پاکستان کی وفاقی وزارت قانون وانصاف کی جانب سے جاری نوٹیفیکشن میں اعلان کیاگیاکہ سپریم کورٹ کے ججوں کو ملنے والے ہاؤس رینٹ(گھروں کا کرایہ)ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس دس لاکھ روپے سے زیادہ اضافہ کردیاگیاہے لیکن انصاف مہیاکرنے والے کسی ایک جج نے بھی پاکستان کی ابترمعاشی حالت کوسامنے رکھتے ہوئے ان الاؤنسزمیں اضافے پرایک لفظ تک نہیں کہا۔کسی میں تواتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ لاکھوں کے اضافے سے انکارکر دے۔ گھروں کا اتناکرایہ95فیصد پاکستانیوں کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔کرایے کی مدمیں ساڑھے تین لاکھ روپے کون اداکرتاہے؟
اس ملک میں یہ عجیب مذاق ہے۔ججوں کیلئےگھرکے کرائے کی مدمیں الاؤنس کو65ہزارروپے سے بڑھاکرساڑھے3لاکھ روپے کر دیاگیاجبکہ جوڈیشل الاؤنس کودس لاکھ روپے سے زیادہ کر دیا گیاہے جبکہ غریب کےپاس کھانے کوکچھ نہیں،مڈل کلاس کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں،ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے،قابل نوجوانوں کے پاس روزگارنہیں۔بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق2015ء سے لیکر2024ءکے ابتدائی پانچ مہینوں تک مجموعی طورپر62لاکھ20ہزارسے زائد پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑچکے ہیں۔بیوریوآف امیگریشن کے مطابق صرف 2023ء میں8لاکھ23ہزارنوجوان اور2024ء میں اب تک8لاکھ95ہزارنوجوان پاکستان کوخیرآبادکہہ چکے ہیں لیکن دوسری طرف تقریباً ہرسال ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ججز کو ملنے والی نئی مراعات اور دیگر الاؤنسز کے مطابق ایک جج کی ماہانہ تنخواہ 20 لاکھ روپے سے زیادہ ہو گئی ہے۔
ادھر پارلیمان میں 26ویں ترمیم کی منظوری لیکر طوفانی رفتار سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججوں کی 34 تک کرنے کا بل منظورکرویا گیا جبکہ اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 25 کرنے کی منظوری دی تھی۔ اب ان قوانین کی منظوری کے فوری بعد من پسند ججز کی تقرری کے بعد ان کو نوازنے کیلئے شاہانہ مراعات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اِس وقت سپریم کورٹ میں ججزکی تعداد19ہے جس میں سے17مستقل جبکہ2ایڈہاک جج ہیں۔بظاہرحکومت نے اپنے اس اقدام کی بنیادی وجہ عدالتِ عظمیٰ میں ہزاروں کی تعدادمیں زیرِالتوامقدمات کونمٹاناہے۔سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت عدالتِ عظمیٰ میں زیرالتوامقدمات کی تعداد60ہزارسے زیادہ ہےجبکہ ساری قوم اس حکومتی اقدام کو”اعلیٰ عدلیہ”کے ججوں کو دباؤمیں لانے اورمن پسندافرادکوسپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سوچی سمجھی سازش قراردیتے ہوئے پریشان ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پراپنی بے بسی اوراپنے حقوق کاخون تلاش کرے۔ان مراعات کااعلان کرتے ہوئے زیادہ بہترتویہ تھاکہ قوم کویہ بھی بتایاجاتاکہ سپریم کورٹ کے ججزکوحکومت کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ کیاکیاسہولیات اور مراعات ملتی ہیں؟
پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ اس وقت تقریباًساڑھے12لاکھ روپے ہے۔وزارت انصاف وقانون کے گزشتہ برس جولائی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق سپریم کورٹ کے باقی ججزکی ماہانہ تنخواہ تقریباً گیارہ لاکھ بنتی ہے۔سپریم کورٹ ججزلیو،پینشن اینڈپریولیجز آرڈر1997 کے مطابق سپریم کورٹ کے ججزکوماہانہ تنخواہ کے علاوہ سرکاری گھربھی ملتاہے ۔سرکاری گھرنہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ کے جج کوکرائے کے گھرمیں رہنے پرماہانہ کرائے کی مدمیں الاؤنس دیاجاتاہے۔گھرکے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ججزکے گھرمیں استعمال ہونے والی بجلی ، گیس اورپانی کابل بھی حکومتی خزانے سے ادا کرتی ہے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج کوسرکاری گاڑی کے ساتھ ماہانہ 400 لیٹرپیٹرول بھی ملتا ہے ۔سپریم کورٹ کے ججزکوانکم ٹیکس سے بھی استثنیٰ حاصل ہوتاہے۔ججزکوروزمرہ کے اخراجات کیلئےالاؤنس جبکہ اس کے ساتھ جوڈیشل الاؤنس بھی دیا جاتاہے۔ریٹائرمنٹ پرسپریم کورٹ کے جج کوپینشن کے علاوہ یہ سہولت بھی ملتی ہے کہ وہ سرکاری خرچ پراپنی مرضی کاایک ڈرائیوریاملازم بھی رکھ سکتاہے تاہم جج کی موت کے بعدان کی بیوہ کوبھی یہ سہولیات حاصل ہوتی ہیں ۔
میں تویہ سن کربھی حیران ہوں کہ ججز کوقرض دیے جارہے ہیں،وہ بھی سودسے پاک۔وہ توپہلے ہی سرکاری گھروں میں رہ رہے ہیں اورانہیں مراعات بھی ملتی ہیں۔لاہورہائیکورٹ بار کونسل کے ایک عہدیدارکے مطابق پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے لاہورہائی کورٹ کے11ججزکوگھروں کی تعمیرکیلئے36کروڑروپے سے زائدکے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دی گئی جس کی تصدیق اُس وقت نگراں حکومت کے وزیرِ اطلاعات نے بھی کی۔صوبائی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی اس منظوری پرملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایسے اقدامات سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کاآخرکون ذمہ دارہے؟کیااس قومی نقصان اورجرمِ عظیم پرعدلیہ کوسوموٹونوٹس لینے کی توفیق ہوئی؟
تاہم اُس وقت جب یہ سوال میں نے اپنے ایک کالم میں نگران حکومت سے پوچھا توانہوں نے بڑی معصومیت سے اپنی جان چھڑاتے ہوئے جواب دیاکہ ماضی میں بھی ججزکوبلاسود قرضے دیے جاچکے ہیں جس کاایک مقصدانہیں کرپشن سے دوررکھناہے۔کیاکوئی صاحب عقل اس منطق سے اتفاق کرسکتاہے کہ ایسے فرد کی بطور جج تعیناتی ہی کیوں کی جائے جس پر ذرہ بھربھی کرپشن کا شک ہوتوگویااگریہ مراعات نہ دی جائیں توججزکاکرپشنزمیں ملوث ہونے کااحتمال ہے،اور کیا ماضی میں ایسی کوئی مثال ہے جب آپ نے کسی کرپٹ جج کوعبرت ناک سزاسنائی ہو۔یہاں توخودسپریم کورٹس کے ججزنے متفقہ طورپرذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کو غلطی قراردیکرثابت کردیاہے اورویسے بھی درجنوں مثالیں ایسی ہیں کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کو باعزت بری کیاہے لیکن پتہ چلتاہے کہ ملزمان کوتوکئی برس پہلے پھانسی کے پھندے پرلٹکادیاگیاتھااوراب ان کے خاندان زمانے بھرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
