Sample Kash

خوف اورموت

:Share

آج امام صاحب کی علالت کی بناء پرمیں نے فلسطینی نژادبرادرم خالدسے نمازفجرپڑھانے کی درخواست کی تومجھے نہیں معلوم تھاکہ وہ قیامت کے مناظراس سوزکے ساتھ تلاوت کریں گے کہ ان کے ساتھ ساتھ تمام نمازیوں کی ہچکی بند جائے گی۔فراغت کے بعدپتہ چلاکہ وہ غزہ سے کل ہی واپس لوٹے ہیں۔ انہوں نے کچھ اس طرح غزہ فلسطین پراسرائیلی بربریت میں خونِ انسانی کی ارزانی بیان کی تمام نمازیوں کو غمزدہ کردیا اورواقعی رمضان الکریم کے آخری عشرہ اورعیدالفطر کے ایام بالخصوص عالم اسلام نے بڑے کرب میں گزارے تھے لیکن امت مسلمہ کے بے حس حکمران امریکاکی غلامی کاطوق پہنے کانپتے رہے۔ برادرم خالدنے اس خونی جنگ کے بادل چھٹنے کے بعدکی خوفناک صورتحال اور اس قیامت صغری کاذکرجس اندازمیں سنایا،وہ توشائدکبھی بھی ضبط تحریرمیں نہ لایاجاسکے لیکن حیرت تواس بات پرہے کہ میڈیانے بھی اس کودنیاسے اوجھل رکھا۔پتہ چلاکہ اسرائیلی درندوں نے نہ صرف رہائشی بستیوں،ہسپتالوں اور ایمبولنس کے علاوہ اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کئے گئے پناہ گزینوں کے کیمپوں پربھی بمباری سے گریزنہیں کیااورسینکڑوں فلسطینیوں کوشہیدکردیابلکہ ان کی لاشوں کے ٹکڑے بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی،ان شہدامیں اکثریت عام شہری جن میں جوان مردوں،عورتوں اوربچوں کی تھی۔

پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں کے باسیوں کوخوشیوں کاایک لمحہ میسرنہیں آسکااورمسلمانوں کے مذہبی تہوارہوں یاکوئی دیگرموقع، اسرائیلی درندے بیدردی سے ظلم وستم ڈھارہے ہیں ۔حالیہ اسرائیلی جارحیت کے موقع پرشفاہسپتال اوراس کے قریب ایک پارک پر حملے میں بچوں سمیت درجن سے زائدفلسطینی ہلاک اور55 زخمی ہو گئے جبکہ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 139فلسطینی شہید ہوگئے ۔فلسطین میں طبی عملے کے ایک اہلکار ایمن شہابی اورغزہ پولیس کے آپریشن روم کاکہناہے کہ اس بے رحمانہ اور انسانیت سوزحملے کے بعدہسپتال بندہوگیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے حکم پربیوریجی مہاجرکیمپ پرزمین،سمندراورفضاسے شدید قسم کی بمباری کی گئی جس میں33 سے زائدفلسطینی مزیدشہید ہوگئے جن میں سے چھ کاتعلق خالدکے گھرانہ سے تھا۔اس دوران اسرائیل نے غزہ پر60فضائی حملے کیے جس میں حماس کے ٹی وی چینل، ریڈیو اور دیگر عمارتوں کو نشانہ بناکرکھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا۔فلسطینی حکام کے مطابق حالیہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں چارسوسے زائدفلسطینی مردوزن اوربچے شہیدکردیئے گئے۔شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں شہیدہونے والے فلسطینیوں کی تعداد135تھی اوران میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔حماس کے رہنمااورسابق وزیرِاعظم اسماعیل ہانیہ کے بیٹے کے مطابق اسرائیل نے اسماعیل ہانیہ کے گھرپربمباری کرکے اسے مکمل تباہ کردیالیکن گھرخالی ہونے کی وجہ سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔اب تک25ہزارعمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں گویاغزہ کاملبہ لاشیں اگل رہاہے۔

