاکستان واپس کیسے آگئے؟ یہ ایک سوال ہے، دونوں ملکوں سے افغانستان سے بھی اور پاکستان کے جو ہمارے ادارے ہیں ان سے بھی، دونوں ملکوں کے لوگ جو غیر محفوظ ہیں، اب اسی پہ ہم گزارا کرتے رہیں گے کہ ہم ان (افغان حکومت) پر الزام لگائیں گے اور وہ ہم (پاکستان)پہ الزام لگائیں گے؟
ہمیں مذاکرات بھی کرنے چاہئیں اور اس کے لیے انکوائری مشترکہ کمیشن بھی بنانا چاہیے اوربرابری کی سطح پرایسے مذاکرات کاعمل دوبارہ شروع کرناچاہئے کہ اپنے ہی دفتر میں بلاکران کو گھنٹوں انتظارکاتوہین آمیز انتظار نہ کروایاجائے۔آپ نے افغانستان کے وزیرخارجہ کی درخواست پرآپ نے طورخم کے بارڈرپرجو سہولت دینے کااعلان کیاہے،اب ضروری ہوگیاہے کہ اس برادرانہ پیشکش کے بعدمزیداقدامات اٹھائے جائیں اورکوئی ایسامیکنزم بنایاجائے کہ دہشتگردی کے عفریت کوان کے ساتھ مل کراس کا اختتام کیاجائے۔ پاکستان میں موجود لبرل، سیکولر شدت پسند اور امریکی پٹاری کے دانش فروش کابل اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی دوریوں کو دیکھ کر بغلیں بجا رہے ہیں، بڑھ چڑھ کر افغان طالبان کے خلاف کالم لکھے جارہے ہیں اور پاکستان کی تمام مصیبتوں کی جڑ کابل حکومت کو قرار دیا جارہا ہے، یہ سب پاکستان یا پاکستانی قوم کی کوئی خدمت نہیں بلکہ مزید نفرتوں کو ہوا دیکردشمن کے ایجنڈے کومضبوط کرناہے،ان کولگام دی جائے کیونکہ امارت اسلامی افغانستان ہو یا اسلامی جمہوریہ پاکستان، دونوں یک جان دو قالب ہیں، دونوں طرف محبتیں اور اخوت کا جذبہ موجود ہے۔
خدا را! دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے سختی سے روکیں، یہ دہشتگرد کسی کے ’’اپنے‘‘ نہیں ہوتے۔ ٹی ٹی پی کے نام سے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ کسی قیمت پر بھی قابل قبول نہیں ہیں، لیکن ان کارروائیوں کو کابل حکومت کے کھاتے میں ڈالنا بھی کوئی قرین انصاف نہیں ہے، اس لئے کابل اور اسلام آباد کو آپس میں بامقصد مذاکرات کرنے چاہئیں، افغانستان اور پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان کچھ ایسی انڈر سٹیڈنگ ہونی چاہیے کہ یہ ایک دوسرے کو معلومات فراہم کرتے رہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی نئی حدبندیاں مقررکرنے اور آپ کے جاری احتساب کے عمل کی بناء پر اگرانتخابات تاخیرکاشکارہوتے ہیں تواس کے پس منظرمیں ہونے والی ان قوتوں پربھی نظررکھیں جواس کی آڑمیں ملک میں منافرت اورافراتفری کومحض اس لئے ہوادیں گی تاکہ ان کے گرد احتساب کاشدیدترین تنگ گھیراختم ہوسکے،اس کیلئے ممکن ہے کہ وکلاء کی تحریک سے اس کاآغازکیاجائے اوربعدازاں ملک کے طول وعرض میں وکلاء کی حمائت میں یہ سارے جمع ہوکرملک کے امن وامان کوبربادکرنے کی کوشش کریں۔اس سلسلے میں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یقیناً عطا بندیال کے جاری کردہ آخری فیصلے یعنی نیب کے قوانین میں تمام ترامیم کوکالعدم قراردینے کے بعد”سیناریو”تبدیل ہوگیاہے۔اب یہ تووقت بتائے گاکہ نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اوردیگرجج صاحبان اپنے پیشروعطابندیال کے فیصلے کوکالعدم قراردیتے ہیں یاجزوی طورپراس فیصلے میں ترامیم فرماتے ہیں تاہم یہ توطے پاگیاہے کہ سابقہ تمام سیاستدانوں کواحتساب کی چھلنی سے گزرناہوگا ۔