نگران حکومت نے اپنی غلطی ماننے کی بجائے یہ منطق پیش کردی کہ سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایجنڈا نمبر 18،17اور 19میں11ججزکوگھروں کی تعمیرکیلئےجو”بلاسودقرض” منظورکیےگئےجوہرجج کیلئےاوسطاًقریب ساڑھے تین کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے،یہ قرضے ججزکی تین برسوں کی(36بنیادی)تنخواہوں کے برابرہیں جوکہ12سال کی مدت میں ان کی تنخواہوں سے ہی منہاکرلیے جائیں گے جبکہ یہ چھپایاگیاکہ ان مراعات کے بدلے خودحکومت ان ججزسے کیامراعات وصول کرتی ہیں۔یہ نہیں بتایاگیاکہ اگراس کی کیاگارنٹی ہے کہ جج اگلے12سال تک زندہ بھی رہے گایاکہ نہیں۔
حکومت نے اپنابوجھ اتارنے کیلئے قوم کویہ توبتادیاکہ”ججوں کی قرضوں”کیلئےدرخواستیں لاہورہائی کورٹ کے رجسٹرارآفس کی جانب سے آئی تھیں جنۃیں روٹین کے مطابق پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے منظورکرلیالیکن حکومت کے دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ایسی مراعات سے کیوں محروم ہیں جبکہ وہ توباقاعدہ اپنی تنخواہوں پرٹیکس بھی دیتے ہیں اور ججزتوہرقسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔حکومت نے یہ بھی اعتراف کیاکہ یہ وہ11جج حضرات ہیں جوقرضے لینے سے رہ گئے تھے۔لاہورہائی کورٹ کے باقی تمام ججزماضی میں گھربنانے کیلئےمختلف حکومتوں سے سودفری قرض حاصل کرچکے ہیں۔ان 11ججوں نے بھی یہی مؤقف اختیارکیاتھا۔
حکومت نے اپنی غلطی یاکرپشن چھپانے کیلئے مزیدکہاکہ”ججوں کوسودفری قرضے دینے کاایک بڑامقصدانہیں کرپشن سے دور رکھنابھی ہے تاکہ وہ اپنے وسائل سے ہی اپنی سروس کے دوران گھربنانے کے قابل ہوجائیں جبکہ عقل کے ان اندھوں کویہ معمولی بات کیوں سمجھ میں آتی کہ ججزپہلے ہی بڑی تنخواہیں اورمراعات وصول کررہے ہیں توایسے میں یہ بلاسود قرض بھی بظاہر بدعنوانی کی ایک قسم ہے جس کے ذریعے دراصل ججزسے اپنے حق میں مراعات لینا مقصود ہے
تاہم لاہورہائیکورٹ میں دائرکردہ ایک درخواست میں ان قرضوں کو”امتیازی”اور”عدم مساوات پرمبنی” قراردیتے ہوئے انہیں کالعدم قراردینے کی استدعابھی انہیں ججزکے روبروکی ہے اورپاکستان بارکونسل نے لاہورہائیکورٹ کے ججزکیلئےبلاسودقرضوں پر شدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے مبینہ نوٹیفکیشن فوری طورپرواپس لینے کامطالبہ کیاہے۔تاہم قوم یہ مذاق اس سے قبل کئی مرتبہ دیکھ چکی ہے کہ عوام اپنی پارلیمان کے جن افرادکوکرپشن ختم کرنے کیلئے ووٹ دیکرمنتخب کرتی ہے توتنخواہ بڑھانے کے بل پرحکومت اوراپوزیشن”عوام کے سامنے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے”دونوں یک جاں دوقالب نظرآتے ہوئے ایک دوسرے سے بغلگیرہورہے ہوتے ہیں۔
ایک بیان میں بارکونسل نے اسے”غیراخلاقی”اور”غیر قانونی”قراردیااورکہاکہ”ایسے اقدامات سے،خاص طورپرملک کی موجودہ بدترین معاشی حالات میں،سرکاری خزانے کوبہت نقصان پہنچتاہے۔ججوں کیلئےعوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کایہ عمل نہ توجائزہےاورنہ ہی قابل قبول ہے جبکہ عوام الناس پہلے ہی افراط زرسے بری طرح متاثرہیں اوران کی معاشی حالت پہلے سے ہی ابترہے،انہیں مہنگائی کاسامناہے۔عوام اوریہاں تک کہ غریبوں سے بھی قرضوں پر20سے25فیصدسودوصول کیاجارہاہے جبکہ ایک جج جوپرکشش تنخواہوں کاپیکج اور دیگرمراعات سے بھی لطف اندوزہورہاہے،اسے بلاسودقرضہ دینابذات خودججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی،امتیازی سلوک اورعدم مساوات کے مترادف ہے۔