ان قیامت خیزمناظرمیں سب سے زیادہ خونریزدن13مئی تھاجب وحشیانہ فضائی حملوں،گولہ باری اورفائرنگ سے بلاتمیز134بے گناہ بچے،مردوزن کے پرخچے اڑادیئے گئے ۔اسرائیلی خونی درندے فوجیوں کے روپ میں معصوم بچوں،خواتین،جوانوں اوربوڑھوں کو بلاتفریق خون میں نہلاتے رہے لیکن انسانی حقوق کے علمبرداروں کو گویاسانپ سونگھ گیا اورزبانیں گنگ ہو گئیں اورانتہائی بے حیائی کامظاہرہ کرتے ہوئے کسی کواسرائیل کوتنبیہ کرنابھی مناسب نہیں سمجھا۔وسطی غزہ میں اسپتال پربھی گولہ باری کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔جیٹ طیارے شہری آبادیوں کوملبے کے ڈھیرمیں تبدیل کرتے رہے،رہی سہی صہیونی سنائپرزنے پوری کردی جوراہ چلتے ہرشہری پرگولیاں برساکرموت بانٹتے رہے۔کئی گھروں میں لاشوں پرماتم کرنے والے خودخون میں نہاگئے اورکوئی رونے والابھی نہیں بچا۔غزہ کے ہسپتالوں میں گنجائش اورادویات ختم ہونے سے زخمیوں نے تڑپ تڑپ کی جان دے دی اوردوماہ گزرجانے کے باوجوداب بھی کئی زخمی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاہیں۔

اسرائیلی ٹینکوں نے وسطی غزہ میں واقع اقصیٰ ہسپتال کونشانہ بنایاجس میں مریضوں سمیت17افرادشہیداور83زخمی ہوگئے۔خان یونس میں گھرپربمباری سے بیس افرادموقع پر شہیدہوگئے اوربعد ازاں15شدیدزخمی بھی اپنے پیاروں سے جاملے،رفاہ میں بھی فضائی حملے میں چاربچوں سمیت ایک ہی خاندان کے10/افراداسرائیلی شقاوت کا شکار ہو گئے جبکہ شجائیہ میں گھروں کے ملبے سے اب تک 68لاشیں برآمدہوئی ہیں اورابھی اس ملبے میں کتنی باقی ہیں،کوئی نہیں جانتاہم سب انسان ہیں،ہم میں سے بہت سے تواپنی آنکھیں خشک پارہے تھے مگرایسے بھی ہیں جوفلسطینی بھائی،بہنوں اوربچوں کی المناک شہادتوں پراپنے آنسوں پرقابونہیں رکھ پارہے تھے اوران کاجی چاہتاتھا کہ کوئی ایساطریقہ میسرہو کہ وہ خود کواس ظلم کے خلاف عملاًکچھ ایساکرسکیں کہ وہ بھی اپنے پیاروں سے جاملیں۔ اسرائیلی درندگی کے سب سے ہولناک مناظرغزہ کے علاقے شجائیہ میں نظرآئے جہاں کی تاریک گلیوں کے ہرگھرمیں جابجاخون بکھراہواہے اورابھی تک سیاہ دھواں کے نشانات بھی موجود ہیں۔درخت گرے پڑے اورہرقسم کے کھمبے ٹیڑھے میڑھے ہوکراپنی تباہ حالی کی داستاں اپنی زباں میں پیش کررہے ہیں۔سڑکوں پرملبے کے ڈھیراوراسرائیلی بمباری سے سڑکوں پرجگہ جگہ گڑھے اسرائیل کے ظلم وستم کاماتم کررہے ہیں۔

خالداپنے ساتھ کچھ ویڈیوبھی لایاکہ یہاں کے مردہ ضمیرمیڈیاکودکھاسکے کہ کس طرح گولہ باری میں ذراساوقفہ ہوتے ہی ایک کے بعددوسری،تیسری اورپھرلگاتارخون میں لت پت لاشیں نکالی جارہی ہیں۔ایک گلی میں لاشیں ہی لاشیں ہیں لیکن ان کے اعضا بکھرے پڑے ہیں اوربعض لاشیں توناقابل شناخت ہیں،تاہم ان کے ہاتھوں کی مہندی سے شناخت کیاگیا کہ یہ کسی خاتون یابچی کالاشہ ہے۔اگلی نکڑپرمیاں بیوی بھاگتے ہوئے جارہے تھے،باپ نے شیرخوار بچے کوسینے سے لگارکھاتھااورلاشوں پرسے گزرتے ہوئے ان کے قدم تھم جاتے تھے،زردچہروں کوکان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی،انہی ایسی جگی کی تلاش تھی جہاں زندگی محفوظ ہو۔جونہی باپ ایک دوکان کے شیلٹرکے نیچے پہنچ کراپنی بیوی کو آواز دیتاہے کہ اچانک ایک گولہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھٹتاہے جواس کی بیوی اورتین سال کی بچی کوہوامیں پرزے پرزے کرکے اڑادیتاہے ۔یہ مناظردیکھ کرمیرے ہوش وحواس جواب دے جاتے ہیں اورمجھ میں اتنی تاب نہیں کہ مزیددیکھ سکوں۔

مجھے یادہے کہ جنگ کے دنوں میں ٹی وی پرایساہی مناظردکھائے جارہے تھے کہ بمباری ہورہی تھی اورایمبولنس کاپہنچناناممکن ہورہاتھا۔لوگوں کے پاس دوہی راستے تھے،گھروں میں رہ کراپنی زندگی کی باقی ماندہ سانسیں اورگھڑیاں گنیں یاجان بچانے کیلئے بھاگنے کاخطرہ مول لیاجائے۔ بھاگنے والے اپنے روتے بلکتے بچوں کااٹھائے ننگے پاؤں کسی محفوظ مقام کی تلاش میں ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی کاکوئی راستہ نہیں ۔تین افراداپنی بوڑھی ماں کواٹھائے جا رہے تھے، جب ان سے پوچھا: کیا دیکھاہے؟ان کامختصرجواب تھا ”خوف اورموت”۔

اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک سمیت عالمی قیادت تومجرمانہ خاموشی اختیارکئے ہوئے تھے تاہم اہل غزہ کے حق میں دنیا بھرکے عوام کے سراپا احتجاج نے اسرائیل کی بربریت اورمغربی طاقتوں کی بے حسی اورجانبدارانہ رویے کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔اسرائیلی جارحیت کے خلاف مغربی کنارے کے علاقے میں ہزاروں فلسطینیوں نے بھی احتجاج کیااورغزہ کے شہریوں سے بھائی چارے اور یکجہتی کے عزم کااظہارکیا۔غزہ میں نکالی جانے والی ایک ریلی کا پولیس سے بھی تصادم ہوا ۔ مشتعل مظاہرین نے احتجاج کے دوران میں توڑپھوڑبھی کی۔حکومت فرانس بھی اسرائیل کے خلاف عوام کاغم وغصے سے معمور احتجاج کچل نہیں سکی۔یورپ کے دیگرشہروں لندن، برمنگھم،مانچسٹر،گلاسگو، ویانا، ایمسٹرڈیم اورسٹاک ہوم اورخودامریکاکے کئی بڑے شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں ۔بولیویاکے دارلحکومت لاپازمیں ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کے باہراسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔مظاہرین نے فلسطینی پرچموں کے علاوہ پلے کارڈ بھی اٹھارکھے تھے جن پرامریکااور اسرائیل کے خلاف نعرے درج تھے۔آسٹریلیاکے شہرسڈنی میں بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پرنکل آئے اوربھرپورغم وغصے کے ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایالیکن صدافسوس کہ بعض عرب ممالک سے میرے رب نے یہ توفیق ہی سلب کرلی۔

غزہ کی صورتحال پرسلامتی کونسل نے اجلاس بلایاتھا،اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کاکہناتھا:فلسطین میں بہنے والے خون کو روکناہوگا۔ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل پرزوردیاگیاکہ وہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔امریکی صدرکی اسرائیل کے حق دفاع کی بودی دلیل نے اقوام عالم کوایک مرتبہ پھربہت مایوس کیالیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے فون پررابطہ کرکیاورفلسطین میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پرتشویش کااظہارکیااورامریکاکوجنگ بندی کیلئے اپناکردارادا کرنے کوکہا۔ادھروائٹ ہائوس کے ترجمان نے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا: اسرائیل اورفلسطین کے درمیان کشیدہ صورتحال کی اصل ذمہ داری حماس پرعائدہوتی ہے کیونکہ اس نے اپنی ضد کے باعث جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنادیں۔

ادھرپاکستان اورترکی نے اسرائیلی جارحیت کو”قتل عام”قراردیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کامطالبہ کیاجبکہ نیتن یاہوکاکہناتھا:ہلاکتوں کے باوجود آپریشن جاری رہے گااوراس آپریشن کیلئے انہیں عالمی طاقتوں کی مضبوط حمائت حاصل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ حماس کی راکٹوں کی بارش نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے تمام حمائتیوں کوششدرکرکے رکھ دیااوراسرائیل بالآخرحماس ہی کی شرائط پرجنگ بندی کیلئے تیارہوگیا۔یہ سب تگ ودو فلسطینیوں کی مسلسل پامالی روکنے کی مساعی ہیں۔نہتے فلسطینیوں کاقصوریہ ہے کہ وہ اپنی ہی سرزمین کے ایک حصے میں آباد ہونے کی جدوجہدکررہے ہیں اوراپنے لئے آزادی کاحق مانگتے ہیں ، وہ حق جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیاجاچکاہے لیکن اس جدوجہدآزادی کے دوران میں اگرکبھی کبھارعدم تشدد کاکوئی واقعہ پیش آجائے توآسمان سرپر اٹھالیاجاتاہے اوراسرائیل کواپنے دفاع کے نام پرقتل عام کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں محکوم قوموں کایہ حق تسلیم کیاگیاہے کہ اگران پرپرامن جدو جہدکے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں تووہ اپنے تسلیم شدہ حقوق کی خاطرہتھیاراٹھاسکتی ہیں۔

