امریکا نے 205 غیر قانونی انڈین تارکینِ وطن کو ملک بدر کرتے ہوئے انڈیا کے مقامی وقت کے مطابق (بدھ) تقریباً تین بجے صبح فوجی طیارے ’سی 17‘ کے ذریعے ریاست ٹیکساس کے سین اینٹونیو ایئرپورٹ سے انڈین ریاست پنجاب کے شہر امرتسر کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اقدام انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی کے متوقع امریکی دورے سے قبل سامنے آیا ہے، جس کے باعث قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا امریکا اور انڈیا کی مضبوط دوستی میں کوئی دراڑ پیدا ہو رہی ہے؟
انڈیا کے معروف وکیل اور ایوان بالا کے رُکن کپل سبل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انڈین وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: “مودی جی، ٹرمپ 205 غیر قانونی تارکین وطن کو انڈیا واپس بھیج رہے ہیں۔ بظاہر انہیں انڈیا جانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔۔۔ مودی جی کچھ تو بولیے۔” امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ صدارتی انتخابات میں امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کرنے کے نام پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اور جب سے وہ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پر پوری شدت کے ساتھ عملدر آمد کیا جا رہا ہے۔
امریکی امیگریشن قوانین میں سختی گزشتہ کچھ سالوں سے دیکھی جا رہی ہے، اور جو بائیڈن انتظامیہ بھی غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ نظر آتی تھی۔ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے انڈین شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور امریکی حکومت ان تارکینِ وطن کی واپسی کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ امریکہ کے لیے غیر قانونی امیگریشن ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ تمام ممالک کے تارکینِ وطن کے خلاف یکساں پالیسی اختیار کر رہا ہے۔ تارکین وطن کو فوجی طیاروں میں لادے جانے کے مناظر اس پیغام کا حصہ معلوم ہوتے ہیں کہ ٹرمپ ایسے ’جرائم‘ کے خلاف انتہائی سخت ہیں۔ تارکین وطن کو طیاروں میں لادتے ہوئے انھیں بیڑیوں سے باندھنا اور ہتھکڑیاں لگانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔
امریکا میں رہنے والے دنیا بھر کے غیر قانونی تارکین وطن کو کمرشل اور فوجی طیاروں کے ذریعے اُن کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ تاہم امریکا میں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے فوجی طیاروں کا استعمال غیر معمولی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پرواز کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں کولمبیا اور میکسیکو نے اپنے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو لانے والی امریکی فوجی پروازوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے کہا تھا کہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کو قبول کریں گے لیکن امریکا کی جانب سے سی 17 فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعد سے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا۔
ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کو اُن کی شناخت کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ گذشتہ سال بھی بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک سے انڈیا واپس بھیجا گيا تھا۔بزنس سٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے 18 ہزار غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس انڈیا بھیجنے کی نشاندہی کی ہے، اور اب 205 تارکین وطن پر مشتمل پہلی کھیپ امریکا سے انڈیا کے لیے روانہ کر دی گئی ہے۔انڈیامیں سوشل میڈیا پر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ اُن کی ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا ہے۔‘ بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں میں امریکا بدر کرنے پر بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔امریکی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، امریکہ میں سائبر کرائمز میں ملوث افراد کی ایک بڑی تعداد انڈین تارکینِ وطن پر مشتمل ہے۔ کئی کیسز میں انڈین شہریوں پر مالیاتی دھوکہ دہی، شناختی چوری، اور آن لائن فراڈ جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے باعث امریکی حکام سائبر سیکیورٹی قوانین کو مزید سخت بنا رہے ہیں اور ان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ یہ پہلو بھی غیر قانونی انڈین تارکینِ وطن کی ملک بدری کے حالیہ فیصلے میں ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے تخمینے کے مطابق 2022 تک امریکا میں سات لاکھ سے زیادہ مکمل اور قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے انڈین رہ رہے تھے۔ یہ میکسیکو اور سلواڈور کے بعد امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کا تیسرا سب سے بڑا گروپ ہیں۔ ’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے بہت سے انڈین قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے لیکن ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہ مناسب دستاویزات کے بغیر وہیں قیام پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو بغیر دستاویزات کے غیرقانونی طریقے سے مختلف ممالک کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے امریکا میں داخل ہوتے ہیں۔ امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق صرف دو سال قبل یعنی 2023 میں تقریباً 90 ہزار انڈین شہریوں کو امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
گذشتہ ماہ 24 جنوری کو وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے تارکین وطن کی ایک ساتھ بندھے ہوئے ایک فوجی طیارے کی طرف جاتے ہوئے تصویریں پوسٹ کی تھیں۔ اُن کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ملک بدری کی پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ پوری دنیا کو ایک مضبوط اور واضح پیغام دے رہے ہیں: اگر آپ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے ہیں تو آپ کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لینے اور اپیل کے لیے وقت دینے کے بجائے انھیں گرفتاری کے بعد جلد از جلد ملک بدر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انھوں نے دسمبر 2024 میں کہا تھا کہ ’میں نہیں چاہتا کہ وہ اگلے 20 سالوں تک (امریکا میں موجود) کیمپوں میں پڑے رہیں۔ میں انھیں باہر نکالنا چاہتا ہوں، اور ان کے ممالک کو انھیں واپس لینا ہو گا۔‘
اگرچہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پر باتیں ہوئی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد تارکین وطن کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے نے گوانتانامو بے میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا ہے جہاں 30 ہزار افراد کو رکھا جا سکے گا۔کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر بنایا جانے والا حراستی مرکز وہاں موجود ہائی سکیورٹی جیل سے الگ ہوگا جہاں ان ’بد ترین جرائم پیشہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو رکھا جائے گا جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔‘
یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتانامو بے کو غیرقانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کا کہنا ہے وہاں پہلے سے موجود مرکز کی توسیع کی جائے گی۔ ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) سنبھالے گی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس مرکز کی توسیع پر کتنی لاگت آئے گی یا یہ کب تک مکمل ہو سکے گا لیکن کیوبا کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ملک سے دس لاکھ افراد کے قریب ایسے تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکا کے وہ شہر رکاوٹ بن سکتے ہیں جنھیں ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں لاس اینجیلس، نیویارک، ہیوسٹن، شکاگو اور اٹلانٹا جیسے شہر شامل ہیں جہاں بنا قانونی دستاویز والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی نسبت نقل مکانی کے لیے زیادہ دوست نواز ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو شہر سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کے کا آغاز کیا اور اس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے آخر تک اسی قسم کی کارروائياں اٹلانٹا، ڈینور، میامی اور سان انتونیو میں بھی شروع ہو گئیں لیکن کسی شہر کا اپنے آپ کو ’پناہ گاہ‘ کہنے کا مطلب کیا ہے اور یہ بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ان شہروں میں استعمال ’پناہ گاہ‘ کی اصطلاح عہد وسطیٰ سے لی گئی ہے۔ اُس زمانے میں سرائے اور خانقاہیں یا موناسٹریز ہوتی تھیں جو مسافروں کے لیے ایک پناہ گاہ یا تحفظ فراہم کرنے کا کام کرتی تھیں۔ وہ ایسے لوگوں کو پناہ دیتی تھیں جو خود کو مجرموں سے بچانا چاہتے تھے یا پھر ان غلاموں کی پناہ دی جاتی تھی جو ظلم ستم کا شکار تھے۔ لیکن امریکا میں اس کا استعمال 20ویں صدی کے آخر میں ہونا شروع ہوا۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اور سینٹر فار لیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹر ارنیسٹو کاستانیدا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسے روایت کو کچھ مذہبی اراکین اور سماجی کارکنوں نے زندہ کیا جنھوں نے ایل سلواڈور یا گوئٹے مالا سے آنے والے تارکین وطن کو آمرانہ حکومتوں سے بچنے اور امریکا میں داخل ہونے اور لاس اینجلس، سان فرانسسکو یا واشنگٹن جیسے شہروں میں محفوظ کمیونٹیز میں رہنے میں مدد کی۔‘
اُس زمانے میں جاری تارکین وطن کے حقوق کی تحریک، جو فرانس اور دیگر ممالک میں ہونے والی جدوجہد سے متاثر تھی، کے کچھ کارکنوں نے امریکا میں ان شہروں کا پناہ گاہ کے طور پر حوالہ دینا شروع کیا جہاں بغیر دستاویزات والے افراد کی بڑی آبادی تھی۔دراصل یہ ایک علامتی اعلان ہے۔ اس کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے، کوئی وفاقی ’سینکچوئری‘ (پناہ گاہ) کا قانون نہیں ہے جو یہ کہے کہ کیا قانونی ہے، کیا غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ وہ شہر ہیں جہاں غیر ملکیوں، اقلیتوں اور بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے لیے رواداری دیکھی جاتی ہے۔
بہرحال سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے اور ’سی 17‘ ٹرینڈ کر رہا ہے جس کے تحت طرح طرح کے میمز بھی شیئر کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ انڈیا کے اس حلقے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ٹرمپ کی حمایت میں اور ان کی جیت کے لیے انڈیا میں پوجا پاٹ کروا رہے تھے اور اُن کی جیت کی دعائيں مانگ رہے تھے۔ انڈین میڈیامیں یہ بھی رپورٹ ہو رہا ہے کہ “امریکا ملک بدری کے لیے سی-17 فوجی طیارے استعمال کر رہا ہے حالانکہ یہ کام سستے سویلین طیاروں کے ذریعے بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا اس ملک کو دھمکانہ اور فوجی طاقت کا پیغام دینا چاہتا ہے جہاں وہ غیر قانونی تارکین وطن کو بھیج رہا ہے”۔
مہیش نامی ایک صارف نے کپل سبل کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’ہتھکڑیوں میں؟ یہ انتہائی ناانصافی ہے۔ وزارت خارجہ اور جے شنکر نے گذشتہ ہفتے امریکا کے دورے کے دوران اس عمل پر اتفاق کیا ہو گا۔ اس کا انڈین عوام پر اچھا اثر نہیں ہو گا۔ دی انڈین ایکسپریس‘ کا کہنا ہے کہ فوجی طیاروں کے ذریعے ملک بدر کیے گئے غیرملکی تارکین وطن کو ان کے ممالک بھیجنا علامتی ہے لیکن ’ٹرمپ نے اکثر غیر قانونی تارکین وطن کو ’ایلین‘ اور ’مجرم‘ قرار دیا ہے اور وہ انھیں ’امریکا پر حملہ کرنے والے‘ کہتے ہیں، ان الفاظ پر غور کرنا ہو گا۔
ماضی میں جو کچھ ہوا ہے ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پر کچھ بھی نہیں ہوا ہے یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دور میں بھی۔ نقل مکانی کے ماہر کہتے ہیں کہ ’جو بائیڈن اور براک اوباما سمیت ہر دور میں ملک بدریاں ہوئی ہیں، جو بڑے پیمانے پر تھیں۔ لیکن ان روز مرہ جلاوطنیوں کی میڈیا کوریج کم تھی۔ اور فی الحال تعداد ویسی ہی ہے لیکن کیا ہو رہا ہے اور یہ کیسے ہو رہا ہے اس طرح کی باتوں پر بہت زیادہ عوامی توجہ ہےلیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ (ٹرمپ) زیادہ جارحیت کے ساتھ، تیز رفتاری سے اور بڑے پیمانے پر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
امریکا غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے عموماً کمرشل طیارے استعمال کرتا ہے اور یہ طیارے امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔ امریکا سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔
سی 17 طیارے کی ایک ایسی ہی پرواز کے گواٹیمالا جانے کا تخمینہ لگایا ہے کہ ہر مسافر پر کم از کم 4675 امریکی ڈالر کا خرچ آ رہا ہے جبکہ ایک مسافر طیارے یا کمرشل پرواز میں یہ کام محض 853 ڈالر میں ہو سکتا ہے اور وہ بھی فرسٹ کلاس میں۔ امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ٹائی جانسن نے امریکی قانون سازوں کو ایک سماعت کے دوران بتایا تھا کہ اُن کے ادارے کی نگرانی میں چلنے والی ڈپورٹیشن فلائٹس (فوجی طیاروں پر نہیں بلکہ کمرشل مسافر طیاروں پر) پر فی گھنٹہ 17،000 امریکی ڈالر کا خرچ اٹھتا ہے جبکہ دوسری جانب سی-17 طیارے کی فی گھنٹہ پرواز کی لاگت 28،500 ڈالر ہے۔ اب تک ایسی پروازیں کولمبیا، میکسیکو، گواٹیمالا، پیرو، ہونڈوراس اور ایکواڈور کے لیے روانہ کی گئی ہیں۔
انڈین میڈیا کی رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین تارکین وطن کو لے کر امریکا سے روانہ ہونے والی سی 17 فلائیٹ کو انڈیا پہنچنے میں 24 گھنٹے لگیں گے کیونکہ یہ پرواز گوام کے اڈے پر رکے گی۔ تاہم انڈیا کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پرواز آج دوپہر سری گرو رام داس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرے گی۔ اس طرح دیکھا جائے تو اس میں 36 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا ہے لیکن اگر ہم صرف 24 گھنٹے کا ہی تخمینہ لگائیں تو اس پر 6لاکھ84 ہزارامریکی ڈالر کا خرچہ آ رہا ہے اور اگر اسے 205 لوگوں پر تقسیم کیا جاتا ہے تو یہ خرچ 3336 امریکی ڈالر آتا ہے جو کہ عام کمرشل فلائٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔
انڈیا اور امریکا کے تعلقات گزشتہ دو دہائیوں میں نمایاں طور پر مستحکم ہوئے ہیں، اور دونوں ممالک اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر عالمی سطح پر تعاون کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر دفاع، معیشت ، اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ان کے تعلقات نہایت قریبی رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ واقعہ نے اس تعلق پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ادھر انڈیا پہلے سے ہی صدر ٹرمپ کی خوشنودی چاہتا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر اس ملک بدری پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے لیکن یکم دسمبر کو پیش کیے جانے والے سالانہ بجٹ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انڈیا امریکا کو اپنا نرم رویہ دکھانا چاہتا ہے۔ گذشتہ ہفتے انڈیا نے لگژری موٹرسائیکلوں پر درآمدی ڈیوٹی میں مزید کمی کرتے ہوئے 1600 سی سی سے زیادہ انجن والی ہیوی ویٹ بائیکس پر محصول کو 50 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد اور چھوٹی گاڑیوں پر 50 فیصد سے 40 فیصد کر دیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کٹوتیاں ہارلے ڈیوڈسن کی درآمد کو مزید آسان بنانے کے لیے کی گئی ہیں جو کہ محصول کے امریکی حملے سے انڈیا کو بچانے کا پیشگی اقدام ہے۔
حالیہ ملک بدری کے باوجود، دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی دراڑ پڑنے کا امکان کم ہے۔ امریکا انڈیا کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے،خاص طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر۔ دونوں ممالک دفاعی تعاون، تجارتی معاہدوں، اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، نریندر مودی کے مجوزہ امریکی دورے میں دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے ہونے کی توقع ہے، جو تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے انڈین تارکین وطن کی ملک بدری کو دوطرفہ تعلقات میں دراڑ کے طور پر دیکھنا قبل از وقت ہوگا۔ اگرچہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، لیکن اس کے باوجود انڈیا اور امریکا کے تعلقات کی مضبوط بنیادوں کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں بھی قریبی اتحادی رہیں گے۔ نریندر مودی کا دورہ امریکا اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے گا کہ آیا حالیہ اقدام محض ایک معمولی واقعہ تھا یا اس کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