ساری قوم لاہورہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس غیراخلاقی اوربلاجوازقرض اورمراعات کوقبول کرنے سے نہ صرف خودانکارکردیں گے بلکہ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کوپہلے سے موجود تمام مراعات فوری طورپربندکرنے کاحکم جاری کریں گے۔یہ مراعات ایک ایسے وقت میں دی جارہی ہیں جب عوام مہنگائی کے باعث دب چکے ہیں اورحکومت بجلی کی قیمتیں بڑھاتی چلی جارہی ہے مگردوسری طرف ہماری اشرافیہ کومالی طورپرمزیدمضبوط کیاجارہاہے۔
عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف فراہم کریں وہاں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات”رشوت دینےاورعدلیہ پردباؤڈالنے” جیساہے۔بلا شبہ عدالتوں میں زیرِالتواکیسزکی بڑی تعداد نے عدالتی نظام مفلوج کرکے رکھ دیاہے جہاں صرف ان کیسزکوترجیحی بنیادوں پرسناجارہاہے جوسیاسی حلقوں یاسماج کے اشرافیہ سے متعلق ہیں۔غریب اورمتوسط طبقے کے کیسز10،10 سال تک عدالتوں میں سنے نہیں جاتے۔یہ المیہ ہے کہ دنیاآگے جارہی ہے اورہم پیچھے جارہے ہیں۔ امریکاکے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے دنیاکے مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اورعدالتی نظاموں سے متعلق اعدادوشمارجمع کیےجاتےہیں۔دنیاکے128ممالک کے ڈیٹاپرمشتمل اس ادارے نے اپنی جوتفصیلات جاری کی ہیں،ان میں قانون کی بالادستی یارول آف لاءایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیاکے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔رول آف لاءانڈکس کے مطابق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے61ویں،سری لنکا66ویں اوربھارت69ویں نمبرپرہے۔بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیاکے128 ممالک کی فہرست میں120نمبرپرہے۔
ججزکوبلاسودقرض اورمراعات دیے جانے کے خلاف نہ صرف وکلا تنظیموں بلکہ سوشل میڈیاپربھی حیرت ظاہرکی گئی ہے۔ انڈسٹریزاور کاروبار بلند شرح سودکی وجہ سے دیوالیہ ہوکربندہورہے ہیں لیکن پنجاب حکومت ججزکوبلاسودقرض دے رہی ہے اور وفاقی حکومت ججزکوشاہانہ مراعات دینے کا بل پاس کرکے اپنے حق میں انہیں ممنون کررہی ہے!جوغلط ہے اس کوٹھیک کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ نئی غلطیاں نہ کریں،اس ملک پررحم کریں ۔ سوال یہ ہے کہ کیاسینیٹیشن ورکریاسکیورٹی گارڈبھی371ملین روپے کابلاسودقرض حاصل کرسکتاہے؟ یاججزکو عطا کردہ مجوزہ مراعات سے کوئی کلرک بھی استفادہ کرسکتاہے جواپنی ساری عمران ججزکی جھڑکیاں سنتے گزاردیتاہے۔ججزکیلئےبلاسود قرض،طاقتورادارے کیلئےریٹائرمنٹ کے بعد90 ایکڑ زمین، سینیٹ چیئرمین اور سابق چیئرمین کیلئےبڑی مراعات،کیاپاکستان بناتے وقت یہ طے کیاتھاکہ ملک کی تمام مراعات کاحقداربس ایک مخصوص طبقہ ہو گااورباقی ساری قوم ان کی خدمت کیلئے شب وروزغلاموں کی طرح کام کریں گے۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔مارچ 2013ء میں سپیکرقومی اسمبلی ڈاکٹرفہمیدہ مرزانے دفترچھوڑنے سے دوروزقبل بڑی خاموشی سے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس کی خود صدارت کرتے ہوئے اپنے لئے تاحیات ایسی بھاری مراعات کی منظور ی لے لی جس پرپاکستانی عوام کے آج بھی کروڑوں خرچ ہورہے ہیں اوروہ اگردوبارہ ایم این اے یاسپیکرنہ بھی بن سکیں پھربھی انہیں تاحیات یہ مراعات ملتی رہیں گی۔ان بھاری مراعات کے علاوہ جب سے فہمیدہ مرزانے سپیکرکاعہدہ سنبھالا،صرف پانچ برسوں میں فہمیدہ مرزااوران کے خاوند ذوالفقارمرزانے اپنی شوگرملزکے ذمے پچاس کروڑسے زائدکے قرضے معاف کرائے۔اپنے آپ کوتنقیدسے بچانے کیلئے فہمیدہ مرزانے اپنے ساتھ سات سابق سپیکرزقومی اسمبلی کوبھی یہ مراعات دینے کافیصلہ کیا،اس متنازعہ فیصلے سے بھٹواسمبلی کے سپیکرصاحبزادہ فاروق علی خان،فخرامام،الٰہی بخش سومرو، حامدناصرچٹھہ اورچودھری امیرحسین کوبھی ان مراعات سے نوازدیا گیا ،یوسف رضاگیلانی کوبھی سابق سپیکرکے طورپریہ مراعات حاصل ہیں۔اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے چہیتے افسروں کوجوبرسوں پہلے ملازمت سے ریٹائرہوچکے تھے ان کی مدت ملازمت میں تیسری توسیع کردی گئی حالانکہ سپریم کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدکسی کوتوسیع نہیں دی جاسکتی،تاہم سیکرٹری قومی اسمبلی سمیت دس ریٹائرڈ ملازمین کودوبارہ توسیع دی گئی،سینٹ سیکرٹری افتخاربابرکوبھی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمت میں توسیع دی گئی، سپیکرقومی اسمبلی فہمیدہ مرزااپوزیشن اور حکومتی ارکان نے مل کران مراعات کی منظوری قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں دی اورکسی نے اتنی مراعات پرکوئی سوال نہ اٹھایااور خاموشی سے مراعات کے اس پیکیج پردستخط کرد ئیےگئے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دی گئی۔کیا آج تک ہماری عدلیہ نے قوم کے خزانے پراتنے بڑے ڈاکے کاسومونوٹس لیا؟
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اورنیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے2021میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیاگیاتھاکہ کیسے پاکستان کے امرا،جاگیردار، سیاسی قائدین اورفوج کوملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17/ارب ڈالرسے زیادہ کااضافی خرچے کاباعث بنتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ)کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کواپنی ملازمت کے دوران مفت گھرملتاہے،جس کاکرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کابل اورسرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔پائیڈکی رپورٹ کے مطابق اگرجج اپنے گھرمیں رہتے ہیں توان کے گھرکااضافی خرچہ،جودستاویزات میں تقریباً65 ہزارروپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے،مختص کردی جاتی ہے۔گھرکاکرایہ ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس دس لاکھ روپے سے زیادہ۔۔۔ پاکستان میں سپریم کورٹ کے ججزکوملنے والی کچھ مراعات میں اضافے کے اعلان کے بعدکیاججزکی غربت دورہوجائے گی۔ایک مرتبہ پھران مراعات کے بل پرغورکرلیں کہیں ان مراعات کی کمی کی بناءپرآپ کے خدشات کی بناء پرکہیں کرپشن کاباب نہ کھل جائے؟
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے