اس اجتماعی زندگی کے کچھ فطری تقاضے ایسے بھی ہیں جوکسی بھی معاشرے میں ایک خصوصیت بن کرسامنے آتے ہیں۔اس لئےہرجگہ سماجی طور پرکچھ متعین دن تہواریاجشن کی حیثیت حاصل کرتے ہوئے مذہبی روایات میں شامل ہیں۔کچھ سماجی عوامل کاایک تاریخی تسلسل ہے جس کارشتہ انسانی فطرت سے ایساجڑاہواہے کہ معاشرے میں مشاہدے سے اس کی تصدیق ہورہی ہے چنانچہ آج موجودہ دورمیں کوئی بھی گروہ اور سماج اس سے مستشنیٰ نہیں ملے گا۔
میرے آقاآنحضرتﷺمدینہ منورہ تشریف لے گئے توآپ کے دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ برسوں سے جاری چندمخصوص ایۤام میں وہاں کے افراد لہوولعب کے مظاہرے میں شریک ہوتے ہیں۔ حضورﷺنے مسلمانوں کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمارے لئے دودن عیدالفطراورعیدالاضحٰی مقررکئے ہیں جوان سے کہیں بہتر ہیں۔آپﷺنے صحابہ کرام کوہرسال ان عیدوں کواسلامی طریقے پرمناکرقیامت تک آنے والے امت مسلمہ کی مستقل رہنمائی فرمادی۔
بنیادی حیثیت اورعیدالفطرمیں نمازعیداورصدقہ فطرکوحاصل ہے مثلاًیہ کہ نمازعیدکااہتمام صبح ہی سے شروع ہوجاتاہے۔ طہارت اورلباس کی عمدگی کے ساتھ عطریات کے استعمال اور سویرے جلد ہی عید گاہ کارخ کرنا،راستے میں تکبیرکہتے ہوئے ایک راستے سے جانااورواپسی پر دوسراراستہ استعمال کرناآپﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔نمازعیدشہرسے باہرایک ساتھ اداکی جاتی اورتمام اصحابہ وہاں حاضر ہوتے۔اس نماز سے قبل میں اذان،اقامت اورکوئی خطبہ بھی نہ ہوتاالبتہ نمازعیدسے فراغت کے بعدآپﷺاورآپ کے بعدخلفائےراشدین خطبہ دیتے اورصدقہ فطرکے احکام وغیرہ سے لوگوں کوباخبر کرتے۔بعض مرتبہ آپ نے عورتوں کوان کی مجلس میں جاکرمستقل وعظ ونصیحت بھی فرمائی۔ صدقہ،فطرکے سلسلے میں صاحبِ حیثیت افراد کونمازِعید سے قبل اپنے اوراہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطرمساکین کواداکرنے کاحکم بھی ارشادفرمایاتاکہ وہ بھی عیدکی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوتاہے کہ عیدکے دوبنیادی عناصرہیں۔پہلاکریم رب کی بندگی کیلئے دوگانہ رکعت کوواجب قراردیا گیااوردوسراغریبوں کی غمخواری اورخبرگیری کیلئےصدقہ فطرادا کرنے کاحکم دیاگیا۔ان نکات پرغورکرنے سے معلوم ہواکہ عیدبے شک مسلم تہوارہے لیکن اس کی نوعیت وہ ہرگزنہیں جواغیارکے تہواروں کی ہے۔ان کااپنانقطۂ نظرتویہ ہے کہ پورامعاشرہ اور ہرفرداس دن آزادہے کہ جتنی بے اعتدالیاں اور خرافات میں بھی مبتلاہو،سب جائزہے۔
آپ نے دیکھاہوگاکہ اس نظریے کو ماننے والے حضرارت کس طرح تہواروں میں بد مست اچھلتے کودتے اورعقل وخرد سے بیگانہ یاایسے ہی اعمال وافعال میں مشغول رہنےکواپنایاایسے ہی اعمال وافعال میں مشغول رہنےکواپناکمال سمجھتے ہیں جبکہ اسلام نے انسان کواس طرح کی مطلق العنان آزادی کبھی نہیں دی بلکہ اسلامی نظریہ ہرہرقدم پراطاعت فرماں برداری کاہے اور اس کیلئےاسلامی تعلیمات میں مکمل ہدایات موجودہیں اورعیدکامعاملہ بھی اس سے مبرانہیں ہے۔چنانچہ انسانی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسلام نے خصوصی دن متعین توکردیئے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کو اوراجتماعیت کے اظہارکواچھاسمجھاگیاہے لیکن اس کوعبادت سے ہم آہنگ کردیاگیاہے جس میں عجزوبندگی کابھرپور اظہارہے اورقوم کے بے کس اوربے سہارااشخاص کاتعاون بھی ہے۔
عیدکے یہی وہ بنیادی عناصرہیں جنہوں نے اسلامی عیدکودوسرے تہواروں سے ممتازکردیاہےاوراس سے اسلام کایہ مزاج بھی ظاہرہوکر سامنے آجاتاہےکہ بندگی کے تقاضوں کوپوراکرنا ہر حال میں مقدم ہے چاہے وہ خوشی کاموقع ہویارنج و غم کا،البتہ اسلام نے خدمت خلق اورقوم کےبے سہارا افرادکی رعایت کوبھی کارثواب قراردیاہے۔اسے بہت بڑے اجروثواب والاعمل بتایاگیاہے حتیٰ کہ وہ مواقع جن میں عام لوگ صرف خرافات میں بدمستی کواصل موضوع سمجھتے ہیں،اسلام نے ان مواقع میں بھی ان چیزوں کواہمیت اوراوۤلیت دی ہے۔عیدکی ایک حیثیت انعام اورتحفہ کی بھی ہے،حسب توفیق جی بھرکرعیادتیں کیں۔دن بھراللہ کی رضا کیلئےبھوکے پیاسے اوردوسری تمام نفسانی خواہشات سے دوررہے اورایک دن یاہفتہ نہیں ،پوراایک مہینہ اس حال میں گزارا۔پھرراتوں کوسب سے پہلے تراویح میں مشغول رہ کرنماز اورقرآن سننے کی سعادت حاصل کی،پھرحسب توفیق نوافل تسبیحات اور تہجدوغیرہ میں ان کاوقت مصروف رہا۔قرآن کی تلاوت سے گھراور مسجدوں کے درودیوارگونجتے رہے۔مانگنے والوں نے رب کریم سے خیروسلامتی کی دعائیں مانگیں اوراس کے فضل وکرم اوربخشش ومغفرت کے حقدارقرارپائے،جنہیں اللہ نے توفیق دی انہوں نے اعتکاف کی فضیلت بھی حاصل کی۔
صدقہ خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیاغرضیکہ خیراوربھلائی کے جتنے ذرائع تھے،ان سب میں پیش پیش رہے۔عیدکادن انہیں عبادت گزاروں کادن اوررب کریم کی طرف سے آج ان کو انعام دیاجانے والاہے گویاحقیقی معنوں میں اصل عیدتوانہیں کی ہے جنہوں نے رمضان الکریم میں بندگی کےتقاضے پورے کئے اوران کے توسط سے دوسرے بھی اس خوشی میں شریک قرارپائے اورعیدکے منانے کاحق انہیں بھی عطاکردیاگیا۔ اس موقع پرایک بات بھی قابل توجہ ہے کہ عبادت اورنیکیاں جورمضان میں کی جاتی ہیں اورجس طرح مسجدمیں نمازیوں سے بھرجاتی ہیں۔لوگ خیراوربھلائی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اورجس طرح زیادہ سے زیادہ عبادت گزاربندے بن کراپنا وقت گزارتے ہیں یہ صرف رمضان ہی کیلئےنہیں تھابلکہ سال کے بقیہ دنوں کیلئے ایک تربیتی پروگرام ہوتاہے۔
لیکن ان زمینی حقائق سے کس طرح انکارکیاجاسکتاہے کہ چندبرس قبل تک عیدالفطرکے موقع پرمختلف احباب ایک دوسرے کوتہنیتی پیغامات بذریعہ عیدکارڈ ارسال کیاکرتے تھےاوران دنوں اکثریت جدیددورکی ٹیکنالوجی کواستعمال کرتے ہوئے موبائل فونزکی سہولت سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف اندازمیں پیغامات ارسال اوروصول کررہے ہیں۔یقیناًقارئین کی مختصر تعدادان مغربی ممالک میں عید کارڈکواب بھی کرسمس کارڈکےمقابلے میں اپنے گھروں میں نمایاں جگہ دیکر بچوں کواپنے اس اسلامی تہوارسے متعارف کروانے کی کوشش ناتمام کرتی ہے حالانکہ مسلمان ان رسوم وقیودسے بالکل بے نیازہے۔وہ توبہت بے تکلف اورسادہ زندگی گزارنے کاعادی ہے۔ہرتہوارکے پس منظرمیں جو پیغام ہوتاہے اس کونظر اندازکرکے ہم نے جس طرح مغربی ماحول کی نسبت سے اپنے ہرتہوارکوڈھال لیا ہے،چندمغربی رسوم کوکلمہ پڑھاکر تیزی سے ہم اپنے آپ کودھوکہ دے رہے ہیں اوراپنے آپ کواجتماعی ذمہ داریوں سے دور کررہے ہیں،یقیناًمستقبل کامؤرخ ہمیں اس سلسلے میں معاف نہیں کرے گاکہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کوعیدکے اصلی مفہوم سے بے خبررکھا۔
عیدالفطرکے موقع پرعیدکارڈکااپنے احباب کے ساتھ تبادلہ پراٹھنے والی رقم کئی مفلس گھروں میں یقیناًعیدکی خوشیاں لا سکتی ہے جواپنے عزیزوں کوکاغذی گلدستے پیش کرنے پراٹھ رہی ہے حالانکہ خطوط میں لکھے ہوئے الفاظ میں بھی خلوص ومحبت کی خوشبومحسوس کی جاسکتی ہے اور پھران کانٹوں بھری زندگی کوجوایک غلط نظامِ حکومت کے تحت گزارنی پڑرہی ہے۔اس میں خلوص ومحبت اوروفاکے پھول یقیناًبڑی چیزہیں اوراس زندگی کی مسافت آدمی بتدریج طے کرکے جب کچھ شعور حاصل کرتاہے تواس کوآگہی ہوتی ہے کہ اس دنیامیں سکون دینے والی چیزوں میں مقیدزندگی کاشعوراوربے غرض مہرومحبت بڑی چیزہے ۔مقیدزندگی کاشعورانسان کوغم وآلام سے نجات دلاکراطمینان سے بھردیتاہے۔
آدمی خالی ڈھول کی مانندنہیں رہ جاتاکہ معمولی ٹھوکرسے واویلاکرنے لگے بلکہ ایک ٹھوس وجودبن جاتاہے جسے حوادث کی آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتیں اورمہرومحبت وہ قوت ہوتی ہے کہ جوصرف اپنے ہم مقصدساتھیوں کی رفاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ساتھیوں کی باتیں، ان کے مصافحے،ان کے معانقے،ان کی محبت بھری گفتگوئیں،ان کی بے غرض دوستیاں اوربے لوث ملاقاتیں ان سب چیزوں کے درمیان آدمی اپنے آپ کوایک لشکرکے درمیان سمجھتاہے۔ پرامن اورپرسکون عزیزدوست اس مختصرسی زندگی میں متاع بے بہا ہے جبکہ اس ملک میں مشینی اندازمیں کام کرتے کرتے اعضاءاس قدربے جان ہوگئے ہیں کہ ہمیں صرف ایک کارڈمیں اس قدرجان معلوم ہوتی ہے کہ اس کوخود سے تواناسمجھ کراس کاسہارالینے پرمجبورہوگئے ہیں
ویسے توعیدکارڈماہِ رمضان کی جدائی کاپیغام لیکرآتاہے، اس جملے میں کسی تقویٰ کااظہارکرنامقصودہرگزنہیں،اس ماحول میں تواب ایسے ایسے اصحاب دیکھنے کومل رہے ہیں جن کے تقدس کی خودصاحب تقویٰ قسمیں کھاتے ہیں لیکن جب ان کوغورسے دیکھیں توان کی حیثیت کسی میلے میں بکنے والے رنگین غباروں سے زیادہ نہیں ہوتی جواوپرسے بڑے رنگیں اورخیروخوبی کے مدعی ہوتے ہیں لیکن اندرسے حرص وہوس کی متعفن ہوانکل رہی ہوتی ہے اورجب زندگی میں تندہوا کاجھونکا ان کی قلعی کھول کررکھ دیتاہے توپھٹ کر ایک چھیچھڑے کی طرح ایک کونے میں جاگرتاہے اوربالآخرپاؤں میں مسل کرباہرکسی کوڑے کرکٹ یاگندگی کے ڈبے میں اس کو جگہ ملتی ہے۔اللہ ہرمسلمان کواس تقویٰ سے محفوظ رکھے آمین!اورایسے تقوے کی توفیق عطافرمائے جوہوائے نفس سے خالی ہو،جومظاہرنمودونمائش اورادعاسے پاک ہو،جس میں اتنی ہمت ہوکہ حق کی راستے میں مشکیں کسی جائیں اورالٹااونٹ سے باندھ کر مدینے کی گلیوں میں گھسیٹاجائے توبھی اٹھ کرصاف صاف یہی کہے کہ”لوگو!سن لومیں مالک بن انس ہوں،میں کہتاہوں کہ جبریہ طلاق شریعت میں واردنہیں ہوتی، جس میں اتنی ہمت ہوکہ جب اس پرکوڑوں کی بارش ہوتب بھی یہ بات کہے کہ اپنی بات منوانے کیلئے قرآن وحدیث سے کوئی دلیل لاؤ،جس میں اتناحوصلہ ہوکہ جیل میں موت قبول کرلے اورزنداں سے اس کاجنازہ نکلے(امام ابوحنیفہ)جس میں اتنی جرأت ہوکہ پھانسی کے تختہ پربھی مسکراتے ہوئے یہ کہہ کرچڑھ جائے کہ الہٰی تیرااحسان ہے کہ تونے مجھے شہادت کی موت نصیب فرمائی،نہ کہ چندمظاہر لباس وتراش کانام تقویٰ رکھ کراس کااعلان کرکے تقویٰ وپرہیزگاری کا اشتہارپیش کیا جائے۔یہ طریقہ اب تک توچلاہے انشاء اللہ کل نہ چلے گا۔
ایک صاحبِ نظرنے سچ کہاتھاکہ پہلے ایمان کواپنے اندرمستحکم کروپھراس پرعمل کرکے اورساری زندگی اطاعتِ رب میں دیکراپنے اسلام کا ثبوت پیش کرو،ساری زندگی کالمحہ بہ لمحہ محاسبہ کرتے ہوئے چلو،کسی موڑپرٹھوکرنہ کھاتے اورہمہ تن اپنے فرائض ِ بندگی کوٹھیک ٹھیک اداکرتے ہوئے تقویٰ پیداکرواورپھراپناسب کچھ اپنے مالک کی راہ میں لگاؤ اور اس راہِ حق کے غباربن کراحسان کامقام حاصل کرو۔لیکن یہاں توثابت ذرا بھی اسلام نہیں لیکن لباس تقویٰ کازیبِ تن کیاہواہے۔منبررسول پرکھڑے ہوکرلوگوں کوسود(مارگیج)سے منع کیاجارہاہے لیکن خودبینک میں سودی اکاؤنٹ رکھ کر بینک سے صدفیصد قرض لیکرمکان خریداجارہاہے،کاروبارمیں وسعت کی جارہی ہے اورپوچھنے پرمحاسبہ سے بچنے کیلئے مغرب یاامریکاکو”دارلحرب” کانام دیکرجان بخشی کابہانہ ڈھونڈاجارہاہے۔سودجسے قرآن میں بڑی صراحت کے ساتھ اللہ اوررسول کے خلاف کھلی جنگ قراردیاگیاہے،اسی کے سہارے اسلامی شعائرکامذاق اڑاکرداعی حق کاگراں بارفریضہ بھی سرانجام اداکیاجارہاہے۔
جس کارڈ یاپیغام سے عیدکی خوشی کاپیغام دینامقصودہوتاہے اسی کودیکھ کربچے حیراں وپریشاں ہیں کہ آخرہم مسلمانوں کی عیدایک دن کیوں نہیں منائی جاتی؟کیاوجہ ہے کہ چاندکچھ مسلمانوں کوسعودی عرب میں نظرآتاہے توکچھ مراکش کے بادلوں میں اس کوڈھونڈرہے ہوتے ہیں؟ ہم ساراسال اپنی نمازوں کاتعین یہاں برطانوی محکمہ موسمیات کے بتائے ہوئے اوقات سے ترتیب دیتے ہیں لیکن چاندکے بارے میں ان کی سائنسی گواہی ماننے کوتیارنہیں؟عیدجواتفاق ومحبت کاپیغام لیکر آتی ہے آخراس کے نام پرکیوں دنگا فساد کیاجاتاہے حالانکہ رمضان کاچاند طلوع ہوتے ہی اس گئی گزری مسلمان قوم کے اندربھی زندگی کی ایک لہردوڑجاتی ہے ۔ایک اضطراب،ایک احتیاط،ایک خداخوفی،ایک ذوقِ عبادت ابھرکرسامنے اس طرح آجاتاہے جس طرح صبح کی شمع سنبھالا دیتی ہے اورمحسوس ہونے لگتاہےکہ یہ قوم واقعی دوسری اقوام سے مختلف ہے۔
بس یہی ایک مہینہ ہے جب اس قوم کے اندرایک امتیازی نشان ابھرتاہے،ان کے دل خوف خداسے لبریزصدقہ وخیرات،غم گساری اوربھائی چارے کے علاوہ شب بیداری و عبادات میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اس مہینے کے آخری دن اور پھر ساراسال یہ شناخت کرنامشکل ہے کہ یہ لوگ کس ملت سے تعلق رکھتے ہیں۔روزوں کی احتیاط میں نمازتراویح کیلئے مساجدمیں تل دھرنے کوجگہ نہیں ہوتی،سحری کی رونق،افطاری کی چہل پہل،یہ امتیازات اس قوم کودوسروں سے ممتازکر دیتے ہیں،یہی وہ برکات ہیں جواس مہنہ کو سال بھرمیں عزیزترمہینہ بنادیتی ہیں،اب تو انہی کے دم قدم سے کچھ نشانِ امتیاز قائم ہے لیکن جونہی مغرب اورغیرمسلموں کی نقالی کرکے عیدکارڈاورپیغامات ارسال کرتے ہیں توگویا خود فراموشی کے بقیہ گیارہ مہینوں کاپیغام دیتے ہیں جواس متنازعہ دن کے بعدشروع ہونے والے ہیں۔اس لئے رمضان المبارک کی مفارقت اور آئندہ گیارہ مہینوں کی منافقت آنکھوں میں نم آلود غبارپیداکردیتی ہے۔اگرسچ پوچھیں توعیدکیاہے جسکے ہم مسلمان منتظرہیں:
عیدآزاداں شکوہ ملک ودیں
عیدمحکوماں ہجومِ مومنین!!!
شکوہ مومنین توبڑی چیزہے،شکوہ ملک ہی سے محروم ہیں۔شکوہ ملک جس چیزکانام ہے وہ ہرقسم کے خارجی وداخلی اثرات سے آزاد اورپاک ملکی پالیسی ہے۔داخلی اطمینان اورسرحدوں کی قوت وشوکت ہے،دوسرے ممالک میں عزت و منزلت کامقام ہے،قوموں کی برادری میں سربلندی ہے،افرادِ قوم کااطمینان معاشی ومعاشرتی خوشحالی ہے لیکن خوردبین لگاکربھی آپ کویہ اوصاف کسی مسلمان ممالک میں نہیں ملتے بلکہ مسلمان مملکتیں اپنے اندرکئی گروہوں میں بٹ کرایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں اوراغیاراس بات پرخوش ہیں کہ ہزاروں میل دوربیٹھ کروہ ان پراس طرح حکومت کر رہے ہیں کہ 57مسلم ریاستوں میں جرات نہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کواسرائیل کی بربریت سے بچاسکتے۔اگر اگردنیاوی دولت سے اللہ نے کچھ اسلامی ممالک کومالامال فرمایاہے توان کی دولت سے فائدہ بھی اغیار اٹھارہے ہیں،ان مسلمانوں کے خزائن اغیار کے تصرف میں ہیں اوراسی سرمائے سے مسلمان ممالک کواسلحہ تیارکرکے فروخت محض اس لئے کیاجاتاہے کہ اس کاتجربہ بھی تم دوسرے مسلمان ممالک کی آبادی پرکرو۔
پھرشکوۂ دیں یہ ہے کہ اللہ جس کے حاکم ہونے کااقرارہمارے ہاں کلمہ پڑھ کرایک جاگیرداروسرمایہ دارسے ہاری ومزدور تک کرتاہے تاکہ اسی کاحکم اورقانون چلے اورجس کو آقاماناہے اس سے انحراف نہ ہو۔یہ عجیب مذاق ہے کہ ایک نمبردار ہے توگاؤں کاہرفرداسے تسلیم بھی کرے اوراس کے حقوق ِنمبرداری ادابھی کرے ،ایک شخص ضلع افسرہے توضلع بھر میں اس کی افسری کاڈنکابھی بجے اورکوئی شخص ملک کاسربراہ ہوتو اس کاہرلفظ سرآنکھوں پرہواورجوخودکہتاہے کہ (اناالحکم اللہ)اسی کے حکم کی ذرہ بھرپرواہ نہ ہو۔ادھرہرطرف دین کے نشانات مٹ رہے ہوں ادھررقص وسرورکی مجالس سج رہی ہوں،گانابجاناکلچرکے نام پررواہو،پینے پلانے کی کھلی اجازت ہو،چوری چکاری ،بدعنوانی،رشوت خوری موجود ہو،رزقِ حلال کاحصول ناممکن کردیاہو،جوبچاکھچادین قوم میں صدیوں کے انحطاط کے باوجودباقی چلاآرہاہواس کابھی صفایاکیا جارہا ہو،قوم باربارپکارے کہ ہمیں دین کی حکمرانی اوراسلام کاقانون چاہئے،اسی کے خلاف ساری قوت اورطاقت استعمال ہورہی ہواوردین سے ہر قدم دورجارہاہو،برسوں کاسفرزندگی مکہ مدینہ کی سمت چھوڑکرکسی اورہی سمت کیاگیا ہوتووہاں شکوۂ دین کہاں سے آئے گا،پھر جب نہ شکوہ ملک ہونہ شکوۂ دین توپھرآزادبندۂ مومن کہاں ملے گااوریہی وجہ ہے کہ عیدکادن ہجوم ِ مومنین کے سواکچھ نہیں،اس لئے عیدکی خوشی کااظہارایک کارڈیافون پرپیغامات کی ترسیل میں وقت ضائع کرنے کے سواکچھ نہیں۔
ہاں البتہ اگرعید کی حقیقی خوشیوں کاحصول چاہتے ہیں تویہ بہترین موقع ہے کہ غزہ اورکشمیری شہداکے وہ ہزاروں خاندان جواس وقت غربت اورفاقہ کشی کی حالت میں کسی سے بھی اپنایہ دکھ بیان نہیں کرسکتے اورغیرانسانی حقوق کی پابندیوں کے وجہ سے دوسرے ملک کے افرادبھی ان تک امدادپہنچانے سے قاصرہیں،آپ کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ جلدی کیجئے کہیں دیرنہ ہوجائے۔