مغربی اقوام کی طرف سے وحشیانہ تشددکی حمائت کااصل محرک تیل پرقبضہ کرنے کیلئے مشرقِ وسطی میں تسلط غیرمعمولی اہمیت رکھتاہے جبکہ اسرائیل کواس خطے کے تھانیدارکاکردار سونپ دیاگیاہے۔اسرائیل کویورپ میں جرمنی کی بھی مکمل حمائت محض اس بنا پرحاصل ہے کہ وہ ہولو کاسٹ کے الزام اوراحساسِ جرم تلے دباہواہے۔مشرقِ وسطی کے مسلمان ممالک میں مطلق العنان حکومتیں اورفوجی آمریتیں بھی عالمی استعمارکی حکمت عملی کااہم حصہ ہیں جنہیں مسلط رکھنے میں امریکانے اہم اورفعال کرداراداکیااور کسی عوامی جمہوری تحریک کوان ملکوں میں ابھرنے نہیں دیا۔اس امریکی منصوبہ بندی کانتیجہ ہے کہ آج عرب ممالک کی حکومتیں امریکاکی رہین منت ہیں،وہ کوئی صدائے احتجاج بلندکرنے کاحوصلہ نہیں رکھتیں۔

امریکااوراس کے حلیف یورپین ممالک مشرقِ وسطی میں اسرائیل کی مددسے مسلمانوں کے خلاف تہذیبی جنگ لڑرہے ہیں اورروشن خیالی کی آرائش کے باوجودان کے اندرچھپا خونی بھیڑیا نمودارہوچکاہے۔اس کے مقابلے میں عرب حکومتوں پرشرمناک بے حسی اورغفلت طاری ہے،عرب دنیاکے مسلمان حکمرانوں پریہ واضح ہوچکاہے کہ برے وقت نے امریکی سامراج نے ہمیشہ منہ پھیرنے میں لمحہ بھردیرنہیں لگائی۔

مسلم دنیاکے دوسرے ممالک میں سے پاکستان،ترکی اورملائشیابڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ایران کوبھی اس میں شامل کیاجائے اوراقوام عالم کوبرملاپیغام دیاجائے کہ ہم مسلم دنیاکی مظلوم اقوام کے دکھ دردکو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندہ اورجمہوری حکومت ہونے کے باوجوداسرائیل کامقابلہ توکیا،اس کے خلاف کسی عالمی مہم میں بھی حصہ نہیں لے پارہی۔ترکی جس نے کبھی بڑی جرأت کامظاہرہ کیاتھا،اس نے ملک سے اسرائیلی سفارتی نمائندوں کو نکل جانے کیلئے کہا۔ ادھر امریکن جوئش گروپ کے صدر روزن کی طرف گزشتہ ہفتے لکھے جانے والے ایک کھلے خط میں کہا گیا کہ ترکی کے وزیر اعظم دنیا میں اسرائیل کے خلاف بیانات دینے والے سب سے تلخ رہنما ہیں جبکہ ترکی کے وزیر اعظم اردگان کو2004 میں مشرقِ وسطی میں امن کے قیام اورترکی میں یہودی آبادی کوتحفظ فراہم کرنے کے اعتراف میں جو”پروفائل آف کرج یا جرأت ”کا ایوارڈدیاگیا تھا، امریکا میں ترکی کے سفیرنے امریکن جوئش گروپ کے صدرکو اردگان کی طرف سے ایک خط لکھا کہ وزیراعظم اردگان حالیہ قتل وغارت کے اسرائیل اقدامات کے بعد اورامریکن جوئش گروپ کی طرف سے غزہ کے بارے میں اپنائے جانے والے مؤقف کے بعد خوشی سے یہ ایوارڈ واپس کریں گے اورترک وزیر اعظم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ قبضہ، اقتصادی ناکہ بندی اورتباہی اوربربادی کی اسرائیلی حکومت کی پالیسوں سے جو اس نے اپنائی ہوئی ہیں ان سے صرف نظر کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں